‘Then the revolution of 1952 came along. It was a disaster. The only thing that the military understands is war; their mentality is geared towards defending the borders against enemies. A country that is governed by the military is always a recipe for disaster.’

چہار ماہی رسالہ ‘آج’ جس کے ہر چار ماہ بعد دو شمارے منظر عام پر آتے ہیں کا شمارہ نمبر 107 مصر کے شہرہ آفاق ادیب اور دانشور یوسف زیدان کے ناول ‘عزازیل’ کے اردو ترجمے پر مشتمل ہے- اور یہ ترجمہ رسالے کے ایڈیٹر اجمل کمال کی دریافت مترجم ندیم اقبال نے کیا ہے-وہ پیشہ کے اعتبار سےنفسیاتی معالج اور ایک میڈیکل کالج میں گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ طلباء کو پڑھاتے ہیں-
یہ ایک ایسا ناول ہے،جو عربی میں شایع ہونےکے ساتھ ہی انتہائی متنازعہ ٹھہرا- پھر اس کا انگریزی ترجمہ ہوا تو اس ناول پر تنقید اور تعریف کا دائرہ پوری دنیا تک وسیع ہوگیا- زیدان نےیہ ناول کیوں لکھا، اس بارے میں زیدان نے پوچھے گئے سوال کا یوں جواب دیا
” یہ ایک دم سے کیا جانے والا فیصلہ نہیں تھا- میں ایک عرصے سے عرب ثقافتی ورثے کے داخل کے اندر موجود روکاؤٹوں کو ہٹانے پر کام کررہا تھا- ان روکاوٹوں میں خود تصوف اور ماہرین کی لکھی تاریخ کےدرمیانموحود روکاٹیں بھی شامل تھیں- جب میں نظریہ بشریات پر لکھنے کی کوشش کررہا تھا، تو میرے ایک استاد نے مجھے نصحیت کی کہ میں اپنے خیالات کے اطہار کا فنکارانہ اسلوب تلاش کروں، تاکہ ان کو میں نظم، کہانی یا ناول کی شکل دوں اور پھر لوگوں کو اسی راستے سے جو میں کہنا چاہتا ہوں پر غور و فکر کی دعوت دے سکوں- اس خیال نے مجھے متاثر کیا اور اس کا نتیجہ میرے پہلے ناول کی شکل میں نکلا، جس کا نام تھا،’سانپ کا سایہ’
زیدان کا کہنا تھا کہ جب دوسری کتاب لکھنے “عزازیل” لکھنے کی باری آئی تو میں اسے بھی ناول کی صورت لکھنے پر مجبور ہوا- مجھے اپنے تخیل اور قوت تخیل کی ضرورت تھی- اس نے مجھے محققین سے آگے جاکر اپنے کام کے قارئین کا وسیع دائرہ ملا-“
عزازیل ہسٹاریکل فکشن ہے،جس میں پانچویں صدی عیسوی کے مصر اور شام/لیونٹ( اس میں آج کا ترکی،لبنان،شام،فلسطین،اسرائیل وغیرہ کے علاقے شامل ہیں) کا جغرافیہ شامل کیا گیا ہے- اس کا مرکزی کردار مصر کے قدیم ترین باشندے قبطیوں سے تعلق رکھنے والا ایک مسیحی راہب ہے،جس نے اپنا نام ہیبا رکھ لیا، کیوں؟ مصر کے شہر اسکندریہ جو کسی زمانے میں قبطی بت پرست باشندوں کا مرکز علم و ثقافت تھا اور یہ شہر بعد میں کیسے رفتہ رفتہ مسیحیت کا گڑھ بن گیا اور جو بت پرستانہ علم و ثقافت کے منابع تھے یعنی معابد ان کی جگہ کلیساؤں اور راہبوں کی خانقاہوں نے لے لی اور اس زمانے میں پرانی بت پرستانہ تہذیب و ثقافت کے کسی بھی پہلو پر دانش مندارہ روشنی ڈالنا ‘کفر اور الحاد’ ٹھہر گیا تھا اور اس اسکندریہ شہر میں پرانے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والی ایک شہزادی جو علم ریاضی اور فیثاغورث کے فلسفے کی عالم تھی ہبیاتیا، راہب جو پہلے ہی دین مسیحیت کی تھیالوجی اور پرانی بت پرستانہ تھیالوجی کے درمیان پائے جانے والی مماثلت