کراچی : انسانی حقوق کی تنظیموں اور جبری گم شدہ افراد کے متاثرہ خاندانوں نے 28 جنوری،2019ء کو سوشل میڈیا پہ ہیش ٹیگ ‘اینڈانفورسڈ ڈس ایپرینس’ کے تحت پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق 8 بجے سے ساڑھے گیارہ بجے تک کمپئن چلائی اور جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔
We demand Pakistani Govt to Stop Enforce Disappearance. It is against the law. if someone is guilty, his/her trial should be in court not underground @Enforce Disappearance.#EndEnforcedDisappearances pic.twitter.com/HXTdk225an
— Shahswar Hussain (@shah0009) January 27, 2019
تفصیلات کے مطابق پاکستان میں جبری طور پہ لاپتہ کیے جانے والے افراد کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی انسانی حقوق کی تنظیموں نے متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ملکر جبری گمشدگی کے ایشو کو ہائی لائٹ کرنے کے لیے 28 جنوری،2018ء کو سوشل میڈیا پہ پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق 8 بجے سے ساڑھے گیارہ بجے تک ہیش ٹیگ ‘جبری گمشدگیاں’ کے تحت مہم چلانے کا فیصلہ کیا۔
اس سوشل میڈیا کمپئن کا اہتمام وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز، پشتون تحفظ موومنٹ، وائس فار سندھی مسنگ پرسنز،کمیٹی برائے رہائی شیعہ مسنگ پرسنز و دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں نے کیا تھا۔
As human beings we can't afford to see such a aged couple begging for justice, for their missing son by state actors. We must respect fundamental #Rights of every citizen@amnestysasia @BBhuttoZardari @Senator_Baloch @HamidMirPAK @sherryrehman #EndEnforcedDisappearances pic.twitter.com/kXeuT40fS2
— Hameeda Noor (@HameedaNoor4) January 27, 2019
اس کمپئن کو سوشل میڈیا پہ بھرپور توجہ حاصل ہوئی۔ پاکستان سمیت دنیا بھر سے انسانی حقوق کے کارکنوں، سیاسی و سماجی شخصیات اور طالب علموں نے پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرایا اور جبری گمشدہ افراد کی فی الفور بازیابی کا مطالبہ کیا۔
پاکستان میں جبری گمشدگیوں میں اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے۔ جبکہ سیاسی جماعتوں کی قیادت اور حکومتیں اس معاملے پہ پردے کے پیچھے اپنی بے بسی کا اظہار کرتی نظر آتی ہیں ۔ عدالتیں بھی اس معاملے پہ تاحال کچھ نہیں کرسکی ہیں۔ جبری گمشدگیوں کو روکنے کے حوالے سے قومی اسمبلی میں اعلانات کے باوجود کوئی سیاسی جماعت قانونی بل نہیں لاسکی ہے۔
سب سے زیادہ جبری گمشدگیاں بلوچستان، خیبرپختون خوا، فاٹا، سندھ کے ان علاقوں میں ہوئی ہیں جہاں پہ فوجی آپریشن ہوئے اور کراچی میں سندھ رینجرز کے آپریشن کے دوران بھی جبری گمشدگیوں میں اضافہ دیکھا گیا۔
شورش زدہ علاقوں میں آپریشن اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کاروائیوں کے دوران جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل و اغواء اور انسانی حقوق کی پامالی پہ آواز اٹھانے والے انسانی حقوق کے رضاکاروں، دانشوروں، سوشل میڈیا ایکٹوسٹ،بلاگرز، شاعر، ادیب اور طالب علم رہنماؤں کو بھی جبری طور پہ لاپتا کیے جانے کی شرح میں بھی اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