یہ اوائل سنہ 2008 کا ذکر ھے، جب نایاب کے کہنے پہ میں نے اسکے ساتھ نجف اکیڈمی جوائن کی ، عموماً لوگ اکیڈمیز ٹیوشن یا پھر منتخب کورس کی تیاری کو جایا کرتے ہیں، مگر نجف اکیڈمی میں کچھ الگ مقصد و سلیبس تھا ، یعنی بہن اور دیگر دوستوں کا مطلوب بنیادی طور پہ دروس و مجالس کے لئے خطابت سیکھنا، تفسیرِ قرآن ،فلسفہ و منطق، بیان، اور رموز نگارش کا ابتدائیہ جاننےکا کلاس روم ، اس سب میں میری پسند کے عناوین تفسیر، شاعری، فلسفہ و نثر موجود تھے سو بخوشی اس کلاس میں نام لکھوایا، میرے ہم سبقوں میں شہر کی متدین، معزز، مجالس پڑھنے والی خواہران / ذاکرات بھی شامل تھیں، خواہر رباب جنہوں نے متعارف کروایا،

تعارف ھوا تو کھلا کہ استادِ محترم علامہ ضیاء حسین ضیاء جن سے ہم اپنی بساط بھر کسبِ فیض کریں گے  مکتبِ اہلیبیت میں مشہور و معروف اور درس آل محمد کے بانی مبلغِ اعظم مولوی محمد اسماعیٰل دیوبندی کے فرزندِ رشید ھیں، ہرچند کہ گھنے چھتنار تلے اپنا الگ نام و تشخص منوانا تقریباً ناممکنات سے ھے مگر ضیاء صاحب کچھ ایسی ہی شخصیت تھے،

 اور آج انکے لئے “ھیں” کی جگہ “تھے” لکھتے ھوئے جو ٹیس اٹھی ھے اسکا بیان آسان نہیں

اس سے پہلے اپنے مکتبِ فکر اور خصوصاً اپنے شہر سے ایسا کوئی سلجھا، ثقہ، شائستہ، پروقار، وضع دار و طرح دار شاعر دیکھنے کا اتفاق نہیں ھوا، بلکہ “شاعر” کا لفظ سنتے ساتھ جو عمومی خاکہ ذہن میں ابھرتا ھے وہ بکھری زلفوں، مجہول حلیے میں دنیا و مافيها سے بے خبر ایک پیکر کا ھوتا ھے، کیونکہ دورِ جدید کے زیادہ تر شعراء ردیف قافیہ کے ساتھ ساتھ بودوباش اور تراش خراش کی زحمات سے بھی مطلقاً آزاد پائے جاتے ہیں،

لیکن یہ سب خیالات سر ضیاء حسین ضیاء سے ملاقات کے بعد جاتے رھے، ایسی ہمہ جہت شخصیت جو دروں بین قدیمی اداسی کے ساتھ ساتھ  خوش مزاج، خوش وضع، خوش اطوار، نستعلیق و متنوع نثرنگار، دقیق محقق، ناقد، شاعر، فلسفی، عمدہ ناول نگار، ادب کی کونسی صنف ایسی رہ گئی جس پہ نہ صرف طبع آزمائی بلکہ بےپناہ داد و تحسین نہ پائی ھو، ملکی مشہور جامعات کے ایم اے، ایم فل میں علامہ ضیاء حسین ضیاء کے فن اور شخصیت پہ تھیسس لکھے گئے، اور آج جب ڈھونڈنے بیٹھی تو معلوم ھورہا ھے کہ انہوں نے تعصب اور چاپلوسی سے یارانہ نہ ھونے کے چلن اپنی ذاتی تشہیر اور تعریفی کالموں کا کوئی اثاثہ نہیں چھوڑا، جس میں انکے ممدوح شب و روز توصیفی خاکہ جات پیش کرتے، وہ سب جو انکے وسیع دسترخوان سے لیکر مزاج کی سخاوت تک کے شاہد تھے ان پہ واجب ھے اس انسان کو خراجِ تحسین پیش کرنا جو لوگوں کی اسقدر کھلے دل اور خوبصورتی سے حوصلہ افزائی کیا کرتا تھا کہ مخاطب نہ صرف کھِل اٹھے بلکہ پہلے سے بڑھ کر اپنی صلاحیتوں سے کام لے کیونکہ اسے برملا توصیف کیا گیا، اہم سمجھا گیا اور عزت و شرف کا حامل کہا گیا،

