اسلام آباد: مبینہ طور پہ جبری تبدیلی مذہب کا شکار دو ہندؤ لڑکیوں اور ان کے شوہروں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی ہے اور اپنی زندگیوں کو تحفظ فراہم کرنے کی مانگ کی ہے۔

تفصیلات کے مطابق گھوٹکی میں میگھوارڈ ہندؤ خاندان سے تعلق رکھنے والی دومبینہ ہندؤ/مسلمان لڑکیوں اور ان سے شادی کرنے والے دو لڑکوں نے محمد عمری بلوچ ایڈوکیٹ کے زریعے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے اور اپنی درخواست میں صوبہ سندھ،پنجاب اور اسلام آباد کے آئی جیز ؛ ایم این اے رمیش کمار وینکانی ، پیمرا اور ہری لال کو فریق بنایا ہے۔

درخواست ابھی تک قابل سماعت قرار نہیں پائی ہے۔ اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ دو بہنیں جن پہ مبینہ طور پہ جبری تبدیلی مذہب کا الزام پروپیگنڈے کے طور لگایا جارہا ہے وہ قانون پہ عمل کرنے والی عاقل و بالغ شہری ہیں۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ غلط پروپیگنڈے کے سب دونوں عورتوں اور مردوں جنھوں نے باہمی رضامندی سے شادی کی ہے جانیں خطرے میں ہیں۔

درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ دونوں پہنیں بہت عرصے سے اسلام کی تعلیمات سے متاثر تھیں لیکن انہوں نے اسلام قبول کرنے کا اعلان قتل کردیے جانے کے خوف سے نہیں کیا تھا۔ تاہم 22 مارچ 2019ء کو خان پور ضلع رحیم یار خان بار میں وکلاء کی بڑی تعداد کے سامنے دونوں بہنوں نے قبول اسلام کا باقاعدہ اعلان کردیا۔

درخواست میں دونوں بہنوں نے موقف اختیار کیا ہے کہ ان کو زبردستی مذہب تبدیل کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا گیا اور وہ اپنی مرضی سے مسلمان ہوئی ہیں۔

درخواست گزار کے مطابق پہلے وہ تحصیل خانپور ضلع رحیم یار خان پنجاب منتقل ہوئے جب ان کو وہاں پولیس آپریشن بارے پتا چلا تو وہ اسلام آباد آگئے۔

درخواست گزاروں نے عدالت سے حکومت، پولیس اور لڑکیوں کے والد کی طرف ہراساں کیے جانے کے عمل اور لڑکیوں کو ان کے ماں باپ کے حوالے کرنے سے روکنے اور ان کو زبردستی واپس ہندؤ بنانے سے روکنے کے لیے اقدام اٹھانے کی درخواست کی ہے۔

اس سے پہلے گھوٹکی پولیس سندھ نے نکاح خواں سمیت 7 افراد کو اغواء، جبری تبدیلی مذہب اور کم سن بچیوں کی شادی کرنے میں ملوث ہونے کے شک میں گرفتار کرلیا ہے اور ان سے تفتیشش جاری ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here