پاکستان میں تاریخ اور سیاست میں سٹیٹس کو برقرار رکھنے کے حامی لکھاریوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے ممدوح دربار و سرکار کے تاریخ دانوں کی جانب سے تاریخ اور سیاست سے کیے جانے والے کھیلواڑ کی نشاندہی پہ آگ بگولہ ہوجاتے ہیں۔ان کے ممدوح جرنیل اور دائیں بازو کے رجعت پسند کیونکہ ان کو مسخ شدہ تاریخ کو درست کرنے کی اجازت نہیں دیتے تو وہ ان پہ غصّہ اتارنے لگتے ہیں جو تاریخ کا ریکارڈ درست کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

سٹیٹس کو برقرار رکھنے والے ان لکھاریوں سے کوئی یہ سوال کرسکتا ہے کہ 23 مارچ کو یوم پاکستان منانے کی تاریخ پہ معرضی انداز سے نظر ڈالنے میں کون سے خطرات پوشیدہ ہیں:

کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ 23 مارچ 1956ء کو پاکستان کا آئین نافذ ہوا تو اس کے بعد سے پہلے مارشل لاء لگنے تک اس دن کو یوم جمہوریہ کے طور پہ منایا جاتا رہا؟

 پھر پہلے اور دوسرے آمر نے اس دن کو کسی بھی طرح کی تقریب کے قابل ہی نہیں سمجھا۔ تیسرے آمر جنرل ضیاءالحق نے اس دن کو یوم جمہوریہ سے بدل کر یوم دفاع کے نام سے منانے کی بدعت شروع کی تاکہ نئی نسل کے ذہنوں سے یہ بات مٹائی جاسکے کہ اس تاریخ کو کبھی یوم جمہوریہ بھی منایا جاتا تھا۔

اختلاف یوم پاکستان منانے پہ نہیں ہے۔ بلکہ اس کے لیے تاریخ اور واقعات کو مسخ کرنے پہ ہے۔ حقیقت کیا ہے کہ 23 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی نے جس قرارداد کا ڈرافٹ تیار کیا تھا وہ 24 مارچ 1940ء کو جلسہ عام میں پیش کی گئی اور اس قرارداد میں لفظ پاکستان موجود نہیں تھا بلکہ غیرمنقسم ہندوستان کے اندر ہی خودمختار ڈومینن کا مطالبہ تھا اور پھر اس قرارداد میں ترمیم مدارس میں مسلم لیگ کے اجلاس میں پیش کی گئی اور اپریل 1946ء میں دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ نے پہلی بار اس قرارداد میں بدلاؤ لاتے ہوئے پاکستان کے قیام کا مطالبہ پیش کیا۔ اب اگر یوم پاکستان منانا مقصود تھا تو یہ یوم تاریخی اعتبار سے اپریل کے مہینے میں منانا چاہئیے۔ 23 مارچ کی قرارداد کو آل انڈیا مسلم کے حامی صحافتی حلقوں نے مطالبہ پاکستان قرار نہیں دیا تھا بلکہ اس وقت یہ پروپیگنڈا ہندؤ کانگریس نواز اور فرقہ پرست کیمپ نے شروع کیا تھا جس کی مذمت اور تردید بھی کی گئی۔

