Image may contain: 1 person, outdoor

اسکولے اور 23پوائنٹس5 کی مشترکہ پروڈکشن میں تیار ہونے والا تھیڑیکل پلے( سٹیج ڈرامہ) ‘سازش 1953’ فیصل آباد آرٹس کونسل کے نصرت فتح علی خان آڈیٹوریم میں پیش کیا گیا۔ بالکل نئی اور نوجوان لڑکے لڑکیوں پہ مبنی کاسٹ تھی۔ ان میں سے زیادہ تر کو میں جانتا ہوں کہ یہ ان کی زندگی کی پہلی سٹیج پرفارمنس تھی۔ اور سب ہی نوجوانوں نے اپنے کردار بخوبی ادا کیے۔

نو مارچ 1951ء کو پاکستانی حکومت نے زرایع ابلاغ کو بتایا کہ انھوں نے حکومت کا تختہ الٹائے جانے کی ایک فوجی کودتا کی سازش کو ناکام بناتے ہوئے،پاکستانی فوج اور کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے کئی ایک عہدے داروں اور اراکین کو گرفتار کرلیا ہے۔ حکومت کا کہنا تھا کہ سازش کرنے والے اس وقت کے وزیراعظم لیاقت علی خان، انگریز سی این سی جنرل گریسی سمیت اہم حکومتی عہدے داروں کو گرفتار کرکے ملک میں مارشل لاء لگانا اور کمیونسٹ نظام لانا چاہتے تھے۔

حکومت نے اس مبینہ سازش کے خلاف ایک خصوصی ٹربیونل بناکر سازش کے مرکزی کرداروں کے خلاف مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا اور بعد ازاں یہ مقدمہ’ راولپنڈی سازش کیس 1951′ کے نام سے مشہور ہوا۔

اس سازش کے مرکزی کردار میجر جنرل اکبر خان کے حوالے سے سکرپٹ رائٹر معراج حسن نے لگتا ہے کہ کچھ زیادہ تیاری نہیں کی تھی۔ سازش کیس کے میجر جنرل محمد اکبّر خان اور تقسیم کے وقت انڈین رائل آرمی میں سب سے سنئیر مسلمان افسر میجر جنرل اکبّر خان دو الگ الگ شخصیات تھے۔

سازش کیس کے مرکزی کردار میجر جنرل محمد اکبّر خان 1912ء میں پیدا ہوئے اور انتقال 1994ء میں ہوا۔ ان کا تعلق خیبرپختون خوا کے علاقے چارسدہ اور محمدزئی قبیلے کی شاخ پاریچ خیل سے تھا جو چارسدہ کے گاؤں اتمان زئی میں رہنے والی تھی۔(یعنی یہ ولی خان کے علاقے سے تھے)۔اور انھوں نے برما کے محاذ پہ لڑائی لڑی تھی۔ یہ کبھی وزیرستان میں جاکر نہیں لڑے تھے۔ اور ان کے بارے آغاز کار سے ہی یہ کہا جاتا تھا کہ یہ نیشنلسٹ خیالات سے متاثر سے تھے اور برما میں جاپانیوں کے خلاف محاذ پہ لڑتے ہوئے یہ اینٹی برٹش بھی ہوگئے۔

جبکہ دوسرے میجر اکبّر خان جو 1950ء ہی میں ریٹائر ہوئے، وہ ایک انگریز مراعات یافتہ  منہاس راجپوت گھرانے کے فرد تھے۔ ان کا آبائی علاقہ چکوال تھا اور جاگیریں چکوال کے ساتھ ساہیوال میں بھی تھی اور وہ جنوبی وزیرستان کے محاذ پہ تعینات بھی رہے۔ان اکبّر خان کا انتقال 1993ء ہوا۔