اسکی مثال میں سر ضیاء کا ایک دوست کی گفتگو پہ جوابی کمنٹ ملاحظہ کیجئے اور حرف و نطق پہ قربان جائیے،

فرمایا “آپ کے چہرے اور طبیعت مین ایک سلاست پائی جاتی ھے ۔۔  خوش نصیب ھیں وہ لوگ جن کے چہرے نصاب سے باھر دیئے گئے سوال کی طرح نہیں ھوتے جنہیں طالب علم قبول نہیں کرتے، بلکہ محرابِ مسجد کا توفیق یافتہ تاثر لئے ھوتے ھیں ۔میں نے اپنی زندگی میں دیکھا لوگ جائز اور بر حق تعریف سے بھی اعراض اور بخل کرتے ھیں ۔۔  خدا آپ کو خوش رکھے ۔۔۔۔ آپ سے علمی اور روحانی مکالمہ کر کے مجھے بہت خوشی ھو گی ۔۔سلامت رھیئے”

لائیے کہیں سے ایسی مثال، ھے کوئی جو دروازہِ گل سے رختِ سفر باندھ چکے ضیاء صاحب کے جمالیاتی محاسن کو ٹکر دے، دکھائیے کہیں ایسا فکری و جمالی اسلوب جو اُس درویش طبیعت، دیوتاؤں جیسا تاثر رکھتی بزرگانہ شان کے حامل” لوحِ غیر محفوظ” کے نوحہ گر کا خاصہ تھی، زرنگار سخن پہ نگاہ کیجئے،

“شاعری ~ جب خیال کا پسینہ مہکتا ھے اور مشاعر وجذبات کا تموج زندگی سے نہیں سنبھلتا تو وہ کسی شاعر کو آواز دیتی ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جب زندگی کو ھنسنے میں دشواری اور رونے میں عزاداری میسر نہ آئے تو شاعر فرض کفایہ کے طور پر یہ دونوں ذمہ داریاں اپنے سر لیتا ھے۔ جبھی تو شاعر کا شعر ترجمان بشر بنتا ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو کوئی رو نہ سکا تو شاعری نے رلا دیا جو کوئی کیف ِ نشاط محسوس نہ کر سکا ۔۔۔۔۔اس جرعہ ء نشہ باز نے محسوس کروا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شاعری سہولت ھے گھمیر غم کو رقت تک لانے میں اور وسیلہ ھے ھیجان کی مذمت کرنے کا اور شیوہ ء خوش گفتاری و خوش فکری کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شاعر نہ ھوتا تو جذبوں کو آئینہ کون دکھاتا ،اور خوباوں کو آراستہ ھونے پر مبارکباد کون دیتا ؟؟؟”

_ _ _ _ _ _ _ _ _

لمحہ ء فکریہ

( دروازہ ء جذب پر دستک کرتی ایک نظم )

کعبہ کی دیواریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اونچی کرنے دو

فصیل ِ حرم مضبوط کرنے دو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دعاؤں میں ترمیم کرنے دو

سجدوں کو زیادہ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تھوڑا معقول کرنے دو

حرم عبادت گاہ عقلی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔؟

عقلی تھی تو ایمانی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

ایمانی تھی تو قلبی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔؟

تو کیا یونہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریک ِ اعتقاد یزدانی تھی ؟؟؟

مجھے کعبے کی دیواریں اونچی کرنے دو

مفہم اور غیر مفہم کے مابین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خلا پیدا ھو رھا ھے

قلعے میں سوراخ بن رھے ھیں

دروازوں کی کنجیاں

پہرے داروں کی جیبوں سے غائب ھونے لگی ھیں

 کچھ ھونے کو ھے !

