نوٹ: احمد سعداوی عراقی صحافی، ادیب اور شاعر ہیں۔ وہ 1974ء میں بغداد میں پیدا ہوئے۔ بچپن سے ہی ان کو نظمیں اور کہانیاں لکھنے کا شوق تھا۔انہوں نے 1995ء میں پہلا ناول بھی لکھا جس کا نام ‘ میرا وطن’ تھا اور پھر انہوں نے 2014ء میں ان کا ناول ‘ عفریت بغداد میں’ بکر پرائز کا حقدار ٹھہرا۔احمد سعداوی معاصر عراقی فکشن نگاروں میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ امریکی جنگ کے بعد کا عراقی ادب عراقی تاریخ اور حال کو ایک ایبسرڈ/مہمل صورت حال سے زیادہ کچھ نہیں دکھاتا۔ گزشتہ 17 سالوں میں مقامی لوگوں نے بہت ساری ایسی کہانیاں سنی ہیں جو کہ ناقابل یقین ہیں۔ یہ کہنیاں ہمیں سیکورٹی سروسز کے ہاتھوں مرجانے والے لوگوں کے زریعے سنائی جاتی ہیں یا ان لوگوں کے زریعے سے جوآمریت کے دور میں کسی نہ کسی طرح مارے جانے سے بچے تو ان کو ‘جمہوریت’ کے زمانے میں اندھی موت کا سامنا ہے۔احمد سعداوی خود کہتے ہیں کہ وہ اتالو کیلونو، بورخیس، جی ایچ ویلز اور میلان کنڈیرا سے متاثر ہیں۔ ان کو پوسٹ ماڈرن ادیب کہا جاتا ہے۔ ان کی جس کہانی کا یہاں اردو ترجمہ پیش کیا جارہا ہے، اس کا عربی متن ‘عراق سٹوری ڈاٹ کوم’ پہ موجود ہے۔

——————————————————————————————-

 

میں نے جو کپڑے پہن رکھے تھے، وہ ان کی قیمت سے واقف تھا۔ ایک نظر میں وہ قمیص، پتلون اور جوتوں کی قیمت کا تعین کرلیتا تھا۔ یہاں تک کہ اس دن وہ  ‘عوامی قہوہ خانہ’ میں آیا تو اس نے میرے سامنے اعتراف کیا کہ وہ اپنی اس عادت پہ قابو رکھنے کی قدرت نہیں رکھتا۔

.

(یہ لعنت میرے گلے 90ء میں پڑی تھی،اے میرے دوست)۔ اس نے بتایا کہ اس وقت جو میں نے پہن رکھا ہے،اس کی قیمت اٹھارہ ہزار ہے۔ دو دن پہلے اس نے کہا تھا کہ جو میں نے پہنا ہوا تھا،اس کی قیمت 7 ہزار تھی۔ اس کے اندازے نے مجھے مایوس کردیا تھا کیونکہ صرف قمیص کی قیمت ہی سات ہزار تھی ۔ اس نے اصرار کیا تھا کہ وہ جو کہتا ہے ،اپنی مہارت کے سبب کہتا ہے تو مجھے اس کی بات کو ماننا پڑا۔

“میں جب سڑک پہ چل رہا ہوتا ہوں تومیں سوائے قمیضوں ، پتلونوں اور جوتوں کے سوا کچھ نہیں دیکھتا”

یہ کہتے ہوئے اس نے اپنی شکن آلود پیشانی کو رگڑا جیسے وہ اپنی اس پرانی عادت کو بھلادینا چاہتا ہو،جس میں وہ آٹھ سالوں سے مبتلا تھا، جب وہ مشرقی دروازے پہ لنڈے کے کپڑے بیچا کرتا تھا۔ 

نامعلوم جسموں کی بو کو اس کتاب کے پرانے کاغذ تک منتقل کرنا آسان نہیں ہوتا جو انھوں نے متنبی سٹریٹ کے فٹ پاتھ سے خریدی ہوتی تھی، مگر وہ قمیص یا کپڑے سے بنی ٹوپی بنا کسی ملال کے چھوڑ جاتے اور پھر وہ جب آئینے کے سامنے کھڑے ہوتے تو اپنے آپ کا عکس دیکھتے، جبکہ اسے تو وہ صبح نامعلوم کی تحویل میں چھوڑ چکے ہوتے تھے۔

دونوں کو اکٹھا پکڑے رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ بہت جلد یا تو آپ ایک کو برباد کر بیٹھتے ہو یا دونوں کو میرے دوست!

