یورپ میں مقیم ایک دوست نے جناب مستنصر حسین تارڑ کے سفری روزنامچے ”ہیلوہالینڈ “کے صفحات کے کچھ عکس بھیج کر دریافت کیا کہ: ”کیا یہ بات سچ ہے کہ ہالینڈ کے معروف فلم ڈائریکٹرکو ایک پاکستانی نے جذبہ ایمانی کے تحت قتل کردیا تھا؟“اس سوال نے مجھے ان کی اس تخلیق کو پڑھنے پر مائل کیا۔ ہالینڈ میں ہمیں اک علم دوست پاکستانی کے کتب خانہ سے مذکورہ سفری ڈائری پڑھنے کو مل گئی۔
آجکل عالمی سطح پر فیک نیوز اور جھوٹی اطلاعات کا مسئلہ سنجیدگی اختیار کرتا جارہا ہے۔اس بات میں دو رائے نہیں کہ اگر کسی کتاب میں درج بے سر و پا باتوں کی بر وقت اصلاح نہ کی جائے تو وقت گزرنے کے ساتھ کتاب میں شایع ہوا مواد تاریخ کا حصّہ بن جاتا ہے تو پھر سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ سفری ڈائری میں درج تاریخ، ثقافت اور سیاست سے متعلق واقعات عام طور پر فکشن نہیں ہوتے کہ انہیں نظرانداز کر دیا جائے۔میں ادب کا ناقد نہیں، یہ مضمون مذکورہ کتاب میں ہالینڈ کی بابت درج مغالطوں کی درستی کی نیت سے تحریر کیا ہے۔
اپنی سفری روداد میں مصنف لکھتے ہیں کہ:
”سیر سے واپسی پر جیب ٹٹولی تو ریموٹ ندارد۔چنانچہ میں نے بند پھاٹک کے ستون میں نصب انٹرکام کے بٹن کو دبایا اور سپیکرکے قریب منہ کو لاکر”ہیلوہیلو،کوئی ہے پکارنے لگا۔ اس دوران ایک ڈچ خاتون اپنے دبیز کتے کے ہمراہ جو دل آویزی میں اس سے کہیں برتر تھا، لمحے بھر کے لیے ٹھٹک گئی کہ یہ غیر ملکی جو شکل سے مسلمان دکھتا ہے جانے اس شاندار رہائش گاہ کے گیٹ میں کوئی آتش گیر مواد چپکے چپکے نصب کر رہا ہے۔“
مصنف کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ مذکورہ بالا خاتون ڈچ ہی تھیں! سفیر پاکستان کی قیام گاہ(جہاں مصنف بطورِمہمان مقیم تھے) کے سامنے برطانوی سفیر کا گھر ہے، ان کے پڑوس میں کینیڈا کے سفیر رہتے ہیں اور دیگر ممالک کے ڈپلومیٹس اس محلے کے باسی ہیں۔ بات اخلاق سے گری ہوئی ہے کہ ایک خاتون کی دل آویزی کا موازنہ اس کے کُتے سے کرکے کُتے کو زیادہ دل آویز قرار دیا جائے۔ دوسری بات یہ کہ اک اجنبی خاتون کو کیسے گمان ہوا کہ مصنف شکل سے مسلمان لگتے ہیں؟ اس قیافہ کا تو کوئی مسیحی بھی ہو سکتا ہے اور ہندو بھی یا کوئی ملحد بھی۔صاحب تصنیف نہ تو با ریش ہیں اور نہ ہی تسبیح ہاتھ میں لیے گھومتے ہیں۔ ویسے بھی ہمارے خطّے کے لوگ ہمیشہ سے تو مسلمان نہیں تھے۔شاید ہمارے ہر دل عزیز تارڑ صاحب نے ٹیلی پیتھی کے ذریعے جانا ہوگا کہ خاتون، اُن کے بارے میں کیا سوچ رہیں تھیں۔مصنف یہ بھی تو لکھ سکتے تھے کہ شاید محترمہ سوچ رہی ہوں کہ اس اجنبی کو کسی مدد کی ضرورت ہے۔
اس سفری روزنامچہ میں تضاد کا یہ عالم ہے کہ اس میں ایک طرف ڈچ شہریوں کی سیلاب زدہ پاکستان کو امداد کو سراہا گیاہے تو دوسری جانب ایک ڈچ شہری کو بلاوجہ بدگمان ظاہر کیا ہے۔جس وقت مصنف ہالینڈ کی سیاحت کر رہے تھے تو گورے ولندیزیوں اور مسلمان ڈچ برادری میں کسی قسم کا تناؤ نہیں تھا۔ جناب اس تصنیف میں اپنی طرف اشارہ کرتے ہوے لکھتے ہیں کہ:
”کسی ایسے ہی خد و خال والے غیر ملکی نے ان کے سب سے بڑے تخلیقی دیوتا کے پوتے کو بیدردی سے قتل کردیا تھا“۔
مذکورہ قتل کا سانحہ تارڑصاحب کی ہالینڈ یاترا سے سات برس پہلے کا ہے۔ مقتول فلم ڈائریکٹر کے بارے میں اس سفری روداد میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ”وہ کسی قابل نہ تھا بس اپنے دادا کی کھٹی کھاتا تھا“ اس بابت عرض ہے کہ مقتول ”تھیو فان خوخ“ ہالینڈ کا ایک مشہور فلمساز تھا، اس کی فلم ”بلائنڈ ڈیٹ“کو ہالینڈ کا سب سے بڑا فلمی ایوارڈ ”سنہرا بچھڑا“ملا تھا۔ مصنف نے لکھا ہے کہ انہیں ہالینڈ میں کوئی ایسا شخص نہیں ملا جس نے اس فلمساز کی فتنہ پرور فلم ”فتنہ“ دیکھی ہو۔ اگرگوگل یا یو ٹیوب کے ذریعے کچھ تحقیق کرلی جاتی تو باآسانی معلوم ہو جاتا کہ کتنے ملین افراد نے یہ فلم دیکھی تھی۔