ھونے کا سب سے بڑا خالق و وارث  تو اُدھر ھی ھوتا ھے

وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ “پریشان” ھے

وہ لوگوں کی ضرورت بنتے بنتے اب تھکنے لگا ھے

دعا مانگنے والے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

طواف کرنے والے ۔۔۔۔۔۔۔۔

سعی کرنے والے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شیطان کو کنکریاں مارنے والے

 اب اپنے ساتھ ” آکسیجن ” نہیں لاتے

یہاں آ کر ان کے عقیدوں کے پھیپھڑے سکڑنے لگتے ھیں

وہ خود تازہ ھوا ملنے کے طلبگار ھوتے ھیں

طلب اور رسد کی ۔۔۔۔۔۔۔۔

نفسیاتی آماجگاہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ھر سال یہاں سجنے لگتی ھے

فریضہ کی دھوم ھے

مگر !!!

شان الوھہت  ایک کونے میں تنہا کھڑی سوچ رھی ھے

“عبدیت ” کی بے روح نوا گری

بجز صداؤں کے کہرام کے خالی مشقت رہ گئی ھے

یہاں کیا ھو رھا ھے ؟

تقویٰ عادتوں کے محمل پر سوار ھے

نماز کیفیت سے عاری

اور روزہ خوشبو کی بجائے مشک بو کی ہتھیلی پر دھرا ھے

زکواۃ کے معنی نہ سمجھنے والے نہیں جانتے کہ ؛

کہ حرم تک آتے آتے وہ ایسی فقیرانہ التجائیں ساتھ لے آئے ھیں

جو ٹریفک سگنلوں پر وقف طلب ِ امداد کھڑی رھیں

مرھم مانگتی رھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر ٹریفک تیز تھی

کعبہ در کعبہ سنی اور ان کہی کا ایک بے نوا اہرام کھڑا ھو رھا ھے

جہاد رو رھا ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے وھاں استعمال کیا گیا جہاں انسانیت

دو گھونٹ پانی کو ترستی رھی

فرقہ فرقہ وحدت کا مذاق اڑایا گیا ھے

اعمال الٹے لٹکے پڑے ھیں

دعاؤن کے فانوس میں جکڑے پڑے ھیں

سجاوٹ مکمل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن رو شنی معدوم !

ھہھات !!! واویلا !!! مرگ مفاجات !!!

اِدھر خدا ھے کعبہ چھوڑنے کی تیاری کر چکا ھے

جو کام ھمارے ذمۤے کے تھے

اگر ھم نہ کریں گے تو خدا کعبہ یقیناً چھوڑ جائے گا

اُسے اپنے حصے کے کام کرنے ھیں ۔۔۔۔۔۔۔

وہ ھماری طرح سہولت پسند نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !!!

ھیھات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ھیھات !!!

واویلا !!! مرگ ِمفاجات !!!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 (ضیاء حسین ضیاء ، 2014)

ان سے ایک بار ملاقات کرنے والا متاثر ھوئے بنا نہیں رہ سکتا تھا، میرے مشاہدے میں ان سے کچھ دیر گفتگو کرنے والے کو یا تو انکا ہمیشہ کو گرویدہ ھونا جچتا تھا یا رشک سے کچھ بڑھ کے حاسدین کی کیٹگری تک رسائی ممکن ھو پاتی، بیچ کا کوئی راستہ نہیں تھا، اور یہ کیسا غضب تھا،

ضیاء صاحب کے فن، انکی شاعری، ادبیات، فلسفے، بحیثیت محقق و ناقد، نثری اور علمی صلاحیتوں پہ تبصرہ کرتے وہی سجیں گے جو خود کوئی حیثیت رکھتے ہیں جو خود انکی ٹکر انکے پائے کے ہیں، مجھ بے بضاعت، کم علم طالب علم کی کیا اوقات کہ انکے فن بارے اظہارِ خیال کرپائے، میری لکھی یہ سطریں، یہ اظہار انکے ساتھ گزرے کچھ وقت اور ایک دہائی کے عرصہ میں گاہے گاہے کی فون اور انٹرنیٹ پہ گفتگو کا قرض ہیں

