نوٹ: پروفیسر نعمان نقوی نے حبیب یونیورسٹی کراچی میں حال ہی میں ایک لیکچر دیا جس کا خلاصہ یہاں اردو میں پیش کیا جارہا ہے- اور اس لیکچر کا بنیادی خیال پاکستانی صحافی حسن نثار کے ایک ویڈیو کلپ پر ہے،جس کا لنک درج ذیل ہے:

https://www.facebook.com/veeduvidz/videos/973927172786200/

درج بالا ويڈیو لنک میں حسن نثار کی گفتگو سے جو تصور تاریخ سامنے آتا ہے،ایک تو وہ بالکل نیا ہے اور دوسرا وہ بنیادی طور پر مغالطہ آمیز ہے- درحقیقت یہ غیر مربوط  اور نہ سمجھ آنے والا ہے- ہماری ثقافتوں، معاشروں، سیاست اور تواریخ  پر  بلکہ اس کے ساتھ ساتھ  ہماری زندگیوں پر بھی اس طرح کے تصور سے نہ صرف ماضی میں تباہ کن اثرات ہوئے بلکہ اب بھی یہ جاری ہیں-

تاریخ بارے اس تصور کو ہم

Collective Singular History

کہہ سکتے ہیں- یاد رہے کہ ہم نے ‘جدیدیت کیا ہے؟ سے شروع کیا تھا جس میں ہمارے پاس ‘جدیدیت اور عالمی تاریخی شناخت’ کا ایک ماڈیول تھا- اس میں ہم نے

Sven Lindquvist

کی ‘تمام بروٹس کا ناش کرڈالو’ پڑھی تھی، جس نے  ہمیں جدید مغربی ذہن کے تاریخی برتری  یا ترقی کے فہم کی نسل کشیانہ بنیادوں سے آگاہ کیا تھا- ایسے ہی سٹورٹ ہال کی ہم نے ‘ مغرب اور باقی علاقے’ ( دا ویسٹ اینڈ ریسٹ) پڑھی، جس نے ہمیں دیکھایا کہ مغرب میں جدید کالونیلزم/نوآبادیاتی نظام سے تعلق میں مغرب کا جدید نظریہ کیسے تشکیل پایا- اور ہم نے

Maria Sbert

 جدکو پڑھا، جنھوں نے ہمیں جدید تصور ترقی کے تاریخی اور تھیالوجیکل/مذہبی معنی سے روشناس کرایا- بتدریج آپ لوگوں نے  مغرب میں قوم پرستی/ نیشنلزم اور قومی ریاستوں/ نیشن سٹیٹس کے جدید/ماڈرن ابھار بارے بھی پڑھا-

یہ جو تاریخ کو ایک اجتماعی واحد اکائی کے طور پر لینے کا رویہ یا خیال ہے یہ ان سب چیزوں سے جڑا ہوا ہے، جس کا زکر ابھی اوپر ہوا ہے- یہ تاریخ کا ایک ایسا تصور ہے جو مغربی اشرافیہ نے 18ویں اور 19ویں صدی کے دوران ایجاد کیا- ( ان کی تاریخ کا وہ وہ دور جسے یہ ‘روشن گری /خرد افروزی/ روشن خیالی’ کا دور کہتے ہیں – جیسے کہ اس دور میں یہ سارے کوئی ولی،قطب تو بن ہی گئے تھے اگر پیغمبر نہ بنے ہوں تو)-  یہ بطور اقوام کی تاریخ کے ایک ایسی ناگزیر قسم کی تاریخ ہے جو سفید فام،مغربی یورپی نسل پرستانہ تاریخی برتری کے جدید متعصب تصورات سے بہت زیادہ قریبی طور پر جڑی ہے-

