Image result for NAkHLISTAN KI TALASH MEIN rAHMAN ABBAS

دوہزار پانچ میں 19 سال کی ایک مسلم نوجوان لڑکی جو کہ یونیورسٹی میں اردو ڈیپارٹمنٹ کی طالبہ تھی، نے ممبئی پولیس کو ایک درخواست دی جس میں اس نے ایک ناول ‘نخلستان کی تلاش’ کے دو پیراگراف کو فحاشی اور ہندوستانی ثقافت کی توہین اور اپنے جذبات کو مجروح کرنے والے قرار دیکر اس ناول کو ضبط کرنے اور مصنف کے خلاف کاروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔ ممبئی پولیس نے اس پہ مصنف کے خلاف 1860ء سے چلے آرہے قانون انسداد فحاشی کے تحت پرچہ کاٹا اور مصنف ایک دن گرفتار بھی ہوگئے۔ انھوں نے اندھیری پولیس اسٹیشن ممبئی میں رات گزاری۔اور اگلے دن ان کی ضمانت ہوئی۔ یہ کیس دس سال چلتا رہا اور پھر کہیں 19 اگست،2016 کو اس کیس کا فیصلہ ہوا،ادیب کو تمام الزامات سے بری کردیا گیا۔اس ادیب کا نام عبدالرحمان عباس دھماسکر جن کو اب سب رحمان عباس کے نام سے جانتے ہیں۔ اکثر لوگوں تک رحمان عباس کا نام اسی مقدمے کے توسط سے پہنچا۔

Image result for RahMAN aBBAS nOVEL WRITER

 رحمان عباس نے فحاشی کے الزام سے بری ہوجانے کے بعد کئی چونکادینے والی باتیں انٹرویوز میں کیں۔  اس سے پہلے اگست میں پروفیسر کلبروگی کی ٹارگٹ کلنگ اور پھر ستمبر میں ہریانہ کے شہر دادری میں مسلمان اخلاق احمد کو ہندؤ فسطائی بلوائی ہجوم نے مارڈالا تو رحمان عباس اردو لکھنے والے وہ پہلے مسلم ادیب تھے جنھوں نےمہاراشٹر اسٹیٹ اردو ساہیتہ اکیڈیمی کی طرف سے دیا گیا ایوارڈ  احتجاجا  واپس کردیا۔ ۔ ان کی جانب بہت کھلے انداز میں ہندؤ فسطائیت کی مذمت کی گئی اور ساتھ ساتھ ہم نے ان کو جماعت اسلامی، جمعیت علمائے ہند، سمیت دیگر مسلم بنیاد پرستوں کی انتہا پسندی کے خلاف بھی کھل کر بولتے دیکھا۔ رحمان عباس نے منٹو کے بعد شاید سب سے زیادہ کھل کر نام نہاد فحاشیت کے فرسودہ تصورات پہ پوری بصیرت کے ساتھ تنقید کی ہے۔ ان کے ناول روحزن کی دھوم ساری دنیا میں مچی ہوئی ہے۔ ان کو 2018ء میں اس ناول پہ ساہیتہ اکیڈیمی ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ وہ ادبی دنیا میں جدیدیت کے سخت ترین ناقدین میں شمار ہوتے ہیں۔ اس پہ ان کے خلاف کافی پروپیگنڈے بھی کیے گئے۔لیکن وہ اپنے خیالات کے اظہار میں کسی ملامت اور کسی بدنامی کے خوف کو خاطر میں نہیں لاتے۔ آج کل وہ اپنا نیا ناول لکھ رہے ہیں۔ ایسٹرن ٹائمز نے ان سے خصوصی بات چیت کی جو قارئین کی نذر ہے