اگر غور سے دیکھا جائے تو پتا یہ چلے گا تاریخ کو مسخ کرکے پیش کرنے پہ اصرار کرنے والے اور 23 مارچ کے حوالے سے تاریخ کا قبلہ درست کرنے والوں کے خلاف طوفان بدتمیزی اٹھانے والے لوگوں کی اکثریت وہ ہے جو صوبائی خودمختاری، پاکستان کے کثیر القومیتی ملک ہونے، بنگالی مسلمانوں کے حقوق کو غصب کرنے جیسے معاملات پہ قرارداد لاہور کی درست تاریخ اور واقعات کے تذکرے سے ہونے والی تصدیق سے گھبراتی ہے کیونکہ یہ وہ حلقہ ہے جو پاکستان میں اول دن سے بسنے والی قومیتوں کی شناخت، ان کے کلچر، ان کے بطور ناقابل تقسیم قومیتی اکائیوں کے حقوق کو غصب کرکے ملک کو ایک مصنوعی وحدت بناکر چلانے والوں کی حمایت کرتا ہے۔ یہ پاکستانی نیشنلزم کی کثیر القومیتی بنیادوں پہ استوار ہونے اور کثرت میں وحدت دیکھنے کی بجائے اور تنوع پہ استوار اتحاد کی تعمیر کرنے کی بجائے سخت گیر مرکزیت قائم رکھنے اور پاکستانی فوج کے اندر طالع آزمائی پہ اصرار کرنے اور اپنے اختیارات و حدود سے تجاوز کرنے والی لابی کے وجود سے انکار کرنے والوں کا حامی ہے۔

جب پاکستان کے بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ پنجاب کے رہنے والےعام شہری کو یہ پتا چلے گا کہ قرارداد لاہور میں چار خودمختار صوبائی یونٹوں کی بات کی گئی تھی تو وہ یہ سوچ رکھے گا کہ وفاقی اکائیوں کو اختیارات دینے اور ان کو خود مختار بنانے سے مسلم یا پاکستانی شناخت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے کیونکہ ایسا ہوتا تو آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت ایسی قرارداد کیوں منظور کرتی؟

اگر گہرائی میں جاکر دیکھا جائے تو 23 مارچ کی قرارداد پہ ایک غیرجانبدارانہ اور معروضی تحقیق پہ بات چیت کی مخالفت پاکستان کے اندر وہی لوگ زیادہ کرتے ہیں جو اصل میں پاکستان کے اندر غیر جمہوری، آمریت پسند، طاقتور مرکزیت پسند اور پاکستان کی کثیرالقومیتی شناخت اور صوبائی خودمختاری کے مخالف ہیں۔

ان کا طریقہ واردات کیا ہے؟ یہ پاکستان میں آمر جرنیلوں اور سیاسی جمہوری عمل میں مداخلت کرنے والے فوجیوں پہ تنقید کو مسلح افواج کی مخالفت کا نام دیتے ہیں۔ یہ جمہوری اور صوبائی خودمختاری کی ضمانت دینے والے پاکستان کے تصور رکھنے والوں کو پاکستان مخالف بناکر پیش کرتے ہیں اور ایسے میں تاریخ کے ساتھ کھیلواڑ کو جائز منوانے پہ اصرار کرتے ہیں۔

اگر ان کی باتوں پہ غور کیا جائے تو ان باتوں سے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آپ تاریخ پاکستان پہ بات کرتے ہوئے منٹگمری میدان میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ 22 تا 25 مارچ کی روداد میں یہ بات مت کریں کہ ورکنگ کمیٹی نے قرارداد کا فائنل ڈرافٹ 23 اور جلسے میں اسے 24 مارچ کو پیش کیا تھا۔ اور یہ بھی مت کہیں کہ آل انڈیا مسلم لیگ آفیشل طور پہ اسے ہمیشہ قرارداد لاہور قرار دیتی رہی اور آل انڈیا مسلم نے مطالبہ پاکستان کی منظور اپریل 1946ء کو دہلی اجلاس میں دی۔ یہ اس بات پہ بھی اصرار کرتے ہیں کہ پاکستان کی آئین سازی کی تاریخ میں 23 مارچ 1956ء کو آئین کے نفاذ اور اس دن کو یوم جمہوریہ کے طور پہ منانے کا ذکر بھی حذف کردیں اور یہ بھی نہ بتائیں کہ اس دن کو دو مارشل لاؤں میں نہ یوم جمہوریہ اور نہ ہی یوم پاکستان کے طور پہ منایا گیا۔ اور یہ ٹولہ یہ بھی چاہتا ہے کہ ہم یہ بھی ذکر نہ کریں کہ قیام پاکستان 1947ء سے لیکر 1979ء تک کسی حکومت نے اس دن کو یوم پاکستان کے طورپہ نہیں منایا بلکہ یہ دن یوم پاکستان کے طور پہ جنرل ضیاء الحق نے منانا شروع کیا۔ کیوں یہ ساری باتیں پاکستان کی تاریخ کے طالب علموں کو نہ بتائی جائیں؟