اس نظریہ کے مطابق پرانی تواریخ  شاہی سلسلوں کی تواریخ تھیں جیسے طبری، ابن خلدون، برنی وغیرہ ،نا کہ تاریخ قوم یا اقوام- یہی وجہ ہے کہ آپ جدید دور سے پہلے ‘ تاریخ اسلام’ یا ‘ مسلم تاریخ’ جیسے عنوان کے ساتھ تواریخ کا نشان نہیں پاتے- جدید دور سے پہلے تاریخ اجتماعی واحد موضوع  کا نام نہیں ہوا کرتی تھی- نہیں، میں امید کرتا ہوں کہ اس کورس کے اختتام پر آپ اس بات کے قائل ہوسکیں گے کہ تاریخ کا ایک اجتماعی واحد موضوع ہوتا ہے یا ہونا چاہئیے- یہ ایک وحشت زدہ کردینے والی تجرید ہے جو نہ صرف ہمارے وقوفی علم کے جاننے کی قابلیت جیسے ہماری تاریخی حقیقت کو جاننے کی قابلیت ہے پر تشدد کرتی ہے بلکہ یہ حقیقت میں تاریخی وائلنس/ تشدد ہے جیسا کہ میں آگے چل کر بتاؤں گا-

ابتداء میں یہ فہم حاصل کرنے کے لیے اس قسم کا تصور تاریخ تجرباتی و وجودیاتی اعتبار سے غلط  ہے،میں آپ سے کہتا ہوں کہ آپ سوچیے کہ کیا آپ یاد کرسکتیے ہیں ہمارے اس تصور تاریخ میں موجود نام نہاد بڑی شخصیات میں سے کسی ایک شخص کی قبر کہاں ہے؟(مجھے کہنا یہ ہے کہ اربوں جو گزر گئے اور جن کو وہ ہمارے ‘بزرگ’ کہتا ہے گویا وہ بادشاہ اور جرنیل نہ تھے کوئی ولی و قطب تھے)- چند ناموں کو اٹھاکر حسن نثار ہماری تاریخ کے بڑے لوگوں کے طور پر بیان کرتا ہے: کیا آپ کو پتا ہے شاہ عالم ثانیکہاں دفن ہے؟ بابر؟ محمد بن قاسم؟ تیمور؟ یلدرم؟ ان میں آپ اپنی مرضی سے کسی بھی بادشاہ یا شہزادے کا نام شامل کرلیں: اکبر، اورنگ زیب، دارا شکوہ، التمش، کسی بھی خلجی کا، یا تغلق کا ، وغیرہ وغیرہ؟ مجھے شک ہے کہ اکثر ہمارے وہ لوگ جو اپنے آپ کو ‘پڑھا لکھا’ سمجھتے ہیں شاید ہی جانتے ہوں کہ وہ کہاں دفن ہیں، ہماری عوام کی اکثریت کو تو جانے ہی دیں۔ اس کے برعکس ہر کوئی جانتا ہے کہ داتا گنج بخش، بابا فرید، خواجہ معین الدین چشتی، شاہ لطیف بھٹائی، شہباز قلندر جیسے ہزاروں  ولی جو اس پورے خطے میں پھیلے ہوئے ہیں کہاں پر دفن ہیں- اور یہ وہ ہیں جو صدیوں بلکہ ہزار سالوں سے لاکھوں،کروڑوں لوگوں کی زندگیوں میں تاریخی وجود کے ساتھ زندہ ہیں جبکہ ان کو گزرے ہوئے بھی صدیاں یا ایک ہزار سال بیت گیا ہے-

پھر تاریخی اعتبار سے کون زیادہ اہم ہے؟ کیا ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ تاریخ میں کیا چیز اہمیت رکھتی ہے۔۔۔۔۔ تاریخ میں کیا چیز اہم ہے اور زندہ تاریخ کے بنانے میں کیا اہم چیز ہوتی ہے؟ اور کیسے بنو امیہ اور بنو عباس ہماری تاریخ بنانے والے بن گئے جن کا ذکر حسن نثار کرتا ہے؟ ان کے جو معروف نام ہیں وہ تو ان کے قبیلوں اور شاہی سلسلوں کے نام ہیں! جیسا کہ حقیقت میں ان سب کو بادشاہوں نے یا تو ان شاہی سلطنتوں کی بنیاد رکھی یا ان کا ان سے تعلق تھا— ناکہ وہ کوئی ‘قومی/نیشنل سلطنتیں تھیں، جیسے مغرب والوں نے جدید دور میں قائم کیں: فرانسیسی سلطنب، سلطنب برطانیہ، ہسپانی سلطنت وغیرہ – یہ ایسی سلطنتوں کی تاریخ  ہے جس میں ساری قومی/نیشنل آبادی سلطنت بنانے کا حصّہ رہی ہو۔۔۔۔ حقیقی طور پر ایک غیر معمولی دعوی  اور جدید نیشنل کالونیل سلطنتوں کا منصوبہ تھا-  اس سے ہٹ کر تاریخ میں کوئی سلطنت یا ایمپائر ایسی نہ تھی جسے ‘مسلمان سلطنت’ یا ‘ اسلامی سلطنت’ کہا گیا ہو-   

