ادارتی نوٹ: برطانوی وزیر داخلہ اور کینڈین وزیر داخلہ دونوں نے لندن میں ‘آزاد میڈیا کانفرنس’ کا انعقاد کیا- اس میڈیا کانفرنس میں جن میڈیا گروپوں کے نمائندوں نے شرکت کی انہوں نے پاکستانی وزیر خارجہ کے خطاب کے سیشن کا بائیکاٹ کیا اور ایک کینڈین صحافی نے بلاسفیمی لاءز پر تنقید پر اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ کی بندش کا قصوار حکومت پاکستان ٹھہراتے ہوئے شاہ محمود قریشی پر خاصی تنقید کی تھی-

پاکستان میں لبرل سرمایہ داری کے حامی صحافی اور تجزیہ کار جن میں اکثریت آج کل میاں نواز شریف کے دست زر پر بیعت ہیں،اس کانفرنس کا بغیر کسی تنقید کے خیرمقدم کیا- اور اپنا زیادہ فوکس ‘شاہ محمود قریشی ‘ کے ساتھ کینڈین صحافی کی تلخی پر رکھا-

پاکستان میں لبرل اشراف زادے صحافیوں کی آج کل پناہ گاہ چند ایک ممالک کے بین الاقوامی نشریاتی اداروں کی اردو،پنجابی،سندھی، پشتو سروسز اور آفیشل ویب سائٹس ہیں اور یہ اشراف زادے لبرل صحافی ان چند ممالک کے مخصوص نشریاتی اداروں کو پریس کی آزادی کے کا سمبل بناکر پیش کرتے ہیں-

کینیڈا اور لندن کی جانب سے ‘میڈیا فریڈیم’ کانفرنس کے انعقاد کا مقصد دنیا بھر میں میڈیا کی آزادی کی آواز کو مستحکم کرنا بتایا گیا اور ہمارے ہاں نواز شریف کو دوسرا چی گیویرا لکھنے والے صحافیوں نے اس بیان کو جوں کا توں مان لیا کیوںکہ یہ ان کو وارے کھاتا تھا- اور یہی حال لندن، کینڈا،واشنگٹن،جرمنی،فرانس کی لبرل پریس اسٹبلشمنٹ کا بھی تھا-

مگر دنیا میں ہر کوئی صحافت پر کمرشل ازم کو غالب نہیں آنے دیتا اور ہر کوئی چمکدار خوشنما نعروں کے پیچھے تاریک حقیققت کو فراموش نہیں کرتا- ہر کوئی نہ تو نجم سیٹھی ہے، نہ ہی رضا رومی ہے۔ نا حجن صاحبہ ہے ، نہ حامد میر ہے،نہ وہ نصرت جاوید ہے نہ ہی کہانی گیر جاوید چوہدری ہے-

کینڈین نژاد ایوا بریلیٹ کا شمار ان آزاد صحافیوں میں ہوتا ہے جو چند مخصوص ممالک اور ان کے بین الاقوامی نشریاتی اداروں کے انسانی حقوق، آزادی رائے، آزاد صحافت کے جعلی نقابوں کو نوچ پھینک دیتی ہے اور کیسے ان ممالک کی حکومتیں اور ان کے نشریاتی ادارے اپنے ممالک میں ریاستی سطح پر ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور دوسرے ممالک کے معاملات میں ان نعروں کی آڑ میں مداخلت کو سنسر کرتے ہیں،بتاتی ہیں-  

لندن میڈیا فریڈیم کانفرنس  ایوا بریلیٹ کو مضحکہ خیزی کی علامت نظر آئی –انہوں نے اس کانفرنس بارے اپنے تازہ مضمون میں جو لکھا اسے ملاحظہ کریں- ع-ح

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

‘ مضحکہ خیز ایک ایسا لفظ ہے جو امریکہ اور برطانیہ کی وزرائے خارجہ محکموں کی میزبانی میں منعقد ہوئی ‘عالمی کانفرنس برآئے آزاد میڈیا’ کا زکر ہو تو ذہن میں آتا ہے- اس چکا چوند روشنیوں کے زون میں ہوئے اجتماع کے بارے میں ہر ایک چیز مضحکہ خیزی کی علامت تھی-