Image result for RahMAN aBBAS nOVEL WRITER

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

سوال: آپ لکھنے کی طرف کیسے مائل ہوئے؟

رحمان عباس : میرا ادبی سفر بیس پچیس برسوں پر پھیلا ہوا ہے۔ میں بنیادی طور پر ایک قاری ہوں۔ پڑھنا پسند کرتا ہوں۔ لکھتا کم ہوں۔ اسکول کے دنوں سے میری دلچسپی کہانیاں پڑھنے میں رہی ہے۔ کالج کے دنوں میں ، میں نے ہندستانی ، انگریزی اور انگریزی کے توسط سے دوسری زبانوں سے ترجمہ ہونے والے ناول پڑھنے شروع کیے۔ 2004میں ، میرا پہلا ناول ’نخلستان کی تلاش‘ شائع ہوا۔ یہ ایک بدنصیب کتاب تھی جس پر فحاشی کا مقدمہ ہوا۔ مقدمہ دس سال تک جاری رہا اور 2016 میں ختم ہوا۔ ا ب میری کل سات کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں چار ناول شامل ہیں۔

سوال: اردو ادب میں آپ کا سب سے پسندیدہ فکشن رائٹر کون ہے؟

آر اے : ’کوئی ایک پسندیدہ رائٹر ۔۔۔۔‘ میرے لیے مشکل ہے اس طرح ادیبوں کو قطار میں کھڑا کرنا اور پرکھنا ۔ ادیبوں کی فہرست سازی  نہ صرف حماقت ہے بلکہ دوسروں پر اپنی پسند تھوپنے کے مترادف ہے۔ ہر زبان میں اچھے اور اہم ادیب ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں مجموعی رائے ہے کہ منشی پریم چند، سعادت حسن منٹو،راجندرسنگھ بیدی، کرشن چندر، عصمت چغتائی ، غلام عباس،شوکت صدیقی، ممتازمفتی، عبداللہ حسین، قرۃ العین حیدر، انتظار حسین وغیرہ اہم ادیب ہیں۔ ان اہم اور اچھے لکھنے والوں کی بھی ساری کتابیں سب کو یکساں پسند نہیں ہوتی ہیں۔ پسند کے معیار کافی حد تک نجی ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود اہم لکھنے والوں کی تحریروں میں سب کے لیے کچھ نہ کچھ ہوتا ہے۔ وہ ادیب جن کی تحریریں مخصوص گروہ کی پسند ہو، میرے لیے ان کا ادب  کمزور ادب ہے۔ مذکورہ بالا ادیب میری پسند ہیں اور میں ان سب سے یکساں محبت کرتا ہوں۔

سوال:معاصر اردو ادب( ہندستان میں) آپ کے پسندیدہ فکشن رائٹر کون ہیں؟

جواب: اس سوال کے ایک حصے کا جواب تو دے دیا ہے ۔  بالواسطہ  

 جواب یہ ہوسکتا ہے کہ میرے پسندیدہ رائٹر عموماً وہ ہیں جو ترقی پسند عہد کی دین ہیں ۔(جن کا ذکر میں نے پہلے کیا ہے۔) چاہے وہ تحریک سے وابستہ رہے ہوں یا اس کی تنقید کا شکار ہوئے ہوں ۔ اُس زرین عہد کے بعد جو لکھنے والے سامنے آئے ان میں نیر مسعود، سریند پرکاش اور بلراج مین-را۔۔۔ ان کے بعد انور خان، ساجدرشید، مشتاق مومن، م ناگ، غیاث احمد گدی، انور قمر،علی اما م نقوی، اقبال مجید ، سلام بن رزاق،حسین الحق، نورالحسنین، بیگ احساس ، سید محمد اشرف، شمس الرحمن فاروقی، صدیق عالم ، شموئل احمد اور خالد جاوید اور مشرف عالم ذوقی وغیرہ کے کئی افسانے مجھے پسند ہیں۔ البتہ ان میں سے جن لوگوں نے ناول لکھے ہیں ان کی ناول نگاری پر میری رائے الگ ہے ، یا محفوظ ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ میرا ناول  کا تصور کچھ  مختلف ہے۔ مذکورہ لکھنے والوں سے آپ اختلاف کر سکتے، لڑ سکتے ہیں، لیکن ان کی کہانیوں، ان کی ادب سے محبت کو نظر انداز کرنے کی حماقت نہیں کرسکتے۔ 

سوال: آپ کا ایک انٹرویو پڑھا، اس میں آپ سے پوچھا گیا کہ آپ وارث علوی کو بطورِ نقاد زیادہ پسند کرتے ہیں؟اس کی وجہ کیا ہے؟