کچھ یادداشتیں ھیں جو اگر تحریر ھو جائیں تو بہتر ھیں، کہ تین دہائیوں سے اوپر کی اپنی اب تک گزری زندگی میں فقط دو انسان ایسے دیکھے جو اپنے باپ سے عشق میں یوں ڈوبے نچڑے زندگی کرتے ملے جیسے گلاب جامن شیرے سے نچڑتا ھے، ایک خواہر سعیدہ موسوی اپنے والد گرامی عالمِ بےبدل آغا السید علی الموسوی اور دوسرے علامہ ضیاء حسین ضیاء ، دونوں کے بے مثل باپ کیسی مبارک اولاد صدقہِ جاریہ کرگئے،

میں وہ منظر آنکھوں میں لاؤں جب جب اپنے والد مولانا اسماعیٰل کا نام لیتے، انکے حوالے سے کچھ بیان کرتے، ان کا ذکر کرتے بیٹے کی حالت متغیر ھوجاتی،ایک شاندار فی البدیہہ مقرر، ملا صدرا کے پارکھ شاعر کبھی تو موضوع کے اخیر تک یہ بھول جاتے کہ باپ کے ذکر سے پہلے وہ کس عنوان پہ کیا نکتہ ہائے پیچیدہ بیان کررھے تھے، ،رونگٹے کھڑے ھوجانا، کُل وجود کا خود سامع ھوکر اپنی زبان سے اپنے نامور باہنر بےنظیر باپ کا ذکر چھیڑنا اور محوِ استغراق ھوجانا، یہ کیفیت جھیلنا کیسا تجربہ ھے یہ تو اسی فرزند کو معلوم مگر مجھ جیسے عام انسان، معمولی طالب علم کے لئے یہ سب حیران کن تھا،

متمول گھرانے سے تعلق، اور دین و ادب پہ اپنا پیسہ لگانے کا جگر اسی گھرانے کو ملا، کشادہ دلی و کشادہ ذہنی کے ساتھ سخی مزاج، رقیق القلبی و غرباء پروری اور معمولی جزئیات کے لئے حساسیت انکے مزاج میں رچی بسی تھی،

بارہا یوں ھوا کہ انکی لائبریری میں کلاس کے دوران، ہمیں پڑھاتے ھوئے انکو کوئی ضروری کال آجاتی، اور فون پہ انکی جانب سے دی جانی والی ھدایات کو سن کر ہم اندازے لگاتے، اور کبھی تو متجسس ھوکر پوچھ بھی بیٹھتے، ایک بار کہانی یہ تھی کہ کوئی صاحب انکے والد گرامی کی کتب سے کچھ حوالے کاپی کرنے کو جھنگ سے آئے، اور کتب فوٹو کاپی کروانے کی درخواست کی، یہ ہمارے سامنے کی بات تھی، سر ضیاء نے اپنے ایک بیٹے اور ملازم کو انکے ساتھ کیا کہ خود ساتھ جاکر احتیاط سے مطلوبہ صفحات کاپی کروا دیں، جیسے ہی وہ نکلے کچھ دیر بعد موبائل بجنے لگا، بچے سے معلوم ھوا کہ جو سوالی فوٹو کاپی کو حاضر ھوا تھا وہ نہ تو کاپی کروانے کے پیسے رکھتا ھے اور نہ واپسی کا کرایہ پاس ھے، اس پہ ہم سر کو تبدیل شدہ ھدایات دیتے سنتے “ٹھیک ھے میاں، خود فوٹو کاپی کروا دو، اور سنو بچے اس بندہِ خدا کو کھانا کھلا دینا اور واپسی کا کرایہ دے کر رخصت کرنا”

