اصھار اللہ ۔۔۔۔۔ نزاز قبانی

نزار قبانی نے یہ نظم ان حکمران طبقات کی مذمت میں لکھی جو مال و دولت کے نشے میں چور ہوکر عوام کے حقوق غصب کرتے ہیں اور ان کا خیال یہ ہے کہ وہ حکومت اللہ کی عطاء سے کرتے ہیں اور مذہب کے نام پہ تجارت کرتے ہیں۔

1

جب حاکم نے عوام کو مسجد کی طرف بلایا

یوم جمعہ کو

اور پھر اس نے اپنی تقریر میں اپنے دوستوں کے بارے میں کہا

بے شک وہ اللہ کے دوست ہیں

اللہ کے پسند کیے ہوئے ہیں

اللہ کی طرف سچے قرار دیے گئے ہیں

2

اور ان کو جب بلایا گیا

قہرزدہ اس شہر میں

جو تباہ حال ہے

اور حزن کا شکار ہے

اور پھر اس نے کہا کہ وہ

ظل اللہی ہے

اللہ کے نام سے کلام کرںے والا ہے

تو کیا میں جسارت کرسکتا ہوں

اللہ سے یہ پوچھنے کی

کیا آپ نے ان کو اپنی وکالت عطا کی ہے

اپنی مہر دی ہے

اپنی جگہ دی ہے

کہ وہ ہماری گردنوں پہ مسلط ہوجائیں

تا ابد تک

کیا آپ نے ان کو حکم دیا ہے

کہ وہ اس شہر کو برباد کردیں

اور ہمیں کاکروچ کی طرح مسل ڈالیں

اللہ کے حکم سے

اور ہمیں اپنے بیڑوں سے مارڈالیں

اللہ کے حکم سے

اگر میں ان کے حاکم سے پوچھ لوں

وہ کون ہے جس نے دنیا میں تمہیں ہمارے امور کا حاکم بناڈالا

تو وہ ہم سے کہتا: ہائے جہالت

کیا تمہیں نہیں پتا کہ

من پسر خدا ہستم

3

میں چاہتا ہوں کہ چیخ کر کہوں

کیا تم نے وزیر مال مقرر کیا ہے؟

تو پھر یہ غربت کہاں سے پھوٹ پڑی

ہمارے صبر کا پیمانہ کیوں لبریز ہوا؟

ہمارے حالات برے کیوں ہیں؟

کیا شیون اللہی ایسے ظہور پذیر ہوتی ہیں

ہمارا کھانے کی بڑی ڈش بھوک بن گئی ہے

اور میرے وطن کے پرندوں کے لیے

کوئی جائے فرار کیوں نہیں رہی

کیا  پھلیاں اور چپس

اور طرش

اور پانی ان سب کا مہنگا ہونا

اللہ کے کام ہیں؟

اور کیا کفن دفن کا مہنگا ہونا

بھی اللہ کے کام ہیں

جبکہ کیا تمہارا اذن ہے کہ امراء کافیار کھائیں

اور ہم جوتے کھائیں

افسران بالا تو شراب پیئیں

اور ہم گندا پانی

تو ایسے میں کیوں نا نادار

روٹی اور چاند میں کوئی فرق نہ دیکھیں

اور پھر کیوں نا ماؤں کے پیٹ میں ان کے بچے

خودکشی کریں

4

میں چاہتا ہوں اللہ سے پوچھوں

کیا تونے ان کو دولت علم سے سرفراز کیا

اور ہمارے دماغوں کو دھو ڈالا

اور ہماری عورتوں کو مسئول بناڈالا

اور ہمیں گھوڑوں اور گدھوں پہ سوار کردیا

میں چاہتا ہوں کہ اللہ سے پوچھوں

کیا تو نے ان کو حکم دیا

کہ وہ ہماری ہڈیاں توڑ ڈالیں

اور ہمارے قلم پاش پاش کردیں

اور فاعل و مفعول دونوں کو قتل کرڈالیں

اور باغات میں پھولوں کو کھلنے سے منع کردیں

5

میں چاہتا ہوں اپنے مولا سے پوچھوں

کیا تم نے ان کو (مال و دولت کی) بخشش دی

کہ وہ ہمارے گھر خرید لیں، اور دولت مشترکہ بھی

بابل اور معلق باغات خرید لیں

اور مشنری صحافت بھی خرید لیں

کیا تم نے ان کو بلینک چیک دے ڈالا

کہ وہ تاج برطانیہ خرید لیں اور محلات

اور عورتوں کو پنجروں میں قید کرکے ایسے خرید لیں جیسے پرندے

اور نیشا پور کے آسمان پہ سرسبز چاند کو بھی ؟

6

میں چاہتا ہوں فریاد رساں ہوکر پوچھوں

اے اللہ

کیا تم نے ان کو صاف شفاف بنایا ہے؟

سچ میں؟

اس قدر شفاف کہ وہ خدانما خود کو سمجھنے لگیں

میں چاہتا ہوں سوال کروں

اے اللہ

کیا تو نے ان کو اس قدر شفاف کردیا ہے

سچ میں ؟

عوام کے قاتلوں کو واقعی تونے

اسقدر شفاف کیا کہ وہ خدا نما ہوگئے

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here