مضحکہ خیزی یہ ہے کہ جو حکومتیں شام میں دہشت گردوں کی حمایت کرتی ہیں اور فلسطینی صحافیوں کے اسرائیلی قاتلوں کو چھپاتی ہیں وہ صحافیوں کے حقوق اور میڈیا کی آزادی بارے بناوٹی فکرمندی کا اظہار کرنے کے لیے ایک کانفرنس منعقد کرنے کی جرآت کرتی ہیں-

مضحکہ خیزی یہ بھی تھی کہ وہ صحافی جو اصل میں زیرعتاب اور پابند سلاسل ہیں، اس کانفرنس کا وہ فوکس ہی نہ تھے- جیسے وکی لیکس کے بانی جولین اسانج اور ویشنسکی-

اس کانفرنس کا سب سے مضحکہ خیز پہلو یہ تھا کہ اس کانفرنس میں دو بڑے میڈیا گروپوں یعنی رشیا ٹوڈے اور سپوتنک کو مدعو کرنے سے انکار کردیا گیا- اور دونوں روس سے تلق رکھتے ہیں-

اس کانفرنس کے آرگنائزز نے ان دو بڑے میڈیا گروپوں کو مدعو نہ کرنے کا عذرلنگ یہ دیا کہ جتنے صحافیوں کو مدعو کرنے کی گنجائش تھی،وہ ختم ہوگئی تھی- لیکن آر ٹی کے لندن میں نمائندے پولی بوئکو نے مغربی میڈیا کے اس جھوٹ کو فاش کردیا- اس نے لکھا:

” ہماری پیٹھ پیچے دوسرے نیوز چینلز کو بالکل مختلف پیغام بھیجا گیا:’ ہم نے آر ٹی اور سپوتنک کو اس لیے مدعو نہیں کیا کہ بڑے پیمانے میں ڈس انفارمیشن پھیلانے میں آر ٹی اور سپوتنک کا کردار ہے۔’

ڈیلی گارڈین کے سابق غیرملکی نمائندے جوناتھن سٹیل نے آر ٹی اور سپوتنک کے اخراج کو شرمناک قرار دیا- اور کہا کہ ان کی نگاہ میں وہ آر ٹی کو سب سے کاٹ کر الگ تھلگ کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور یہ سب کچھ اس امید میں کررہے ہیں کہ برطانوی عوام اور دنیا بھر سے دوسرے لوگ آر ٹی کو دیکھنا جاری نہیں رکھیں گے-

مضحکہ خیزی — پھر دوبارہ یہ بھی ہے کہ روس اس جیسا کام نہیں کرہا—– یعنی وہ مغربی میڈیا کو الگ تھلگ نہیں کررہا-

روسی صحافی بریان میکڈونلڈ نے اس معاملے پر ٹوئٹ کیا:

“It’s like the world has turned on its head. Moscow is literally paying people to translate Western media into Russian (see @RT_InoTV). But the UK is in a panic about Russian outlets, even running covert operations, such as “Integrity Initiative,” to “combat” a perceived threat.”

یہ ایسے ہی ہے جیسے دنیا سر کے بل کھڑی ہوگئی ہو- ماسکو  تو لوگوں کو مغربی میڈیا کا ترجمہ کرنے کے لے ادائیگی کررہا ہے – لیکن برطانیہ کو روسی آؤٹ لیٹ بارے بے جینی ہے،وہ اس کے خلاف خفیہ آپریشن کررہا ہے، جیسے ‘ان ٹے گریٹی اینی ایشٹو’ سے لیکر ‘ مقابل آنا’ ایک مفروضہ خطرے کے نمٹنے کے لیے تک-

کمیٹی برئے تحفظ صحافیان( جوعمومی لبرل پریس اسٹبلشمنٹ کی ہمنوائی کرتی ہے) نے بھی برطانیہ کی جانب سے آر ٹی اور سپوتنک کے نکالے جانے پرتشویش کا اظہار کیا-  

سی این این کی کرسٹائن امنپور کے نعرے’سجائی رپورٹ کرو’ کو یو کے فارن آفس نے جس طرح سے اپنے ٹوئٹ میں نمایاں کیا تو بہت سوں نے اسے آنکھوں میں دھول جھونکنے جیسا سمجھا اور اسے جارج آرویل کے ناول 1984ء میں موجود آزادی کے مفقود ہونے کی بدتر صورتت کا پیش خیمہ خیال کیا اور یہ بھی نوٹ کیا کہ جب برطانیہ میں صحافی جولین اسانج پر ٹارچر ہورہا ہو تو ایسے میں کرسٹائن امنپور کا استعمال یہ پروپیگنڈا کرنے کے لیے ہورہا ہے کہ دنیا کو یہ باور کرایا جائے کہ برطانیہ میڈیا کی آزادی کی پرواہ کرتا ہے-