آر اے : وارث علوی کی اہمیت فکشن کی نظری تنقید میں بہت زیادہ ہے۔ ہم سبھی جانتے ہیں کہ جب ترقی پسند تحریک سیاسی اور سماجی سطح پر پارٹی پروپیگنڈہ میں ملوث ہوئی ہو تب پروپیگنڈے کو جواز بنا کراردو جدیدیت کا منشور سامنے آیا۔اب غور کرتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ اردد جدیدیت کا جو منشور تھا وہ تو درحقیقت ، ترقی پسند تحریک کے پروپیگنڈہ عنصر کے مقابل ادب کے انسانی کردار کے لیے زیادہ مہلک اور منفی تھا۔

 فاروقی نے جس طرح سے افسانے کی صنف کی تذلیل کرنے کی کوشش کی تھی اور جس غیر علمی طریقے سے شاعری کی جمالیات کو فکشن کی اخلاقیات پر تھوپنے کی کوشش کی تھی، اس کا مدلل جواب وارث علوی نے دیا ہے۔

وارث علوی کی کتابیں جدیدیت کے گمراہ کن پروپیگنڈے کا تدارک تھا ۔ شروع میں مجھے ا ن چیزو ں کی سمجھ نہیں تھی ۔ البتہ جب میں نے وارث علوی کو تفصیل سے پڑھا تب مجھے حیرت ہوئی کہ اردو میں جس چیز کو’ جدیدیت‘ کہتے ہیں وہ مغربی جدیدیت سے یکسر مختلف ،ایک حربہ ہے۔ یہ حربہ ادب اور بالخصوص فکشن کو ایک طرح کی بے ضرر سرگرمی میں بدلنے کی کوشش ہے۔

 دوسری طرف ایسے حربے اسٹبلشمنٹ کی پسند ہوا کرتے ہیں۔جبکہ سچ بات تو یہی ہے کہ فکشن اپنی فطرت میں اقتدار ، مذہبی اور سیاسی استبداد ، اور ظلم کے خلاف احتجاج ہے۔ فکشن اپنی جمالیات کے ساتھ زمین پر آدمی کی بقا اور اس کے تصورِ حسن کی دستاویز ہے۔ آدمی کی کیفیات کا نگار خانہ ہے لیکن کسی ایک طرزِ اظہار میں قید نہیں ہے۔ چنانچہ وارث علوی کی اہمیت میرے دل میں بڑھ گئی ہے۔  

سوال: شمس الرحمن فارقی اردو ناول کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے رہتے ہیں۔ آپ ان کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

جواب: ناول کے بارے میں وہ اظہار خیال کہاں کرتے ہیں؟

ہاں، افسانہ پر بات ضرور کرتے ہیں۔ ناول کے فن کا انھیں ایسا شعور نہیں ہے۔مجھے یاد آتا ہے وارث علوی نے ایک جگہ لکھا ہے فاروقی کو فکشن کی تنقید کا بھی کوئی شعور نہیں ہے۔ اب تو سبھی یہ تسلیم کرنے لگے ہیں کہ فاروقی فکشن کے کمزور نقاد ہیں۔ انھوں نے صرف ایسے لوگوں کو بانس پر چڑھانے کی کوشش کی جو ان کے منشور کے مطابق فکشن لکھ رہے تھے۔ مجموعی ادب ، مجموعی افسانہ نگاری یامجموعی طور پر کون کس طرح کا ادب خلق کر رہا ہے یا معاصر ناول نگار کس طرح سے ایک دوسرے سے منفرد ہیں اس پر انھوں نے کبھی بات نہیں کی۔ ان میں اس کی اہلیت ہوتی تو ضرور کرتے۔اس اختلاف کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میرے دل میں ان کا احترام کسی طرح سے کم ہے۔ ہرگز نہیں، وہ ہمارے عہد کی ایک بڑی علمی شخصیت ہیں۔

سوال: حال ہی میں آپ نے لکھا کہ جدیدیت کا ابھار ترقی پسند تحریک کے زوال کا نتیجہ تھا۔ آج ترقی پسندی آپ کے خیال میں کیا ہے؟