میرے گھر میں دو چھوٹے بچے آپس میں ناموں کی پسندیدگی پہ اظہارِ خیال کررھے تھے، ایک نے دوسرے سے کہا “تمہیں پتہ ھے ارم آنٹی کو اگر اللہ تعالیٰ دس بیٹیاں دیتے تو وہ سب کا نام فاطمہ رکھتیں، انکو یہ نام بہت پسند ھے” مجھ ارم کو تو شادی اور دس بیٹیاں کرنے کی توفیق خدا نے نہیں دی، مگر علامہ ضیاء حسین ضیاء کو پروردگار نے یکے بعد دیگرے چھ بیٹے عطا کئے تو انہوں نے سب کے سب کا نام” علی” رکھ کر بتایا کہ یوں عقیدتیں ظاہر اور نسبتیں ثابت کی جاتی ہیں، علی جعفر سے لیکر علی اسد تک چھ جوان جن کو پکارتے سارا وقت علی علی میں گزرے، بیٹوں سے بےحد محبت کرنیوالا شفیق باپ،

سب سے چھوٹا علی تب دس سال کا تھا جب ہم اس لائبریری کلاس روم کا حصہ تھے، اسی کو کلاس اندر آتے جاتے دیکھتے تھے، ایک دفعہ بتانے لگے کہ یہ سب سے چھوٹا اور لاڈلا ھے اسے انکار نہیں کرتا سو جب بڑے بھائیوں نے کچھ منوانا ھو تو اسے قاصد بنا کر بھیجتے ہیں، اس پر گروپ سے کسی نے کہا “سر وہ بھی مبلغِ اعظم کے پوتے ہیں اور وسیلے کے قائل ہیں چاھے خدا تک ھو یا باپ تک” ایک قہقہہ پڑا اور حاضر جواب کو داد بھی،

ایسی ہی ایک گفتگو میں، حالانکہ میں گفتگو میں ذاتیات اور ذاتی سوالات کو مناسب نہیں گردانتی لیکن ان سے طالب علمانہ تعلقِ خاطر اور شفیق رویہ دیکھتے ھوئے ایک دن پوچھ لیا” سر آپکے سب بیٹے ہی ہیں کیا؟ کوئی بیٹی نہیں؟ ” جواب دینے سے پہلے ایک بھرپور مسکراہٹ کیساتھ انہوں نے پہلے مجھے، پھر بقیہ گروپ کو دیکھا اور ابھی کچھ کہا ہی چاھتے تھے کہ ہماری دوست نے کھٹ سے کہا “ایک بیٹی کے شوق میں ہی تو ماشاءاللہ چھ بیٹے ھوگئے” انہوں نے جواب مکمل کرتے ھوئے کہا” بالکل، چھ علی ھوگئے مگر بیٹی خالق نے مقدر نہیں کی اور اسکی کمی محسوس کرتا ہوں، میرے گھر میں خدا کا دیا سب کچھ ھے بس وہ ایک ماحول نہیں جو بیٹی کے ھونے سے ھوتا ھے” میں نے جواباً کہا تھا “سر جتنے بیٹے ہیں شادیاں ھوکر اتنی ہی بیٹیاں جب آپکے گھر آ جائیں گی تو یہ کمی بھی پوری ھوجائے گی” مسکرائے” بہت مثبت اپروچ ھے ارم، زندگی میں کبھی اکیلے نہیں ھوگے آپ بچے”

مجھے یاد پڑتا ھے کوئی جشنِ میلاد یا عید کا دن تھا، جب لیکچر طویل ھوتا گیا کہ بابِ علم کا تذکرہ کرتے ایک در سے سو در اور جو کھل جاتے ہیں مزید جہتوں اور وضاحت طلبی کے ساتھ، جیسے ہی کلاس کو قریب تین گھنٹے وقت گزرا انہوں نے بیٹے کو آواز دی، اور سب کے لیے چائے اور عید غدیر کی مناسبت سے کچھ میٹھا ساتھ لانے کو کہا، جیسے ہی ھدایات سن کر بیٹا دروازے سے نکلا تو دوبارہ آواز دے کر کہنے لگے “اور سنو، جلدی آنا، کہیں فلاں کے گھر رحمت ڈھونڈنے مت چلے جانا”

