کراچی میں آٹھ مارچ کو ہونے والے عورت مارچ میں کچھ شرکاء کی جانب سے اٹھائے ہوئے پلے کارڈزپرطوفان برپا ہے۔ شدید اعتراض کرنے والے خواتین و حضرات کی زیادہ ترتعداد میڈیا سے ہے یا میڈیا کی تعلیم لی ہوئی ہے۔

وہ میری طرح اس مارچ میں شرکت نہیں کر سکے تھے۔ چند پلے کارڈ دیکھے اور اس پر خوشیاں منائیں کہ چلو اچھا ہوا، اس “گند” میں ہم نہیں تھے، تو دوسرے ہمارے کچھ دوست ان کو مبارکباد دے رہے ہیں کہ، اچھا ہوا، آپ نے شرکت نہیں کی، ایک برائی سے بچ گئے۔

کچھ نے شاید شکرانے کے نوافل بھی ادا کئے ہونگے۔

چونکہ سوشل میڈیا پر اعتراض کرنے والے زیادہ تر میڈیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ میڈیا کی پہلی ضرورت سنی سنائی خبر آگے بڑھانے سے سختی سے ممانعت ہے، چاہے وہ تحریر کی شکل میں ہو یا تصویر کی، پہلے اس کی تصدیق یا حقیقی صورتحال معلوم کرنا ضروری ہے۔

ہمارے کسی دوست نے، جو اس مارچ میں شریک نہیں ہوا تھا، اس مارچ کی مکمل خبرلی، نہ کسی سے معلوم کیا۔ فقط کانوں کو ہاتھ لگا کرتوبہ کرنے میں لگ گئے، بہت سوں نے اپنے بلاگ  بھی رکھ دیئے۔

چونکہ میں بھی ان “خوش قسمت” لوگوں میں شامل تھا جو عورت مارچ کی “بدعت” میں جانے سے “محفوظ” رھ گیا تھا۔ میرے سامنے دو انتہائیں موجود تھیں۔ ایک طرف چند پلے کارڈ اٹھائے ہوئے خواتین کی تصویریں، دوسری طرف آہ و بقا کا طوفان اور گالیاں، مہنہ سے جھاگ بہتی محسوس ہو رہی تھی۔

اس میں خواتین و حضرات شامل تھے۔

میں نے کراچی پریس کلب میں بیٹھے چند صحافی دوستوں سے پوچھا کہ آپ میں سے کسی نے عورت مارچ میں شرکت یا رپورٹنگ کی تھی؟

بی بی سی کے ریاض سہیل نے کہا کہ وہ فریئرہال کراچی میں ہونے والے عورت مارچ میں گئے تھے۔

انہوں نے بتایا ” عورت مارچ میں تقریریں کرنے والوں میں کوئی بھی الیٹ کلاس کی خاتوں شامل نہیں تھی، نہ نام نہاد “موم بتی مافیا” کی کوئی خاتوں تھی۔”

عورت مارچ میں جن نے تقریریں کیں ان میں شامل تھیں:

نمبرایک:

ایمپریس مارکیٹ کے باہر ڈرائی فروٹ بیچنے والی خواتین کی نمائندہ ، جو تجاوزات خلاف آپریشن سے متاثر ہوئی تھیں۔

نمبر دو: ٹیکسٹائیل انڈسٹری میں کام کرنے والی خواتین کی نمائندہ

نمبرتین: معزورخواتین کی نمائندہ

نمبرچار: کرسچن کمیونٹی کی نمائندہ خاتون

نمبر پانچ: کھوڑی گارڈن میں تجاوزات کے خلاف آپریشن میں متاثر ہونے والے دکانداروں کی خواتین