 Akbar the junior– Akbar Khan (1912-1994) was a Pathan from Charsadda area of Khyber-Pukhtunkwa.  He was from the pareech khel clan of Muhammadzai tribe that inhabits the village of Utmanzai.  Akbar was from the last batch of Indian officers commissioned from Royal Military College Sandhurst in February 1934.  Lieutenant General B.M. Kaul was his course mate at Sandhurst and they became friends during their service.  Officers commissioned from Sandhurst were called King Commissioned Indian Officers (KCIOs).  Akbar joined 6/13 Frontier Force Rifles (FFRif.).  This battalion is now One Frontier Force (FF) Regiment of Pakistan army.  He fought Second World War with 14/13 FFRif. (now15FF).  This was a new war time battalion raised in April 1941, at Jhansi.  In new war time raised battalions, officers and men were posted from different battalions, usually from the same group.  Lieutenant Colonel Arthur Felix-Williams, DSO, MC of 1/13 FFRis. was the first Commanding Officer (CO).  There were fourteen officers in the battalion and Akbar at the rank of Major was the senior most of the four Indian officers of the battalion.   Lieutenants H. H. Khan, Fazl-e-Wahid Khan and A.K. Akram were other Indian officers (Wahid won MC).  Battalion was part of 100th Brigade (other battalions of the brigade included 2 Borders and 4/10 Gurkha Rifles) of 20th Division commanded by Major General Douglas Gracey.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Major General Muhammad Akbar Khan (1897-1993) was the senior most Muslim officer at the time of independence in 1947.  He was the son of Risaldar Major Fazal DadKhan (1847-1943). Fazal Dad was a Minhas Rajput from Chakwal area.

15 August 1947, Akbar was promoted Major General and appointed head of the formation called Sind and Baluchistan area.  It was later re-designated Sind area and on 1 January 1948, it was re-designated 8th Division. Karachi sub area was designated 51st Brigade on 1 November 1947 and Quetta sub area re-designated 52nd Brigade in September 1948. 8th Division headquarter was in Karachi and in May 1948, headquarter was moved to Quetta.  Akbar was in command during all these transitions.  His Indian Army (IA) number was 90 and Pakistan Army (PA) number was 1 as he was the senior most officer of Pakistan army. He retired on 7 December 1950 handing over command of 8th Division to Major General Adam Khan.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

معراج حسن نے اپنے لکھے اسکرپٹ میں اے کے بروہی جو کہ حکومت کے وکیل تھے کے کردار سے میجر جنرل اکبّر پہ طنز کروایا کہ وہ انگریز جنرل کے کہنے پہ وزیرستان کے عوام کے حلاف فوجی کاروائی کرتے رہے۔ اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ معراج حسن فوج میں دو مختلف میجر جنرل اکبر خان کو باہم گڈمڈ کرگئے۔اور پھر اس طنز کے جواب میں میجر جنرل اکبر کو فوج میں کمانڈ کے حکم کی ہر صورت پیروی کے اصول کا فقرہ کہلواتے ہیں۔

میجر جنرل اکبّر جو پاکستان کے قیام کے وقت کرنل محمد اکبر خان تھے یہ پہلے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈبلیو اینڈ ای تھے اور کشمیر آپریشن ڈائریکٹوریٹ کے انچارج تھے تو یہ وزیراعظم کے ملٹری ایڈوائزر بھی مقرر ہوئے تھے۔ ٹرپل ون بریگیڈ بھی بعد ازاں ان کی کمانڈ میں آیا اور یہ کشمیر آپریشن کے بعد سیالکوٹ چلا گیا تھا۔1950ء میں یہ جوائنٹ سروسز سٹاف کالج سروسز کورس کرنے لندن گئے اور وہیں انہوں نے برطانوی کمیونسٹ پارٹی کے کچھ اراکین سے ملاقاتیں کیں جس کی اطلاع اس وقت کے کمانڈر انچیف کو دی گئی جو پہلے سے اکبّر سمیت نوجوان فوجی افسران کو جانتے تھے جن کو ینگ ترک پارٹی بھی کہا جاتا تھا۔1950 دسمبر کے مہینے میں وہ میجر جنرل کے عہدے پہ پروموٹ ہوئے اور کمانڈر جنرل سٹاف مقرر ہوئے۔

