کراچی : انسانی حقوق کی تنظیموں اور جبری گم شدہ افراد کے متاثرہ خاندانوں نے 28 جنوری،2019ء کو سوشل میڈیا پہ ہیش ٹیگ ‘اینڈانفورسڈ ڈس ایپرینس’ کے تحت پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق 8 بجے سے ساڑھے گیارہ بجے تک کمپئن چلائی اور جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔

تفصیلات کے مطابق پاکستان میں جبری طور پہ لاپتہ کیے جانے والے افراد کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی انسانی حقوق کی تنظیموں نے متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ملکر جبری گمشدگی کے ایشو کو ہائی لائٹ کرنے کے لیے 28 جنوری،2018ء کو سوشل میڈیا پہ پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق 8 بجے سے ساڑھے گیارہ بجے تک ہیش ٹیگ ‘جبری گمشدگیاں’ کے تحت مہم چلانے کا فیصلہ کیا۔

اس سوشل میڈیا کمپئن کا اہتمام وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز، پشتون تحفظ موومنٹ، وائس فار سندھی مسنگ پرسنز،کمیٹی برائے رہائی شیعہ مسنگ پرسنز و دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں نے کیا تھا۔

اس کمپئن کو سوشل میڈیا پہ بھرپور توجہ حاصل ہوئی۔ پاکستان سمیت دنیا بھر سے انسانی حقوق کے کارکنوں، سیاسی و سماجی شخصیات اور طالب علموں نے پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرایا اور جبری گمشدہ افراد کی فی الفور بازیابی کا مطالبہ کیا۔

پاکستان میں جبری گمشدگیوں میں اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے۔ جبکہ سیاسی جماعتوں کی قیادت اور حکومتیں اس معاملے پہ پردے کے پیچھے اپنی بے بسی کا اظہار کرتی نظر آتی ہیں ۔ عدالتیں بھی اس معاملے پہ تاحال کچھ نہیں کرسکی ہیں۔ جبری گمشدگیوں کو روکنے کے حوالے سے قومی اسمبلی میں اعلانات کے باوجود کوئی سیاسی جماعت قانونی بل نہیں لاسکی ہے۔

سب سے زیادہ جبری گمشدگیاں بلوچستان، خیبرپختون خوا، فاٹا، سندھ کے ان علاقوں میں ہوئی ہیں جہاں پہ فوجی آپریشن ہوئے اور کراچی میں سندھ رینجرز کے آپریشن کے دوران بھی جبری گمشدگیوں میں اضافہ دیکھا گیا۔

شورش زدہ علاقوں میں آپریشن اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کاروائیوں کے دوران جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل و اغواء اور انسانی حقوق کی پامالی پہ آواز اٹھانے والے انسانی حقوق کے رضاکاروں، دانشوروں، سوشل میڈیا ایکٹوسٹ،بلاگرز، شاعر، ادیب اور طالب علم رہنماؤں کو بھی جبری طور پہ لاپتا کیے جانے کی شرح میں بھی اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here