ساری کلاس کشتِ زعفران ھوئی اور سب نے اس جدید، مکمّل اور جامع محاورے کا لطف لیا خوب داد دی تو کہنے لگے “بھئی اب ہمارے گھرانے کے محاورے تو ایسے ہی ھونگے” محاورے کا محاورہ اور شجرہِ طیبہ سے شجرہِ ملعونہ تک کا یک سطری و یک لفظی تعارف و سند،

وقت کی رفتار سمجھنا یونہی ھے جیسے ریت ہاتھوں سے پھسلتے اندازہ لگانا کب کتنی ہتھیلی خالی ھوئی، وہ سال بمشکل گزرا ھوگا کہ شہر بدلا گیا اور نجف اکیڈمی کی کلاسز خواب ھوئیں، تعلیمی سلسلے ھوئے کہ روزگار کے، مصروفیت نے سر اٹھانے نہیں دیا، بیچ بیچ روزانہ کے فرامین ِ امام علی علیہ السلام کے جواب میں ضیاء صاحب اکثر یک سطری بیش قیمت دعائیں لکھ بھیجتے، عادت ھوگئ تھی انکو “شکریہ، آپکی دعائیں ہیں سر” سے رپلائی کرنے کی،

فیس بک کے دس سالوں میں جب اسی سال میں ون لائنر لکھتے لکھتے خود اپنی باقاعدہ تحریر لکھی جو بنیادی طور پہ کچھ سوالات اور نامعقولیات کے جواب میں لکھی گئی، اس پہ سر ضیاء نے کمنٹ یوں کیا

“ارم کاظمی ۔ بچے آپ کی تحریر کی داد نہ دینا بد زوقی اور کور چشمی ھے ۔۔۔۔اصلاح کے ساتھ تحریر کی ادبی شہامت کو برقرار رکھنا قابل۔تعریف ھے ۔۔۔۔ شگفتہ بیانی اور مربوط بیانیہ بتاتا ھے اپ بہترین قلمکار بن چکی ھے ۔۔۔۔۔ مجھے آپ پر فخر ھے ۔۔۔۔۔۔ سلامت رھو”

یہ الفاظ میرے لیے ایک معتبر استاد کی سند تھی جس نے انکے شکریہ ساتھ اسوقت کو یاد کیا جب انکے کہے جملے سمجھنے کیلئے مجھے ڈکشنری کھولنا پڑتی تھی، کیا خوب وقت تھا، اسکے کچھ دن بعد انکی کال آئی، نثر کے ساتھ ساتھ شاعری کے حوالے سے مختلف پہلوؤں سے مجھے آگاہ کیا، پھر کہنے لگے “آپکی تحریر پڑھی تو لگا میرے گھر سے کوئی لکھ رھا ھے، کیا خوب تحقيقی جواب، الزامی جواب اور بامعنی گفتگو کی ھے، یہ سلسلہ جاری رکھنا بچے، تنازعات کا سبب نہیں بننا، قرآنی حکم کے مطابق ‘لوگوں سے ہمیشہ اچھی بات کہنا، اورآشوب ِ زمانہ میں جینے کا سلیقہ فرمان ِ علی ابن ابیطالب ع سے حاصل کرنا کہ *تکن فی الفتنۃ کابن اللبون* یعنی _گردش ِ دوراں اور آشوبِ زمانہ کے شدید مراحل میں “ابن لبونٗ کی طرح ھو جایا کرو_

 سید رضی کہتے ھیں یہ بہت فصیح کلام ھے، ابن لبونٌٌٗ عربی زبان میں اونٹ کے اس دو سالہ بچے کو کہتے ھیں ، بوجہ کمسنی نہ جس کا دودھ دوھا جا سکے اور نہ اس پر سواری ھی کی جا سکے (یعنی زمانہ تمہیں بیکار سمجھ کر چھوڑ دے ، اور تم فتنوں کی گردش میں مبتلا ھونے سے بچ جاو ٗ)