بیگم نسیم نے 1959ء میں میجر جنرل اکبّر خان سے طلاق لے لی تھی۔

معراج حسن کے لکھے اس اسکرپٹ کی تاریخی لحاظ سے ایک کمزوری یہ ہے کہ اس میں جب جنرل محمد اکبر خان عدالت کے کہٹرے میں سے باہر آتے ہیں اور فیوچر میں جاتے ہیں تو ان کو کہیں یہ کہتے نہیں دکھایا گیا کہ ان کا منصوبہ اکبر خان کے گھر پہ ہوئے اجلاس 22 فروری 1951ء کو ہی وہاں پہ موجود لوگوں نے رد کردیا تھا اور خود کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان نے بھی اس منصوبے کو پہلے مرحلے میں ہی رد کردیا تھا۔ ایک اور غلطی سازش کا 23 فروری کو بنایا جانا بتایا جاتا ہے اور بروہی و سہروردی کا کردار ادا کرنے والے بھی 23 فروری ہی بولتے ہیں۔

…. In the early hours of the morning on 9 March 1951 I was arrested and carried away the whole of that day, a long distance from Pindi, to jail. In the deserted suburbs of what looked like a dead town, distant and asleep, that cold night, at 11 p.m. the massive doors of the jail groaned creaked and opened slowly to swallow a motor convoy that was bringing me in seventeen hours had been taken by that convoy speeding across territory that I had not been permitted to see, so that neither the route nor the destination should be known to me or anyone else interested in following us. That morning while I had been sleeping peacefully, a hundred men had surrounded my house and successfully overpowered my one unarmed watchman. Then Major-General Mian Hayauddin knocked at my bedroom window and said that he had to see me about something most urgent. I had gone at once, without even putting on shoes, through the study door to meet him. But as I emerged, men with bayonets and sten guns had rushed at me from three sides — the front and both flanks. I had been rushed at before, during the war, by the Japanese in fighting — but never by 20 to one and not when I was unarmed. I had only a split second to think and I had let them come on. I think it had been the complete failure of this melodrama to impress me at all that had stopped the men mid-stride. No bayonet or sten gun had reached my body — and the few hands that had been laid at me had been quickly withdrawn. A mere telephone call would have sufficed to tell me that I was under arrest. But instead all troops had been alerted and these men had apparently expected to be gunned down by some sort of desperado

میجر جنرل اکبّر اور بیگم نسیم کے بارے میں جو تاثر ان کے مخالفین نے اپنی کتابوں اور مضامین میں بنایا،خاص طور پہ لبرل ڈیموکریٹس نے، وہی امیج معراج حسن نے ہو بہو اپنے سکرپٹ میں پیش کردیا۔ اس ڈرامے کو دیکھنے کے بعد یہ پختہ یقین ہوجائے گا کہ کمیونسٹ اور فوجی افسران کا ایک ٹولہ باہم ملکر فوجی انقلاب لانے کی سازش کررہا تھا کہ پکڑا گیا۔ یہاں تک کہ سجاد ظہیر کے منہ یہ جملے کہلوائے جاتے ہیں کہ انسپکڑ اصغر نے ان کو کھانا دینے کے لیے آنے والے ایک کامریڈ کو پکڑا اور تشدد کرکے سارے سازشی منصوبے کی تفصیل معلوم کرلی جبکہ سجاد ظہیر ہوں یا میجر اسحاق محمد ہوں یا کیپٹن ظفر اللہ پوشنی ہوں کوئی بھی کمیونسٹ رکن یا رہنماء کبھی یہ بات کہتا نہیں پایا گیا کہ ان کی پارٹی نے کبھی انقلاب کو فوجی کودتا کے زریعے سے لانے کا سوچا بھی تھا۔

Image may contain: 1 person, standing
بیگم نسیم کا کردار

‘زندگی زندہ دلی کا نام ہے’ میں ظفر اللہ پوشنی جو اس سازش کیس میں نامزد مرکزی ملزمان میں سے تھے پوری تفصیل سے مقدمے سے پہلے اور مقدمے کے بعد کی صورت حال  پہ روشنی ڈالتے ہیں اور اس سے بالکل الٹ نتیجہ نکالتے ہیں جو حسن معراج کا سکرپٹ نکالتا ہے۔