وہ گرم چائے کے گھونٹ بھر رہا تھا جب اس نے میرے سامنے ایک اور نئی حقیقت کا اقرار کیا:

بعض اوقات وہ ان استعمال شدہ کپڑوں پہن لیتا اور پھر میری کتابوں کو بغل میں دبائے گھر سے باہر چلا جاتا تھا۔ عام طور پہ وہ ہزار دینار والے کپڑے پہنتا جبکہ کتاب 5 ہزار دینار کی ہوتی۔ اور دونوں ہی ہوجانا چاہتا تھا۔

لیکن اس نے اس گہری حقیقت بارے مجھے بھنک بھی نہ لگنے دی۔ اسے یہ پیشہ کتابوں اور کتابوں کے بارے میں اور کتابوں کے حالات بارے نہ ختم ہونے والی افواہوں سے کہیں زیادہ مناسب لگتا تھا۔وہ استعمال شدہ کپڑے فروخت کرنے میں بہت ماہر تھا۔

وہ اس سے خوفزدہ بھی تھا۔ وہ اس کا اپنے آپ سے یا دوسروں کے سامنے اعتراف کرنے سے ڈرتا تھا کیونکہ وہ یہاں اس پرجوش بازار میں، ایک دوسرے کے اوپر گرنے والے لوگوں کے درمیان دن کی اچھی طرح سے  پھیل چکی روشنی میں پاتا تھا۔ اور وہ ‘عوامی قہوہ خانہ’ میں اس گندی سی میز پہ (‎سوچوں ) میں ڈوبا یاسیت کا شکار لگتا تھا، کیونکہ وہ اپنے آپ کو یاد کررہا تھا اور اس دوران کبھی بھول جاتا یا اسے یاد آجاتا تھا۔

ـ آني منووو؟

مجھے اس آدمی کے بارے میں بتاؤ جو زمین پہ لیٹا ہوا تھا اور اس کی آنکھوں میں آنسو تھے اور آہ و بکاء کر رہا تھا، جب ایک چور نے اس سے وہ ٹی وی ہتھیانے کے لیے ایک کینہ توز داؤ چلا تھا جو وہ بیچ رہا تھا۔ اس چور نے اس بیوقوف ٹی وی بیچنے والے کو آنکھیں بند کرنے کو کہا اور اور اس کے سامنے یوں ظاہر کیا جیسے وہ ایک دوست کے کھیل کھیل رہا ہے:

آپ کا مطلب ہے کہ میں(سناؤں)؟

فریبی سیلزمین نے چہرے پہ حماقت آمیز مسکراہٹ سجائے اپنے دوستوں کے نام گننا شروع کیے، جبکہ اس کے ایک ساتھی نے بیجنے والے کی انکھون کے سامنے تیزی سے ٹیلی ویژن لیا اور ہجوم کے درمیان گم ہوگیا۔ بعد کے لمحوں میں چور بھی غائب ہوگیا، اور بیچنے والے کو اپنے ٹی وی کے اپنے سامنے سے غائب ہونے کا بھی پتا چل گیا۔

