کچھ دن ہوئے ان باکس میں میسج ملا “آپ نےانفرینڈ کیوں کردیا؟” لمحہ بھر کو خیال آیا کہ یک سطری جواب سے سوالی کی تسلی کرا دی جائے، پھر سوچا کہ بھئ “تم کس کس کو سمجھاؤ گے، یہ ساری قوم کلینی ھے” (یہاں کلینی سے مراد کوئی علامہ نہیں لیجئے گا بلکہ کسی پنجابی جانکار سے مطلب پوچھ کر اثر دیکھئے گا) بات ھورہی تھی انفرینڈ کرنے کے جواب و جواز کی، تو یاد آئی کسی پکے سچے فلاسفر کی بات، جو ہمارے ایک استاد بتایا کرتے تھے کہ” پاؤں صاف رکھنے ھوں تو جوتے پہنے جاتے ھیں، سارے شہر میں قالین نہیں بچھائے جاتے ،بیٹا!” استاد کی کہی بات یاد بھی ہے اور ساتھ بھی، لہذا کوئی وضاحت نہیں دی، البتہ اس پلیٹ فارم پہ بیتے وقت میں جو مشاہدات و تجربات ھوئے فی الحال ان پہ کچھ روشنی ڈالنا مطلوب و مقصودِ مومن ھے، سو حفاظتی بند چاہے مت باندھیں مگر تمیز، تہذیب اور حدود و قیود کی گرہ ہاتھ سے نہ جانے دیجئے، لیجئے بسم اللہ کرتی ہوں

فیس بک کی دنیا میں آپکا سواگت ہے، یہ وہ دنیا ہے جہاں اگر آپکو علم و دانش بکھیرتے، سچی، سُچی، سلجھی بات دلیل اور مہذب مکالمے کی ترویج کرتے خوبصورت انسان ملیں گے تو ساتھ کے ساتھ اور ہاتھ کے ہاتھ جھوٹ و منافقت اور منافرت کا منبع کچھ نابغے بھی نظر آئیں گے جن کا سوال “گالی” سے شروع ہوکے مخاطب و مخالف کے لئے “گولی” کی تجویز پر منتہج ہوگا، ان میں مذھبی اور سیاسی جنونی بھی شامل ہوں گے اور نام نہاد مصلح بھی، لیکن آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔

چھوٹی بڑی دکانداری

میرے پیارے قلم کار، پترکار، خاکسار، اعتراف ھے کہ آپ اچھے شاعر ہیں ، اچھے لکھاری، تجزیہ کار حتی ترغیب و ترہیب دلانے والے لکھاری بھی ہیں۔

 یقیناً آپکے اسلوبِ کلام، بذلہ سنجی، حاضر جوابی اور علمی استعداد سے دوست احباب مستفید ھوتے ھیں ۔ بقول شخصے آپ “لفظوں کے موتی پُرو سکتے” ھیں ، عوامی پسندیدگی اور تعریف و تحسین کا سلسلہ بھی چلتا رھتا ھے –

 مگر، ٹھہریئے تو، یکایک آپکو کونسا کیڑا کب اور کیسے کاٹ جاتا ھے جو آپ ساری دانشوری بھول کر تیسرے درجے کے   پھکڑبازکی طرح بے ھودہ ذومعنی تضحیک سے بھرے جملے  اپنی وال پہ تحریر کرنے لگتے ہیں۔

 اچھی بھلی ٹائم لائن پہ سنجیدہ افکار و نظریات کے بیچ ایکدم کوئی نامناسب، بے تکی، اور ننگی پوسٹ ظاہر ہوجاتی ھے۔ یاد رکھیے گا پروفائل پکچر میں آپ شاندار لباس پہنے سجے، بنے، کھڑے دکھ رھے ھیں مگر آپکی پوسٹ آپکو ننگا کررہی ہوتی ہے۔

 !اس قدر پست زہنی، اتنی گراوٹ، الامان

 سونے پہ سہاگہ ایسی پوسٹس /میمز/ٹکرز پہ مزید گند پھیلاتے طویل تھریڈز اور ان میں رونق افروز ہمارے کئی بار کے دیکھے بھالے سچے پاکستانی، اصلی مسلمان، پکے کٹر مسلکی، بھلے شیعہ ہی کیوں نہ ہو یا سنی ہوں۔ کبھی آپ سوچیں تو اندازہ ھوکہ کس بلندی سے کس پستی میں آکر دھڑام سے گرجاتے ہیں آپ۔