حیرت انگیز طور پہ ظفر اللہ پوشنی کے کردار کو نہ تو عدالت کے کہٹرے میں کھڑا دکھایا گیا اور نہ ہی وہ ڈرائنگ روم میں نئی نسل کے ایک بچے کی لگائی عدالت میں ان کو پیش کیا گیا۔

حسن معراج نے سازش کیس کو حال موجود کے سیاسی-سماجی منظرنامے سے جوڑنے کی سعی ناکام کی ہے۔ یہ بہت مشکل کام تھا۔ فیض کے پڑپوتے اور فیض کی بہو کی بہو کی طرح کے دو کردار جن کا سماجی طبقاتی پس منظر بالائی پیٹی بورژوازی/درمیانے طبقے کی بالائی پرت سے ہے اپنی عدالت میں ان کرداروں کا احتساب کرتے ہیں۔ اور احتساب میں صرف اور صرف فیض پہ ہاتھ ہلکا رکھا گیا جبکہ سب سے سخت ہاتھ میجر جنرل اکبر و بیگم نسیم پہ رکھا گیا اور میجر اسحاق محمد کو فیض احمد فیض کے سامنے بہت دبا دبا دکھایا گیا۔

 اس اسکرپٹ میں حسن معراج پوسٹ سازش دور کے حوالے سے ہمیں مسلم لیگ نواز کے پانچ سالہ دور کے اندر کمرشل لبرل کے ڈسکورس کے اسیر نظر آئے اور مجھے ایسے لگا کہ کہ وہ سیاست میں نواز شریف کا، صحافت میں جیو۔ڈان گروپ کا مقدمہ لڑرہے تھے بلکہ ایک موقعہ پہ بہت واضح جنگ-جیو اور اے آر وائی میڈیا مالکان کی باہمی جنگ کا بلواسطہ حال بیان کرتے ہوئے اے آر وائی، صابر شاکر، حمیدچودھری اور اس کے مالک کو حاجی سنار کہہ کر ان کی مذمت کی جاتی ہے۔ لیکن دوسری جانب جو خود پاکستان کی بڑی بورژوازی کی نمائندگی کرنے والے میڈیا مالکان جنگ-جیو گروپ کے جو تضادات ہیں اس سے صرف نظر برت لی جاتی ہے۔

اس اسکرپٹ میں بالائی درمیانے طبقے کے ماڈرن لبرل ماں اور بیٹے کے کرداروں کے منہ سے وہ سارے کلیشے پیپلزپارٹی کے بارے میں کہلواتا ہے جو ہم عمومی طور پر پنجاب کی اربن چیٹرنگ کلاس اور کراچی کی چیٹرنگ اربن مڈل کلاس کے ہاں بکثرت سنتے ہیں اور اس پہ تصدیق کی مہر بھی لگاتا ہے۔مثال کے طور پہ ماڈرن بچہ کا کردار کہتا ہے کہ ‘گھر میں کام کرنے والی ماسی رجو کے حصّے میں آتی ہے پیپلزپارٹی،جو اسے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا لولی پاپ دیتی ہے اور اس کے شناختی کارڈ پہ کرپشن کا پیسہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتی ہے۔’ اور ماڈرن ماں فیصل آباد کے کچھ پیٹی بورژوازی کے علاقوں میں پی ٹی آئی اور تاجر و نچلے درمیانے طبقے میں نواز لیگ کو دکھاتی ہے اور اسے غریب علاقوں میں کہیں پیپلزپارٹی نظر نہیں آتی۔

