مجھے فیاض چوہان کی جانب سے ‘ہندؤ-مسلم’ کی بالعکس مساوات میں پاک-بھارت حالیہ کشیدگی کو بیان کرنے پہ زرا غصّہ نہیں آیا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہندوستان کی پاکستان اور ہندوستان میں تقسیم کی سب سے مقبول عام تھیوری اور نظریہ ہی ‘ہندؤ اکثریت کے مسلمانوں پہ چھا جانے کا خوف’ بتائی جاتی ہے۔
 
پاکستان کے آئین میں اب بھی درج ہے کہ ہر شہری پہ یہ لازم ہے کہ وہ دو قومی نظریہ کا احترام کرے۔ پاکستان کا قومی ترانہ ایسا ہے کہ اس کے کسی ایک مصرعے سے کہ اندازہ نہیں ہوتا کہ پاکستان ایک کثیر المذہبی ملک ہے۔ اس آئین اور قوانین میں ایسی شقیں موجود ہیں جو مذہب کی بنیاد پہ انسانوں کے حقوق کا جائزہ لیکر ان سے امتیاز برتتی ہیں۔ اور پاکستان کو ‘اسلامی جمہوریہ پاکستان’ جب کہا جاتا ہے تو یہ لفظ خودبخود اس ملک میں غیر مسلموں کو ‘ذمی’ کہے بغیر ان کو ذمی بنادیتا ہے۔
 
ہمارے اسکول، کالج، یونیورسٹی کی نصابی کتب اور ایسے ہی غیر نصابی کتب جو خاص طور پہ اس خطے کی تاریخ اور ثقافت سے معاملہ کرتی ہیں وہ بھی کالونیل دور میں قرون وسطی کی ہندوستان کی تاریخ کو ‘ہندؤ دور اور مسلم دور’ میں بانٹ کر دیکھتی ہیں اور ان کتابوں میں جتنے بھی باہر سے آنے والے حملہ آور ہیں وہ سب کے سب ‘غازی، ہیرو، اچھے انسان ‘ ہیں جبکہ یہاں کے رہنے والے حکمران ظالم، اخلاقیات سے عاری ہیں اور وہ سب کے سب ولن ، راکھشش کہلاتے ہیں۔
 
پاکستان کی تاریخ مرتب کرنے والوں نے تقسیم سے قبل اور بعد کی تاریخ کے اکثر ہندؤ، سکھ حوالے بہت ہی مہارت سے منصوبہ بندی سے نکال باہر کیے، تقسیم سے قبل کمیونل سیاست سے ہٹ کر جتنے ہندوستان کی تحریک آزادی کے غیرمسلم کردار تھے ان کو نکال باہر کیا گیا، بھگت سنگھ، لالہ لاجپت رائے،سببھاش چندر بوس سمیت درجنون لوگ ہماری تاریخ کا حصّہ نہیں ہیں صرف اس وجہ سے کہ ان کے نام اسلامی نہیں ہیں اور ان کاتعلق مسلم خاندانوں سے نہیں ہے۔
 
لفظ ہندؤ کئی عشروں سے ہمارے زرایع ابلاغ میں نفرت اور عیب کی علامت کے طور پہ استعمال ہوتا رہا ہے۔ بلکہ 80ء اور 90ء کی دہائیوں میں تو ہم نے یہ نعرہ گلیوں محلوں میں گونجتے دیکھا
ہندؤں کا ایک علاج- الجہاد الجہاد
ہمارے ہاں جب کبھی دشمنوں کا ذکر ہوا تو ایک مثلث ناموں کی ضرور ذکر ہوئی ‘یہود،ہنود و نصاری ‘ یعنی یہودی، ہندؤ اور مسیحی یہ تینوں ہمارے ازلی و ابدی دشمن ہیں۔
اور فیاض چوہان کی اولین تربیت تو ہوئی ہی سید ابوالاعلی مودودی کی بغل بچہ طلباء تنظیم اسلامی جمعیت طلباء میں ۔ جمعیت کے نصاب میں مسلمانوں کے زوال اور ان کی مبینہ ذلت و رسوائی کے اگر کوئی ذمہ دار ہیں تو یہی یہود و ہنود و نصاری ہیں ۔
 