اس سفری ڈائری میں درج ہے کہ
صرف اس لیے کہ کسی ایک پاکستانی نے اسے سنجیدگی سے لے لیا اور فان خوغ کے پوتے (فلم ڈائریکٹر) کو قتل کر کے سرخ رو ہوگیا
اس جملے سے یہ تاثرملتا ہے کہ مصنف مذہبی نظریاتی اختلاف کی بنا پر قتل کو سراہتے ہیں!۔۔۔۔۔خدا کی پناہ تارڑصاحب، دیار غیر میں بسی اس محنت کش برادری پر رحم فرما ئیں۔
یقین کریں کہ ُدور دُور تک کوئی بھی پاکستانی کسی بھی طرح ولندیزی فلم ڈائریکٹر کے قتل میں ملوث نہیں تھا۔
کاش مصنف اپنے سفری روزنامچے کا مسودہ شایع ہونے سے پہلے سفیر ِپاکستان کو دکھا دیتے تو وہ ان کی اصلاح کر دیتے۔

مذکورہ فلم ڈائریکٹر کو ایک مراکشی نژاد انتہا پسند ڈچ نوجوان نے قتل کیا تھا۔ہالینڈ میں پاکستانی کمیونٹی کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں نکلا ہے،البتہ چند ماہ قبل علامہ خادم حسین رضوی کی اپیل سے متاثر ہوکربلجیم سے ایک پاکستانی نوجوان دائیں بازو کے سیاسی رہنما ”خیرت وِلدرز“کو قتل کرنے کے ارادے سے ہالینڈ آ یا تھا جسے ڈچ پولیس نے پارلیمنٹ کے پاس سے گرفتار کرلیا تھا۔ علامہ صاحب کے خیالات سے متاثر وہ نوجوان اب مقدمے کا سامنا کر رہا ہے۔
اب اس سفری داستان پر کچھ ہلکی پھلکی باتیں بھی ہو جائیں۔ فی زمانہ صنفی امتیاز کی عالمی تحریک شدّت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک تو ایک طرف ترقی پذیر ملک فلپائن میں اس بات کا مطالبہ ہو رہا ہے کہ ایسے تمام لطیفوں پر پابندی لگائی جائے جن سے خواتین کی تضحیک کا پہلو نکلتا ہو۔مصنف نے اپنی سفری روداد میں کئی جگہ خواتین پر جنسی پیرایے میں جملے کسے ہیں۔ ٹرین میں سامنے بیٹھی ہوئی فربہ ڈچ لڑکیوں کے جسمانی خد و خال پر تبصرہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ
”راستے میں یونیورسٹی ٹاؤن آیا جہاں ٹرین رکی تو وہ حشر ساماں لڑکیاں کھڑی ہوئیں تو ڈبے کی چھت سے ٹکراتے بچیں اور پھر جھکی جھکی سٹیشن پر اترگئیں۔۔۔شاید وہ لائیڈن کی مشہور یونیورسٹی میں پڑھتی تو ہوں گی لیکن کسی نہ کسی کو ان بدنوں کے ساتھ پڑتی بھی ہوں گی۔“
ایک تقریب میں شریک ساتھی جرمن پاکستانی شاعرہ کے متعلق انہوں نے اپنی زوجہ سے سنا کہ وہ روحانی طاقت کی حامل خاتون ہیں بقول شاعرہ کہ انہوں نے ایک کینسر کے مریض کو چھوا تو اسے کینسر کے موزی مرض سے نجات مل گئی تھی۔ موصوف نے اس بات سے متعلق یوں جملہ تخلیق کیا:
”مجھے بہت قلق ہوا کہ آخر میں،کیوں فیضیاب نہ ہوا کہ میرے بدن میں بھی کچھ قریب المرگ مقامات تھے“
خواتین کی تضحیک پر مبنی تحریر کو شایدپاکستان میں ادب کا درجہ دیا جائے لیکن مہذب دنیا میں ایسی تحریروں کی گنجائش نہیں۔ مصنف نے ایمسٹرڈیم کے بارے میں فسانہ طرازی کرتے ہوئے تحریر کیا کہ:
”جب میں نے کہیں سے کچھ سگرٹ خریدنا چاہے اور وہاں اجتناب کرنا پڑا کہ۔۔۔وہاں ایمسٹرڈیم کے کوچہ و بازار میں کہیں بھی سادہ سگریٹ میسر نہ تھے۔۔۔لوڈڈ تھے، چرسیلے اور بھنگی سگرٹ۔“