میں نے حسن معراج کی توجہ لائٹ موڈ میں اس خامی کی جانب دلائی تھی۔

فیض احمد فیض کا کردار اس اسکرپٹ میں غیر معمولی طوالت کھینچ گیا ہے جبکہ اس کیس کے کردار میجر اسحاق محمد کے کردار کو زیادہ تر فیض صاحب کے بارے احوال بتانے تک محدود رکھا گیا ہے جبکہ اصل میں میجر اسحاق محمد اس کیس کے دوران کافی بڑی تبدیلیوں سے گزرے تھے، انھوں نے محنت کش طبقات کی نچلی پرتوں تک تعلقات کو مضبوط بنانے اور ایک انقلابی مزدور کسان پارٹی کی تشکیل کے لیے بڑی طویل جدوجہد کی جس کا ایک مرکز فیصل آباد کے صنعتی مزدور، کسان، کھیت مزدور، بھٹہ مزدور، سینٹری ورکرز وغیرہ تھے اور انھوں نے کئی تھیٹریکل ڈرامے بھی لکھے اور پھر ان کو پنجاب اور خیبرپختون خوا کے اندر گاؤں،دیہاتوں اور صنعتی مراکز میں پرفارم بھی کروایا اس کیس میں سزا پانے کے بعد جب وہ باہر نکلے تو شاید وہی ایک ایسا کردار تھے جنھوں نے کمیونسٹ پارٹی سیاست کی، مزدور-کسان انقلاب کے آدرش کو سیاسی و سماجی اور ثقافتی سطحوں پہ پارٹی سیاست کے ساتھ جوڑ کر دیکھا۔

Image may contain: one or more people, people sitting, people on stage and indoor
میجر اسحاق محمد کا کردار ادا کرتے ہوئے کہٹرے میں کھڑے میجر اسحاق محمد

اس کھیل کی پروڈکشن کرنے والوں نے نجم سیٹھی،وجاہت مسعود، سلیمہ ہاشمی کو کھیل دیکھنے کی دعوت دی اور نجم سیٹھی پہلے دن تو آئے نہیں آئے۔ غلام نبی کلو کامریڈ میجر اسحاق محمد کے دیرینہ ساتھی فیصل آباد سے تھےان کی بیٹی پروفیسر پروین کلّو مجھے یہاں نظر نہیں آئیں۔ اسکرپٹ پہ پیٹی بورژوازی/درمیانے طبقے کی لبرل پرتوں کے آدرشوں اور تعصابات کا غلبہ تھا تو ناظرین میں زیادہ بڑی تعداد بھی پیٹی بورژوازی ہی تھی اور تھوڑی سی لوئر پیٹی بورژوازی اور محنت کش و کسان پرتوں سے لوگ بالکل بھی نہیں تھے۔ شاید یہ پروڈکشن والوں کا مطمع نظر بھی نہیں تھا۔

اس تھیڑ کی کاسٹ جس کے اکثر لوگوں کو میں ذاتی طور پہ جانتا ہوں پہلی بار سٹیج ڈرامے میں بطور کردار کے حصّہ لے رہے تھے اور بڑی بھاری بھر کم شخصیات کے کردار وہ ادا کرنے جارہے تھے۔ سب نے ہی کردار ادا کرنے میں کمال کردیا۔ لیکن جو پوسٹ سازش ڈرائنگ روم والا پارٹ تھا،اس میں ماڈرن ماں اور لڑکے کا جو اسکرپٹ تھا وہ مجھے جیو پہ پیش ہونے والی سیاسی پیروڈی و کامیڈی شوز کے اسکرپٹ سے کافی مستعار لگی۔

Image may contain: 3 people, people sitting and indoor

سن 51ء میں ہونے سازش کا نام دیکر جو کریک ڈاؤن اور مقدمہ چلایا گیا، اس کا سب سے بڑا ہدف کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان اور اس کے طلباء(ڈی ایس ایف)،کسان(کسان رابطہ کمیٹی)، مزدور(پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن) اور ادیبوں( انجمن ترقی پسند مصنفین) اور صحافیوں( پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کمپنی) میں پاکستان کو سامراج اور اس کے گماشتہ مقامی حکمران طبقات سے نجات دلاکر حقیقی مساوات پہ مبنی سیاسی و معاشی نظام کے حصول کے لیے پیدا ہونے والے شعور کا راستا روکنا تھا۔اسے ہی سازش قرار دیا گیا تھا۔ لیکن اس اسکرپٹ میں تو سازش کا جو مطلب لیاقت خان کی حکومت نے نکالا وہی مان کر آگے بڑھا گیا۔اور کمیونسٹوں کو مہم جو عناصر اور یوٹوپیائی خیالات کے گرفتار دکھانے کی کوشش ہوئی۔