اور مسیحی تھیالوجی کے داخلی تضادات اور ان کے ناقابل انکار حقائق سے ٹکراؤ کے درمیان ہونے والی کشاکش سے دوچار تھا،ہبیاتیا کے حسن،علم اور طرز کلام سے متاثر ہوجاتا ہے اور اس کے عشق میں بھی مبتلا ہوجاتا ہے، اس ہیباتیا کو جنونی راہب اور مسیحی انتہا پسند ایک بلوے میں گھسیٹ گھسیٹ کر مار ڈالتے ہیں، راہب اس منظر کی پوری تصویر کشی کرتا ہے تو ہمیں بے اختیار اپنے ہاں مشال خان کا قتل یاد آتا ہے- راہب ہیباتیا کے نام کا پہلا حصّہ اپنا نام بنالیتا ہے- اور وہ راہب و طبیب ہیبا کے نام سے مشہور ہوجاتا ہے- ہیبا جیسے جیسے دوسرے فرقوں اور مذاہب کے بارے میں کلیسا کے ظلم دیکھتا ہے،ویسے ویسے وہ مسیحی عقائد سے ہم آہنگ خود کو کرنے میں ناکام رہ جاتا ہے-
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہیبا راہب ماقبل مسیحیت دور کے غیر قدامت پرستانہ اور بت پرستانہ مصری شہری ثقافت اور طرز تعمیر کے بارے میں ناسٹیلجک ہوتا چلا جاتا ہے- اسی دوران وہ ایک ایسے کم قدامت پرست مسیحی فرقے میں شمولیت اختیار کرلیتا ہے جو کہ قبطی قدامت پرست مسیحی مرکزی دھارے کی نظر میں منحرف،بدعتی ہوتا ہے-اس کے اندر جو تضادات کی جنگ چلتی ہے وہ اس پر اپنےاندر سے آنے والی ایک آواز جسے وہ عزازیل کہتا ہے سے مکالمہ کرتا رہتا ہے-

عام طور پر لوگ اس ناول کو قبطی مسیحیت کے خلاف ایک مناظراتی تحریر خیال کرتے رہے،لیکن جب 2009ء میں اسے عربی ادب کے زمرے میں برطانوی ادبی انعام بوکر پرائز کا حقدار قرار دیا گیا تو اس ناول کی تفہیم بارے بھی لوگوں کے سوچنے کا انداز بدل گیا-
یوسف زیدان مصر میں روایتی طرز فکر کو توڑنے اور روایتی نظریات کے دھارے کے خلاف تیرنے والا دانشور اور ادیب سمجھا جاتا ہے- اس نے کئی ایسے بیانات دیے جو بہت ہی متنازعہ ثابت ہوئے ہیں اور مصری سماج میں اس نے ارتعاش برپا کرکے رکھ دیا-
ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران انھوں نے سرے سے یہ ماننے سے انکار کر ڈالا کہ اسامہ بن لادن کوئی عالمی دہشت گرد تھا- وہ اسے غریب شودا غاروں میں چھپ کر رہنے والا مسکین تک کہہ بیٹھا اور کہا اس کی شخصیت کو افسانوی بنانے میں نوے فیصد امریکہ اور دس فیصد اس کے اپنے کردار کا دخل تھا-
ایک اور انٹرویو میں اس نے صلاح الدین ایوبی کو مسلم تاریخ کی قابل مذمت شخصیات میں سے ایک قرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا کہ اس نے فاطمی ثقافتی ورثے کو تباہ و برباد کیا اور فاطمی دور کے ایک بڑے شاندار کتب خانے کو بھی جلا کر راکھ کردیا تھا- اس انٹرویو نے مصر میں صلاح الدین ایوبی کو ہیرو ماننے والوں کی طرف سے سخت احتجاج کو جنم دیا-
یوسف زیدان نے ایک انٹرویو میں یہ بھی دعوی کیا کہ یروشلم میں مسجد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے74 سالوں کے بعد تعمیر ہوئی اور اور ‍قرآن میں جس مسجد اقصی کا ذکر ہے وہ یروشلم والی نہیں ہے- اس کو بھی ان کے متنازعہ ترین بیانات میں سے شمار کیا جاتا ہے-