اسلام کی ایسی قوم پرستانہ تواریخ ہمارے خطے میں انیسویں صدی کے آخری دور میں کالونیل ازم/ نوآبادیاتی نظام کے زیر اثر نمودار ہونا شروع ہوئیں: شاید شبلی نعمانی کی ‘اسلام کے ہیروز’ کے عنوان سے معروف ہونے والا سلسلہ تاریخ – قابل غور بات یہ ہے کہ شبلی نعمانی انگریزی بھاشا سے نابلد تھے، اور پھر بھی انہوں  نے اپنی تاریخ پر لکھی کتابوں کا عنوان انگریزی بھاشا سے لیا- نہ تولفظ ‘ہیرو’ اور نہ ہی ‘اسلام’ تاریخ کے موضوع کے طور پر ہماری مقامی زبانوں اور اس مییں لکھے گئے ادب میں بطور مثال موجود ہے- شبلی برطانوی مستشرق ماہرین تاریخ سے متاثر ہوکر لکھ رہا تھا خاص طور پر تھامس واکر آرنلڈ کے جس نے شبلی اور اقبال کو تاریخ کے بارے میں اس طرح سے سوچنا سکھایا تھا-( تہیذیبی تاریخ کے سپر ایجنٹ کے طور پر ہیرو کا تصور اصل میں رومان پرست تھامس کارلائل کے 1940ء کے مشہور خطبات کا مرہون منت ہے جو 1841ء میں ‘ ہیرو اور ہیرو ورشپ’ کے نام سے شایع ہوئے تھے اور شمالی ہندوستان کے اشراف مسلمانوں میں بہت مقبول ہوئے کیونکہ یہ اشراف تاریخ کے ایک نئے راستے کی توثیق کے لیے بہت بے تاب نظر آئے، جبکہ کارلائل نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بطور تاریخ کے ہیرو کے طور پر شامل کیا تھا- قابل غور بات یہ ہے کہ اس تصور نے اس سے پہلے پیغمبر کو ایک تکوینی عظمت اور سارے جہانوں کے لیے رحمت رکھنے والے مقام و مرتبہ سے ہٹ کر صرف تاریخ کے ایک ہیرو کے کبھی دیکھا نہیں گیا تھا-    

 