حسن معراج نے سجاد ظہیر کے ساتھ سب سے بڑا مذاق تو یہ کیا کہ وہ ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہوئے ماڈرن بچے کو ‘ٹراٹسکی’ کو پڑھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔( یہ سنتے ہی میری ہنسی چھوٹ گئی۔ کیونکہ مجھے اچھے سے پتا ہے کہ سجاد ظہیر بھی ہمارے ان ہی کمیونسٹوں میں سے تھے جن کے ہاں ٹراٹسکی کا نام جب بھی لیا جاتا تو وہ

Reneged Trotsky

کہتے جیسے

Reneged Kautsky

کہا جاتا تھا اور ہم تو یہ سمجھنے لگے تھے کہ اس کا نام ہی’غدار کاوتسکی’ تھا۔ اور مجھے تو یہ شک ہے کہ خود سجاد ظہیر نے بھی کبھی ٹراٹسکی کو نہیں پڑھا ہوگا۔

فیض صاحب کی وفات کا سن 1986ء بول دیا گیا جبکہ وہ 1984ء تھا۔ ایلس فیض نے اپنی یاد داشتوں میں بہت تفصیل سے بتایا ہے کہ نو مارچ 1951ء کی صبح ان کے گھر کیا ہوا تھا اور کیسے فیض گرفتار ہوئے اور پھر کیسے انہوں نے پاکستان ٹائمز میں جاب شروع کی اور بائی سائیکل پہ آنا جانا شروع کردیا۔ایلس فیض ایک ورکنگ لیڈی کے طور پہ سامنے آئیں اور میرا خیال یہ تھا کہ اگر اس کھیل پہ پیٹی بورژوازی رنگ غالب نہ ہوتا تو ایلس کو بطور ورکنگ ویمن ضرور دکھایا جاتا۔

انیس سو چوون میں حسن ناصر کو گرفتار کرلیا گیا اور اسے سخت تشدد اور اذیت کا نشانہ بنایا گیا اور پھر اسے وہاں سے نکال کر زبردستی ہندوستان بھیجا گیا جیسا کہ سجاد ظہیر کو بھی واپس ہندوستان بھیج دیا گیا تھا اگرچہ ایسا ان کی اپنی خواہش پہ ہوا تھا۔حسن ناصر سازش کیس کے مرکزی کردار تو نہ تھے لیکن وہ اسی کیس کے بعد شروع ہونے والے کریک ڈاؤن کا نشانہ بنے تھے۔

یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ سازش کیس میں رہائی کے بعد سبط حسن، فیض احمد فیض، محمد حسین عطاء پارٹی سیاست کا حصّہ نہ بنے لیکن میجر اسحاق کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کو دوبارہ سے فعال کرنے والے حسن ناصر،ایرک سپرین، جمال نقوی،دادا امیر حیدر و دیگر کے ساتھ ملکر جدوجہد کرتے رہے۔ اور ایوب خان نے بھی انہی سیاسی جدوجہد کرنے والوں کو نشانے پہ رکھا اور پھر 13 نومبر 1960ء کو شاہی قلعے لاہور کی جیل میں اذیتیں دے کر مار ڈالے گئے تھے۔ پانچ سال قبل فیض 1955ء میں جیل سے حسین شہید سہروردی کی وجہ سے رہا ہوگئے۔

ویسے پاکستان کے سامراج کے دلال آمروں نے کمیونسٹ سیاست کرنے والوں کو کبھی معاف نہیں کیا۔ اسکندر مرزا نے فیض کو گرفتار کیا کہ وہ کمیونسٹ خیالات کو فروغ دیتے ہیں اور ذوالفقار علی بھٹو کی سفارش پہ ان کی جان بخشی ہوئی۔ایوب خان کے زمانے ميں حسن ناصر گرفتار ہوئے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں نذیر عباسی شہید ہوئے۔جام ساقی پہ انسانیت سوز تشدد ہوا۔میجر اسحاق محمد نے پھر قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔اور ہزاروں تو تاریک راہوں میں مارے گئے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here