جواب: ہر آدمی پیدائشی طور پر صرف آدمی ہوتا ہے بعد میں ملک ، مذہب اور کلچر اس پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ لیکن آدمی کی اساس ترقی پسندی ہے ۔’ ترقی پسندی‘ کی اصطلاح میں سیاسی معنی میں استعمال نہیں کر رہا ہوں بلکہ سماجی سروکار کے پس منظر میں ۔ مذہب بھی ترقی پسندی کی ایک شکل ہے، لیکن ادھوری شکل ہے۔ اردو جدیدت اورمغربی جدیدت میں بہت فرق ہے ۔

وہاں جدیدیت قدامت پرستانہ نکتہ نگاہ کے خلاف احتجاج تھا اردو جدیدیت اسی کے برخلاف ثابت ہوئی۔

فن کی سطح پر ہماری شاعری جس قدر جدید ہو سکتی تھی وہ تو غالب ، سراج، ولی اور میر کے عہد میں بھی تھی۔ شکیب جلالی بھی ایک مثال ہے۔ چنانچہ ہئیت کے تجربات اور شخصیت کی تنہائی ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی۔جہاں تک فکشن کا تعلق ہے ہماری روایت داستان کی تھی ۔افسانہ اور ناول داستان ہی کی کوکھ سے برآمد ہوئے ہیں لیکن وقت کے ساتھ اور مغرب کی ذہنی ترقی کا اس پر کافی اثر ہے۔اردو جدیدیت کا ان باتوں سے تعلق نہیں ہے حالانکہ شمیم حنفی نے اس موضوع پر کافی تفصیل سے لکھا ہے اور وارث علوی نے اس پر بحث بھی کی ہے۔ باوجود اس کے ، اردو جدیدیت کا باریک بینی سے محاسبہ کیا جائے تو احساس ہوتا ہے کہ منٹو، بیدی، عصمت، عینی اور غلام عباس سے الگ کچھ کرنے کی خواہش نے ایک ہئیت سے محروم کرتب بازی کو فکشن قرار دینے کی کوشش کی اور اسی لیے ناکام ہوئی۔

ترقی پسندی کا زوال یہی تھا کہ پارٹی کا پروپیگنڈہ حاوی ہوا جا رہا تھا۔ لیکن پروپیگنڈا سے ماورا ادب بھی ایک قسم کا پروپیگنڈہ ادب ہے ، اس کا ادراک ہمیں پہلے پہل نہیں ہو سکا ۔آج برصغیر جس طرح سے فسطائیت کی طرف جار ہا ہے اور جس رفتار سے جا رہا ہے اس وقت اگر کسی چیز کی ضرورت ہے تو وہ عوام میں ترقی پسند فکر کے عام کرنے کی ہے۔ یہ ترقی پسندی ہی ہے جو فسطائیت کے خلاف نبردآزما ہوتی ہے کیونکہ مذہب تو عموماً عہدِ فسطائیت میں طوائف میں بدل جاتا ہے۔ جبکہ مغرب میں جدیدیت مذہبی، سیاسی اور سماجی اقدار سے انکار کے بعد نفس اور نفس کی صورت حال کا اظہار ہوا کرتا تھا۔اب وہاں بھی غالباً وہ تحریک ختم ہو چکی ہے۔ نیا عہد اپنے اظہار اور اپنے نفس کی بازیافت کے لیے نئے پیرائے تلاش کرے گا۔ ہمیں اب مغرب کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں اپنے پیروں پر دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم جس فرش پر کھڑے ہیں اس کے نیچے آتش فشاں ہے۔وہ مغرب کی طرزِ بیان سے ہم اپنے افراد کو دیکھا نہیں پائیں گے۔

سوال:جدیدیت کی مخالفت آپ کے ہاں اتنی شدت سے کیوں ہے؟ کچھ حلقے آپ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ اس کا سبب فاروقی سے آپ کی مخالفت بلکہ عداوت ہے۔ کیا ایسا ہے؟

