آج 23 مارچ 2019ء کو شہید بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کو انگریز سامراج کے ہاتھوں پھانسی دیے 80 سال ہونے کو آئے ہیں۔ یہ واقعہ 1939ء کو پیش آیا تھا اور اس کے بعد تقسیم ہند سے پہلے یہ دن جب بھی آیا تو متحدہ ہندوستان میں کوئی سیاسی جماعت ایسی نہ تھی جس نے شہید بھگت سنگھ ڈے نہ منایا ہو۔ شہید بھگت سنگھ کو خود آل انڈیا مسلم لیگ نے بھی اپنی مجلس عاملہ میں ایک قرارداد منظور کرکے خراج عقیدت پیش کیا تھا۔

لیکن انگریز سامراج سے رسمی آزادی کے بعد ہندوستان کی تقسیم ہونے اور پاکستان و انڈیا دو الگ الگ ممالک بن جانے کے بعد پاکستان کی سرکاری تاریخ سازی میں ایک ایک کرکے سارے ہندؤ، سکھ اور یہاں تک کہ کرسچن کردار بھی خارج کردیے گئے۔

 بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں نے انگریز سامراج کے ہاتھوں سے آزادی کی جو تحریک شروع کی تھی اس کی بنیاد مذہب نہیں تھا بلکہ وہ سارے ہندوستان میں رہنے والوں کے لیے آزادی کی مانگ کررہے تھے اور بھگت سنگھ خود ذاتی طور پہ ہندوستان کو ایک سوشلسٹ جمہوریہ میں بدلنا چاہتے تھے۔

بھگت سنگھ کا سکھ خاندان سے ہونا اور ان کے ساتھیوں کا مسلمان خاندان کا پس منظر نہ رکھنا پاکستان میں نشر و اشاعت اور تعلیمی نصاب کے جملہ اداروں پہ غالب افراد کے ذہنوں پہ سوار سیاسی اسلام ازم بری طرح سے کھٹکا اور انھوں نے یہ تاثر دیا کہ بھگت سنگھ اور ان کے ساتھی کیسے ہماری تاریخ کے ہیرو قرار پاسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور پنجاب میں جو بھی حکومت آئی اس نے نہ تو بھگت سے جڑی یادوں اور آثار کو جو پاکستان کے شہر فیصل آباد، لاہوراور جڑانوالہ میں موجود تھیں ان کو قومی ورثہ قرار نہ دیا اور نہ ہی شادمان جیل جو آج شادمان روڈ میں بدل چکی ہے وہاں پہ شہید بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کی یادگار تعمیر کی اور نہ ہی راوی کنارے جہاں پہ ان کی ارتھیوں کا انتم سنسکار ہوا وہاں بھی کوئی یادگار تعمیر نہیں ہوئی۔

جبکہ دوسری جانب ہندوستان نے نہ صرف بھگت سنگھ کی امرتسر میں شہید مینار کھڑا کرکے یادگار قائم کی بلکہ ان کے جالندھر میں آبائی گاؤں میں بھگت سنگھ کا مجسمہ بھی لگایا گیا۔ جبکہ بھگت سنگھ کی برسی ہو یا یوم ولادت ہندوستان کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اس موقعہ پہ کافی کچھ مواد پیش کرتا ہے۔ اگرچہ بھگت سنگھ کو ہندوستان میں نیشنل کانگریس نے ‎سیکولر نیشنلسٹ، بھارتیہ جنتا پارٹی اور اکالی پارٹیوں نے مذہبی نیشنلسٹ بناکر دکھانے کی کوشش کی لیکن بھگت سنگھ کی اپنی تحریریں ثابت کرتی ہیں کہ وہ سوشلسٹ خیالات کو اپنا چکے تھے اور ان کی کے مقدمے کی سماعت کے دوران سوویت روس کی جب سالگرہ آئی تو سارے ساتھیوں نے سوویت روس کے لیڈر لینن کو خراج تحسین بھی پیش کیا تھا۔

آج پاکستان کے تمام اردو اخبارات اور ڈیلی ٹائمز کو چھوڑ کر سارے کے سارے انگریزی اخبارات نے بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کے یوم شہادت کو مکمل طور پہ نظر انداز کیا ہے۔ ڈیلی ٹائمز نے بھی صرف بائیں بازو کے لکھاری ڈاکٹر لال خان کا آرٹیکل شایع کیا ہے لکن اس حوالے سے کہیں بھی کوئی خبر شایع نہیں کی۔ اب جبکہ یہ سطور لکھی جارہی ہیں تو مین سٹریم الیکٹرانک میڈیا نے بھی شہید بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کی شہادت بارے کوئی نیوز آن ائر نہیں کی ہے۔

پاکستان کی بورژوا/سرمایہ دار سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی اس دن بھگت سنگھ  ڈے کو مکمل طور پہ نظر انداز کیا گیا ہے۔ ان کی مرکزی قیادت نے ایک ٹوئٹ تک بھی اس حوالے سے نہیں کیا۔ عوامی ورکرز پارٹی، لال سلام ورکرز فرنٹ، نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن، انقلابی سوشلسٹ، این ایس ایف اور ڈی ایس ایف وغیرہ پہ مشتمل بائیں بازو کے گروپ اور تنظیمیں اس دن کو لاہور،فیصل آباد،کراچی،کوئٹہ، پشاور وغیرہ میں منارہے ہیں۔

جبکہ ہندوستان سے شایع ہونے والے اکثر وبیشتر اخبارات کی آفیشل نیوز وب سائٹس پہ بھگت سنگھ ڈے کی خبریں اور مضامین موجود ہیں۔

پاکستانی مین سٹریم میڈیا کے ذمہ داران کو پاک و ہند کے مشترکہ تاریخی ورثے کے پاکستان کی اجتماعی یادداشت سے خارج کرنے کے عمل کی پیروی ترک کرنا ہوگی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here