اس نے مجھے بتایا کہ بیچنے والا جو رو رہا تھا،اس کے سامنے وہ ہنس رہا تھا، جس نے خود اپنے آنسوؤں کو صاف کیا اور اسی لمحے اس پہ انکشاف ہوا کہ اس کی کٹھور پن کے ساتھ ہنسی کا مطلب اور نکلتا تھا، اس سے نامعلوم چور سے یک جہتی کا احساس ہورہا تھا، وہ چور جو کہ مجمع کے اندر کہیں تھا اور کسی کو اس کے چہرے کا پتا نہ تھا۔ 

مجھے ڈر ہے کہ ہم بہت جلد یہی ‘چور’ بنادیے جائیں گے،اور اکثر مجھے خوف  لاحق رہتا ہے کہ کہیں ہم اس کا اعتراف نہ کرلیں کہ ہماری طینت/خصلت اس جعل ساز سیلز مین کی سی ہے۔

مگر پرانے استعمال شدہ کپڑوں کا پیشہ چھوڑ کر وہ کہانیوں کو پڑھنے اور ان پہ غور و فکر میں مشغول ہوگیا۔ پھر اس نے کتابیں بیچنا شروع کردیں اور ایک دن وہ کہانیاں جن کو اس نے رات کو لکھنا تھا کے بارے میں سوچا۔ ایک ایسی کہانی کا تخیل باندھو جو لاطینی امریکہ کے شہر کی نواحی گلیوں میں پھیری لگا کر میڈیکل انسائیکلوپیڈیا کی کتابیں بیچتا ہو۔ اور اس پہ بہت سرعت سے انکشاف ہوا کہ وہ تو کتاب ‘ دودھ کا پیالہ’ سے ایک کہانی دوبارہ لکھ رہا ہے۔

فرض کرتے ہیں، اس کا نام داؤد سالم ہے۔ اور جب وہ غیظ و غضب سے بھرا ہوتا ہے تو اس کی بائیں آنکھ پھڑکنے لگتی تھی اور وہ ہرچیز کا مذاق اڑاتا اور یہاں تک کہ وہ اپنی اس طرح کی گفتگو کو انتہائی گرما گرم موضوعات تک لیجاتا جو کہ اقتدار کے سلگتے برتن پہ بیٹھنے والوں کے تذکرے سے جڑے ہوتے تھے۔

أراد ان يكتب قصة عن رجل يخرج من جريدة (طريق الشعب) ويعبر (طريق السيارات) فتصدمه سيارة مسرعة وتقذفه نحو الجماهير السائرة على الرصيف. لكنه استيقظ في المستشفى ليجد وضعاً غريباً، فها هو الان، ولأول مرة منذ سنين، يملك وقتاً اجبارياً فائضاً لكتابة كل القصص التي فكر بها، تلك القصص التي خطفت في رأسه تحت امطار باب الشرقي، وبين روائح الملابس العتيقة. والقصص التي تأتيه وتنادي عليه وهو يتطوح سكران بيأسه على ارصفة العاصمة باتجاه البيت أو المجهول او اللعنة. كان لديه كل الوقت المناسب لأي كاتب عظيم، ولكن القصة التي فكر بها كتبها شخص آخر. كتبتها انا.

اس گرم قسمت والے انقلاب اور کامیاب فوجی بغاوت کے بعد اس نے اپنے آپ کو پسے ہوئے مظلوموں کے حق میں نہ لکھنے والی حالت میں پایا۔ اور وہ خیال کرتا کہ وہ خود اپنے بارے میں لکھتا ہے اور وہ لباس پرولتاریہ ترک کرنے پہ قادر نہیں ہے، یہاں تک کہ وہ شاندار لباس پہنتا اور رنگدار ٹائی لگاتا، تو آپ کو یہ یقین کرنا ہے کہ وہ ادیبوں کی یونین دفتر کے ٹوائلٹ میں یا اخبار کے ہیڈکوارٹر واقع شاہراہ جمہور میں خود سے کہے گا آٹھ دینار یا نو دینار۔اس سے ایک دینار بھی زیادہ نہیں ہے۔ بس یہ سلسلہ 20 یا 30،،،،الخ یہ امر بذات خود ڈرانے والا ہے۔  

