اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے وزیراعظم پاکستان کی تقریر کو تین بڑے حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے- پہلا حصہ دہشت گردی، انتہا پسندی، نسل پرستی اور خاص طور پر یورپ و امریکہ میں اسلاموفوبیا کے ابھار بارے خیالات پر مشتمل تھا- دوسرا حصّہ تیسری دنیا میں معشیت کی بدحالی میں کرپن اور منی لانڈرنگ اور اس میں ترقی یافتہ ممالک کے کردار اور تیسرا اور آخری حصّہ پاک-بھارت تعلقات میں کشیدگی،کشمیر کا بھارت میں ادغام اور مودی سرکار کی پالیسیوں پر تھا-

میں وزیراعظم عمران خان کی تقریر کے پہلے حصّے کا ایک ناقدانہ جائزہ لینے کی کوشش کروں گا-

مجھے ایسا لگتا ہے کہ عمران خان نے مذہبی بنیاد پر پھیلنے والی انتہا پسندی،تشدد اور دہشت گردی اور اس کے متوازی اسلاموفوبیا کے ابھار اور اسلام و مسلمانوں کے حوالے سے یورپ و امریکہ میں ہونے والی بحث پر جن خیالات کا اظہار کیا،وہ پاکستان میں بالخصوص اور مسلم دنیا میں بالعموم ایک بڑے حلقے کی عذرخواہی،جواز کی تلاش، اور مذہبی انتہا پسندی و تشدد و دہشت گردی کے مرتکب ہونے والے اور ان کے نظریہ سازوں کی نظریاتی شناخت کو مبہم کرنے کے رجحان کو تقویت پہنچانے والے ہیں-

پاکستان میں ایک بڑے حلقے کی نفسیات ایک بڑے مغالطہ آفرین کلیہ پر استوار ہے

“دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا”

اور پھر اس بڑے کلیے سے کچھ اور ذیلی کلیات بھی نکالے جاتے ہیں

‘کوئی مسلمان معصوم انسانوں بالخصوص بچوں اور عورتوں کے خلاف دہشت گردانہ اقدام نہیں کرسکتا- کسی مسجد،امام بارگاہ،مزار،مندر،گوردوارے، کسی مسلم یا غیر مسلم قرار پائے فرقے کی عبادت گاہ پر دہشت گردانہ حملہ مسلمان نہیں کرسکتا،ایسے ہی کسی بازار یا ہسپتال پر حملہ مسلمان نہیں کرسکتا-‘
‘پاکستان کے اندر جتنے دہشت گرد حملے ہیں،سب کے سب راء ،موساد،افغان انٹیلی جنس یا سی آئی اے کی کارستانی ہیں-مسلمان جہادی تنظیموں کا ان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے’

اس مغالطہ آفرین بڑے مقدمے اور اس سے جڑے ذیلی مقدموں سے ٹکرانے والے ٹھوس معروضی شواہد،حقائق اور حالات و واقعات کو ابھی آپ پیش کررہے ہوتے ہیں تو ساتھ ہی ایک اور کلیہ آپ کے سامنے آجاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ

‘کوئی مسلمان فرد یا گروہ اس وقت ریڈیکل ہوتا ہے جب اس کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے یا اس کے ہم مذہب لوگوں کو ظلم اور جبر کا نشانہ بنایا جاتا ہے’

اور یہ مقدمہ بناکر دنیا بھر میں ہونے والی دہشت گردی کی وہ وارداتیں جو مسلمان تنظیموں نے کیں ہوتی ہیں ان کے لیے عذر یا جواز تلاش کیا جاتا ہے- اور جب دنیا ان تنظیموں کی آئیڈیالوجی یا شناخت کو لیکر ان کو مسلم بنیاد پرست/اسلامی بنیاد پرست/انتہا پسند اسلام/اسلامی دہشت گردی/مسلمان دہشت گرد وغیرہ قرار دیتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ’نسل پرستانہ’ یا اسلامو فوبک رویہ ہے-

اس طرح سے گویا پاکستانی دانش کے ایک بہت بڑے طبقے کی نفسیات بیک وقت دو متضاد مقدموں کو ساتھ ساتھ لیکر چلتی ہے-

