پاکستان میں اسلامی دانشوری کی سپر مارکیٹ میں جو رنگا رنگ برانڈز آج کل مقبول و مشہور ہیں ان میں ایک نام احمد جاوید کا بھی ہے۔

بھارت کے صوبہ بہار سے نقل مکانی کرکے پہلے کراچی اور بعد ازاں اسلام آباد اور لاہور میں قیام پذیر 65 سالہ احمد جاوید کو اپنے ادق اور مشکل لب و لہجے کی بنا پر پڑھے لکھے افراد کا ایک محدود حلقہ  پسند کرتا اور ان کے افکارو نظریات پر سر دھنتا ہے۔

ان کے افکار میں معانی کی بجائے الفاظ کے انبار ہوتے ہیں اور مدعا لفظوں کے ڈھیر میں کہیں بہت نیچے گم ہوجاتا ہے-

موصوف ایک عرصے تک جیو سکرین پر `حمزہ نامہ’ کے عنوان سے ایک بچے کی شراکت میں مذہبی اسلامی پروگرام کیا کرتے تھے۔

ان کو ٹی وی ناظرین سے متعارف کرانے میں اس پروگرام نے اہم رول اداکیا تھا۔

لیکن اب وہ اس پرگرام کوجبر کے تحت کیے جانے والا پروگرام قراردیتے ہیں۔

وہ جبر کیا تھا اس کے بارے میں بات کرنے سے گریزکرتے ہیں- حالانکہ بہت سے لوگوں کواُس وقت بھی جب وہ جبریہ پروگرام آن ائیر  ہوتا تھا اس حقیقت سے آگاہی تھی کہ  پروگرام  میں ان کے روبرو بیٹھا میزبان بچہ جیو ٹی وی  کے انفوٹینمنٹ  شعبے کے ڈائیریکٹر عبدالروف بٹ کا بیٹا تھااور بٹ نے احمد جاوید کو ٹی وی پر متعارف کرانے کا ٹیکس اپنے بیٹے کو اس پروگرام کا میزبان بنا کروصول کیا تھا۔

احمد جاوید نے حال ہی میں کراچی سے شایع ہونے والے جماعت اسلامی کے ہفتہ وار میگزین فرایئڈے سپیشل کو انٹرویو دیا ہے جو اس کی تازہ اشاعت میں شامل ہے۔

اپنے اس انٹرویو میں احمد جاوید نے مذہبی سیاسی جماعتوں، تبلیغی جماعت اوراسلامی معاشرہ کی تشکیل کے ضروری لوازمات، اپنے ادبی نظریات پر جماعت اسلامی سے نظریاتی وابستگی رکھنے والے سلیم احمد اور (جماعت اسلامی سے سخت نفرت کرنے والے) محمد حسن عسکری کے مرتب ہونے والے اثرات بارے میں اظہار خیال کیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ جو شخص حسن عسکری کے ادبی اورتنقیدی نظریات سے آگاہ نہیں ہے وہ ادب اور ادبی تنقید سے نابلد ہے۔

سلیم احمد کی شاعری کو وہ ہمارے تہذیبی زوال کا نوحہ قرار دیتے ہیں۔

محمد حسن عسکری وہ پہلے دانشور تھے جنھوں نے قیام پاکستان کے فوری بعد پاکستانی ادب کے نام پر ترقی پسند ادب اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے خلاف عَلَم جہاد بلند کیا تھا اور پاکستان میں ادب کے ذریعے رجعتی نظریات و افکار کو فروغ دینے کا آغاز کیا تھا۔

احمد جاوید نےاپنےانٹرویومیں سیکولرازم اور لبرل ازم بارے جو گوہر افشانی کی ہے اس سے ان کی علمی گہرائی اور وسعت کی قلعی کھل جاتی ہے-

ایک سوال کے  جواب میں سیکولر ازم اور لبرل ازم کے مابین فرق کو کچھ اس طرح واضح کرتے ہیں:

‘سیکولرازم اور لبرل ازم دونوں جڑواں بہنیں ہیں۔ لبرل ازم ایک رویہ ہے جب کہ سیکولرازم ایک نظام ہے۔ان میں فرق یہ ہے کہ سیکولرازم کا مطلب ہے کہ دنیا کے معاملات انسان چلائے گا اس کے لئے کسی خدائی ہدایت نامے کی ضرورت نہیں ہے۔یہ سیکولرازم ہے۔

لبرل ازم کا مطلب ہے کہ کفر بھی ٹھیک ہے اور ایمان بھی ٹھیک ہے۔دونوں کو موقع ملنا چاہیے۔ آدمی کو کافر ہونے کا بھی کھلا موقع ملنا چاہیے اور مومن ہونے کا بھی راستہ صاف ہے-‘

احمد جاوید کو یقینا معلوم ہوگا کہ یوروپ میں لبرل ڈیموکریٹک پارٹیاں موجود ہیں جو لبرل ازم کو ایک مکمل سیاسی اور معاشی نظام سمجھتی ہیں اور اس کے نفاذ کے لئے متحرک ہیں۔

ان میں سے بہت سی تو ایسی بھی ہیں جو ایک سے زائد مرتبہ اپنے ممالک میں حکومتیں بھی تشکیل دی چکی ہیں۔