نمبر چھے: ٹرانس جینڈر کی نمائندہ

نمبر سات: مسنگ پرسنس کے خواتین نمائندہ

نمبر آٹھ: شیما کرمانی کا ورکرز اشوز پر رقص

نمبر نو: صنم ماروی کی پرفارمنس

نامور خواتین و حضرات میں قرعت مرزا، آئیشا ٹمی حق، شرمین عبید، کرامت علی، ڈاکٹر قیصر بنگالی۔

ایک اندازے کے مطابق دس ہزار شرکاء میں سے زیادہ تر لیاری کی خواتین کچھی کمیونٹی کی خواتین، ابراہیم حیدری کی مچھیروں کی خواتین، اور شہر کے تمام طبقوں کی مڈل کلاس خواتین۔

دس ہزار خواتین میں ہونے والی تقاریرکسی نے نہ سنی، نہ ان کے بارے میں جاننے کی کسی نے کوشش کی۔ البتہ کچھ بینرز پراتنا طوفان کھڑا ہوا، جن کے بارے میں میرے دوست حفیظ کنبھر کا کہنا تھا، یہ وہ گالیاں تھیں جو خواتین کو روزانہ ملتی رہتی ہیں، وہ بینرز پر لکھیں تو ہم لوگ برا مان گئے۔

ہم ان بینرز کی حمایت نہ بھی کریں، یا ان کے حق میں دلائل پیش کریں۔ لیکن میں حیرت زدہ ہوں کہ جہاں، ہرطرف انتہا پسندی ہو، مکالمہ ممانعت بن جائے، وہاں اتنی بڑی تعداد میں خواتین کا جمع ہونا کس کو اچھا لگ سکتا ہے۔

حیدرآباد اور کراچی میں ہونے والے خواتین مارچ نے ایک نئی ہلچل مچا دی ہے۔

ورکرکلاس کی خواتین جمع ہونگی اور ان کی حمایت میں دیگرخواتین باہر نکلیں گی تو استحصالی طبقہ اور ان سے متاثر سوچ تو سیخ پا ہوگی۔ گالیاں تو نکلیں گی، ملامتیں تو ہونگی!!؟

شادی کیلئے لڑکی کی کوئی عمرکی حد مقرر کرنے کے مخالفین تو بھپریں گے۔

میں مشورہ دوں گا ان دوستوں کو کہ مہربانی کر کے کسی نفسیاتی ماہر ڈاکٹر کے ساتھ ملیں، ان سے خواتین کی زیادہ ترمسائل کے بارے میں معلوم کریں۔

کسی پاپولیشن ویلفیئر کی ایل ایچ وی سے معلوم کریں کہ خواتین کس کرب سے گذر رہی ہیں۔

ایک دو بینرز پرغصہ ہونے والے خواتین حضرات سے گذارش ہے کہ آپ صحافی ہیں، یک طرفہ کیوں ہوتے ہیں، گالیاں کیوں نکالتے ہیں۔

کسی نے عورت مارچ میں جاری ہونے والا علامیہ پڑھنے کی زحمت کیوں نہیں کی؟

وہاں تقریریں کیا ہوئیں، باتیں کیا ہوئیں اس پرتھوڑی تحقیق کیوں نہیں کی؟

منتظمین کو بہتر سے بہتر کرنے اور رہ جانے والی کمی کوتاہی دور کرنے کیلئے مشورے دیئے جا سکتے تھے، گالیاں نہیں۔

کسی بھی معاملے میں انتہا پسندی ہی اصل خرابی کی جڑ ہے۔

مایوسی ہوئی کہ مارچ کے بارے میں حقائق معلوم کئے بغیرہمارے میڈیا سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات عامیانہ انداز میں کود پڑے، کچھ معلوم کرلیا ہوتا۔۔۔۔!!!۔

پلے کارڈ بھی قبول نہیں تو، آپ کی انتہاپسندانہ یہ سوچ بھی قبول نہیں۔۔۔

Image may contain: 1 person

قاضی آصف نجی ٹی وی نیوز ون کے کراچی میں چیف رپورٹر ہیں۔

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here