فسانہ طرازی اور جھوٹ میں کوئی تو فرق ہونا چاہے، اگر مصنف عقل کے گھوڑے دوڑاتے تو کم از کم یہی سوچ لیتے کہ مساوات موجودہ یورپ کی تہذیب کا بنیادی اصول ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہالینڈ کے سب سے بڑے شہر کے باسیوں کو عام سگرٹ سے محروم رکھ کر نشے والے سگرٹ پینے پر مجبور کیا جائے۔ قارئین کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ چرس یا بھنگ کی سگرٹ صرف مخصوص کوفی ہاؤس سے ہی خریدی جاسکتی ہے۔
مصنف نے اپنے مذکورہ سفری روزنامچہ میں اپنے میزبانوں اور مہربانوں پر بھی نا معقول پھبتیاں کسی ہیں۔ ایک پاکستانی نے بلجیم میں مصنف اور ان کے ساتھیوں کو اپنے گھر مہمان ٹہرایا۔میزبان کے گھر کے کمروں میں ان کی والدہ کی تصاویر آویزاں تھیں، تارڑ صاحب نے اسی بات کا فسانہ بنالیا۔ بھئی کسی اپنا کا گھر ہے وہ جیسے چاہے سجائے، آپ کو تو شکر گزار ہونا چاہے کہ دیار غیر میں کسی نے عزت و تکریم سے آپ کو اپنا مہمان بنایا۔ ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن میں اُردو اور موصوف کے ایک پرستار، ہندوستانی شہری شکلا صاحب نے انہیں ساتھیوں سمیت عشائیے پر مدعو کیا۔وہاں اُن کے لباس، شکل و صورت اور عقیدے کو تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔
میری دعا ہے کہ شکلا صاحب نے یہ سفری داستان نہ پڑھی ہو۔جناب نے اِن کے یورپ کے دورے کے منتظم،اہلِ علم میزبان اعجاز سیفی صاحب پراس طرح پھبتی کسی: ”سیفی صاحب اپنی بے ڈھنگی ٹانگوں پر ایک اونی پاجامہ چڑھائے عینک سنبھالے پھرتے ہیں۔“
سفیر ِپاکستان کی قیام گاہ کے گھریلو ملازمین جو دن رات ان کی خدمات پر مامور تھے ان پر بھی بے دردی سے خوب ادبی تشتر چلائے گئے۔”باورچی اور دستر خوان چُننے والا جمیل غٹرغوں غٹرغوں کر کے بولتا تھا، ڈرائیور شاہد کے دماغ میں گراریاں چلتی رہتی تھیں۔“کاش مصنف سفیر پاکستان کے گھر میں تہ خانے کا بھی جائزہ لے لیتے جہاں گھریلو خادمین غیر انسانی ماحول میں رہنے پر مجبور ہیں۔ہالینڈ کے قانون کے مطابق ہوا اور روشنی کے گزر کے بغیر کسی بھی جگہ کو انسانوں کے رہنے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔اس تصنیف میں اگر سراہا گیا ہے تو بس سفیر ِپاکستان، ان کی اہلیہ اور ان کے محل نما مکان کو۔ یہ ایک اشرافیہ پرست، خوشامدی اور درباری قسم کی غیر معیاری تخلیق ہے۔ گمان یہ ہے کہ شاید اسے بھی بہت جلدایک ادبی تخلیق کی فہرست میں
شمار کیا جائے گا۔

Safdar Nawaid Zaidi's Profile Photo, Image may contain: 1 person, smiling

صفدر نوید زیدی ایمسٹرڈیم ہالینڈ میں مقیم ادیب و صحافی ہیں، ان کے دو ناول شایع ہوچکے ہیں

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here