حسن نثار جیسوں کی تاریخ بارے سوچ کا ایک دوسرا پہلو اس کا تاریخ کو نیشنل ہسٹری/ قومی تاریخ کے طور پر فرض کرلینا ہے: تاریخ کو ایک سٹیج خیال کرلینا ۔۔۔۔ یہاں تک کہ وہ لفظ ‘پرفارمنس’/ کارکردگی تک استعمال کرتا ہے- تاریخ کے بارے میں اس طرز پر سوچنے کا نتیجہ تاریخ کو اقوام اور تہذیبوں کے درمیان مسابقت سمجھنا نکلتا ہے- اور سچی بات یہ ہے کہ اس کے انتہائی خوفناک نتائج و عواقب ہیں اور اس نے کرہ ارض کو برباد کردیا ہے- یہ نتائخ و عواقب اس وقت ظاہر ہوجاتے ہیں جب وہ یہ قابل ذکر دعوی کرتا ہے کہ ‘گوروں کو ہمارے خلاف سازش کرنے کا حق ہے کیونکہ ‘ہم'(‘وہ’ اور ‘ہم’ ۔۔۔۔ درحقیقت انسانی آبادیوں کی کلیت) ایک صدیوں پرانی مسابقت یا مقابلے بازی میں مصروف ہیں ۔۔۔۔۔ ایسی مقابلہ بازیمیں ہر شئے جائز ہوا کرتی ہے ۔۔۔۔۔وہ  بہت زیادہ نسل پرستانہ دعوے بھی کرتا ہے( ایسا پیمانہ جسے اس جیسے لوگ اکثر سائنسی کہہ کر زکر کرتے ہیں مضحکہ خیز ہے) کہ گورے سازش کرتے ہیں کیونکہ ان کے دماغ ہم سے زیادہ بہتر ہیں۔۔۔ گویا ہم سازش کرنے کے اہل ہوں (مطلب یہ ہے ہمارے ذہنین ہونے کے لیے سازشی ہونا کافی ہے) تو ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے اور اپنے آپ کو ثابت کردینا چاہئیے! بے ڈھنگے پن سے، وہ پھر فوری طور پر یہ بھی کہہ دیتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے  کہ گورے سازش کرتے ہیں اور اس کے لیے بکسر کے مقام پر رابرٹ کلائیو اور شاہ عالم ثانی کی مثال دے ڈالتا ہے- یہ انوکھی طرز کے تضادات اس طرح کے بے ربط تصور تاریخ میں بسیرا کیے رکھتے ہیں- اصل میں تاریخ اور زندگی کا یہ ایسا تصور ہے جس میں مطلق نہ تو اخلاقیات ہے۔۔۔ حقیقت میں کوئی ایجنسی سرے سے ممکن ہی نہیں ہے- اور پھر یہ مکمل طور پر تاریخ کو دیکھنے کا ایسا نیا طریقہ ہے جسے گوروں نے ایجاد کیا ہے- میں پھر دوہرائے دیتا ہوں: یہ واضح ہے کہ اس طرح  شکست خوردہ  اور کمتر نظریہ تاریخ کے انسانیت پر کتنے خوفناک وقوفی اثرات ہوسکتے ہیں اور کرہ ارض پر اس کے اثرات بد تو ناقابل بیان حد تک ہیں- اب یہ بہت واضح ہے کہ  عہد انسانیت/ انتھرپوسین کے عظیم اسراع والے دور میڑ تاریخ کا یہ تصور اور منصوبہ یقینی طور پر ہمارا ناش کردے گا اور وہ وقت دور نہیں ہے- ہمیں سنجیدگی سے تاریخ بارے   زرا ہٹ کر سوچ و بچار کرنے کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔ کہ تاریخ میں اہمیت کیا شئے رکھتی ہے؟

جو چیز اور زیادہ تباہ کن ہے وہ اس انانیت پسندانہ اور کمینگی کے ساتھ تاریخ اور زندگی  کو زیر غور لانے کے عمل کو تعصب سے پاک معروضی عمل کے طور پر پیش کرنا ہے- یہ سوچ  وقوفی، اخلاقی اور ایکولوجیکل اعتبار سے اور اگر ایک لفظ میں سمیٹا جائے تو یہ وجودیاتی طور پر تباہ کن ہے، اگر مکمل طور پر فنا کردینے والی نہ بھی ہو تو-اپنی تمام تر دھماکہ خیزی اور شان و شوکت کے اصل میں یہ تاریخ کا مکمل طور پر حقیقت سے بعید مائل بہ انکار کلی والا نظریہ ہے-

 کیونکہ اگر آپ کا یقین ہے کہ زندگی اور تاریخ ایک نسل اور غلبے کی جدوجہد میں ہیں ٹھیک طور پر تب آپ ‘نیست’ پر یقین کرنے والے بن جاتے ہیں- ‘زندگی کی دوڑ’ جیسے اظہاریے ہماری زبان میں ٹھیک اسی زمانے میں شامل ہوئے جب یہ تصور تاریخ ہمارے ہاں ابھرا، یعنی 19ویں صدی میں-