میں برطانیہ کے فارن آفس کی ہم نوائی نہیں کرسکی،کیونکہ کرسٹائن امن پور نے ایک شامی بچے کا استحصال کیا تھا تاکہ روس کو بدنام کیا جاسکے-

یو کے کانفرنس پہلی مثال نہیں ہے جو دوسرے ممالک میں مداخلت کرکے وہاں پر حکومت بدلنے والے کی حمایت کرنے والے میڈیا نے منعقد کی ہو اور اس میں تنقیدی میڈیا کو خارج کردیا ہو-

ایک سال پہلے،جب لائماگروپ کینڈا میں خودساختہ وینزویلا کے صدر زاں گوڑیو سے بات کررہا تھا تو کینڈا نے ٹیلیسر اور روسی میڈیا کو اس تک رسائی نہ دی-

اس وقت گلوبل افئیر کینیڈا نے الزام لگایا تھا کہ اس کے جواب میں روس کے اندر کینڈین میڈیا کے خلاف اقدام ہوگا-

تاہم برائن میکڈونلڈ نے مجھے بتایا تھا:”کوئی بھی میڈیا چاہے وہ روس میں آپریٹ کرسکتا ہے- کوئی پابندی کسی پر نہیں ہے۔”

امر واقعی یہ ہے کہ سی بی سی اور ریڈیو کینیڈا کے ٹوئٹر اکاؤنٹس کی پیروی بتاتی ہے کہ وہ اس وقت سے مسلسل روس سے رپورٹنگ کررہے ہیں جب کئی ماہ پہلے کینیڈا نے جوابی اقدام کا الزام عائد کیا تھا-

لائما گروپ کے اجلاس کے دوران کینیڈا نے کن میڈیا گروپوں کو رسائی دی؟ سی این این،یونی وژن،وائس آف امریکہ،الجزیرہ ، سی بی سی، سی ٹی وی، گلوبل اور لا پریسی سمیت دوسرے (زبردستی دوسرے ممالک میں مداخلت کرکے) حکومت ہٹاؤ( کے حق میں رپورٹنگ کرنے والے) کرنے والے میڈیا گروپ شامل تھے-

ٹیلیسر میڈیا نے کینڈا کی جانب سے اپنے آپ کو بلاک کیے جانے کے وقت لکھا:

“حکومت نے لائما گروپ کے اجلاس تک ٹیلیسر کو رسائی دینے سے انکار کی کوئی وجہ نہیں بتائی، لیکن کینڈین حکومت نے وینزویلا میں اپنی حکومتی ترجیحات کے باعث صحافت کی آزادی کو محدود کرنے پر تنقید کی ہے-“

“حکومت ہٹاؤ کانفرس “

دکھائی یہ دیتا ہے کہ یو کے کانفرنس جو جو دہشت گردوں کے حامی ہیں اور وہ صحافی جو ان حامیوں کے جرائم پر پردہ ڈالتے ہیں بلائے گئے- یا جیسے ایک کینڈین صحافی جس نے اس کانفرنس میں شرکت کی کہا،

“Meetings behind closed doors. Barring certain people from a press conference. Letting only hand-picked journalists ask questions. Here’s how Canada’s “media freedom” conference went down.”

” کانفرنس بند دروازوں کے پیچھے ہونے والے اجلاسوں کی کانفرنس تھی- کئی مخصوص لوگوں کو پریس کانفرنس میں آنے سے روک دیا گیا- اپنے چہیتے اور مخصوص چنے ہوئے صحافیوں کو سوالات کرنے کی اجازت دی گئی- اس طرح سے کینیڈا کی ‘میڈیا فریڈیم’ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا-“