اب آپ زرا اس دن کی تاریخ پہ بحث کرنے والوں کی تنقید ملاحظہ کرلیں۔ میں آخری دو نکات کے بارے میں یہ کہوں گا پاکستان کی فوج کو فوجی پریڈ کرنے کا حق ہے اور اگر 23 مارچ کو یوم جمہوریہ منایا جائے تو اس دن فوجی پریڈ اور فوجی نمائش کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ پاکستان کے ٹوٹ جانے کے بعد اگر بنگلہ دیش 23 مارچ کو یا کسی اور دن یہ یوم مناتا تو اس پہ تو اعتراض ہوتا لیکن یہ اعتراض موجودہ پاکستان پہ کرنا نہیں بنتا۔

ہم پاکستان میں (نیو) لبرل کیمپ میں ایک کمرشل مافیا کے وجود سے انکاری نہیں ہیں اور ان پہ ہماری تنقید بھی سب کے سامنے ہے لیکن اس تنقید کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اگر ان کی طرف سے کوئی ٹھیک بات بھی آئے تو اسے غلط قرار دے دیا جائے۔ تو تئیس مارچ کے حوالے سے تاریخ کے ٹھیک اور مسخ شدہ موقف اور بیانات میں تمیز ہرگز برا کام نہیں ہے۔ اس کام کو کرنے والوں کو لنڈے کے دانشور قرار دینا یا رنڈی رونا کہنا اصل میں بذات خود لنڈے کی دانشوری اور اپنے ممدوح آمروں اور حکمران طبقات کے جرائم کے بے نقاب ہونے پہ رنڈی رونا ہے:

اب جبکہ یوم پاکستان میں محض چار یوم باقی ہیں، دانشوروں سے درخواست کی جاتی ہے کہ ہر بار کی طرح اس بار بھی درج ذیل موضوعات کو اپنے رانڈ رونے کا حصہ بنائیے:

1۔ قرارداد پاکستان 22 مارچ کو پیش اور 24 مارچ کو منظور کی گئی تھی۔

2۔ اس قرارداد کا اصل نام تو قرارداد لاہور ہے، اس میں پاکستان کا ذکر ہی نہیں۔

3۔ قرارداد پیش کرنے (حقیقتاً پڑھنے) والا ایک بنگالی تھا اور پنجاب نے بنگال کے ساتھ بہت برا سلوک کیا۔

4۔ قرارداد میں ایک نہیں، متعدد خود مختار ریاستوں کا ذکر تھا۔

5۔ جب قرارداد پیش کی گئی، اس وقت مسلم لیگ برصغیر کے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت نہیں تھی۔

6۔ یوم پاکستان دراصل 23 مارچ 1956 کو پہلے آئین کے نفاذ کا دن تھا، اسے غلط طور پر 23 مارچ 1940 سے منسوب کیا جاتا ہے۔

7۔ پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد یوم پاکستان منائے جانے کا کوئی جواز نہیں۔

8۔ قرضوں کی دلدل میں ڈوبے اور ساٹھ فیصد ناخواندگی والے ملک کو ایسے دن منانا زیب نہیں دیتے۔

(اور 23 مارچ کی صبح سے رات تک)

9۔ جو فوج ملک کا 80 فیصد بجٹ کھا جاتی ہے، اسے پریڈ کرنے کا کیا حق ہے؟

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here