یہ متضاد اور متخالف کلیوں سے عبارت نفسیات ایک تیسرے متضاد کلیے سے آکر اس وقت جڑتی ہے جب عقیدے اور مذہب کے نام پر انتہائی منظم وائلنس اور دہشت گردی کا تجزیہ کرنے والے کئی ایک گروہ یا افراد اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مسلمانوں کے اندر سے عالمی،علاقائی اور قومی سطح پر عقیدے کے نام پر انتہا پسندی،دہشت گردی اور وائلنس کا بھاری بھرکم اور منظم ترین نیٹ ورک ان تنظیموں اور افراد پر مشتمل ہے جو وہابی جہادی اور تکفیری آئیڈیالوجی کے علمبردار ہیں- اور یہ گروہ سلفی اور دیوبندی فرقوں کے اندر موجود ہے- اور وہ جب اسے سلفی-دیوبندی جہاد ازم یا سلفی- دیوبندی تکفیر ازم کا نام دیتے ہیں تو اس طرح کا لیبل استعمال کرنے والے کو فوری طور پر فرقہ پرست، متعصب اور اتحاد بین المسلمین کا دشمن قرار دے دیا جاتا ہے-

اس متضاد اور ایک دوسرے کو رد کرنے والے کلیوں پر مشتمل یہ نفسیات اس جگہ پر آگے ٹھہر نہیں جاتی بلکہ یہ اس سے آگے جاتی ہے- جب آپ یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان میں شیعہ مسلمانوں کی مذہبی شناخت کے نام پر قتل و غارت گری کرنے والے کس آئیڈیا لوجی کے ترجمان ہیں اور وہ سنّی اسلام کے اندر کس فرقے اور اس فرقے کے اندر کس رجحان کے پیرو ہیں تو آپ کو شیعہ-سنّی بائنری، سعودی- ایران بائنری، عراق اور شام میں سنّی مسلمانوں پر سچے اور جھوٹے مبالغہ آرائی کے ساتھ ہوئے ظالمانہ واقعات کو بیان کرکے بائنری کو سچ کیا جاتا ہے اور کبھی تو برملا اور کبھی بالواسطہ طور پر شیعہ مسلمان پاکستانیوں کی نسل کشی کی کمپئن کا جواز پیش کیا جاتا ہے-

اگر آپ ایسی مغالطہ آمیز بائنری کے کھوکھلے پن کو بے نقاب کرنے کے لیے بریلوی، صوفی سنّی، مسیحی، احمدی ،ہندؤ،سکھ اور دیگر مذہبی برادریوں کی عبادت گاہوں،مذہبی تقریبات اور ان کے مذہبی مقدس جلوس اور مزارات وغیرہ پرحملوں اور ان کے مذہبی اسکالز پر قاتلانہ حملوں کا سوال سامنے رکھ دیں اور پوچھ لیں کہ یہ حملے کس علاقے اور کون سے ملک کا حساب برابر کرنے کے لیے کئے گئے تو پھر نئی قسم کی غلط بائنری بناکر پیش کردی جاتی ہیں-

وزیراعظم پاکستان نے جہاد کے نام پر عسکریت پسندی کے بارے میں ایک عذر مغرب اور امریکہ کے سامنے یہ پیش کیا کہ امریکہ اور یورپ کے ممالک پر مشتمل سرمایہ داری بلاک نے سوویت یونین کو توڑنے کے لیے افغان جہاد کا پروجیکٹ شروع کیا اور پاکستان نے ان کے کہنے پر جہادی تیار کیے اور ان کو افغانستان تک جانے کا راستا فراہم کیا- جب سوویت یونین ٹوٹ گیا تو ایک دم سے جہادیوں کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا-
یہ آدھا سچ ہے- پاکستان کی حکمران اشرافیہ نے پہلی بار محض امریکہ اور یورپ کے کہنے پر کسی دوسرے ملک کے اندر جاری لڑائی میں مذہب یا عقیدے کے نام پر بنائی گئی مذہبی ملیشیائیں میدان میں بطور پراکسی کے نہیں اتاریں تھیں- ہمارے پاس سن 1948ء میں جموں و کشمیر کے اندر جہادی گروہ اتارنے کی مثال موجود ہے- اس وقت پاکستان کی حکمران اشرافیہ کو کسی دوسرے ملک نے نہیں کہا تھا کہ کشمیر میں مذہبی جہادیوں کو بھیجیں-
وہابی بنیاد پرست آئیڈیالوجی پر مبنی عسکریت پسند فوجی ملیشیا تشکیل دیکر پراکسی جنگ لڑنے کا منصوبہ پاکستانی عسکری اسٹبلشمنٹ کو ہمیشہ سے مرغوب رہا- اس کا دوسرا اظہار مشرقی پاکستان میں جمہوری طریقے سے انتخابات جیتنے والے بنگالیوں کے احتجاج کو کچلنے اور ان کی نسل کشی کرنے کے لیے ریگولر فوج کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی اور دیگر دائیں بازو کی مذہبی بنیاد پرست جماعتوں کے نوجوان بھرتی کرکے البدر اور الشمس جیسی دہشت گرد تنظیمیں بنائی گئيں اور انھوں نے بنگالی دانشوروں،ادیبوں،شاعروں،سیاسی کارکنوں اور طالب علموں کے خون سے ہولی کھیلی-

مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کے ساتھ پاکستان کی حکمران اشرافیہ اور ان کے پھیلائے پروپیگنڈے کے زیر اثر طبقات کے سلوک کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بجا طور پر ‘نسلی برتری’ کی نفسیات کا سراغ پانے میں مددگار ہوگا-

اس وقت پاکستان کی حکمران اشرافیہ کا غالب حصّہ اردو بولنے والی(مہاجر) اشرافیہ اور پنجابی بولنے والی اشرافیہ کے نزدیک مشرقی پاکستان کے باسی ‘بھوکے بنگالی’ تھے- ان کا کلچر،رہن سہن، ان کی سماجیات ساری کی ساری مشکوک تھی- ان میں سے جو بنگالی مسلمان تھے ان کا اسلام بھی مشکوک تھا اوراس کا جوہر مشرکانہ ہی تھا- ان کی زبان اس قابل نہ تھی کہ اس میں لکھا پڑھا جائے- زبان ایک ہی اس قابل تھی جس سے اسلام باقی رہ پاتا اور وہ تھی اردو-

عمران خان فی البدیہہ یورپ اور امریکہ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نسلی برتری پر مبنی برتاؤ کے سلوک بارے جس فکرمندی کا اظہار کررہے تھے،ویسی فکرمندی بنگالیوں کے خلاف پاکستان کی حکمران اشرافیہ کو نہ تو اس وقت ہوا جب وہ ساتھ تھے اور جب وہ الگ ہوئے تب سے لیکر آج تک کسی سرکاری سطح پر اس پر شرمندگی کا اظہار نہیں کیا گیا بلکہ آج تک مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو ایک سازش ہی کہا جاتا اور لکھا جاتا ہے-

عمران خان یورپ اور امریکہ میں مسلمانوں کی مارجنلائزیشن پر بلند آہنگی سے بولے- اور اس بلند آہنگی سے بولنے پر وہ یہ بھول گئے کہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ میں شامل گروہوں نے آج تک پاکستان میں کئی ایک مذہبی اور نسلی گروہوں کی منظم اور مربوط مارجنلائزیشن (کمتر بنائے جانے پر) فکرمند تو کیا ہوتے بلکہ وہ براہ راست یا بالواسطہ اس کا حصّہ بن گئے- اب تک یہ کمتر بنائے جانے کا پروسس جاری ہے-

پاکستان کی تاریخ ہندؤں کی مارجنلائزیشن سے شروع ہوئی(1950ء میں مشرقی بنگال میں فسادات میں بڑے پیمانے پر ہندؤ دلت کو نقل مکانی پر مجبور کیا گیا- اور یہی عمل سندھ میں بھی دوہرایا گیا- اور آج تک یہ عمل جاری و ساری ہے)- دوسرے مرحلے میں 1953ء میں احمدیوں کی مارجنلائزیشن شروع ہوئی اور یہ مارجنلائزیشن تشدد اور دہشت گردی تک جاپہنچی اور احمدیوں میں بھی جن کو موقعہ ملتا ہے وہ نقل مکانی کرجاتے ہیں- ان کی سب سے بڑی آبادی ربوہ میں ایک محاصرے کی سی حالت میں رہتی ہے- اور وہ ملک کے جس حصّے میں رہتے ہیں مسلسل خوف اور ڈر کے سائے میں رہتے ہیں- 1963ء میں خیرپور کے گاؤں ٹھہری سے شیعہ مسلمانوں کی مارجنلائزیشن کا عمل شروع ہوا اور 80ء میں یہ یہ باقاعدہ ایک منظم مہم میں بدلا اور 2000ء میں یہ آہستہ رو نسل کشی میں بدل کر رہ گیا-

