میرے سوشل میڈیا دوست اور استاد ‘پیجا مستری؛ پاکستان کی شہری باتونی طبقے کی سوچ کو سمجھنے کے لیے بہترین اصطلاح ایجاد کی ہے۔ اس اصطلاح کا نام ہے

Acute Lack of Proportion Syndrom – APLS

انتہائی عدم توازن  پہ مبنی جذبات کا مرض –اے پی ایل ایس

یہ اصطلاح بھٹو کے خلاف انتہائی عدم توازن اور مبالغہ آمیز خبث پہ مبنی طعن کو سمجھنے میں بہت مدد دیتی ہے۔ پاکستان میں، بالائی درمیانہ طبقہ ہو یا طبقہ اشراف ہو اور ان میں موجود نمائشی لیفٹ اور کمرشل لبرل ہوں ان کے ہاں بھٹو کے لیے وہی نفرت موجود ہے جو ہم ان کے مخالفین جماعت اسلامی اور بیوروکریٹس کے ہاں پاتے ہیں۔ ان کی بھٹو پہ تنقید سننے والا، تاریخ کا ایک ایسا کارٹون نما نکتہ نظر پاتا ہے جس نے نہ صرف ماضی میں پاکستان کو تباہ کیا بلکہ یہ اس کے مستقبل کو بھی زھر آلود کررہا ہے۔

اس طرح کی تاریخ کے نکتہ نظر کے مطابق، بھٹو اور اس کا خاندان بالادست ہوکر حکمرانی کرتا رہا اور کوئی اور نہیں ہے جس پر 1950ء سے لیکر ابتک جو پاکستان میں ہوا کا الزام لگایا جاسکے۔

سن1965ء کی جنگ- قصوروار بھٹو

سن71ء میں پاکستان کا دو لخت ہونا۔ قصور وار بھٹو

دوسری ترمیم – قصور وار بھٹو

یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک ایسا عدم توازن اور مجموعی طور پہ انتہائی سادہ نکتہ نظر ہے کہ نہ صرف سیاسی انتخاب کی تلاش میں نکلنے والی نئی نسل کے ذہنوں کو زہرآلود کرتا ہے بلکہ یہ تاریخ میں دیگر کرداروں اور کسی المیہ کے اور ذمہ داروں کو بالکل ہی بے گناہ یا بے قصور قرار دے دیتا ہے۔ ان میں ایسے کردار بھی ہیں جن کا کسی المیہ میں کردار کہیں زیادہ نقصان دہ تھا۔ تو عدم توازن کے ساتھ بھٹو پہ کسی الزام کو دھرنے کی یہ چال اصل مجرموں کے خلاف تنقید کو تحلیل کرنے کا مقصد پورا کرتی ہے۔

تاہم کوئی بیانیہ جو بھٹو اور اس کے خاندان پہ لعنت بھیجنے یا ان کو برا بھلا کہنے کی تو اجازت دیتا ہو اور دوسروں کے بارے میں یا تو شریفانہ طرز اور ملاحت پہ مبنی ہو یا وہ اس بارے کسی ذکر کو بالکل ہی ممنوع قرار دے اسے ہم اے پی ایل ایس کہہ سکتے ہیں۔ یہ ایک مرض ہے جو شدت پکڑ چکا ہے۔

ایک عشرہ پہلے، بنگلہ دیش بارے ایک بحث کے دوران، ایک جوشیلے مگر انتہائی کمزور تاریخی معلومات رکھنے والے نے میرے جواب میں بھٹو کو پاکستان توڑنے کا الزام دیتے ہوئے برا بھلا کہا جبکہ اس نے پاکستان کے ٹوٹ جانے سے برآمد ہونے والے نتیجے کی تعریف کرتے ہوئے کہا،”مجھے خوشی ہے کہ ہمیں بنگالیوں سے نجات مل گئی جو کہ ہمارے نیچے جانے کا سبب بنے ہوئے تھے۔”

یہ ایک ایسا بیان ہے جو ہے تو بالکل ہی مہمل اور بےکار لیکن یہ اس عمومی سوچ کا ترجمان ہے جو مسلم لیگیوں، ایم کیو ایم والوں اور اب پی ٹی آئی والوں میں بھی عام پائی جاتی ہے،

دلچسپ بات یہ ہے کہ بھٹو کے خلاف اس طرح کی خباثت اکثر دو ایسے پیٹھ پیچھے چھرا گھونپ افواہ سازوں کی جانب سے آتی ہے جو جماعت اسلامی کی گود میں پلے تھے۔

ڈاکٹر مبشر حسن نے اکثر بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو کی برائیاں کی ہیں۔ مرے ہوؤں کا محاکمہ آسان ہوا کرتا ہے۔ یہ وہی مبشر حسن ہیں جو 2008ء میں پی پی پی کی حکومت کے خلاف جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر کھیل میں شریک ہوگئے تھے۔

جیسے معراج محمد خان، جن کا آخری سیاسی ایڈونچر پی ٹی آئی کا جنرل سیکرٹری بننا تھا جسے بنانے کے لیے وہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ حمید گل اور جماعت اسلامی کے ونگ پاسبان کے ساتھ ملے تھے۔

جب میں نے یہ اس بات کی نشان دہی کی تو لاہور کے دانشوروں کے حلقوں نے مجھے کہا کہ ‘مرجانے والوں کے بارے میں بری بات نہیں کیا کرتے۔’ اس طرح کے جملے کی بورژوازی حماقت کو ایک طرف رکھتے ہوئے المیہ یہ تھا کہ یہی دانشور بھٹو کی اس وقت برائیاں گنوارہے تھے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here