اسی صحافی نے یہ بھی دیکھا،

” پہلے سے منتخب کردہ دو کینیڈین صحافیوں کو کانفرنس کے پہلے دن فری لینڈ اینڈ ہنٹ کے بارے میں مختصر سے میڈیا کے موجود ہونے کے ساتھ سوالات کرنے کی اجازت دی گئی- میڈیا کو اس کمرے میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی جو کہ اس کانفرس کا سب سے زیادہ اہم نتائج و عواقب اور حکمت عملی والا سیشن تھا،جہاں دنیا بھر سے آئے حکومتوں کے نمائندوں ‘کانفرنس کے بعد میڈیا فریڈیم کی مہم کے اثرات کو مستحکم کیسے کیا جائے؟جیسے سوال پر غور ہونا تھا-

کانفرنس میں وہاں بی بی سی،سی این این اور سی بی سی دوسروں کے اتھ موجود تھے- اگرچہ یہ سارے میڈیا گروپ وہ ہیں جنھوں نے شام اور روس بارے ڈس انفارمیشن پھیلائی تھیں لیکن یہ س کے سب ‘آزادی صحافت’ پر اتھارٹی/سند کے طور پر وہاں بلائے گئے تھے-

بی بی سی اپنے آپ کو ‘دنیا کا سب سے معتبر خبررساں نشریاتی ادارہ’ کے طور پر پیش کرتا ہے- یہ انتہائی مضحکہ خیز دعوی آسانی سے رد کیا جاسکتا ہےجب بی بی سی کے شام پر جنگی پروپیگنڈے پر ایک نظر ڈال لی جائے بشمول 2013ء میں اس کی ایک پروپیگنڈا رپورٹ ‘ شام کے بچوں کو بچاؤ’ جسے رابرٹ سٹوارٹ نے مغالطہ آفرینی کے ساتھ انوسٹی گیٹ کیا اور انتہائی گمراہ کن طریفے سے اسے پیش کیا-

یا اس وقت یہ دعوی صریحا غلط ثابت ہوا جب بی بی سی نے اطالوی فوٹو جرنلسٹ مارکو ڈی لوارو کا عراق کا فوٹو یہ کہہ کر استعمال کیا کہ یہ شام کا علاقہ حلہ ہے- جیسا کہ میں نے اس سے پہلے لکھا تھا کہ ‘ہکا بکا رہ گئے صحافی کے مطالبے پر، وہ دعوی بعد میں واپس لے لیا گیا اور اور یہ کہہ کر اس کی درستگی کی گئی کہ یہ نادانستگی میں ہوئی غلطی تھی ۔۔۔۔لیکن اس وقت بھلا کس نے یہ بات سننا تھی-

یا یہ دعوی اس وقت جھوٹا ثابت ہوا تھا جب بی بی سی کے مڈل ایسٹ اسپیشلسٹ نے ایک وائرل ہوئی وڈیو کو شام میں بشار حکومت کے کنٹرول والے علاقے میں ریکارڈ ہوئی ویڈیو قرار دیا کیونکہ ‘شامی جھنڈے’ کو ایک بیرل پر پینٹ کیا گیا تھا- جبکہ کلپ نارویجن نے مالٹا میں فلمایا گیا تھا اور بیرل کو ایسے پینٹ کیا گیا تھا کہ وہ شام کے قومی پرچم کی نقل لگے-

لیکن بی بی بی کے قابل اعتبار ہونے کے بارے میں سب سے زیادہ بتانے والی بات یہ ہے کہ کانرے کے مطابق ” یو کے کی کنزرویٹو حکومت بی بی سی کا چئیرمین اور اس کے چار نیشنل ڈائریکٹرز کی تعیناتی کرتی ہے-“

وینزویلا کی انوسٹی گیٹو رپورٹر کے طورپر پیش کرکے ، لو‍‍ز میلے ریز کو کانفرنس میں مدعو کیا گیا تھا- ریز خودساختہ صدر وینزویلا کے اپوزیشن لیڈر خوان گوائی ڈو کی وکیل صفائی اور یہ مغربی میڈیا ٹائم اور گارڈین کی گیٹ کیپر ہے- اس طرح سے وہ رجیم ہٹاؤ کانفرنس کے لیے ایک موزوں مہمان تھی-