ویسے پاکستان کا جو رائٹ ونگ مائنڈ سیٹ ہے اس نے اس مثلث میں اپنی سہولت کے اعتبار سے خود کئی اور فرقوں اور مذاہب کو بھی شامل کیا ہے۔ پاکستان میں جو دیوبندی، سلفی، شیعہ، بریلوی ، جماعتی مذہبی پیشوائیت ہے اس نے اس میں ملکر ‘احمدیوں’ کو شامل کیا۔ پاکستان بننے کے فوری بعد انہوں نے اس مساوات میں پہلے کمیونسٹوں اور سیکولر نیشنلسٹ کو شامل کیا اور جب 80ء کی دہائی آئی تو اسی مذہبی پیشوائیت میں سے ایک تکفیری ٹولہ برآمد ہوا اور اس نے شیعہ کو بھی اس میں شامل کرلیا۔
 
ہماری نئی نسل جو دائیں بازو کی انتہا پسند لہروں کے زیر اثر تربیت کے مدارج طے کرتی ہے وہ ہندؤں سے نفرت کو بتدریج اپنے شعور و لاشعور میں پالتی رہتی ہے اور پھر ان میں سے کوئی اگر حکومتی مناصب پہ آ بھی جائے تو لاکھ خود کو کمپوز کرنے کے یہ نفرت ان کی گفتگو میں کسی جملے کے اندر جھلک ہی جاتی ہے اور اس میں فیاض چوہان بھی شامل ہے۔
 
ہم کہہ سکتے ہیں دایاں بازو کے مائنڈ سیٹ کے ساتھ خاص طور پہ بندوبدست پنجاب سے ابھرنے والی اشرافیہ جو ہے اس کے ہاں مذہبی شاؤنزم بہت گہرا ہے۔ اور تو اور یہ بورژوا اور پیٹی بورژوازی کی دائیں پرتیں کبھی بھی خود کو لسانی و نسلی شاؤنزم سے بھی آزاد نہیں کرواپاتیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کو خود پشتون، سرائیکیوں، سندھیوں، بلوچوں اور اب تو اردو بولنے والے سندھ کی شہری پرتوں سے بھی مکالمے کی تمیز تک نہیں ہے اور ان کے نزدیک وہ سب بھی ‘برائی کے محور’ ہیں۔
 
اسی لیے پنجاب سے جو بھی حقیقی ترقی پسند، روشن خیال، سیکولر مآئنڈ سیٹ سامنے آتا ہے اسے بدترین بے گانگی، علیحدگی اور تنہائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور یہاں تک کہ اگر کوئی دائیں بازو کا بندہ بھی عقل کی باتیں کرنے لگے تو اسے بھی فوری طور پہ غدار اور گمراہ ہوجانے کا طعنہ سہنا پڑتا ہے۔
 
فیاض چوہان، فواد چودھری ، شیخ رشید جیسے کردار ہمارے سماج کی کرداری گرد اور ڈسٹ ہیں جو گندگی سے لتھڑی ہوئی ہیں ۔ ان کے رویے بہت تکلیف دہ تو ہیں لیکن یہ اچانک اور حادثاتی طور پہ جنم لینے والے کردار نہیں ہیں۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے ہاں گفتگو کو سنوار کر،ملفوف کرکے پیش کرنے اور وقت کی مصلحت کو دیکھ کر کینچلی بدلنے کی سخت کمی ہے لیکن ان کے ہاں سے جو باتیں ظہور پذیر ہورہی ہیں وہ ایک لمبے عرصے کی بار بار یاد دہانی اور باز خوانی کا نتیجہ ہیں۔
 
دو قومی نظریہ کی گردان سمیت کمیونل سیاست سے جڑے جتنے بھی اسباق ہیں، ان کے ہوتے ہوئے پاکستانی سماج نہ تو تکثیریت پسند سماج بن سکتا ہے اور نہ ہی دوسرے مذاہب بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ خود مسلمانوں کے اپنے اندر جو فرقے ہیں ان کے درمیان باہمی احترام کی فضا پیدا ہوسکتی ہے۔ مذہب اور ریاست کی جب تک باہمی عیلحدگی نہیں ہوگی یہ فضا پیدا نہیں ہوگی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here