دیوبندی سنّی حنفی فرقے کے معروف عالم مفتی تقی عثمانی جمعہ کے روز قاتلانہ حملے میں بال بال بچ گئے، جب نیپا چورنگی کے قریب ان کی کار پہ دونوں اطراف سے فائرنگ کی گئی اور اس کے نتیجے میں ان کی کار میں حفاظت کے لیے موجود پولیس اہلکار جاں بحق ہوگیا۔ جبکہ ان کے ساتھ ایک دوسری کار پہ فائرنگ کے نتیجے میں دو گارڈ جاں بحق اور کار چلانے والے دارالعلوم کے مفتی عامر شدید زخمی ہوگئے۔

سندھ کے دارالحکومت کراچی میں ایک فرقے کے انتہائی معروف عالم پہ ہوئے قاتلانہ حملے نے پورے ملک میں سنسنی پھیلادی ہے۔ اور اس واقعے کے اغراض و مقاصد کے بارے میں طرح طرح تبصرے کیے جارہے ہیں۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ اس واقعے کو سرانجام دینے والے کوئی بھی ہوں،ان کا مقصد پاکستان کے سب سے بڑے معاشی مرکز کو عدم استحکام سے دوچار کرنا تھا اور اس سے سندھ میں فرقہ وارانہ فساد کو برپا کروانا تھا۔

اس حملے کے فوری بعد وزیراعظم ہاؤس سے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے مذمتی بیان جاری ہوا اور اس بیان میں سندھ حکومت کو فوری طور پہ صوبے کی سیکورٹی کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا گیا اور گورنر سندھ نے بھی اپنے بیان میں سندھ حکومت کے صوبے میں سیکورٹی انتظامات پہ سوالیہ نشان لگاتے ہوئے کہا کہ مفتی تقی عثمانی نے دھمکیاں ملنے اور سیکورٹی خدشات کا زکر کیا تھا۔

یہ کتنی دلچسپ بات ہے کہ اس حملے کے فوری بعد ڈی آئی جی کراچی عامر فاروقی مقامی ہسپتال میں مفتی تقی عثمانی سے ملے اور ان سے پوچھا کہ کیا ان کو اس حملے کے حوالے سے پہلے سے خدشات تھے تو انہوں نے اس بات سے انکار کیا۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ گورنر سندھ کے پاس کونسے زرایع سے یہ خبر پہنچی کہ مفتی تقی عثمانی نے اپنے آپ کو دھمکیاں ملنے کا ذکر کیا تھا؟ اور اگر ان سے یہ ذکر مفتی تقی عثمانی نے کیا تھا تو پھر انہوں نے یا ان کی وفاق میں حکومت کے تحت وفاقی وزرات داخلہ نے سندھ حکومت کو کوئی خط اس حوالے سے کیوں نہیں لکھا؟

حملے کے فوری بعد ایوان وزیراعظم اور گورنر ہاؤس سے جاری بیانات میں سندھ حکومت کو بالواسطہ اس حملے کا الزام دینا خطرے کی گھنٹی بجاتا ہے اور ساتھ ہی ان خدشات کو تقویت دیتا ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی سندھ میں حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے اور امن و عامہ کو بنیاد بناکر سندھ حکومت کو ختم کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔

کراچی میں ایک معروف عالم دین پہ یہ حملہ اس وقت ہوا ہے جب سندھ میں حکومت کرنے والی پاکستان پیپلزپارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری موجودہ حکومت پہ کالعدم تنظیموں کے خلاف آپریشن کو دھوکہ اور فریب قرار دیتے ہوئے کالعدم تنظیموں پہ ایک جے آئی ٹی بنانے کا مطالبہ کررہے ہیں اور انھوں نے موجودہ وفاقی حکومت کے تین وزراء کے کالعدم تنظیموں سے رابطوں کا انکشاف کرتے ہوئے ان سے استعفوں کا مطالبہ بھی تواتر سے دوہرایا ہے۔ ان کے اس موقف پہ ان کے خلاف حکمران جماعت نے غداری اور اسلام مخالفت کے فتوؤں پہ مبنی مہم چلارکھی ہے۔

کئی ایک تجزیہ نگاروں نے مفتی تقی عثمانی پہ ہوئے قاتلانہ حملے کو نادیدہ قوتوں کی جانب سے بلاول بھٹو کے لیے ایک تنبیہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں نے جس طرح سے مفتی تقی عثمانی کی گاڑی کو نشانہ بنایا اس سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ان کا مقصد مفتی تقی عثمانی کو براہ راست نشانہ بنانا نہیں تھا۔

بلاول بھٹو نے پاکستان کے موجودہ وزیراعظم کو سلیکٹ اور کٹھ پتلی قرار دیا اور ان کے اس بیانات کو لیکر ان پہ تنقید کرنے والوں نے یہ اشارے دیے کہ بلاول بھٹو پاکستان میں غیر منتخب عسکری ہئیت مقتدرہ میں ان قوتوں کی جانب اشارہ کررہے تھے جو ان کے بقول پی ٹی آئی کو اقتدار میں لیکر آئی ہیں اور یہ عسکری ہئیت مقتدرہ میں مبینہ طور پہ جہادی اور کالعدم تنظیموں کو اثاثہ سمجھنے والی لابی سمجھی جاتی ہے۔

تجزیہ نگاروں کا خیال یہ ہے کہ جسطرح 2008ء سے 2012ء تک پاکستان پیپلزپارٹی اور اس کی اتحادی تین صوبوں میں اور وفاق میں حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے فرقہ پرست، نسل پرست دہشت گردوں کو فری ہینڈ دیا گیا تاکہ پی پی پی کو اسٹبلشمنٹ میں عقابی ٹولے کے آگے گھٹنے ٹیکنے پہ مجبور کیا جائے اب بھی یہی عقابی ٹولہ پاکستان تحریک انصاف سے ملکر پاکستان پیپلزپارٹی کو جمہوری بالادستی، اٹھارویں ترمیم، دہشت گردی کے خلاف بنائے گئے ایکشن پلان پہ عمل درآمد کے مطالبوں سے دست بردار کرانا چاہتی ہے۔

وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے گزشتہ روز بہت ہی معنی خیز انداز میں کہا کہ بلاول بھٹو جب گاڑی کے بونٹ پہ کھڑا ہوکر تقریر کرتا ہے تو ان کو بڑا خوف آتا ہے۔ سوال یہ جنم لیتا ہے کہ آخر بلاول بھٹو زرداری اور ان کی پارٹی کو ہی کھلی سیاسی سرگرمیوں سے جان کے خطرات پیدا ہوتے ہیں؟ آخر دہشت گرد پی پی پی کی لیڈرشپ کو نشانہ کیوں بناتے ہیں؟ یا پھر وہ اے این پی کی قیادت پہ کیوں حملہ آور ہوتے ہیں؟

مفتی تقی عثمانی پہ قاتلانہ حملے نے یہ خدشات پیدا کردیے ہیں کہ سندھ کے اندر دیوبندی یا شیعہ یا پھر بریلوی معروف شخصیات پہ حملے ہوسکتے ہیں اور ان کا الزام پی پی پی کی سندھ حکومت کے سر منڈھا جاسکتا ہے۔ کیا نادیدہ قوتیں پی پی پی سندھ کی حکومت کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے سندھ میں رہنے والی معروف مذہبی شخصیات کی قربانی کا انتظام تو نہیں کررہیں؟ جمہوریت پسند طاقتوں کو بہت زیادہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here