شام سے جو صحافی مدعو کیے گئے وہ رجیم ہٹاؤ صحافی تھے جن میں کرم نشر، سائبر ایکٹوسٹ سوشل میڈیا پر شامی احتجاج کرنے والوں کے ساتھ متحرک، اس کے  بارے میں ‘ ڈیموکریسی نو’ میں لکھا ہے کہ وہ رجیم ہٹاؤ حامیوں میں سے ایک ہے اور اکثر مغربی مداخلت کے حق میں دلائل دیتا نظر آتا ہے-

وعد الخطیب، 2018ء میں حلب کے آزاد کرائے جانے سے قبل ایک فلم ساز کے طور پر ابھری- اس کے بنائے کلپ دوسرے مغربی نشریاتی اداروں کے ساتھ ساتھ یو کے کے چینل فور پر چلائے گئے جو شام پر بدترین جنگی پروپیگنڈا کرنے والوں میں سے ایک تھے-

المیہ یہ تھا کہ وعدالخطیب انٹرنیشنل میڈیا کوریج والے علاقوں کی مناسبت سے مقامی صحافیوں کے کردار پر بولنے والوں کی فہرست میں رکھا گیا تھا- لیکن اس نے مغربی کارپوریٹ میڈیا کی دوسری ڈارلنگ کی طرح دہشت گردوں کے قبضے میں موجود علاقوں میں مکمل طور پر ‘ہم بستر’ (ام بیڈڈ) رپورٹنگ کی جو صاف صاف دہشت گردوں کی اجازت اور منظوری کے ساتھ تھی-

‘صحافیوں کی حفاظت اور تحفظ ‘ پر بحث کے لیے صدارتی پینل میں سکائی نیوز کے الیکس کرافورڈ کے علاوہ کوئی نہیں تھا- جون میں کرافورڈ خود ادلب میں القاعدہ سے ملکر  رپورٹنگ کررہا تھا جبکہ وہ اور ایس بی ایس کے صحافی غیر قانونی طور پر شام میں داخل ہوئے تھے اور دونوں ٹیموں نے القاعدہ سے مل کر رپورٹنگ کی تھی-

کسی کے لیے بھی کرافورڈ کی سیفٹی ایڈوائس یہی ہوسکتی تھی: القاعدہ کو پیسے دو،تم دہشت گردوں کے ساتھ بہتر طریقے سے گھوم پھر لوگے-

ایک پینل ‘ نیوی گے ٹنگ  ڈس انفارمیشن” تھا جس کی صدارت کرسٹیا فری لینڈ نے کی – جو یوکرائنی حکام کے ساتھ اپنی وفاداریوں کی وجہ سے پہچانی جاتی ہیں اور اس خون آشام کودتا کے ساتھ ہمدردیاں رکھتی ہیں جو یوکرائنی حکام کو برسراقتدار لایا اور وہ وینزیلا میںکودتا کے منصوبہ سازوں کی ہمدرد ہیں اور القاعدہ کے وائٹ ہلمٹ کے ساتھ ۔۔۔۔۔ اس طرح کی ہمدردیوں کے سبب ان کو مذکورہ بالا پینل کی ماڈریٹر کے طور پر چنا گیا-

صحافیوں کے لیے مصنوعی فکرمندی؛ اسانج اور کرل وشینسیکی کا تذکرہ غائب

جہاں پر یہ کانفرنس منعقد ہورہی تھی اس سے تھوڑی دیر کی مسافت پر بیل مارش جیل میں بند جولین اسانج کا تذکرہ چالاکی سے ایجنڈے سے غائب کردیا گیا- جیسا کہ آر ٹی نے نشاندہی کی تھی کہ یو کے کانفرنس اس وقت ہورہی ہے جب جولین اسانج کے بے دخلی کے کاغذات پر یو کے دستخط کرنے جارہا ہے-

دس جولائی کو جب کانفرنس کا پہلا دن تھا تو ہنٹ نے ان ممالک کا بیان کیا جہاں پر میڈیا کی آزادی کی ڈپلومیٹک قیمت ادا کرنا پڑتی ہے- اور کہا:

” اگر ہم اکٹھے مل کر کام کریں تو ہم نہ صرف خلاف ورزی کو نمایاں کرسکتے ہیں بلکہ ان ملکوں پر سفارتی ہرجانہ بھی عائد کرسکتے ہیں جو صحافیوں کو نقصان پہنچاتے ہیں یا ان کو ان کے کام کی وجہ سے نظربند کرتے ہیں-“

