پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے پہلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے الگ الگ ملاقاتیں کی ہیں- اور امریکی صدر نے دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کے ساتھ جس طرح سے سلوک کیا،وہ سلوک دونوں ممالک کے درمیان کشمیر کو لیکر چل رہی رساکشی کے تناظر میں میڈیا میں زیربحث آرہا ہے-

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ٹیکساس ریاست کے شہر ہوسٹن میں ‘ہاؤڈی مودی’ کے نام سے ہونے والی ایک بہت بڑی تقریب میں شرکت کی- اس تقریب میں 50 ہزار سے زائد بھارتی نژاد امریکہ کے مستقل اور غیر مستقل شہری شریک ہوئے- ڈونلڈ ٹرمپکے ساتھ ساتھ اس تقریب میں منتظمین جہاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمیت ری پبلکن پارٹی کے سینٹرز اور کانگریس مین و ویمن کو مدعو کررکھا تھا وہیں ایوان میں اکثریت رکھنے والی ڈیموکریٹس پارٹی کے ہاؤس میجارٹی لیڈر سمیت ڈیموکریٹس کو بھی بلایا ہوا تھا- لیکن اس تقریب پر ٹرمپ اور مودی چھائے رہے-

امریکن پریس نے ‘ہاؤڈی مودی’ تقریب کو امریکہ کے 2020ء میں ہونے والے صدارتی انتخابات کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کی- جبکہ انٹرنیشنل میڈیا نے بھی اسے مذکورہ تناظر کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے تجارتی اور تزویراتی تعلقات کی روشنی میں دیکھا-

بی بی سی کے برجیس اوپدھائے ہوں کہ امریکی جریدے فارن پالیسی سے جڑے انوبھاوگپتا ہوں ان سب کے نزدیک ٹرمپ کی ٹیکساس کے شہر ہوسٹن میں ‘ہاؤڈی موڈی’ ریلی میں شرکت اور نریندرمودی کا زبردست سواگت ٹیکساس میں رہنے والے ہندوستانی امریکن ووٹرز کو صدارتی انتخابات میں ری پبلکن امیدوار(جو وہ خود ہیں) کا انتخاب کرنے کی طرف مائل کرنے کے لیے تھا- کیونکہ2010ء کی امریکی مردم شماری کے مطابق کیلیفورنیا، نیویارک اور نیو جرسی کے بعد ٹیکساس میں ہندوستانی نژاد امریکن آبادی کے لحاظ سے چوتھا بڑا شہر ہے- اور یہاں پر ہندوستانی امریکن ووٹرز کا رجحان زیادہ ڈیموکریٹس کی طرف رہا ہے- گزشتہ صدارتی انتخاب میں بھی انھوں نے ہیلری کلنٹن کو ووٹ دیے تھے- امریکہ میں ہندوستانیوں کی تعداد 40 لاکھ کے قریب ہے اور یہ کل امریکی آبادی کا ایک فیصد ہیں-
امریکی لبرل پریس کے نمائندہ اخبارات میں سے ایک نیو یارک ٹائمز میں مائیکل ڈی شیار کا 22 ستمبر2019ء کو شایع ہونے والا تجزیہ بھی کم و بیش یہی تھا کہ ٹرمپ نے ہوسٹن میں نریندرمودی کے بھاری اکثریت سے دوبارہ وزیراعظم بننے کی خوشی میں منعقدہ پرجوش تقریب میں شرکت ہندوستانی امریکن ووٹرز کو ری پبلکن کی جانب کرنے کے لیے کی-
اگرچہ امریکی لبرل پریس تجزیہ نگاروں نے ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندر مودی کے دائیں بازو کے انتہا پسندانہ خیالات میں مماثلت اور دونوں کی جانب سے تارکین وطن کے حوالے سے پالیسیوں میں یکسانیت کا تذکرہ بھی کیا ہے- اور ایسے ہی بی سی سمیت دیگر مغربی عالمی زرایع ابلاغ میں شایع ہونے والے تجزیوں میں نریندر مودی کے کشمیر بارے اٹھائے گئے اقدامات پر بھی تنقید بھی کی ہے- لیکن ان سب تجزیہ نگاروں کی نظر میں ‘کشمیر’ پر نریندر مودی سرکار کی پالیسی سے امریک-بھارت اقتصادی و سٹریٹجک تعلقات میں کوئی منفی بدلاؤ آنے کی امید نہیں ہے-
نریندر مودی کے دورہ امریکہ میں جہاں جنرل اسمبلی سے خطاب ایجنڈے پر ہے،وہیں امریکہ سے تجارتی معاہدے پر دستخط کا معاملہ بھی سرفہرست ہے- نیویارک ٹائمز نے لکھا ہے کہ نریندر مودی اور ٹرمپ کے درمیان تجارتی معاہدے بارے بات چیت کے بعد اسی دورے کے دوران قوی امید ہے کہ امریکہ اور بھارت دو طرفہ تجارت پر لگی کئی ایک پابندیاں اٹھالیں گے جس سے ایک طرف تو بھارت کو امریکی منڈی کے کئی ناقابل رسائی حصوں تک رسائی ہوگی بلکہ امریکی زرعی اجناس اور میڈیکل ڈیوائسز کو بھارتی منڈی تک رسائی ملے گی-