 ایسی فضولیات پہ مبنی شئیرنگ پر سینکڑوں لائیکس اور جانے پہچانے لوگوں کی ہی ہی ہاہا بھی موجود ، یعنی خوب رونق، رش لگا ھوتا ہے، کیوں بھلا ؟؟ کیوں لوگ مکھیوں کی طرح امڈ آئیں گے؟ کیونکہ مکھی گند کی طرف کھنچی چلی جاتی ہے۔ اور ہمارا معاشرہ مکھیوں کی بہتات کے ساتھ گند میں بھی خودکفیل ہے۔

نیکی کی فیس بک پہ نمائش

بالکل درست سمجھا آپ نے، گیا زمانہ بہت پرانا، جب “نیکی کر دریا میں ڈال” کا رواج ہوا کرتا تھا۔ اب پروجیکشن کا دور ھے۔ عبادات سے ذاتی اعمال تک سب اوپن ڈسپلے پہ دھرے پڑے ہیں۔ آئیے دیکھتے جائیے، داد دیجیے، پیچھے والوں کو کچھ نظر نہیں آرہا پلیز سامنے سے ہٹ جائیں وہ بھی یہ نیکی دیکھنا چاھتے ہیں کیوں محروم رہیں، کیا کہا؟

” یہ صرف اسلئے ڈسپلے پہ ہے کہ لوگوں میں شوق پیدا ھو”

آپکی طرح کا شوق؟

 نیکی کی دعوت کب کیسے انفرادی و ذاتی خودستائی یا خود نمائی میں بدل جاتی ھے اسکا اندازہ ایک لمحے میں کوئی بھی “دیکھنے والی” آنکھ کرسکتی ھے، بہت اچھی بات ھوئی کہ آپ نے اپنے گھر محفلِ نعت یا میلاد و مجلس کا اہتمام کیا، خدا قبولیت عطا کرنے اور وہی اجر دینے پہ قادر ھے، پر یہ 2 گھنٹے کے پروگرام کی 50 تصاویر لگا کر آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ھیں؟

ایک بار تو یوں حد ھوئی بلکہ بے حد ھوئی کہ جب ایک چند گھنٹے پہ مشتمل مذہبی تقریب کی “تصویری جھلکیاں نمبر سولہ دیکھنے کا اتفاق ہوا، اور ہر جھلکی میں 30 پرتیں موجود، یعنی لیول ہے بھائی، واقعی کمال ہے، ﷲ ﷲ، پروردگار ایسی کمرشل مذہبی خدمات سے اپنی پناہ میں رکھے اور نیکی کر کے فیس بک وال کے شو کیس میں سجانے کا شوق نہ پالنے کی توفیق دے۔

نام، مقام، احترام

جہانِ فیس بک میں ایک خاصے کی چیز پروفائل پکچر یعنی ڈی پی بھی ہے۔ یہاں نام اور تصاویر کبھی دلچسپی اور کبھی کنفیوژن پیدا کرتی ھیں۔ مثلاً، تیار رھئیے کہ “آغا غیاث الدین محمد اجمل خان” صاحب جن کا نام اور دینی پوسٹس کی طرف رجحان دیکھ کر آپ بزرگ سمجھتے ھوئے نہایت ادب سے پیش آرھے ھیں، وہ کچھ عرصے میں اپنی بےوقوفانہ پوسٹس، تمام تر چچھورپن اور سستی جزباتیت کے ہمراہ نیوز فیڈ میں ظاہر ھوں گے اور تب آپ جانیں گے یہ ستر سالہ بزرگ نہیں بلکہ چوبیس پچیس “سالا” چول ہے۔

 دیکھیے صاحب آپکی تعلیم واخلاقی تربیت میری زمہ داری نہیں، مگر فہرست دوستاں سے دیس نکالا ملنا آپکا قانونی شرعی حق ھے، لہذا آنکھوں کو “اب اور اذیت نہیں دی جاسکتی” ایسے ہی کچھ ہونہار دین دار حتی نام نہاد سکہ بند عزادار (اپنے مکتبِ فکر کے ڈرامہ بازوں سے بھی واقف ھوں اور سادہ، مخلص،حقیقی بندہ گان_مرتضیٰ علی ھستم سے محبت بھی رکھتی ھوں) آں جناب ابھی کسی پروفائل پہ ایک آیت، حدیث، کلامِ معصوم پہ” سبحان ﷲ”،” ماشاءاللہ”،.” میرے ماں باپ آپ پہ قربان مولا” کے کمنٹس کر کے ساتھ ہی اگلی ٹائم لائن پہ کسی فحش جملے، ذومعنی گھٹیا لطیفے پر قہقہہ بار اور طویل کمنٹس کی بےھودہ بوچھاڑمیں اپنی گفتار و کردار کا اشتہار بنتے نظر آئیں، اس شوق کا چونکہ کوئی مول نہیں اسلیے اس حمام میں بھی سب ننگ دھڑنگ مصروفِ گند ھونگے، کیا بڑا کیا چھوٹا، یک رنگ، اور اگلی بار کسی آرٹیکل، میوچل پوسٹ میں جب یہی ھستیاں اسلام کی عظمتِ رفتہ و اس دنیا کی بدچلنی اور دینی افکار و تہذیب کی بات کرتے دیکھیں تو آپ خود رولنگ آن فلور والا لافنگ ایموجی بن جائیں گے۔