پاکستان کے اندر مذہبی بنیادوں پر ہندؤ، احمدی، شیعہ(بشمول اسماعیلی و بوھرہ شیعہ برادریوں کے) کی مارجنلائزیشن کا عمل تشدد،بلوے اور دہشت گردی کے ساتھ ساتھ ان کو کئی مقامات پر گھیٹوز میں رہنے پر مجبور کرگیا- کیا پاکستان کی حکمران اشرافیہ بتاسکتی ہے اس نے مارجنلائزیشن کا شکار ہوکر گھٹیوز میں رہنے پر مجبور ہونے والی ان مذہبی برادریوں کے لوگوں کی دیگر برادریوں کی اکثریت کے علاقوں میں نارمل انداز میں رہنے والے دور کو واپس لانے میں کیا اقدامات کیے؟
پاکستان کی حکمران اشرافیہ نے سوویت یونین کے ٹوٹ جانے، افغانستان میں جہادی گروپوں کے درمیان خون ریز تصادم اور خانہ جنگی کے نمودار ہونے پر اپنے ہاں موجود عسکریت پسندوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟

جس وقت افغان جہاد پروجیکٹ افغانستان میں بدترین خانہ جنگی میں بدل چکا تھا تو اس وقت کی پاکستانی فوجی اسٹبلشمنٹ نے جہادی نیٹ ورک کو تحلیل کرنے کا کوئی منصوبہ بنانے کی بجائے ایک اور پروجیکٹ ازخود شروع کردیا تھا اور وہ تھا ‘جہاد کشمیر پروجیکٹ’- دیکھا جائے تو یہ انیس سو اڑتالیس کی جہادی گھس پیٹھ اور 1965ء کے آپریشن جبرآلٹر پروجیکٹ کا دوبارہ احیاء تھا- جتنا بھی دیوبندی ،سلفی اور جماعت اسلامیائی جہادی سٹف تھا اسے انھوں نے تین اہداف کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا- ایک ہدف تھا افغانستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کا- دوسرا ہدف تھا کشمیر کو جہاد کے زریعے آزاد کرانے کا اور تیسرا ہدف تھا وسط ایشیائی ریاستوں میں جہاد کرکے ان ریاستوں کو حقیقی اسلامی کنفیڈریشن میں بدلنے کا- یہ سارے اہداف تزویرائی گہرائی یا سٹریٹجک ڈیپتھ پالیسی کا حصّہ تھے- امریکہ اور یورپ کی فنڈنگ کا متبادل منشیات اور اسلحے کی اسمگلنگ کا وسیع و عریض نیٹ ورک اور سعودی عرب سمیت مڈل ایسٹ کی وہابی بادشاہتوں کی فنڈنگ کی صورت مل چکا تھا- افغانستان کو اپنی کالونی بنانے کے خواب کی تعبیر پانے کے لیے سارے دستیاب جہادی سٹف سے تحریک طالبان افغانستان کی تشکیل ہوئی- اور دوسری جانب دستیاب سٹف سے پہلے حزب المجاہدین ،پھر البدر،پھر حرکۃ الانصار،پھر حرکۃ المجاہدین پھر جیش محمد اور لشکر طیبہ کی کو طاقتور پراکسی کے تحت ہندوستانی کشمیر اور ہندوستانی علاقوں میں اتارا گیا- ان سب کے بیس کیمپ اور ان کا سیٹ اپ پاکستان میں بھی برقرار رکھا گیا- ان سارے اثاثوں کے لیے افرادی قوت فراہم کرنے والوں میں سپاہ صحابہ پاکستان جیسی تنظیم بھی موجود تھی- اور کشمیر و افغانستان میں اہداف کے حصول کے لیے سرگرم دیوبندی عسکریت پسندوں کے اندر ایک بڑی تعداد ان کی تھی جو کشمیر اورافغانستان و انڈیا کو ہی فتح کرنا نہیں چاہتے تھے بلکہ پاکستان کے اندر وہ شرک،بدعت اور گمراہی و کفر کے ان مبینہ مراکز کی تباہی بھی چاہتے تھے جو خود کو مسلمان کہلانے والوں نے قائم کررکھے تھے-

