ندیم اسلم پاکستانی نژاد برطانوی ناول نگار ہیں۔ اب تک ان کے پانچ ناول پبلش ہو چکے ہیں اور وہ کئی ادبی ایوارڈز بھی چیت چکے ہیں۔ میرا ان سے تعارف سلمان یونس صاحب نے کروایا جب میں اُن سے اپنی مایوسی کا ذکر کر رہا تھا جو ایک پاکستانی ناولسٹ کے مشہور ناول کو پڑھنے کے بعد ہوئی تھی۔ انہوں نے ایچ ایم نقوی کا ہوم بوائے، ندیم اسلم کا میپ فار لاسٹ لورز اور علی اعتراض کا چلڈرن فار ڈسٹ پڑھنے کو کہا۔ اب تک ہوم بوائے اور میپ فار لاسٹ لورز پڑھ چکا ہوں لیکن مجھے زیادہ پسند میپ فار لاسٹ لورز آیا ہے۔

میپ فار لاسٹ لورز 2004 میں شائع ہوا لیکن اس کو لکھنے کے لیے گیارہ سال لگ گئے جن میں سے پہلا چیپٹر لکھتے ہوئے انہیں چھے سال لگے۔ پہلے چیپٹر کے ستر صفحے لکھ کر انہوں ے سب کچھ ضائع کر دیاسوائے ایک جملے کے۔۔اینڈیپینڈنٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس ناول کے لیے انہوں نے اپنے آپ کو تقریباً دنیا سے قطع تعلق کر کے بہت محدود کر لیا تھا اور جب ناول ختم کیا تو تب جا کر موبائل خریدا تا کہ وہ لوگوں سے رابطہ کر سکے۔

یہ ناول پچاس سے لے کر نوے کی دہائی تک پھیلے پاکستانیوں کی کہانی ہے جو اپنا ملک چھوڑ کر برطانیہ میں آئے اور پھر یہاں کے ہو کر ریہہ گئے۔ 526 صفحات پر پھیلے اس ناول میں بدلتے کلچر کے انسانی زندگیوں پر اثرات کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ ناول اس قدر تفصیل سے لکھا گیا ہے کہ قاری پڑھتے ہوئے خود کو کرداروں کے ساتھ منسلک کر لیتا ہے اور آخری چیپٹر تک پہنچتے خود کو کہانی میں کھویا ہوا پاتا ہے۔ میرے نزدیک شروع سے آخر تک سیسپنسز قائم رکھنا اور وہ بھی اتنے ضخیم ناول میں بہت بڑا کام ہے۔ یہ ناول شاعری تاریخ، نسل پرستی، مذہبی بنیاد پرستی، حلالہ، جنریشن گیپ اور کلونیل اثرات جیسے وسیع موضوعات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ نصرت فتح علی خان کی گائکی اور وحمق سلیمی کی شاعری کے ساتھ تتلیوں اور پھولوں سے بھرا جانے والا رنگ ناول میں ایک خوبصورت سما باندھ دیتا ہے۔

ندیم علی کی نثر پڑھنا اس قدر عیاشی ہے کہ مجھ جیسے نالائق ریڈر نے پہلی دفع اتنا ضخیم ناول بڑی ہمت کر کے پکڑا اور بس دو نشتوں میں اس کو ختم کرنا پڑا۔ ناول کو چار موسموں میں تقسیم کر کے لکھا گیا ہے۔ انسانی زندگی کے بدلتے حالات احساسات اور جزبات کا ان موسموں سے تعلق اس شاندار انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ قاری داد دیے بغیر نہیں ریہہ سکتا۔ ندیم اسلم کے بقول یہ ناول کسی کی زندگی پر نہیں بلکہ ان کی اپنی زندگی کی حقیقت ہے۔ جو انہوں نے دریافت کی یا اس میں ان کے تخیل کی پرواز تھی جو اس ناول کی بنیاد بنی۔ میرے لیے دلچسپ یہ جاننا تھا کہ جلیانوالہ باغ کے ردعمل میں گوجرانوالہ ضلع میں ہنگامے ہوئے اور شیخوپورہ، چوڑ کانہ اور ننکانہ صاحب تک کے لوگوں نے احتجاج کیا جن کو خاموش کروانے کے لیے حکومت برطانیہ نے بمبوں کا استعمال کیا۔