اس نے ایک ایسے آدمی کی کہانی لکھنے کا ارادہ کیا،جو اخبار کے دفتر واقع شاہراہ عوام سے نکلتا ہے اور طریق السیارات کو عبور کرنے لگتا ہے کہ تو ایک تیز رفتار کار اس سے ٹکراتی ہے اور اس کو فٹ پاتھ پہ چلتے ہوئے عوام کے ہجوم کی طرف لا پٹکتی ہے۔ پھر اس کو ہسپتال میں ہوش آتا ہے تو وہ اپنے آپ کو عجب صورت حال سے دوچار دیکھتا ہے۔ اتنے سالوں میں اب پہلی بار اس کے پاس ان ساری کہانیوں کو لکھنے کے لیے وقت تھا جن کے بارے میں اس نے سوچا تھا۔وہ کہانیاں جو اس کے دماغ میں اس وقت سے اٹکی ہوئی تھیں جب وہ شرقی دروازے سے بارش میں گزر رہا تھا اور پرانے کپڑوں کی بو اسے آرہی تھی۔ وہ کہانیاں جو اس تک آتیں نامعلوم زریعے سے  اور اسے  لعن طعن کرتے ہوئے پکارا کرتی تھیں،جب وہ نشے میں دھت ہوکر جھومتا ہوا یاسیت کے ساتھ دارالحکومت میں اپنے گھرکی طرف جانے والی سڑک کے فٹ پاتھ پہ گرا پڑا ہوتا تھا۔ وہ ایک عظیم کہانی نویس تھا اور مناسب وقت کا انتظار کررہا تھا اسے لکھنے کا لیکن اس کو خیال آیا کہ وہ کہانی تو کسی نے اور نے لکھی جسے میرے زریعے لکھے جانا تھا۔    

اس کے بچے اسے وہیل چئیر پہ وہاں سے باہر لے آئے۔ کار جب تیزی سے چلتی ہوئی شاہراہ عوام پہ واقع اخبار کے دفاتر کے پاس سے گزری تو اس نے عراقی کمیونسٹ پارٹی کے دفتر کا اگلا حصّہ دیکھا۔ اور جب کار اندلسیہ پلازہ کے انٹرسیکشن کے پاس سے گزری تو ایک ننگ دھڑنگ مجنوں آدمی اچانک سے اس کے سامنے آگیا، کار بہت زور سے (اسے بچانے کے لیے ) ڈگمگائی اور اسے اچانک سے صدمہ لگا،لیکن پھر اس نے اپنے آپ سے کہا: ایک ہی کہانی بار بار نہیں دھرائی جاتی۔  

وہ کار کی پچھلی نشست پہ بیٹھا ہوا تھا۔ اور اس موسم گرما کی آگ برساتی ہوا کے تھیپڑے اس کے چہرے سے ٹکرارہے تھے۔ اس کی نظر ادبیوں کی انجمن کے دفتر کے سامنے سے گزرتے ہوئے مجنون کے کولہوں پہ پڑتی ہے۔ اور وہ آخری بار اس قصّے میں شامل اس ٹیکسی ڈرائیور کے بارے میں سوچتا ہے کہ اس نے کیا پہن رکھا تھا، اس لمحہ جب اس نے ہسپتال کا دروازہ دیکھا تھا۔ 25 ہزار دینار۔اور اس کا بڑا بیٹا 18 ہزار مالیت کے پہنے ہوئے تھے جبکہ اس کے جوتے، اس کی رنگدار قمیص،پتلون بنا کوٹ کے سب کی قمیت 8 ہزار سے زیادہ نہیں تھی۔ ننگا اور سیاہ رنگت کی جلد والا مجنون جس نے اس وقت اپنے مضبوط ہاتھوں سے گارڈز کو مارا تھا اور تیزی سے یونین کے کلب میں داخل ہوگیا تھا تو وہ شخص وہ تھا جو اس کے لیے تو موجود تھا ہی نہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here