پاکستان سے واپس ہالینڈ روانہ ہونے پر میرے پاس آپ کے جریدے کے متفرق شماروں کے علاوہ، بیس کلو کے قریب، جرائد و کُتب تھیں جنہیں مَیں موقع بہ موقع پڑھوں گا۔ فی الحال مَیں اپنے حالیہ قیام کی بابت کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔
اکیس جون 2018ء کو پاکستان سے( زیادہ تر لاہور) میں عرصہ دو ماہ اور پانچ دن بسر کرنے کے بعد میرا واپس امستردم ، نیدر لینڈ آنا ہوا۔ وہاں میرا گُزرا وقت زیادہ تر تکلیف دہ تھا۔ بہت سے کرم فرماوں کا خیال تھا کہ مَیں نے یہاں آنے کے لیے غلط موسم کا انتخاب کیا ہے اور میری یہ شکایت بجا ہے۔ میرا انہیں کہنا تھا اور اب اپنے پڑھنے والوں سے بھی عرض ہے کہ یہ درست ہے وہاں قیامت کی گرمی تھی اور لاہور کی فضائی آلودگی اور سڑکوں پر گونجتی چنگاڑتی حد درجہ ابتر اور سراسر غیر منظم ٹریفک اس پر سوا تھی اور اس پر مستزاد یہ کہ اس شہر کی بے شمار سڑکوں کی ایک طرف کافی کافی دیر انتطار کرنے کے بعد، معمولی سا موقعہ ملنے پر، اپنے آس پاس کی تیز رفتار موٹر سائکلوں اور ہر طرح کی موٹر گاڑیوں سے ٹکراتے ٹکراتے بچتے اور جان جوکھوں میں ڈالتے ہوئے دوسری طرف جانا ہوتا تھا، مگر تب بھی مجھے ان معمولات سے کوئی زیادہ شکایت نہیں تھی جتنی اکثریتی لوگوں کے منافقانہ اور دروغ گوئی پر مشتمل ان کے حد درجہ شرمناک رویّے پر۔ عام لوگوں کو چھوڑیں اس ضمن میں ایک مشہور ادیب کا ذکر، بطورِ حوالہ، دینا مناسب ہوگا، اور مَیں نہیں جانتا کہ اس معاشرتی دیگ کا یہ بنا سنورا اشتہا آمیز دانہ ہمارے پورے سماجی نظامِ ہضم کا ستیا ناس کرنے اور اسے لا علاج کیے رکھنے میں کس قدر عمل دخل لیے ہوئے ہے؟
گزشتہ منگل وار کو، لاہور کے ایک معروف اشاعتی ادارے، “سنگِ میل پبلشرز، کے مالک، افضال صاحب سے میری ملاقات طے تھی۔ مَیں وقتِ مقررہ سے کچھ دیر پہلے وہاں گیا کہ شو روم میں کتابوں کا جائزہ لیتا ہوں۔ اس دوران میری نگاہ مستنصر حسین تاڑر کی ایک کتاب بعنوان، ” ہیلو ہالینڈ”، پر پڑی۔ مَیں نے اسے اُٹھایا۔ اس کے ایک حصے میں میرا ذکر بھی تھا۔ مَیں جوں جوں اسے پڑھتا گیا حیرت اور افسوس سے دوچار ہوتا گیا۔ میرے عزیز دوست نے دو امور میں مجھے ہدفِ تنقید بنایا ہے۔ ایک یہ کہ مَیں ایک دفعہ اس سے ملاقات کرنے اس کی رہائش گاہ پر گیا تو مَیں سائکل پر وہاں پہنچا تھا ۔ موسوف نے یہ ذکر اس حقارت سے کیا ہے جیسے میرا اس کے ہاں سائکل پر جانا اس کے لیے گالی اور اس کی “عالی شان” رہائش گاہ کی ہتک تھی۔ مَیں اس بیمارانہ اور فرسودہ بورژوائی سوچ و عمل سے کوئی زیادہ پریشان نہ ہوا کیونکہ یہ پاکستانی معاشرے کے بیش از بیش ذہنی رویّے کی عکاس ہے۔ دوسری بات اس مشہور مصنف نے یہ درج کی ہے کہ جب وہ ہالینڈ میں اس وقت کے متعین پاکستانی سفیر کے ہاں مہمان تھا اور میں اسے امستردم سے قریباّ پچپن کلو میٹر دور واقع ایک شہر، ڈن ہاگ میں ملاقات کرنے اور اسے [اور اس کی بیگم کو؟] اپنے ساتھ واپس امستردم لے جانے کے لیے پہنچا تو میری جیپ میں صرف اگلی دو سیٹیں تھیں [ہالینڈ میں اس قسم کی موٹر گاڑی کے لیے بہت کم روڈ ٹیکس دینا پڑتا ہے اور تب مجھ اکیلے اور بعض اوقات میرے کسے دوست کے لیے ایسی گاڑی مناسب تھی] جبکہ وہ وہاں سے میرے ہمراہ اپنی بیگم کو بھی ساتھ لیے جانا چاہتا تھا اور اس بارے مین مجھے آگاہ کر چکا تھا۔ اس کا اپنی بیگم سے متعلق بیان سراسر جھوٹ کا پلندہ ہے۔ خدا گواہ ہے کہ اس نے اس بارے مین مجھے قطعاّ مطلع نہیں کیا تھا ورنہ مَیں کوئی اور گاڑی لے کر وہاں جاتا، ہاں اس نے یہ ضرور کہا تھا کہ مَیں اسے امستردم میں تھوڑی بہت سیر و تفریح کرانے کے بعد کسی اچھے ہندوستانی یا پاکستانی ریستورنت مین کھانا کھلا دوں جس پر مَیں نے بخوشی اپنی آمادگی ظاہر کی تھی۔ بہر کیف میرے متذکرہ بالا جیپ مین وہان پہنچنے پر اس نے اپنی غصیلی ناراضگی ظاہر کی تھی اور وہ یہ سمجھے ہوئے کہ مَیں عمومی موٹر گاڑی میں اسے اور اس کی بیگم کو لینے اوں گا اُس کے ساتھ تیار ہوا بیٹھا تھا۔ جنکہ مَیں یہ توقع کیے ہوئے تھا کہ ہم دونوں کے لیے ایسی جیپ قابلِ استعمال ہوگی۔ کتاب کے اسی پیرائے میں درج ہے کہ اسے پاکستانی سفیر کی طرف سے ایک موٹر گاڑی کی، بمع شوفر کے، سہولت بہم پہنچائی گئی تھی۔ چنانچہ مَیں سمجھنے سے قاصر ہون کہ تب وہ اس گراں قرر سہولت کو کیون اپنے اور اپنی بیوی کے لیے استعمال میں نہ لایا؟
مَیں موصوف کے ذکر شریف کے لیے دو اور واقعات کا حوالہ دینا چاہون گا۔ ایک دفعہ لاہور انے پر میں نے اسے اپنا تین اسفار پر مشتمل مجموعہ، “اسفارِ شب و روز” دیا تھا جس میں میری سرگزشت حقیقی واقعات پر مبنی اور برِاعظم افریقہ کے دو دفعہ صحرائی سفر اور دیگر گوناں گوں خوفناک واقعات کے علاوہ میری مالی دشواریون کی تفصیلات بھی درج تھیں۔ بہر کیف اسے یہ مجموعہ دینے کے قریباّ دو ہفتوں کے بعد میرا ایک مرتبہ پھر اس کے ہان جانا ہوا اور ہم اس کی نشست گاہ میں بیٹھے بات چیت کر رہے تھے کہ اچانک ایک دراز قد آدمی، اپنے ایک ہاتھ مینں میرے اسفار کا مجموعہ لیے اندر داکل ہوا اور اس نے چھوٹتے ہی مستنصر کو کہا کہ تم اپنے سفر نامون میں کیا جحوٹ سچ لکھتے رہتے ہو، اس کتاب کو پڑھو، سفر نامے ہون لکھے جاتے ہین۔ مستنصر نے اسے فوراّ واپس جانے کو کہا۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ شخص اس کا بھائی تھا جو اس کے ساتھ اس رہائش گاہ کے ایک حسے میں قیام کیے ہوئے تھا۔ برسبیلِ تذکرہ بیان ہوجائے کی یہ اپنا ایک سفر نامہ، غالباّ، ” نکلے تیری تلاش میں”، جو پہلے ہی بہت زیادہ داستان طرازی لیے ہوئے تھا، لے کر جب ایک معروف ماھنامے کے مدیر اور ہم دونون کے دوست، سَرور سکھیرا صاحب کے پاس بغرض اشاعت گیا تو اس نے سکھیرا صاحب کے کہنے پر اس میں مزید افسانہ شامل کر دیا تھا۔
موصوف دوسروں سے کسی اچھے ریستورات میں کھانے کا طلبگار ہے اور یہ کوئی ایسا نا مناسب بھی نہیں ہے، مگر اس کی اپنی مہمانداری یا میزبانی کا یہ عالم ہے کہ ایک مرتبہ جب مَیں اس کے گھر اپنی بیوی کے ساتھ گیا تو ہمارے وہاں قریباّ گھنٹہ بھر تھیرنے کے دوران کسی قسم کے کھانے یا چائے کا ذکر ہی کیا اس نے ہمیں سادہ پانی تک دینے کیء زحمت مہیں کی تھی۔ مَیں اسے قطعاّ خاطر میں نہں لایا تھا، مگر میری بیوی ضرور اس پر حیران و پریشان ہوئی تھی۔
پس نوشت: فاروق خالد نے ایک مدیر کو خط لکھا تھا جس کا متن اوپر دیا گیا ہے۔ اور اس خط کو یہان شایع کرنےکا مقصد صفدر نوید زیدی کے مستنصر حسین تارڈ کے سفرنامہ’ہیلو ہالینڈ’ پہ اٹھائے گئے اعتراضات کی صداقت کا ایک اور ثبوت جو عینی شاہد ہے تارڑ کے سفر کا۔صفدر نوید زیدی کا مضمون آپ درج ذیل لنک پہ کلک کرکے پڑھ سکتے ہیں

مستنصر تارڑ کا سفر نامہ ہالینڈ عورت دشمن اور جھوٹ کا پلندہ ہے ۔ صفدر زیدی (ہالینڈ)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here