میں نے ان دنوں میں کامریڈ حسن ناصر سے لیکر کامریڈ جام ساقی جیسے کرداروں کو شدت سے یاد کیا جنھوں نے پاکستان کے حکمران طبقات کے گماشتہ اور دلال کردار کے خلاف قول و عمل سے اپنا کردار نبھایا اور جب جب حکمرانوں نے ڈالروں اور ریالوں کے عوض پاکستان کی فوج کے نوجوانوں اور اس ملک کے سادہ لوح نوجوانوں کو کرائے کے پیدل سپاہی بناکر پرائی جنگوں میں جھونکا تو انھوں نے بنا کسی تامل کے اس کے خلاف آواز بلند کی اور جام ساقی کا عدالت کے سامنے دیا گیا بیان تو ایسی تاریخی دستاویز ہے جسے پڑھنے کی ہر نوجوان کو ضرورت ہے۔
 
آج بھی پاکستان کی حکمران اشرافیہ اور اس ملک کے ظالمانہ و غیر منصفانہ نظام سے فائدہ اٹھانے والا مٹھی بھر طبقہ سر سے پیر تک ‘دلال اور گماشتہ’ ہی ہے۔ اور یہ اپنی گماشتگی کی قیمت ڈالروں، ریالوں، پاؤنڈ، تومان، ریمبنی (چینی کرنسی) میں وصول کرتا ہے اور اس ملک کی ورکنگ کلاس کو نسلی، لسانی ، فرقوں میں تقسیم کرتا ہے اور ہمارے نوجوانوں کو بھاڑے کا ٹٹو بناتا ہے۔ اور اپنے گماشتہ خیالات و نظریات کو پاکستانیت، حب الوطنی، اسلام پسندی اور قومی مفادات اور دفاع وطن قرار دیکر ان کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف تعزیرات پاکستان کی سنگین ترین دفعات اور پاکستان پروٹیکشن آرڈیننس، انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات درج کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اور اکثر یہ مقدمہ درج کرنے کی زحمت ہی نہیں اٹھاتا بلکہ گماشتگی کا پول کھولنے والوں کو اٹھاکر غائب کردیتا ہے یا پھر مار کر کسی ویرانے میں دفن کردیتا ہے۔
 
پاکستان کے حکمران گماشتے کبھی ایشیا کا ٹائیگر ، کبھی مرد مومن، کبھی انصاف کے غازی کے سوانگ رچاتے ہیں اور جوں ہی ڈالر، ریال ، تومان، رینمبی کی جھلک دکھائی دیتی ہے ان کا حال ‘مینوں نوٹ وکھا،میرا موڈ بنے’ جیسا ہوجاتا ہے۔
 
ان گماشتوں کو یہ غلط فہمی ہمیشہ رہتی ہے کہ یہ تعزیرات پاکستان کو استعمال کرکے اور ریاستی اداروں کو اپنے دائرہ اختیار سے باہر لاکر استعمال کرکے اپنی جھوٹی تقدیس کو برقرار رکھ سکتے ہیں مگر تاریخ نے یہ منظر بار بار دیکھا ہے کہ
ایوب کتّا ۔۔۔ہائے ہائے ۔۔۔۔۔ امریکہ نے ایک کتّا پالا۔ جنرل ض وردی والا ۔۔۔۔ وینگیاں لتّاں کانی اکھ۔۔۔۔ ضیا‏ع الحق ضیاع الحق ۔۔۔۔۔۔ مک گیا ترا شو مشرف۔ گو مشرف گو مشرف ۔۔۔۔ کروڑ کمانڈر ۔۔۔۔ بنگآل میں ہارے ۔۔۔ (اگلا مصرعہ لکھنے کی تاب نہیں) کارگل سے بھاگے ۔۔۔ (اگلا مصرعہ لکھنے سے پہلے میری تو سانس پھول گئی لیکن عوام کی سڑکوں پہ ،گلیوں میں محلوں میں ، چوکوں پہ چوراہوں پہ نہیں پھولتی ۔۔۔۔) اے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سارے رقبے تمہارے لیے ہیں ( پہلے مصرعے پہ سانس پھول گئی۔۔۔۔ سگریٹ کے دو پیکٹ پینے کا یہی نقصان ہوتا ہے)
 
آج بھی حکمران طبقات کا عوام سے زبردستی اپنا احترام کروانے کا جنون کم نہیں ہوا ہے ۔ وہ تو اب سمندر پار سے آئے خونی دلالوں کا احترام بھی زبردستی کروانا چاہتے ہیں اور ایف آئی آرز کے اندراج کا ایسا کلچر متعارف کروارہے ہیں جس کو لکھنے والوں کو 25 ڈی ٹیلی گراف، 341 ت پ، 151 اے ،7 اے ٹی اے بطور خاص یاد کروائی گئی ہیں اور جو ان سے بھی باز نہ آئے تو پھر سلیمانی ٹوپی پہنے سادہ لباس میں ایک مقدس لشکر ہے جو رات کے کسی پہر یا علی الصبح ڈھیٹ ایکٹوسٹوں پہ حملہ آور ہوتا ہے اور پھر ہم بازاروں، پریس کلبوں اور عدالتوں کی غلام گردشوں میں غائب ہونے والوں کی عورتوں اور چھوٹے چھوٹے بچوں کی چیخ و پکار سنتے ہیں۔ اور یہ گماشتہ حکمران ان چیخوں اور بے بسی کے المناک مظاہروں سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور ان گماشتوں کا گالم گلوچ بریگیڈ سوشل میڈیا پہ غائب ہونے والوں کو سرکار کی مہمان داری سے حظ اٹھانے والے احسان اللہ احسان ، مسعود اظہر، اسامہ بن لادن، ملک اسحاق، ایمن الذھروی سمیت داعش و القاعدہ سے بھی کہیں لاکھ درجے خون خوار ثابت کرتا ہے اور کچھ انتہائی سنجیدہ اور علمیت و تدبر کا نقاب اوڑھے ان کے مدح خواں بس ایک ٹویٹ یا فیس بک پوسٹ لگاتے ہیں اور جو ایک جملے پہ مشتمل ہوتی ہے
 
“ایسے تو کوئی اٹھایا نہیں جاتا نہ گرفتار ہوتا ہے، کچھ کیا ہی ہوگا۔”
 
وہ یہ کہہ کر چلتے بنتے ہیں اور پریس کلبوں ، عدالتوں کی غلام گردشوں اور کسی گماشتہ حاکم کی گاڑی کے آگے لیٹ جانے والی کسی ماں، بہن، بیٹی ، بیٹے ، بھائی یا بیوی یا بیوہ کی چیخیں، آہیں اور نالوں کی باز گشت باقی رہ جاتی ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here