ضیاء صاحب پچھلے کچھ برسوں سے لاھور مقیم تھے، یہاں خیابان میں شاید انکا گھر ملحقہ نجف اکیڈمی اب خالی ہی ھوا کرتا تھا، میرے بھائی کا اکیلے جب کبھی اس طرف سے گزر ھوتا تو واپسی پہ مجھے چھیڑنے کو کہتا “سنیں آج میں ایک کام سے خیابان گیا تھا، وہیں جہاں آپکے ضیاء صاحب کا گھر ھے” اور بھائیوں کو اچھے سے پتہ ھے کہ میں اپنے اساتذہ کے معاملے میں ٹچی ھوں، سو میرا عادتاً فٹ سے اگلا سوال ھوتا تھا

 “اچھا انکے گھر کے آگے گزرتے اوور سپیڈنگ تو نہیں کی؟ ہیلمٹ سر سے اتار لیا تھا نا؟”

  “ہیلمٹ چالان کروانے کو اتارنا تھا کیا؟ “

” نہیں نامعقول انسان ، احتراماً، وہ میرے استاد کا علاقہ ھے اس جگہ گزرتے وے سپیڈ آھستہ کرلیا کرو اور ہیلمٹ اتار کے سر جھکا کے گھر کے سامنے سے گزرا کرو، اوکے؟ “

” آہاں، جی بہتر، بلکہ آئندہ یوں کرونگا کہ وہاں سے گزرنا ھوا تو اپنی یہ بائیک کسی ضرورت مند کو ھدیہ کرکے پیدل ہی سر ضیاء کے گھر آگے سے گزروں گا، احترام کا احترام اور واک کی واک”

 پچھلے ھفتے یہی ذکر ان سے بات کرتے ھوا تو کہنے لگا “بیٹا اب لاھور شفٹ ھوگیا ھوں، بچوں کی یونیورسٹیاں وہیں ہیں، چکر لگاتا رھتا ھوں، آپ لاھور آؤ تو ضرور ملنا”

عید کے بعد ملاقات متوقع تھی، اور اس بار  شب عیدِ غدیر موبائل کھولا تو ایک ادبی گروپ میں تصویر کے ساتھ خبر تھی “معروف ادبی، سماجی و مذہبی شخصیت علامہ ضیاء حسین ضیاء انتقال کر گئے”

دل جیسے بند ھوگیا، پوری خبر کو کلک کئے بنا، رکتی سانسوں سے خبر جھوٹ ھونے کی دعا کرتے ھوئے انکا نمبر ملایا، تیسری بیل پہ فون اٹھانے والی آواز انکی نہیں تھی، ہمت جمع کرکے پوچھا “ضیاء صاحب سے بات ھوسکتی ھے؟ ” کچھ لمحے خاموشی کے بعد سسکیوں میں جواب ملا” انکا انتقال ھوگیا ھے” نہیں، کیسے، میری کل بات ھوئی ھے ابھی، انکے میسج کی رسیونگ پہ کل رات کا بلیو ٹک ھے، وہ بالکل ٹھیک تھے، کیسے یوں اچانک، اس سے آگے مجھ سے بولا نہیں گیا، کہنے والے نے کہا” نماز صبح کے بعد، حرکتِ قلب بند ھوجانے سے گزر گئے”

سوچتی ھوں کیسا پیارا دل تھا، اتنی جلدی مان گیا اور رخصت دلوا دی، آپ نے پیچھے والوں کا کچھ نہیں سوچا سر، خود غدیر اپنے بابا جان کے پاس منانے پہنچے اور ہم جیسوں کو معاویہ کے گھر جیسی اس دنیا میں رحمت ڈھونڈنے کا کام سونپ گئے، آپ جیت گئے ضیاء صاحب، ہم سے پہلے لبیک کہ گئے، کوئی دن جاتا ھے کہ ہمارا دل بھی ایسی کسی نماز کے بعد رخصت لے، یاد رکھیے گا “شکریہ، آپکی دعائیں ہیں سر”

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here