ڈان میڈیا گروپ کے اخبار روزنامہ ڈان نے 7 اپریل 2019ء کی اشاعت کے اداریے میں پاکستانی سیاسی منظرنامے کو ‘سیاسی سرکس/تماشہ’ کا عنوان دیا ہے۔اور اس اداریے میں اس اخبار نے ایک بار پھر انتہائی بددیانتی اور جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کی ریاستی اداروں کی تاریخ کے متنازعہ ترین ادارے نیب کی کاروائیوں کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔اور اس اخبار کا روز اول سے یہ وتیرہ بنا ہوا ہے کہ یہ مسلم لیگ نواز کے سربراہ میاں محمد نواز شریف، میاں محمد شہباز شریف سمیت دیگر رہنماؤں کے خلاف نیب کی کاروائیوں کے پس پردہ ‘خلائی مخلوق’ اور ‘اسٹبلشمنٹ’ کا ہاتھ فوری طور پہ دیکھ لیتا ہے لیکن جیسے ہی نیب یا حکومت کی کسی کاروائی کا تعلق پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری یا کسی اور رہنماء سے ہو تو یہ اسے فوری سند جواز دے ڈالتا ہے۔

اخبار کا اداریہ نویس لکھتا ہے

 Mr Zardari, as the noose of accountability tightens around him still further — likely as part of a bigger, more Machiavellian exercise indicative of the perils to democracy — exhorted PPP supporters on Thursday to march on Islamabad and oust the government.

آصف علی زرداری کے گرد جیسے ہی احتساب کا گھیرا تنگ ہوا تو انھوں نے پھر بالکل ایک بڑے پیمانے پہ میکاولی طرز کی مشق کرتے ہوئے جمہوریت کو سخت خطرے میں بتاتے ہوئے پی پی پی کے حامیوں کو جمعرات کے دن اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے اور حکومت کو نکال باہر کرنے کو کہا

اسی اداریہ میں آگے چل کر پھر یہ بھی لکھا گیا

The opposition must stop exploiting its numerical strength to be needlessly obstructionist on matters that must be urgently addressed. It should also show the maturity to rise above its parochial interests — largely tied to the fortunes of certain beleaguered party leaders — and, instead, act as the representatives of the people.

حزب اختلاف کو اپنی عددی اکثریت کو بلاضرورت ان معاملات میں روکاوٹ ڈالنے کے لیے استعمال کرنے سے رک جانا چاہئی جن کو جلدی حل ہونا چاہئیے۔ حزب اختلاف کو اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات سے اوپر اٹھ  کر اپنے بالغ ہونے کا ثبوت فراہم کرنا چاہئیے ۔۔۔ چھوٹے چھوٹے مفادات زیاد تر محاصرے میں آئے ہوئے پارٹی رہنماؤں کی قسمت سے بندھے ہوئے ہیں۔ اور اسے عوام کے نمائندوں کے طور پہ عمل کرنا چاہئیے۔

یہ سطور پہلے والی سطور کے ساتھ ملاکر دیکھیں تو اس اداریہ (جو کہ اخبار کی پالیسی کا آئینہ دار ہوا کرتا ہے) کا صاف مطلب یہ بنتا ہے کہ اس اخبار کے نزدیک پاکستان پیپلزپارٹی اور اس کی قیادت کا موقف کہ ان کے خلاف اس وقت نیب نے جتنے کیسز بنائے ہیں وہ سیاسی انتقام کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں اور پی پی پی کا حکومت پہ یہ الزام کہ وہ آٹھویں ترمیم رول بیک کرنا چاہتی ہے سوائے احستاب سے بچنے اور اپنی قیادت کو بچانے کی سیاست کے کچھ نہیں ہے۔ اس کا یہ بھی مطلب بنتا ہے کہ اس اخبار کے نزدیک اپوزیشن جماعتوں کا حکومت اور اس کے اداروں کے زریعے سے اپنی قیادت کے خلاف اٹھائے جانے والے اقدامات پہ آواز اٹھانا تنگ نظری اور بالغ سیاست کے خلاف ہے۔

روزنامہ ڈان نے اپنے اداریہ میں آصف علی زرداری کے گڑھی خدا بخش کے جلسے میں حکومت گرانے کے بیان کو پہل ظاہر کیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ گھوٹکی کے جلسے میں عمران خان نے اپنے خطاب میں اٹھارویں ترمیم پہ حملہ کیا اور اپنے سابقہ بیانات میں اٹھارویں ترمیم بارے کی گئی تعریف کا الٹ کیا اور پاکستان پیپلزپارٹی پہ ناروا حملے کیے۔ جس کا جواب پی پی پی کی قیادت نے چار اپریل کو بھٹو کی برسی پہ دیا۔

اپوزیشن کا تو گلہ ہی یہی ہے کہ حکومت پارلیمنٹ میں قانون سازی کرنے کی بجائے اپوزیشن کے خلاف نیب و ایف آئی اے کو استعمال کررہی ہے۔

روزنامہ ڈان کے بارے میں اب لوگ یہ کہنے لگے ہیں کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت خاص طور پہ آصف علی زرداری کے بارے میں اس کے اداریے اور رپورٹنگ کا انداز اردو پرنٹ میڈیا کے کراچی سے شایع ہونے والے ایک بدنام ترین اردو روزنامہ امت اور ہفت روزہ تکبیر جیسا ہوگیا ہے۔

روزنامہ ڈان جب آصف علی زرداری کو میکاولی طرز سیاست کی بڑے پیمانے پہ مشق کا طعنہ دیتا ہے اور ان کی جانب سے جمہوریت کو لاحق خطرات کو احتساب سے بچنے کی مشق کہتا ہے تو وہ یہ بات کیوں بھول جاتا ہے کہ نظام جمہوریت کو چلتے رہنے کے لیے آصف علی زرداری کی ذات اور پیپلزپارٹی تھی جس نے نواز شریف کے آراوز الیکشن کے نتائج کو قبول کرلیا اور پھر آر ٹی ایس کی پیداوار پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف پارلیمنٹ سے باہر رہ کر احتجاج کی سیاست کی فضل الرحمان کی تجویز کو رد کرکے پارلیمنٹ کے اندر مزاحمت کرنے کے لیے ساری اپوزیشن کو راضی کیا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ ڈان میڈیا گروپ کے انگریزی اخبار کے اپوزیشن کی سیاست پہ اداریے تعصب،بے جا جانبداری اور یہاں تک کہ گھٹیا الزام تراشی کے آئینہ دار ہیں۔

پاکستان میں موجودہ حکومت کا اپوزیشن کی حکمرانی والے صوبے کی طرف معاندانہ رویہ، اٹھارویں ترمیم پہ حملے، نیب اور ایف آئی اے کو سیاسی انتقام کے لیے استعمال کرنے کی روش انتہائی خطرناک ہے۔ اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کا عمل ہی جمہوریت کے لیے اصل خطرہ ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here