کھودا پہاڑ نکلا دومونہا، وہ بھی حنوط شدہ

ابھی اوپر بات ہوئی بچوں کو بزرگ سمجھ کے احترام کا دھوکہ کھانے کی، اب زکر ھوجائے بزرگی کے نام پہ لوگوں کی عزت سے کھلواڑ کی، سو اس کارزار میں آپکو ایسے بزرگوار بھی ملیں گے جن کی اقسام پہ روشنی ڈالتے ہماری ایک دوست نے کیا خوب کہا کہ “ہر سفید بالوں والا بزرگ نہیں ھوا کرتا کہ بزرگی اور شئے ہے” کیونکہ کچھ لوگ طبعی عمر گزار کر صرف بوڑھے ہوتے ھیں اور اسی بڑھاپے کو اپنا ہتھیار بنا لیتے ھیں، اور یہی ہتھیار انکے بنک اور ویب اکاؤنٹ میں مالِ دنیا کے ساتھ ہمدردی، احترام، ادب آداب اور اخلاقی حمایت جمع کرتا رھتا ھے، اسی ضمن میں ایک بزرگانہ و جداگانہ آٰرٹ آپ یہ بھی دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرسکیں گے کہ کچھ ایسے ہی “بزرگ” جابجا، آگ لگاتی، جلتی پہ تیل کا کام کرتی اور یک طرفہ بیانے کے مطابق بکواس فرما کر اپنے تئیں صلح کار بنیں گے، یعنی تماشا بھی خود شروع کرینگے اور اچھی طرح گولہ بارود نچھاور کرینگے اور اخیر میں “بندہ ہاتھ جوڑ کر معافی چاھتا ھے” لکھ کے بری الذمہ، یعنی ماں صدقے جائے اینی معصومیت؟ مطلب پہلی جست میں منہ پھاڑ، جی بھر کے بدتمیزی فرمانے کے بعد معافی چاہیں گے، چاہے دکھاوے کو ہی سہی، خود کی اعلیٰ اخلاقی اقدار دکھانے کو ہی سہی، لیکن بزرگو دھیان کرو دھیان، بے شک خدا معاف کرنے والا بےنیاز ہے… مگر… معافی والی یہ خدائی صفت ابھی تک بندگان خدا کی فطرتِ ثانیہ نہیں بن سکی سو بزرگوں کو جواباً اگر کوئی تگڑا ٹکر جائے جو جھوٹے کو گھر تک چھوڑ کے آنے پہ یقین رکھتا ہو یا دورخی شکل و منافقت کو آئینہ دکھانے کی کوشش کرئے تو پھر یہی “بزرگی/بڑھاپے” کا ہتھیار معاون، آزمودہ و مددگار ھے، اور اعتراض کرنے، سوال اٹھانے والوں کو تو ویسے بھی اٹھا لینے کا فیشن کافی اِن ہے، سو اگر کوئی بزرگوں پہ سوال اٹھا گیا، تو یہاں حمایت حقائق کی بجائے رنگ، نسل، قوم، دیکھ کر کی جاتی ہے، یہاں اپنی برادری کی چولیات کے شہتیر تنکے بن جاتے ہیں، آنکھیں موند لی جاتی ہیں، یعنی مجھ پہ لازم ہے اگر آپکے نام کا سابقہ و لاحقہ مجھ سا ہو میرے قبیلے کا تو میں آپکی ہر بونگی کا دفاع کروں؟؟؟ سوچیوو وی ناں، مسلک و برادری کی بنیاد پہ شدید تعصب رکھنے والے جب فیس بک پر وسعتِ نظری و قلبی کی باتیں کریں گے تو یقین مانیں آپکو واوا ہاسا آئے گا

ارم کاظمی ٹیلی کام انڈسٹری میں کام کرتی ہیں،فیصل آباد سے تعلق شاعرہ اور انشا پرداز ہیں

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here