وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم ایڈوکیٹ نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کراچی کو انتظامی طور پر صوبہ سندھ سے الگ کرکے اپنی تحویل میں لے سکتی ہے- ان کے اس بیان نے پورے سندھ کے اندر بے چینی کی ایک لہر پیدا کردی ہے-

ہم سمجھتے ہیں کہ کراچی کو انتظامی طور پر وفاق کی تحویل میں لیے جانے جیسے بیانات کے پیچھے ایک تو مرکز میں بیٹھے غیر منتخب ہئیت مقتدرہ کے اندر موجود ایک طاقتور لابی ہے،جو نہ صرف کراچی کا کنٹرول مرکز کے پاس دیکھنا چاہتی ہے بلکہ وہ اٹھارویں ترمیم کو ہی رول بیک کرنا چاہتی ہے-

ایک طرف تو غیر منتخب ہئیت مقتدرہ ماضی میں اپنی اشیر باد سے  پھلنے پھولنے والی متحدہ قومی موومنٹ کو سیاسی میدان سے آؤٹ کرچکی اور دوسری طرف مبینہ سلیکشن سے جوجن لوگوں کو کراچی اور سندھ میں اردو بولنے والی آبادی کے مرکز شہری سندھی علاقوں میں سیاسی نمائندگی دی گئی ہے،ان کے پاس گراس روٹ لیول پر عوام کی حمایت موجود نہیں ہے- تو ایسے خلا میں کیسے کراچی کو چلایا جاسکتا ہے؟

کراچی کا انتظام اس لیے افراتفری کی نذر نہیں ہورہا کہ یہ سندھ کا حصّہ ہے بلکہ یہ اس لیے افراتفری کا شکار ہے کہ ایک طرف تو وفاق سندھ حکومت کے معاملات میں مداخلت کرتا ہے،دوسری جانب صوبائی اور مقامی حکومت کے درمیان ہم آہنگی نہیں ہے- اس ہم آہنگی کے نہ ہونے کی ذمہ دار صرف مئیر کراچی اور ان کی پارٹی پر نہیں ڈالی جاسکتی بلکہ اس میں سندھ حکومت اور اس حکومت کی سیاسی جماعت کی پالیسیاں بھی ذمہ دار ہیں-

سندھ حکومت کو ضرورت ہے کہ وہ کراچی، حیدرآباد،میر پور خاص،سکھر وغیرہ سے اردو بولنے والے اہل اور تجربہ کار لوگوں کو ان محکموں میں جگہ دے جو سندھ حکومت کے ماتحت ہیں اور مشاورتی عمل میں ان کو شامل رکھنے کے لیے کمیٹیاں عمل میں لائے-

ہمارے خیال میں پاکستان پیپلزپارٹی کو بطور ایک سیاسی جماعت کے سندھ کے اندر اپنی حمایت کا دائرہ اردو بولنے والوں میں زیادہ وسیع کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے- اور اس کے لیے ضروری ہے کہ اردو بولنے والی عوام کو سندھ میں شرکت اقتدار کا احساس دلایا جائے-

کراچی ایک ایسا شہر بنتا جاتا ہے جس میں اختیارات کو بالکل نیچے لانے کی اشد ضرورت ہے- اٹھارویں ترمیم کے زریعے سے سندھ کو جو اختیارات ملے ہیں، اسے ان اختیارات کو نیچے اضلاع تک میں منتقل کرنے کی طرف جانے کی ضرورت ہے-

سندھ حکومت اور پاکستان پیپلزپارٹی کے حامی خصوصی طور پر سوشل میڈیا پر پی پی پی کے حامی پیجز کا یہ معمول بن گیا ہے کہ جب کبھی صوبے سے اضلاع تک اختیارات کی منتقلی کا مطالبہ کیا جائے تو وہ پنجاب،بلوجستان، خیبر پختون خوا سے سندھ کا تقابل کرکے اس مطالبے سے توجہ ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں- اس طرح کی کٹ حجتی سے سندھ میں اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی اور مقامی سطح کے ایشوز کا سوال ختم نہیں ہوگا-

پاکستان تحریک انصاف جو اس وقت وفاق میں حکمران جماعت کے طور پر موجود ہے کو سندھ میں اردو بولنے والے اور سندھی بولنے والے لوگوں کے درمیان موجود فاصلوں کو فروغ نسیم کی طرف سے دیے گئے بیانات جیسے بیانات دینے یا آرٹیکل 149 کو آئین میں دیے گئے صوبوں کے اختیارات سلب کرنے جیسی کوششوں سے باز رہنا چاہئیے- اس سے ملک اور سیاسی و معاشی عدم استحکام کی طرف بڑھے گآ-

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here