پاکستانی وزیراعظم عمران خان بھی امریکہ کے سات روزہ دورے پر ہیں- اس دورے میں پاکستانی وزیراعظم کے ایجنڈے میں سب سے اوپر مسئلہ کشمیر ہے- اور اس مسئلے پر ان کی حکومت کی کوششوں پر ملک کے اندر کئی حلقوں کی جانب سے سخت تنقید کی جارہی ہے- خود پاکستان کی سویلین اور فوجی قیادت کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندر مودی کے درمیان گرم جوش تعلقات اور امریکہ-بھارت کے درمیان بڑھتے ہوئے معاشی و تزویراتی تعلقات کو تشویش کی نظر سے دیکھا جارہا ہے-
نریندر مودی کے استقبال کی تقریب میں ڈونلڈ ٹرمپ سمیت اہم امریکی رہنماؤں کی شرکت نے حکومت کو خاصی مشکل میں ڈالا ہے- ڈونلڈ ٹرمپ کا ہندوستان اور امریکہ کو ‘ اسلامی دہشت گردی’ کے خلاف ایک جیسے خیالات اور ایک جیسے اقدامات اٹھانے والے بیان نے بھی پاکستان کے اندر کافی تنقید کو جنم دیا ہے-

ڈونلڈ ٹرمپ سے گزشتہ روز عمران خان کی ملاقات سے پہلے صحافیوں سے مشترکہ گفتگو کے دوران عمران خان نے جب ایک صحافی کے سوال کے جواب میں یہ کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ دنیا کے سب سے طاقتور ملک کے طاقتور صدر ہیں اور اسی لحاظ سے وہ ان سے توقع کرتے ہیں کہ وہ پاک-بھارت حالیہ تناؤ کو کم کرنے اور کشمیر پر تنازعے میں کردار ادا کرنے کی توقع رکھتے ہیں تو ڈونلڈ ٹرمپ نے جواب میں یہ کہا کہ دنیا بھر سے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے آئے متعدد سربراہان مملکت نے ان سے ملاقات کی درخواستیں کیں، جن میں سے اکثر کو بوجہ قبول نہ کیا جاسکا لیکن پاکستان اور بھارت کے سربراہان سے ملاقات کی جارہی ہے،اس سے امریکہ کی سنجیدگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے- اس جواب کے اندر کئی ایک تجزیہ نگاروں کے نزدیک یہ بات پہناں تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو عمران خان کی طرف سے یہ بات بطور شکوہ لگی- ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ ماضی میں امریکہ کے ساتھ پاکستان کا سلوک توقعات کے مطابق نہیں رہا-

پاکستان اور بھارت ہمیشہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے رہے ہیں- اور میں اس معاملے میں کوئی مدد کرسکتا ہوں تو اس کا انحصار دونوں ملکوں پر ہے- یہ دونوں جینٹل مین(مودی اور عمران خان) پر منحصر ہے- وہ دونوں مجھے ثالثی کا کہیں تو تب یہ ممکن ہے- کشمیر کا ایشو بہت پیچیدہ ہے

پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے دو طرفہ بات چیت میں امریکہ کی جانب سے افغان طالبان کے نمائندہ وفد کی وائٹ ہاؤس آنے کی دعوت کو عین آخری وقت میں منسوخ کرنے کو جلد بازی میں کیا گیا فیصلہ قرار دیا- ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اگر طالبان سے مذاکرات معطل کرنے پہلے پاکستان سے بات کرلیتا تو امن معاہدے میں تعطل نہ آتا-
پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے افغان طالبان سے مذاکرات ختم کرنے پر خیالات کا اظہار بین السطور اس بات کا اظہار بھی ہے کہ امریکی انتظامیہ افغانستان کے معاملے پر پاکستانی کردار سے بادی النظر میں ناخوش ہے- جبکہ پاکستانی وزیراعظم نے امریکن کونسل آن فارن ریلشنز تھنک ٹینک کو انٹرویو دیتے ہوئے افغان ایشو پر بات کرتے ہوئے امریکہ کے جینیوا معاہدے کے بعد پاکستان کو مبینہ طور پر تنہا چھوڑ جانے اور ایسے ہی نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر افغانستان میں فوج کشی اور اس کے بعد اب ایک بار پھر پاکستان سے سردمہری برتنے کا جو شکوہ کیا اس سے بین السطور یہی بات عیاں ہورہی ہے کہ پاکستانی انتظامیہ پاکستان کو علاقائی سطح پر درپیش سٹریٹجک چیلنج اور معاشی سطح پر روز بروز بڑھتے ہوئے بحران میں امریکہ کی طرف سے خاطر خواہ تعاون نہ ملنے اور بھارت سے امریکہ کے بڑھتے ہوئے تعلقات پر سخت پریشانی ہے اور یہی وجہ ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی بار بار شکوے اور شکایت سامنے آرہی ہیں-
پاکستانی انتظامیہ امریکہ سے یہ توقع کررہی تھی کہ وہ ایک تو بھارت کو پاکستان کے ساتھ بات چیت پر راضی کرلے گا- دوسرا وہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ ملکر کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر قرارداد لانے میں مدد کرے گا- لیکن نہ صرف امریکہ نے اپنے آپ کو اس ایشو پر فاصلے پر رکھا بلکہ امریکہ کے مڈل ایسٹ میں سب سے بڑے اتحادی سعودی عرب اور یو اے کو بھی پاکستان کی کشمیر پر حمایت کے لیے آمادہ نہ کرسکا- حالانکہ وزیراعظم عمران خان امریکہ جانے سے پہلے سعودی ولی عہد شہزادہ سے ملے اور ان کے ذاتی جہاز میں امریکہ پہنچے تھے-
پاکستانی انتظامیہ امریکہ اور مڈل ایسٹ میں اپنے روایتی اتحادیوں کی جانب سے ایک طرف تو معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے توقعات کے مطابق تعاون نہ ملنے سے سخت دشواری میں ہے تو دوسری جانب ایف ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے درکار امریکی تعاون بھی ملتا دکھائی نہیں دے رہا- اور اس کی وجہ سے ملک کے اندر پاکستانی انتظامیہ پر تنقید شدید ہوتی چلی جارہی ہے-
پاکستانی وزیرخارجہ اور وزیراعظم کشمیر کے معاملے کو لیکر بھارت سے چل رہے تنازعے کو بار بار دو نیوکلئیر ریاستوں کے درمیان ممکنہ تصادم کے خطرے کی بات کررہے ہیں- دونوں نے دورہ امریکہ کے دوران یہ بات کم و بیش تین سے چار مرتبہ کی ہے- ایسا لگتا ہے جیسے پاکستانی انتظامیہ بین السطور عالمی برادری کو یہ پیغام دینے کی کوشش کررہی ہے کہ اگر بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات کے موجودہ تناؤ سے بھرا سٹیٹس کو یونہی جاری رہا تو معاملہ جنگ تک پہنچ سکتا ہے-
کیا پاکستانی انتظامیہ کشمیر پر بھارت کے اٹھائے گئے اقدامات کو لیکر بھارت کی طرف سے پاکستان سے کسی بھی قسم کی بات چیت سے انکار کو لیکر کسی راست اقدام کا سوچ رہی ہے؟
پاکستانی وزیراعظم سات روزہ امریکی دورہ ختم کرکے جب پاکستان پہنچیں گے تو ان کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوگا کہ ان سے مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر بار بار یہ سوال ہوگا کہ وہ کشمیر کے معاملے پر اس دورے سے کیا حاصل کرکے آئے ہیں؟
ان پر دورہ سعودی عرب اور سعودی شہزادے کے جہاز پر امریکہ پہنچنے کے بعد یواین انسانی حقوق کونسل میں کشمیر پر سعودی عرب اور یو اے ای کی حمایت نہ ملنے پر پہلے ہی شدید تنقید ہورہی ہے اور امریکہ کی جانب سے بھارت کے ساتھ ممکنہ تجارتی معاہدے پر دستخط سے ان کو مزید تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا-
پاکستان کے اندر اس وقت اپوزیشن کی مرکزی قیادت جیلوں میں پڑی ہے- اور مسلم لیگ نواز و پاکستان پیپلزپارٹی سمیت ہر ایک اپوزیشن جماعت ان کی کشمیر ڈپلومیسی کو ناکام قرار دے رہی ہے- مہنگائی ، بے روزگاری، سرکاری ٹیکسز میں بے انتہا اضافوں نے عام آدمی کے اندر پہلے سے بہت غصہ اور تناؤ پیدا کررکھا ہے- اکتوبر میں مولانا فضل الرحمان کا اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ ہے جبکہ اکتوبر کے پہلے ہفتے میں پورے ملک کے تاجر اسلام آباد میں احتجاج کرنے جارہے ہیں-
داخلی اور خارجی سطح پر پاکستانی انتظامیہ کو درپیش چیلنجز سے پیدا دباؤ کیا عمران خان کی حکومت برداشت کرپائے گی؟ کیا عمران خان کی حمایت کرنے والی طاقتور فوجی اسٹبلشمنٹ اپنی حمایت کو جاری رکھ پائے گی؟ اور کیا داخلی و خارجی سطح پر خود فوجی اسٹبلشمنٹ پر بڑھتی ہوئی تنقید اور چیلنچ مزید فوجی اسٹبلشمنٹ افورڈ کرسکے گی؟ کیا فوجی اسٹبلشمنٹ میں عمران خان کو لیکر جس مبینہ تقسیم اور دھڑے بندی کی افواہیں سرگرم ہیں میں کوئی صداقت ہے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو پاکستانی سیاست کی غلام گردشوں میں روز اٹھائے جارہے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ اعصاب کی جنگ اپنی انتہا کو پہنچنے کو ہے-

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here