یوسف زیدان نے عرب تھیالوجی پر لکھی اپنی کتاب جو ‘الاھوت العربی’ کے نام سے لکھی گئی ان کی جدید ترین کتاب ہے،جس میں اس کا دعوی ہے کہ یہودیت،مسیحیت اور اسلام کی جو تھیالوجی ہیں وہ الگ الگ نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے کا عکس ہیں- ایک کا دوسرے پر کلی برتری کا دعوی محل نظر ہے-
یوسف زیدان مصر میں دو بڑی مذہبی اسٹبلشمنٹ ‘الازھر’ اور قبطی مسیحی چرچ کی درجہ بند تھیالوجی کم چیلنج کرتا ہے- اور اس کے ناول عزازیل کو جتنی شہرت ملی اتنی ‘الاھوت العربی’ کو نہیں ملی اگرچہ مصر میں یہ ابتک بیسٹ سیلرز کتابوں میں سے ایک ہے-
یوسف زیدان کے ناولوں پر تنقید کرنے والے ادبی نقادوں کا خیال ہے کہ ان کے ناول اور کہانیاں تکنیک سے کہیں زیادہ ان میں پیش کیے جانے والے مواد کے سبب مقبول ہیں- لیکن بادی النظر میں یہ خیال اگرچہ ٹھیک لگتا ہے لیکن یوسف زیدان کا اسلوب اور چیزوں کو بیان کرنے کی تکنیک بھی اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے، ایسا ہرگز نہیں لگتا جیسے فلسفہ،مذہب، تاریخ اور علم الادویہ کو زبردستی ٹھونسا گیا ہو- جس موضوع کے سبب ان کے ناول عزاذیل کو شہرت نصیب ہوئی وہ موضوع کو فکشن کے تقاضے کے مطابق استعمال کرنے سے ہوئی ہے-
کئی ایک ناقدین کا کہنا ہے کہ یوسف زیدان نے توحید پرست مذاہب پر قبطی مسیحی کلیسا کی پانچویں صدی عیسوی میں مصر کے اندر چل رہی اندرونی کشاکش کے کاندھے پر رکھ کر بندوق چلانے کی کامیاب کوشش کی ہے اور یہ بندوق اگر وہ مسلم تھیالوجی کے کاندھے پر رکھ کر صلاح الدین ایوبی کے زمانے کے مصر کو رکھتے تو شاید ان کو بھی جلاوطن ہونا پڑتا- خطرات یوسف زیدان کے لیے اب بھی کم نہیں ہیں-
اس ناول کا ترجمہ بہت ہی شستہ اور رواں اردو میں ہوا ہے- جوناتھن رائٹ کے انگریزی ترجمے اور اصل عربی متن کو سامنے رکھ کر ترجمے کی نوک پلک درست کی گئی ہے- اور اردو ترجمے کی روانی بھی آپ کو اپنی جکڑ میں ویسے ہی لے لیتی ہے جیسے جوناتھن رائٹ کا انگریزی ترجمہ انگریزی پڑھنے والوں کو اپنی گرفت میں لیتا ہے-
ہیباتیا کا بنیاد پرست مذہبی جنونی قبطی عیسائیوں کے ہاتھوں قتل کا منظر نامہ یوسف زیدان اتنی مہارت سے کھینچتا ہے کہ آنکھوں کے سامنے فلم کی ریل سی چلتی معلوم ہوتی ہے بلکہ ایسے لگتا ہے جیسے پڑھنے والا اپنے سامنے وہ خوفناک منظر ہوتا دیکھ رہا ہے-


یوسف زیدان مذہبی اسٹبلشمنٹ کی کٹ حجتی کی منظر کشی کرتے ہوئے، یہ بھی دکھاتا ہے کہ اگر خود اس اسٹبلشمنٹ کے اندر سے بھی کوئی انتہا پسندی کو دور کرنے کی کوشش کرے تو اس کے ارتداد،کفر یا گمراہی کا فتوی جڑ دیا جاتا ہے-
مجھے دور حاضر میں صوفی سنّی مسلمانوں کے اندر ڈاکٹر طاہر القادری کی مثال یاد آجاتی ہے جو روایتی طور پر مدارس میں بھی پڑھے اور جدید تعلیمی اداروں میں بھی اور پھر انہوں نے اپنے اور دوسرے فرقوں کے اندر موجود قدامت پرست رویوں کو چیلنج شروع کیا تو ان کی اپنی بریلوی مذہبی اسٹبلشمنٹ کے اندر سے ایک کٹر پنتھی دھارے نے ان کے خلاف فتوؤں کی بھرمار شروع کردی- خاص طور پر عورت کی گواہی اور عورت کے قتل کی صورت میں اس کے خون بہا کے سوال پر ان کی اپروچ کے خلاف ایک طوفان برپا ہوگیا اور طاہر القادری بھی اپنے اس تفرد پر زیادہ زور نہیں دیتے-

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here