ناول کا آغاز جگنو اور چندا کے پراسرار قتل سے ہوتا ہے۔ یہ قتل ایک ایشین علاقے میں ہوتا ہے جس کا نام دشت تنہائی ہے کیونکہ وہاں رہنے والے سب انڈین، پاکستانی، سری لنکن اور بنگالی اس لفظ کے مطلب کو خوب سمجھتے تھے۔ جگنو جو ناول کے ہیرو شمس کا بھائی ہے۔ شمس ایک انقلابی پاکستانی کیمونسٹ تھا جو ڈکیٹرشپ کے دور میں جلاوطن ہو کر اپنی بیوی کوکب کے ساتھ برطانیہ پہنچ گیا تھا اور وہاں جا کر فیکٹری میں کام کرتا اور ساتھ ہی اپنے اندر کے انقلابی کو تسلی دینے کے لیے علاقے کے غریب مہاجروں کی ہر ممکن مدد کرتا۔ اس کے دو بیٹے چراغ اور اجالا جبکہ ایک بیٹی مہہ جبیں تھی۔ شمس ایک سلجھا ہوا اور پرسکون قسم کا نان بلیور تھا جو ابتدائی پاکی مہاجرین میں سے تھا۔

کوکب جو ناول میں سب سے زیادہ نظر آتا ہے۔ وہ ایک مولوی کی بیٹی تھی جس نے شادی سے پہلے گھر سے باہر نکل کر نہیں دیکھا تھا۔ وہ ایک ٹپکل مسلمان عورت ہے اور پورے ناول میں وہ سب حرکتیں کرتی نظر آتی ہے جو ایک پاکستانی ماں اپنی اولاد کو اپنے قابو کرنے کے لیے کرتی ہے۔ شادی کے بعد وہ اپنے خاوند کے ساتھ برطانیہ آتی ہے۔ اسے انگلش بہت کم آتی ہے۔ وہ سارا دن کھانے پکانے اور ہمسائیوں کی عورتوں سے گپیں لڑانے میں گزارتی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ اس کے بچے مذہبی بنیں لیکن برطانوی کلچر میں رنگے جانے کے بعد اس کے دو بڑے بچے اس کے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔ وہ چاہتی ہے کہ اپنے چھوٹے بیٹے اجالا کو اپنا فرمانبردار اور مطیع بنائے جس کے لیے وہ ایک پیر بابا سے دم کروایا ہوا نمک اپنے بیٹے کے کھانے میں ملاتی ہے۔ ابتدا میں اس کے اچھے نتائج نکلتے ہیں لیکن پھر اجالا گھر چھوڑ جاتا ہے اور تقریبا آٹھ سال بعد واپس اسلام کا دشمن بن کر گھر لوٹتے ہے۔ گھر آتے ہی وہ بتاتا ہے کہ اس کی ماں ایسی ماں ہے جو اپنے بیٹے کو اپنے ہاتھ سے زہر دیتی رہی ہے کیونکہ وہ نمک نہیں برومائڈ تھا جس سے اجالا سیکسوئلی متاثر ہوا۔ کوکب ساری عمر اپنی بیٹی کو ایک مطیع اور فرمانبرادر بیوی اور بیٹوں کو اچھے عہدے والے علمی مسلمان دیکھنے کا خواب لیے جو کچھ کرتی ہے۔ اس سب میں اس کو ناکامی ہوتی ہے اور آخر کار اس کی اولاد اسے چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔ جس کا الزام وہ شمس جیسے اللہ کو نہ مانے والے بندے سے شادی ہونے کو دیتی ہے۔ اپنی تہذیب سے جڑ کر نئی تہذیب کو نہ اپنا سکنے کی وجہ سے کوکب اپنی ساری زندگی کشمکش میں گزار دیتی ہے۔ ایسی کشمکش جس میں وہ اپنی سوہنی دہرتی کی ہر بات کو یاد کرتی ہے لیکن وہاں جانا نہیں چاہتی کیونکہ اس کی اولاد انگلینڈ میں رہنا پسند کرتی ہے اور وہ اپنی اولاد کے بغیر نہیں ریہہ سکتی۔

چراغ سخت محنت کے باوجود ڈاکٹر نہیں بن پاتا اور آخر کار ایک پینٹر بن جاتا ہے۔ مہہ جبیں ایک لڑکے سے پیار کرتی ہے لیکن جب اس لڑکے کی شادی پاکستان میں اسکی کزن سے ہوتی ہے اور وہ پاکستان چلا جاتا ہے تو مہہ جبیں زبردستی اپنی شادی پاکستان کرواتی ہے تاکہ اس لڑکے کو ڈھونڈ سکے لیکن اپنے خاوند کے ہاتھوں ٹارچر برداشت کر کے اسے چھوڑ کر واپس انگلینڈ آ جاتی ہے اور وہیں رہنے لگتی ہے۔ جبکہ اجالا ابھی نوجوان ہے لیکن وہ اپنی ماں اور اس کے مذہب سے سخت نفرت کرتا ہے اور مکمل طور پر برطانوی کلچر میں رنگ جاتا ہے۔

