موت کے درندے میں اک کشش تو ہے ثروت
لوگ کچھ بھی کہتے ہوں خود کشی کے بارے میں

سچی بات کہوں میں تو نمرتا کی موت بارے کچھ بھی سوچنے پھر کچھ کہنے اور کچھ لکھنے کی پوزیشن میں ہی نہیں تھا کیونکہ میں تو کچھ اسیروں کی پاؤں میں پڑی بیڑیوں میں گرتے پڑتے اس طرح کے سفر کے خیال تلے دبا ہوا تھا جس سفر میں وہ ہی سفر نہیں کررہے تھے بلکہ نیزوں پر چڑھے سر تھے جن کی طرف اسیر دیکھتے تو ان کے کلیجے منہ کو آتے تھے اور صرف میں ہی نہیں بلکہ اس دنیا میں کروڑوں دماغ ایسے ہیں جو اس خیال کی اذیت کو سہہ رہے تھے اور ایسے میں اس کی مرگ کا دن آن پہنچا جس کے نہ آنے سے شہر میں درجنوں گھروں میں راشن نہ پہنچا تو یتیموں اور بیواؤں نے کہا کہ اس دن وہ اصل میں بے آسرا ہوگئے- تھوڑی دیر کے سجاد کے قتل کے درد کو میں نے زبردستی دل کے کسی نہاں خانے میں یہ سوچ کر چھپالیا

جھیلوں کی طرح سب کے ہی چہروں پہ ہے سکوت

کتنا یہاں پہ کون ہے گہرا نہیں ۔ کھلا!

(آنس معین بلے)

اب آپ کو کیسے بتاؤں کہ اس وقت میرے دل کی حالت کیا ہے؟

ایک بچہ موٹر سائیکل رکشے میں مجرم بنا بیٹھا ہے اور جب اسے یہ بتانا پڑا کہ باپ گردوں کے مرض سے بستر پہ پڑا اپنی موت کا انتظار کرتا ہے اور اسے گھر والوں کے پیٹ کا جہنم بھرنے کے لیے یہ رکشہ چلانا پڑرہا ہے جو اس کی عمر کے حساب سے جرم ہے تو اس کی آنکھوں سے نیر بہنے لگتے ہیں- اس وقت میں نے سوچا کہ یہ سب دیکھنے سے پہلے زمین پھٹ جائے اور میں اندر دفن ہوجاؤں-

بھئی جب کوئی حساس دل یہ دیکھتا ہے

ایک چہرہ نگاہوں کے دس زاویے

لوگ شیشہ گری کی دکاں ہو گئے

جب لوگ شیشہ گری کی دکان ہوجاتے ہیں تو پھر اس حقیقت سے روشناس ہونے والے حساس ذہنوں میں جو کھلبلی مچتی ہے اس کا احساس کرنا ‘غیروں’ کے لیے بہت مشکل ہوجاتا ہے اور ایسے میں اگر کوئی ‘اپنا’ شیشے دکان’ ہوجائے تو بہت سے حساس ذہن اس ‘اپنے’ کو نقصان پہنچانے کی بجائے خود حدود وقت سے نکل جانا پسند کرتے ہیں- اور یہ بزدلی نہیں ہوا کرتی-

شاید ادھورے پن کا ہو دکھ ختم موت سے

اک حرفِ ناتمام کی صورت ہے زندگی

‘مجھے سمجھ نہیں آتی جو یہ کہتے ہیں کہ نمرتا بہت بہادر لڑکی تھی،وہ بھلا کیسے خودکشی کرسکتی ہے؟ بھئی میری ایک کزن نے خودکشی کی بہت بہادر تھی وہ اور ایک ماہ بعد ہی اس کے میاں(جو خود بھی رشتے میں اس کا کزن تھا) نے بھی خودکشی کرلی- خودکشی کرتے ہی بہادر ہیں- میرے آس پاس چار سے پانچ خودکشیاں ہوئی ہیں- میں نہیں مانتی کہ ہم نمرتا کی خودکشی کے امکان کو محض اس بات سے رد کردیں کہ وہ بہت بہادر تھی، بہت قہقہے لگایا کرتی تھی، بہت سوشل تھی، بہت بے باک تھی اور وہ روایتی قسم کی لڑکی نہ تھی-‘