لبرل ازم ایک رویہ نہیں بلکہ ایک مکمل نظام حیات ہے جس کی بنیادیں نجی ملکیت کے تقدس اور فرد کی لا محدود فکری اور نظریاتی آزادی ہر استوار ہیں۔

لبرل ازم سرمایہ داری کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو خواہ وہ کسی بھی نام پر ہو ہٹانے پر یقین رکھتا ہے۔

سیکولرازم لبرل ازم کی بائی پروڈکٹ ہے۔یوروپ میں ہی سوشل ڈیموکریٹک پارٹیاں بھی موجود ہیں جو سیکولر تو ہیں لیکن وہ لبرل ازم کے قطعا حق میں نہیں ہیں۔

وہ فرد کو مکمل فکری اور نظریاتی آزادی دینے کی بھی داعی ہیں لیکن فرد کے معاشی اور سماجی استحصال کی کھلی چھٹی دینے کی مخالفت کرتی ہیں۔

اسی طرح کمیونسٹ پارٹیاں بھی ہیں جو بہت سختی سیکولرازم پر یقین رکھتی ہیں اور شدت سے لبرل ازم اور اس کے معاشی وسیاسی ایجنڈے کی مخالف ہیں۔

ریاست اور مذہب کی علیحدگی جسے سیکولرازم کہتے ہیں ان سیاسی جماعتوں کی ریاستی،حکومتی اورسیاسی پالیسوں کا لازمی جزو ہے۔

سیکولرازم کوئی معاشی نظام نہیں ہے یہ تو کسی ریاست میں موجود مختلف مذاہب کے بارے میں ریاست کی غیرجانبداری کا اعلان ہے۔

یہ اس بات کا اعلان نامہ ہے کہ ریاست کا اپنی شہریوں کے مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے یہ ہر شہری کا اختیار ہے کہ وہ جو مذہب چاہے اخیتار کرے یا مذہب چھوڑ دے-

ریاست اس مسئلے میں مداخلت کا اختیار نہیں رکھتی۔

اپنے اس جواب میں احمد جاوید نے غیر مسلموں کے لئے کافر کی اصطلاح استعمال کی ہے جو عرصہ ہوا خود اسلامی لٹریچر سے معدوم ہوچکی ہے۔

جدید اسلامی سکالرز اب کافر کی بجائے غیر مسلم کی اصطلاح لکھتے اور بولتے ہیں کیونکہ کسی غیر مسلم کو کافر قرار دینا کسی فرد کا استحقاق نہیں ہے یہ حق صرف اللہ تعالی کو ہے وہ کس کو کافر سمجھتا ہے۔

ایک سوال کی جواب میں کہ ایک مسلمان اگر مسلمان ہے اورخود کو سیکولر کہے تو کیا اس نے اسلام کی جس بنیاد کا حلف لیا ہے  اس کی خلاف ورزی کررہا ہے؟

احمد جاوید اس کے جواب میں  فرماتے ہیں:

‘مذہبی آدمی سیکولر نہیں ہوسکتا۔’

اس پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ جو چاہے آپ کو حسن کرشمہ ساز کرئے۔

مولانا ابوالکلام آزاد مذہبی آدمی تھے یا نہیں؟

عبدالغفار خان تو نماز پنجگانہ ادا کرتے اور پکے مسلمان تھے۔ اور پھر مولانا حسرت موہانی کے بارے میں احمد جاوید کیا کہیں گے کہ وہ نہ صرف سیکولر تھے بلکہ خود کو پکا اشتراکی بھی کہتے تھے۔

پھر جماعت اسلامی ہند کے بارے کیا خیال ہے جس نے سیکولر ڈیموکریٹک فرنٹ بنایا ہوا ہے اور جو سیکولرازم کے تحفظ کی ہرروز اعادہ کرتی ہے۔

دارالعلوم دیوبند کے عمائدین تو سیکولرازم میں بھارت کے کروڑوں مسلمانوں کی سیاسی و معاشی نجات دیکھتے اور اس کے لئے ہر ممکن جدوجہد کرنے پر یقین رکھتے ہیں-

یہ افراد و جماعتیں احمد جاوید کے نزدیک مذہبی نہیں ہیں؟

مزید فرماتے ہیں کہ

‘سیکولرازم مذہب کی اور خاص طور پر اسلام کی نفی ہے۔`

ان کا  اس موقف کا مقصد شعوری طور پر گمراہی پھیلانا ہے۔

کیا بھارت، بنگلہ دیش، الجزائر، فلسطین اور دیگر لاتعداد مسلمان اور مسلمانوں کی سیاسی جماعتیں جو سیکولرازم کی بنیاد پر سیاسی جماعتیں حکومتیں تشکیل دیتی اور جدوجہد کرتی ہیں احمد جاوید کے نزدیک دائرہ اسلام سے خارج ہیں؟

یہ احمد جاوید جیسے دانشور ہی ہیں جو اپنے سطحی نظریات اور نقلی دانشوری کے ذریعے  بنی نوع انسان کو باہم جوڑنے کی بجائے مذہب اور عقیدے کی بنیاد  پر  اس میں تفریق اور عداوت پیدا کرنے کا موجب بنتے ہیں-

لیاقت علی ایڈوکیٹ سینئر قانون دان اور مقیم لاہور ہیں

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here