یہ ایک ایسی حکومت کا فارن سیکرٹری کہہ رہا تھا جس نے صحافی جولین اسانج کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال رکھا ہے اور امریکی جنگی جرائم بے نقاب کرنے کے جرم میں امریکی عدالت میں اس پر مقدمہ چلانے کے لیے اسے امریکہ بھیجنے کے کاغذات تیار کررہی ہے-

جب رپٹلی کے صحافی برنابی نربرکا نے ہنٹ کے کہے گئے الفاظ کو لیکر اسانج کے ایشو پر اس کو جتاؤنی دی تو اس کی آواز بھی نہیں نکلی-

یوکرائنی-روسی صحافی کرل ویشنسکی جوکہ 14 ماہ سے یوکرائن میں بے گناہ قید ہے اس کا بھی زکر نہیں ہو اور یہ بھی میڈیا فریڈیم کی کھلی خلاف ورزی تھی-

اسی طرح شامی صحافی خالد الخطاب کا زکر بھی نہیں کیا گیا،جسے داعش نے 2017ء میں قتل کردیا تھا- ایسے ہی کسی ایک بھی خالد کی طرح اس سے پہلے جہادیوں کے ہاتھوں مارے جانے والے کسی صحافی کا زکر نہیں کیا گیا-

یو کے فارن آفس نے مشرقی یوکرائن میں ٹارچر، گمشدگی اور موت کے رسک بارے ٹوئٹ کرنے کی غلطی کی-

یوکرائنی جرنلسٹ سرگئی بیلوس کو یوکرائنی افواج نے 2014ء میں اغواء کیا تھا ، اس نے اسی وقت یوکے فارن آفس کی درستگی کی-

ایسے مارک سلیوبوڈا نے بی ایس کو بتایا کہ 20 سے زائد صحافی ملیٹنٹ فورسز اور براؤن شرٹ پیراملٹری بٹالینز نے مار ڈالے اور یہ سب کرنے والوں کو یوکرائن کے نئے رجیم نے بنایا-

صاف پتا چلتا ہے کہ فارن منسٹرز ہنٹ اور فری لینڈ کے کہے شاندار الفاظ کا اطلاق صرف ان صحافیوں پر ہوتا ہے جو رجیم ہٹاؤ کی سپورٹ کرتے ہوں نہ کہ وہ جن کو اتحادی حکومتیں اور ان کے دہشت گرد نشانہ بناتے ہوں-

سنسر شپ کانفرنس کے بعد

ہفتے کے روز میں نے پڑھا کہ ایک یوکرائنی پاپولر ٹی وی چینل پر اس دن گرینیڈ لانچر سے حملہ کیا گیا جس دن یوکرائن پر اولیو سٹون کے نام سے دستاویز فلم نشر کی جانی تھی-

تو میں نے پوچھا:

”   فری لینڈ اور ہنٹ کی طرف سے مشترکہ طور پر منعقد کی جانے والی نام نہاد ‘گلوبل میڈیا فریڈیم’ کانفرنس کا کوئی ردعمل یا ان کی طرف سے جنھوں نے میڈیا کی آزادی کی خلاف ورزی اور میڈیا پر ہوئی زیادیتیوں کو نمایاں کرکے دکھانے کا حلف اٹھایا تھا تاکہ عالمی سطح پر عوامی توجہ مبذول ہو اور ملکر اس کا سدباب کیا جائے؟

میں نے یہ سوال محض شور ڈالنے کے لیے اٹھایا تھا ناکہ مجھے ان حکومتی نمائندوں سے کسی جواب کی توقع تھی جنھوں نے میڈیا کی آزادی کا تحفظ کرنے کا جلف دیا تھا کہ وہ واقعی اس کا تحفظ کریں گے-

ان کا یہ حلف میڈیا کی آزادی کا پاس نہ کرنے اور خلاف ورزیوں پر روشنی ڈالنے کا پابند کرتا ہے اور ان چیزوں کی طرف عالمی رائے عامہ کی توجہ کرنے اور ایسا کرنے والوں کا محاسبہ کرنے کے اکٹھے کام کرنے کا فرض ڈالتا ہے- یہ کس قدر مضححکہ خیز بات ہے-

Eva Bartlett is a Canadian independent journalist and activist. She has spent years on the ground covering conflict zones in the Middle East, especially in Syria and Palestine (where she lived for nearly four years).

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here