ثریا کا کردار بہت دلچسپ ہے جو کے ذریعے ندیم اسلم نے طلاق اور اس کے بعد حلالہ جیسے تلخ ترین موضوع کو اجاگر کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ثریا کے ذریعے وہ ہمیں بتاتا ہے کہ کس طرح ایک عورت جو کے بے گناہ ہوتی ہے اپنے خاوند کے نشے میں کہے تین الفاظ طلاق طلاق طلاق سے ایک ایسی ذلت کی گہری میں گر جاتی ہے کہ اسے اپنے بیٹے کے ساتھ رہنے کے لیے ایک نئے مرد سے شادی کرنی ہوتی ہے اور پھر اس سے طلاق لے کر دوبارہ پہلے خاوند سے شادی کر سکتی ہے۔ ندیم نے ثریا کے ذریعے مرد کی انا پر بہت گہرا طنز کیا ہے۔ مثلاً اس کا خاوند اسے پاکستان سے انگلینڈ بھیجتا ہے تاکہ وہ نا دیکھ سکے ثریا نے کس مرد سے شادی کی ہے کیونکہ یہ دیکھنا اس کی برداشت میں نہیں ہو گا۔ ثریا شمس کو دیکھ کر کہ وہ اچھا ہے اس کی قربت حاصل کرتی ہے اور سیکس کے ذریعے اس کا اعتماد جیتنے کی کوشش کرتی ہے تا کہ اسے منا کر اس سے شادی کرے اور پھر طلاق لے۔ شمس کو جب پتا چلتا ہے تو وہ اس بات کے لیے مانتا نہیں اور ثریا کو کہتا ہے کہ وہ اپنے خاوند کے پاس نا جائے کیونکہ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ اس کا خاوند دوبارہ شراب پی کر اسے طلاق نہیں دے گا۔ آخر کار ثریا شمس سے پریگننٹ ہو کر غائب ہو جاتی ہے اور شمس ہر جگہ ہر عورت اور بچے میں ثریا اور اس کے پیٹ میں موجود اپنے بچے کو دیکھتا رہتا ہے۔

آخر میں جگنو اور چندا کے قاتل چندا کے بھائی نکلتے ہیں جس نے پہلے اپنی سکھ گرل فرینڈ کو اپنے عاشق کے ساتھ سوتے دیکھا تو شراب پی اور پستول لے کر جگنو کے گھر چلا گیا جہاں جگنو اس کی بہن چندا کے ساتھ بغیر نکاح کے ریہہ رہے تھے۔ وہ پہلے چگنو کو قتل کرتا ہے اور پھر اپنی بہن کو قتل کر کے لاشیں غائب کر دیتے ہیں لیکن پھر بھی پکڑے جاتے ہیں۔

میرے محدود مطالعے میں پاکستانی انگلش رائٹروں کی جانب سے لکھے جانے ناولوں میں سے یہ ناول سب سے زیادہ دلچسپ لگا۔ اس کو پسند کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس میں ان ابتدائی برطانوی مہاجرین کی زندگیوں کے بارے میں جاننے کا موقع ملا ہو جو اب کافی حد تک کم ہو گئی ہیں۔ ناول سفید فارم نسل پرستی کے موضوع کو اجاگر کرتے ہوئے ندیم اسلم ایک دفعہ بتاتا ہے کہ کیسے پہلے سفید فارم ایشینز کو ڈارکی کہہ کر ان کے ساتھ بیٹھنے اور کام کرنے سے بھی منع کرتے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ اکٹھے کام کرنے لگے اور ایک دوسرے میں گل مل گئے۔ ایک خوبصورت ایشین لڑکی کو برطانوی لڑکے اس لیے بھی پسند نہیں کرتے تھے کہ اس کا تعلق ڈارکیز سے ہے۔ یہ ناول چار دہائیوں میں بدلتے حالات اور ایشن ورکنگ کلاس کی زندگیوں پر ہونے والے اثرات کو دکھانے میں مکمل کامیاب رہا ہے۔ گو ناول کے موضوعات کو دیکھا جائے تو اس پر ایک بہت تفصیلی تھیسز لکھا جا سکتا ہے لیکن دوستوں کی بوریت کو مدنظر رکھتے ہوئے اتنا ہی کافی ہے۔ میں اگر کسی پاکستانی ناولسٹ کا کوئی ناول دوستوں کو ریکمنڈ کروں گا تو یہ ان میں سب سے اوپر ہو گا۔

Bilal Hassan Bhatti's Profile Photo, Image may contain: Bilal Hassan Bhatti, standing and outdoor
بلال حسن بھٹی پیشہ کے اعتبار سے استاد ہیں اور شیخوپورہ پنجاب کے ایک اسکول میں پڑھاتے ہیں

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here