ہماری مسکراہٹ پرنہ جانا

دیا تو قبر پر بھی جل رہا ہے

یہ ساری باتیں پروفیسر امر سندھو نے مجھ سے فون پر باتیں کرتے ہوئے اس وقت کیں جب میں نے ویب سائٹ ایسٹرن ٹائمز کے لیے ‘نمرتا مرگ کیس’ پرحقائق جاننے کے لیے فون پہ رابطہ کیا- جب وہ بات کررہی تھیں تو میرے ذہن میں جواں مرگ شاعر ثروت حسین کی شکل گھومنے لگی اور اس کا شعر ایک دم سے سامنے آگیا- اور میں نے امر سندھو کو وہ شعر سنا بھی دیا-

ثروت حسین ایک قہقہے لگانے والا شاعر تھا اور وہ بہت مضبوط اعصاب کا آدمی تھا اور کسی سے زیر ہونے والا نہیں تھا- لیکن وہ بھی اس لمحے میں گرفتار ہوا تھا جب اکثر بہادر ابدی رہائی کے سفر پر روانہ ہوجاتے ہیں- اور اس نے بھی اپنے جسم کو قید حیات سے چھڑالیا اور آج تک اس کے جاننے والوں کو اس لمحے کی وضاحت کرنے سے قاصر ہیں جب ثروت حسین نے خود کو موت کے درندے کے سامنے سرنڈر کردیا تھا-

میں امر سندھو سے بات کرنے کے بعد کافی دیر کچھ بھی کرنے سے قاصر ہوگیا اور اپنے اندر جھانک کر دیکھنے لگا تو کہیں اتھاہ گہرائیوں میں مجھے ایک ایسے لمحے کا سراغ ملا جب میں بھی بس خود کو سرنڈر کرنے ہی لگا تھا لیکن نہ کرپایا تھا- واقعی خودکشی بزدلوں کا کام نہیں ہوا کرتی-

میں جب نمرتاؤں بارے سوچتا بھی ہوں تو مجھے بے اختیار خیال آتا ہے

کچھ دیر میرے ساتھ تماشا بنے مگر

پھر تم بھی مل گئے تھے تماشائیوں کے ساتھ

جب ‘تم’ بھی تماشائیوں کے ساتھ مل جاتا ہے ہے تو نمرتائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آنس معین تو بہت سے جوان شاعروں اور ادیبوں کو یاد ہوگا- کیا وجیہہ اور خوش شکل نوجوان تھا- زندگی سے کے جذبوں سے بھرپور- کسی کو گورنمنٹ کالج لاہور کی وہ پرانی کنٹین پر وہ منظر شاید یاد ہو جہاں ایک میز کے گرد یاروں کی جھرمٹ میں وہ بیٹھا بات بے بات قہقہے لگا رہا تھا اور اس کی آنکھوں سے کرب چھپائے نہ چھپتا تھا اور پھر اس کے خودکشی کرنے کی خبر آئی تھی اور کسی کو بھی یقین نہیں آتا تھا کہ بھلا ایسا جوان رعنا بھی خودکشی کا جام نوش کرسکتا ہے لیکن اس نے کیا-

بدن کی اندھی گلی تو جائے امان ٹھہری

میں اپنے اندر کی روشنی سے ڈرا ہوا ہوں

نہ جانے باہر بھی کتنے آسیب منتظر ہوں

ابھی بس اندر کے آدمی سے ڈرا ہوا ہوں

آنس معین اندر کی روشنی سے ڈر گیا تھا اور اسی روشنی کے ڈر نے اس کی جان لے لی مگر یقین کریں یہ ‘ڈر’ کسی بزدلی کی پیداوار نہیں تھا-

میں یہ سب سوچتے سوچتے اچانک سے شکیب جلالی بارے سوچنے لگا- وہ وفور تخلیق سے سرشار تھا اور اس نے اپنی شاعری کے اندر اپنے ممکنہ انجام بارے اشارے دیے تھے

بٹا سکے ہیں پڑوسی کسی کا درد کبھی
یہی بہت ہے کہ چہرے سے آشنا ہے کوئی

فصیل جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں
حدود وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی

تو کبھی کبھی انسان حدود وقت سے آگے نکل جاتا ہے اور وہی لمحہ شاید خودکشی کا ہوا کرتا ہے-

یہ بوجھ اک صلیب کا میں کس طرح اٹھاؤں گا

اس آگہی کے کرب کومیں کیسے جھیل پاؤں گا

میں نے نمرتا کیس بارے جس کسی سے بھی سندھ میں گفتگو کی اس نے نمرتا کی خودکشی کے امکان کو غالب امکان ضرور کہا لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ ہمیں زرا انتظار کرنا چاہئیے-

شکیبؔ دیپ سے لہرا رہے ہیں پلکوں پر
دیارِ چشم میں کیا آج رت جگا ہے کوئی

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here