جواب: جدیدیت سے میرا اختلاف صرف اور صرف فکشن کی جمالیات کے موضوع پر ہے۔ میرے لیے فکشن ایک ذمے دارنہ سرگرمی ہے جہاں آپ اپنے ملک، اپنے سماج، اپنے اردگرد کی زندگی سے خام مواد لیتے ہیں اوراپنے عہد کا رزمیہ تخلیقی فارم میں لکھتے ہیں۔ میرے لیے ادب محض ٹائم پاس کے لیے نہیں ہے۔ ٹائم پاس کرنے کے لیے بے شمار دلچسپ چیزیں ہیں۔ دوسری طرف جارج آورویل، گارسیا مارکیز، میلان کنڈیرا، اورحان پاموک، امیتاوگھوش، اروندھتی رائے، نجیب محفوظ، پیرومل مورگن، بیدی، عصمت چغتائی، انتظارحسین اور بے شمار ادیب ہیں جنھوں نے اپنے ناولوں میں جہاں ملکی اور سماجی پس منظر پیش کیا ہے وہیں اپنے عہد کی سنگلاخی او رسفاکی کوبھی پیش کیا ہے۔ یہ ادب آدمی کی پناہ گاہ ہے ۔شعور کی دستاویز ہے ۔حسن کی معنویت ہے ۔ میں ان باتوں پر اصرار کرتا ہوں، ا ب اگر یہ اصرار کسی کے لیے فاروقی صاحب کے نظریے سے عداوت ہے، تو یہ الزام مجھے منظور ہے۔

سوال: ہندوستان میں آرایس ایس جیسی تنظیموں کے ابھار سے کیا ادب متاثر ہوا ہے؟ کیا ادب پر مذہبی جنونیت اور فرقہ پرستی کی پرچھائیاں پڑ رہی ہیں؟

جواب: ہمارے یہاں آرایس ایس نے بڑی حد تک سماجی وحدت کو تقسیم کرنے اور معاشرے سے یگانگت ختم کرنے میں رول ادا کیا ہے۔ نفرت پر مبنی سیاست بھی آرایس ایس کی دین ہے لیکن ادب اور فنونِ لطیفہ پر اس کا اثر ایسا گہرا نہیں ہے کیونکہ ادب شاید پہلی اور آخری چیز ہے جو اپنے مزاج میں غیر مذہبی اور پروپیگنڈے کے خلاف انسانی اجتماعی شعور کا اظہار ہے۔جس طرح اردو میں کمزور اور جنونی ادیب جماعت اسلامی کی گود میں سکون محسوس کرتے ہیں، ایسے کچھ عقل کے اندھے ہر جگہ ہوتے ہیں اور ممکن ہے ایسے ادیب آرایس ایس کے پروپیگنڈے کا حصہ ہوں لیکن آرایس ایس کی ذہنیت کا زیادہ اثر ادب پر نہیں ہے۔

سوال: کیاآپ نے نندتا داس کی فلم منٹو دیکھی ہے؟ اگر دیکھی ہے تو اس کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟

جواب: فلم دیکھی ہے۔ نندتاداس کی تعریف کرنا چاہیے۔ورنہ ہمارا سماج اتنا شائستہ اور تعلیم یافتہ کہاں ہے کہ ایک ادیب کی زندگی پر فلم بنائی جائے ۔ اس فلم کی اپنی خوبیاں بھی ہیں۔ نوازالدین صدیقی کی اداکاری اچھی ہے لیکن مجموعی طور پر فلم کم  از کم میری تشنگی کم نہ کرسکی۔ فلم عام لوگوں کو منٹو کی زندگی ، اس کے آرٹ، اس کی نظریات سے جوڑنے میں کارگر ہے ۔  فلم بہت ساری چیزیں بتانے کی کوشش ہے اور شاید اسی سبب اس کا اثر اتنا نہیں ہوا جتنا متوقع تھا۔   

سوال: کیا کوئی نیا ناول لکھ رہے ہیں؟

آر اے: نیا ناول ابھی ابھی شروع کیا ہے۔ امید کرتا ہوں اس سال کے آخر تک مکمل کر لوں۔

سوال: گذشتہ سال آپ نے جو کتابیں پڑھیں، ان میں کس کتاب نے آپ کو متاثر کیا ؟

آر اے: متاثر تو خیر بہت کم کتابیں کرتی ہیں۔ البتہ مجھے فیاض رفعت کا ناول ‘بنارس والی گلی’ ، اورحان پاموک کا ناول ‘ سرخ بالوں والی عورت’ اور جرمن ادیب برنہار ڈسکھلنک کا ناون ‘ قاری’ بہت پسند آیا۔

2 COMMENTS

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here