وزیراعظم پاکستان جب یہ کہتے ہیں کہ امریکہ اور یورپ کی حکومتوں نے 80ء کی دہائی میں سوویت یونین توڑنے کے لیے جہادی بنائے اور پھر پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا تو ان سے یہ سوال کیا جائے گا کہ امریکہ اور یورپ کے چھوڑ جانے کے بعد اس نیٹ ورک کو پھیلانے اور اس کے سہہ جہتی اہداف کی تشکیل کا محرک کون تھا؟ کیوں اس نیٹ ورک کو پھیلایا گیا؟

جب وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ نے تو امریکہ اور یورپ کی اس وقت کی حکومتوں کی مدد کی تھی- وہ آدھا سچ بولتے ہیں-

کیونکہ خود اس وقت کی فوجی قیادت نے اسے اپنے اہداف کے لیے ایک بہترین راستا خیال کیا تھا- اور جن مذہبی تنظیموں نے اس کام میں مددگار بنکر اپنے اندر بڑے پیمانے پر عسکریت پسند نیٹ ورک بنائے اور اپنے کارکنوں کو پیدل سپاہیوں کے طور پر پیش کیا ان کے کو یہ کام اپنی آئیڈیالوجی کے عین مطابق لگا-

پاکستان نے پہلے دن سے جس جہادی عسکریت پسند نیٹ ورک کو تشکیل دیا تھا اس کا بھاری سٹف اول روز سے دیوبندی اور سلفی فرقوں کے اندر موجود ریڈیکل سیکشن سے آیا تھا اور یہ سیکشن اپنی فرقہ وارانہ تباہی کی مشینری کو اتنے بڑے پیمانے پر ہلاکت خیز بنا ہی پاکستان،سعودی عرب اور دیگر ممالک کی اسٹبلشمنٹ کی سرپرستی کے سبب بناسکا تھا-

اگلا سچ یہ ہے کہ حکمران جماعت اردو اسپیکنگ مہاجر اشرافیہ اور پنجابی اسپیکنگ اشرافیہ نے پاکستان بننے کے بعد جمہوریت،صوبائی خودمختاری اور اختیارات کی عادلانہ تقسیم کے خلاف اپنی حاکمیت کو برقرار رکھنے کے لیے دائیں بازو کی جن رجعت پرست قوتوں کو اسلام،دو قومی نظریہ اور اردو کے نام پر جمہوریت پسند قوتوں کے خلاف استعمال کیا ان کو بعد ازاں غالب آجانے والی فوجی اسٹبلشمنٹ نے اپنے قیمتی اثاثوں کے طور پر گود لیا اور ان میں سے زیادہ ریڈیکل سٹف کو جب موقعہ ملا زیادہ سے زیادہ ملیٹنٹ بنایا اور ان کو ایک ایسا ہتھیار بنایا کہ پاکستان میں جب چاہا جمہوری عوامی حکومتوں اور جماعتوں کو بلیک میل کیا یا ان کا تختہ الٹادیا- اور اپنی کٹھ پتلیوں کو عالم اسلام، امت اور مسلمانوں کا سب سے بڑا درد رکھنے والا بناکر پیش کیا-

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ستر سالوں سے اسٹبلشمنٹ کی مسلسل مینی پولوشن / تخریبی مداخلت سے ایک اچھا خاصا آبادی کا سیکشن ان کو اپنا نجات دہندہ سمجھتا ہے-

یواین کی جنرل اسمبلی کے سٹیج پرعمران خان ایک کٹھ پتلی طور پر اپنی فی البدیہہ تقریر میں حقیقی ایشوز کو لیکر پاکستان کی جس حکمران اشرافیہ کو چارہ ساز، غمخوار اور دردمند بناکر پیش کررہے تھے تو ان سارے مسائل کی پیدائش کی حصّہ دار ہے ناکہ اس سے الگ ہے-

وزیراعظم پاکستان یو این کے سٹیج پر دہشت گردی،انتہا پسندی اور تکفیر کے علمبرداروں کے عذر خواہی پر مبنی تقریر کررہے تھے- انہوں نے اتنے بڑے سٹیج پر اپنے آپ کو دہشت گردی، تکفیر ازم، عسکریت پسندی کی متاثرہ پاکستان کی مذہبی اور نسلی مجبور و محکوم برادریوں کے زخموں پر نمک چھڑکا مرہم نہیں رکھا-

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here