ڈارون ازم اور ڈارونی طرز فکر نے گوروں کے اندر تاریخ اور زندگی کے بارے میں اس طرح کے طرز فکر کو ‘معروضی’  اور ‘سائنسی’ نظریہ تاریخ و حیات کے طور پر اورپختہ کرڈالا- تاریخ کا یہ تصور زندگی اور تاریخ بارے  کچھ اور کلیشے اور فرسودہ باتوں کی طرف لے کر جاتا ہے جو ہمارے ‘پڑھے لکھوں’ میں عام ہیں۔۔۔۔۔۔۔ مثال کے طور پر’ اختیار/پاور بدعنوان کرتا ہے/مطلق العنان اختیار/طاقت مطلق بدعنوان بناتی ہے’ —- ایک احمقانہ اظہار یہاں تک کہ چاہے یہ بہت ہی شان و شوکت والا نظر آتا ہو 19ویں صدی کے فرنگی ماہر تاریخ لارڈ ایکٹون سے ملنے والی وراثت ہے، جس کا یہ مقولہ ہے- پاور/اختیار کیا ہوتا ہے؟ کیا اس کی صرف ایک قسم ہوتی ہے؟ کیا تیمور لنگ کا اختیار/پاور ویسا اختیار/ پاور ہے جیسی نظام الدین اولیا کی تھی؟ کیا ہٹلر کا اختیار ویسا ہی تھا جیسا گاندھی کا تھا؟ ایک بار پھر یہ مکمل طور پر  غیر ممیز ہے اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں رہتی کہ یہ پاور/اختیار کے بارے میں کٹھور اور بعید از حقیقت منفی خیال ہے- یہاں خود کو یہ یاد دلانے کی بھی ضرورت ہے کہ کسی بھی طرح سے تاریخ،زندگی اور اختیار کے تاریخی طور پر دستیاب تاریخ  کا انسانوں میں اصل تاریخ اندر واحد نظریہ نہیں ہے اور نہ ہی  واحد غالب و مروج نظریہ ہے-    

حسن نثار کی گوروں کی مدح سرائی کی کوئی حد ہی نہیں ہے- وہ ابتدائی 17 ویں صدی میں جہانگیر کے دربار میں تاج برطانیہ کے سفیر اور ڈپلومیٹ تھامس روے بارے ایسے بات کرتا ہے جیسے وہ اگر کسی ولی بارے بات نہ بھی کررہا ہو تو بھی ایک عظیم قومی ہیرو بارے بات کررہا ہے اور وہ اس کی جانب سے جہانگیر سے ایک تجارتی معاہدے کی درخواست کو وہ اپنے زاتی مفاد کو قوم کی عظیم شان پر قربان کردینے جیسی چیز بناکر پیش کرتا ہے- جبکہ وہ سرے سے یہ زکر ہی نہیں کرتا کہ وہ یہ سب تو تاج برطانیہ کی طرف سے سونپے گئے مشن کے تحت کررہا تھا- تجاوتی معاہدہ تو اس کے سفارتی مشن کا ہدف تھا- حسن نثار کے میگنا کارٹر بارے خیالات بھی نرے گورے کی بنائی جدید مائتھ/افسانہ ترازی  اورایک بار پھر قوم پرستیانہ وصف لیے ہوئے ہے جو اس قرون وسطی کے واقعے کی ساری اشرافیائی/ارسٹوکریٹک(ناکہ قومی اور جمہوری) فطرت سے صرف نظر کرتا ہے- وہ ایک فرد کی اپنی ریاست سے انفرادی لگاؤ یا وفاداری  کی شجاعانہ عمل بناکر پیش کرتا ہے جو کہ جدید قوم پرستی/ نیشنل ازم کی ایک ٹائپ ہے ۔۔۔۔۔ اور مکمل طور پر انسان کی تقدیر کے لیے تباہ کن ہے، جو کہ فوری ایک ٹھوس، حقیقی اور اصلی انسان ہو، جو اپنی ہر ایک نسلی، قومی، علاقائی دنیا میں رہتا ہے، لیکن ایک سے ہی کرہ ارض پر، اگرچہ ایک جیسی دنیا میں یکساں طور پر نہیں رہتا-

آخر میں،وہ کہتا ہے کہ مسلمانوں کا آج انسانیت جہاں کھڑی ہے، اس میں کوئی حصّہ نہیں ہے- اس خیال کی بنیاد تصور ترقی/ پراگرس پر ہے-۔۔۔۔ جوکہ اہل غرب کی عالمی تاریخی نرگسیت اور خود فریبی کے سوا کچھ نہیں ہے – اپنے آپ سے پوچھو کہ دنیا آج کہاں کھڑی ہے؟ مکمل تباہی کے کنارے پر، نہ صرف خود بلکہ سارہ کرہ ارض بھی- یہ ہے وہ جگہ جہاں مغرب کی ترقی پہنچی ہے۔ ایک بار پھر اگر یہ اس جدید تصور تاریخ کا بالکل خالی حصّہ نہ بھی ہو تو  یہ  متشدد، تنگ نظر تو ضرور ہے- کیا یہ وہی ہے جس سے انسانی زندگی متعلق ہے؟ پیمپر، بال پوائنٹس پین، ونڈ شیلڈ وائپر اور وہ سب جن کا حسن نثار زکر کرتا ہے کے بنانے بارے ہے؟( قابل غور بات یہ ہے جن پلاسٹک سے بنی چیزوں کا وہ زکر کرتا ہے انھوں نے تو اس پورے سیارے کے ماحول کو مطلق طور پر تباہ و برباد کرڈالا ہے)

حسن نثار کی مسلمانوں اور اسلام سے نفرت کی کوئی حد ہی نہیں ہے، اور وہ تنہا نہیں ہے- یہ تو ہماری قریب قریب سارے دانشور طقے/ انٹلیکچوئل کلاس کا عام انداز ہے، اس کی ایک نمایاں مثال پرویز ہود بھائی ہیں، اور بہت سارے لوگ جو اپنے آپ کو پڑھا لکھا خیال کرتے ہیں، یا وہ جو ایسا بننا چاہتے ہیں( یعنی ترقی، قوم، تاریخی مقصد، ڈویلپمنٹ اور ایچوکیشن پر یقین رکھنے والے۔۔۔۔ جدید مذہب کے یہی پانچ ستون ہیں) ایسے نام نہاد دانشور اور ان کے اندر اصلی ہونے جوہر سے محروقی اور ان کا تاریخ بارے گورا فکر کی غلامی مسئلہ ہیں نا تو اسلام مسئلہ ہے اور نہ ہی مسلمان کیونکہ تاریخ میں یہ سوائے تجریدات کے اور کچھ نہیں ہیں-

میں نے ابھی تو اس دور میں مغرب کی غیر معمولی اور بے مثل بدعنوانی اور تشدد کا تو ذکر ہی نہیں کیا- یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک سماج بڑے پیمانے پر مادی آسودگی، دولت اور پاور پر استوار ہو اور وہ بدعنوان نہ ہو اور متشدد نہ ہو؟ اگرچہ میں جدید مغرب کی غیر معمولی کرپشن کو تفصیل سے زیر بحث نہیں لاسکتا، لیکن اس کا تذکرہ ضروی ہے، جبکا حسن نثار اپنی بات خیانت پرمبنی نسل پرستانہ نوٹ پر کرتا ہے جب وہ یہ کہتا ہے تہذیب تو بس ایک ہے اور وہ اہل مغرب کے پاس ہے۔۔۔۔ ہمارے پاس تو ایسی کوئی چیز نہیں ہے!

وہ وقت آگیا ہے جب ہم مقصد حیات بارے ہمیں جو مغرب نے سکھایا ہے اس  لفاظی و شیطنٹ سے بھرے تصور پر یقین کرنا بند کرنا ہوگا اور ہمیں عظیم الشان عوامی انسانیت پر مبنی تقدس اور عاجزی پر مشتمل ماضی کی طرف پلٹنا ہوگا- جبکہ انسانیت کا بڑا حصہ اس پرامیسری دعوت سے الگ کردیا گیا ہے اور یہ انسانیت کا وہ بڑا حصہ ہے جو چند مجرد، تاریخ  کے کلی واحد کا حصّہ ہی نہیں ہے بلکہ اس طرح کا واحد کل چیزوں کو استعمال کرتا اور ان سے بدسلوکی کا مرتکب ہوتا ہے-  

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here