پاکستانی وزیراعظم عمران کے یواین جنرل اسمبلی اجلاس میں کشمیر پر پاک- بھارت کے درمیان کسی ممکنہ تصادم کو پاکستان کی جانب سے ایٹمی جنگ میں بدلنے کے مبینہ بیان کو لیکر عالمی زرایع ابلاغ میں کافی کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے-
امریکہ کے بین الاقوامی اخبار نیویارک سمیت کئی ایک اخبارات نے اس بیان کو ایٹمی جنگ کی وارننگ اور کچھ نے دھمکی سے تعبیر کیا ہے-
لیکن سابق آرمی چیف آصف نواز جنجوعہ مرحوم کے بھائی سابق فوجی افسر جنرل شجاع نواز جنجوعہ کا خیال یہ ہے کہ پاکستان ہندوستان سے روایتی جنگ میں ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا-
سابق فوجی افسر شجاع نواز جو امریکہ میں مقیم ہیں کی کتاب
The Battle for Pakistan: The Bitter US Friendship and a Tough Neighborhood
پاکستان کی فوجی ڈاکٹرائن میں روایتی جنگی حکمت عملی اور ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال بارے پالیسی کا بھی جائزہ لیتی ہے۔اس بارے انہوں نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت ہندوستان اور پاکستان میں موجودہ اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کے لیے ہندوستان کو مجبور رکھنا ہے اور پاکستان روایتی حملے کے جواب میں ایٹمی ہتھیار کے استعمال کی طرف اس وقت تک نہیں جائے گا جب تک روایتی جنگ سے جواب دینے کا آپشن بالکل ہی ختم نہ ہوجائے۔ وہ بھارت کی کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن کے جواب میں سامنے آنے والی نئی فوجی ڈاکٹرائن کا جائزہ لیکر اپنا موقف سامنے لاتے ہیں۔

وہ لکھتے ہیں
“ہندوستان ‘کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن’ جیسی کسی بھی جنگی حکمت عملی کے موجود ہونے سے انکار کرتا آیا ہے- جس کے مطابق بھارت کے پاس ایک ایسی سریع الحرکت فورس ہے جو کسی بھی جنگ کے خدشے کی صورت میں ہراول دستے کی صورت میں پاکستانی علاقے میں گھس کر اس کے اہم شہروں و تنصیبات پر قبضہ کرکے پاکستان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردے گی-
پاکستان اسے ایک ابھرتے ہوئے خطرےکے طور پر دیکھتا ہے اور اسے 1980ء میں ہندوستان کی براس ٹیک آپریشن کے نام سے فوجی مشقوں کا تسلسل سمجھتی ہے جس میں پاکستان کے اہم مقامات کو سریع الحرکت فوجی دستوں کے زریعے ہٹ کرنے کے تصور کو مشقوں کے زریعے سے ٹیسٹ کیا گیا تھا- اس طرح کے فوجی حملے کو آج کل کے جدید فوجی حربوں میں جرمن بلٹزریگ کا نام دیا جاتا ہے-

پاکستان نے جرمن بلٹزریگ طرز کے ایسے فوجی آپریشن کا توڑ ‘جارحانہ-مدافعتی’ فوجی حکمت عملی ترتیب دیکر کیا ہے- اس کے تحت پاکستان جواب میں کاؤنٹر سٹرائیک کرکے ہندوستان کے کسی اہم علاقے پر قبضہ کرلے گا- پاکستان کی جانب سے اچھے سے تیار گئی کاؤنٹر اٹیک روایتی منہ توڑ اور نیٹ سنٹرک ڈاکٹرائن کو وقت کے ساتھ ساتھ آزمائی گئی ترقی یافتہ حربی حکمت پر مبنی ایٹمی صلاحیت نے بھی کافی تقویت فراہم کی ہے- اس حکمت عملی نے قت کے ساتھ ساتھ شاٹ رینج کے ہتھیاروں کو بیلسٹک اور کروز مزائیلوں کے زریعے روایتی ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ نیوکلئیر ہتھیار لیجانے کی صلاحیت کی شکل اختیار کرلی ہے جن کا استعمال اس خطے میں خوفناک تباہی پھیلاسکتا ہے جس کے عالمی سطح پر اثرات ہوں گے۔

پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل کیانی نے جنوری 2010ء میں اس نئی حکمت عملی کے بارے میں اظہار خیال کیا تھا- آئی ایس پی آر کی جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا تھا:” آرمی چیف نے بیان دیا ہے کہ ‘ایٹمی (ہتھیار) کے سروں پر منڈلانے کے اس دور میں ملٹری فورسز کا روایتی استعمال ایک مہم جویانہ اور خطرناک راستہ ہے؛ جس کے نتائج غیرمتوقع اور ناقابل کنٹرول نکل سکتے ہیں۔”

پاکستانی فوج نے اس نئی ڈاکٹرائن کو فوجی مشقوں کے ایک نئے سلسلے کے زریعے آزمایا جس کا نام ‘عزم نو’ رکھا گیا- ان مشقوں کا تیسرا حصّہ 10 اپریل سے 13 مئی 2010 تک چولستان کے صحرا میں مکمل کیا گیا- اس میں پچاس ہزار فوجی شریک تھے اور اس کے فائنل حصّے میں اینٹی ائرکرافٹ گنوں سے ڈرونز کو گرانے کی مشق بھی کی گئی-

جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا کہ جنرل کیانی نے بھی ہندوستان کے روایتی جنگ کے منصوبوں کا منہ توڑ جواب یا اسے روکنے کے لیے حکمت عملی تیار کرنے کی خبر دیتے ہوئے بتایا تھا کہ کھاریاں میں موجود اپنی ایک اہم آرمڈ ڈویژن گوجرانوالہ کور کو اس کا کنٹرول دے دیا گیا ہے تاکہ کشمیر کا معاملہ فیس کیا جاسکے- ان کے خیال میں پنجاب کے میدانوں میں راوی چناب-کوریڈور،روایتی ٹینکوں کی لڑائی کے میدان سیالکوٹ اور اس کے گردونواح میں ہندوستانی فوج کی گھسنے کی کسی کوشش کا یہ فورس منہ توڑ جواب دے گی-

پاکستان اور بھارت کے پاس روایتی ہتھیاروں کی دستیابی میں بھارت کی واضح برتری کے باوجود روایتی سطح پر پاکستان ‘تزویراتی برابری’ کے مفروضے پر کام کرتا ہے۔

اس کا ڈھیلا ڈھالا مطلب یہ ہے کہ پاکستانی افواج کسی بھی روایتی بھارتی حملے کا کا موثر جواب بھارتی علاقے میں اپنے جارحانہ اقدام سے دے سکتی ہے اور یہ سب ایٹمی جنگ کے سر پر منڈلاتے ہوئے خطرے کی موجودگی میں ہوگا-

پاکستان کی نئی فوجی ڈاکٹرائن تصادم کو ایک وسیع تناظر میں ترتیب نو سے گزارتی ہے جس میں بڑی روایتی جنگ کے علاوہ چھوٹی چھوٹی جنگیں،کم شدت کے آپریشن،کم شدت کی روایتی جنگ اور ایٹمی جنگ بھی شامل ہے- ایٹمی جنگ کے آپشن کو صرف آخری حربے کے طور پر رکھا گیا ہے جب کوئی اور آپشن سرے سے نہ رہے۔

مزید یہ کہ روایتی جنگ کا اختیار نیشنل کمانڈ اتھارٹی نے ایک نئی قائم کردہ اتھارٹی کو منتقل کررکھا ہے جو ملٹری کی ہائی کمانڈ کہلاتی ہے- جبکہ ایٹمی جنگ چھیڑنے کا اختیار سویلین اٹھارٹی کی اجازت سے مشروط نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے پاس ہے جس کا سربراہ وزیراعظم ہے- لیکن کسی کو شک نہیں ہے کہ ہندوستان اگر پاکستان کے اندر تک روایتی جنگ کو لیکر آتا ہے تو فوج ہی یہ فیصلہ کرے گی کہ اس کا فوری جواب کیسے دے چاہے نیشنل کمانڈ اتھارٹی کی منظوری کے ساتھ دے یا اس کے بغیر دے-

پاکستان ہندوستان کی جانب سے جارحیت کی بالفعل قوت میں نہات اضافہ ہونے کو حقیقت سمجھ کر ایٹمی صلاحیت میں برابری کو سٹیٹس کو برقرار رکھنے کا سب سے بڑا سبب خیال کرتا ہے- تو یہ ہندوستان سے توقع رکھتا ہے( نئی پاکستانی فوجی ڈاکٹرائن میں اس کا نام ‘جنوبی ایشائی دشمن’ ہے) اس کی مختلف سطحوں پر مربوط سرگرمیاں پاکستان کی قومی یک جہتی اور طاقت کو توڑنے کے لیے ہیں- ہندوستان جنگ کی قیمت چکانے پر کتنا رضامند ہے یہ بات اس ڈاکٹرائن کے مطابق مستقل میں ہونے والے کسی بھی تصادم کی شدت کی تعریف متعین میں مدد کرے گی-
پاکستان کے اپنے اندازے کے مطابق ایٹمی جنگ ایسا کوئی بھی تصادم اپنی نوعیت میں کاؤنٹر فورس کی بجائے سب کچھ تباہ ہونے پر مبنی جواب ہوگا- ہندوستان کے دس بڑے شہر اور پاکستان کے سات بڑے شہر کسی ممکنہ ایٹمی جنگ میں نشانہ بن سکتے ہیں- اس کا آخری نتیجہ ہندوستان اور پاکستانی علاقے کے بڑے حصوں کی مکمل تباہی کی صورت میں نکلے گا اور اگر فضا میں تابکار گرد اور زرات مشرق کی طرف ہوا سے چلے تو یہ شمالی ہمپشائر کو پورے کا پورا ڈھانپ لیں گے- اور اس کے نتیجے میں چھے ماہ کے اندر ایٹمی سردی دنیا کے شمالی حصّے پر مسلط ہوجائے گی- ہندوستان کے اپنے اندازے بھی پاکستان کے اندازے جیسے ہوں گے-

ماضی کے بحرانوں پر ایک نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کشیدگی کے دنوں میں ایٹمی اثاثوں کی ڈیپلائے منٹ بارے بات سے قابل زکر حد تک گریز کیا گیا- پاکستان نے اپنے ایٹمی ہتھیاروں کی صلاحیت بارے غوری اور حتف مزائل ٹیسٹ کرکے ہلکا سا اشارہ دیا- ہندوستانی پارلیمنٹ پر دہشت گرد حملوں کے بعد پیدا بحران میں پاکستان نے ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں کم بات کرنے کی روش اپنائی اور اس بات سے انکار کیا کہ ہندوستان اگر اس کی مشرقی سرحدوں پر روایتی افواج کو حرکت دے گا تو اس کا ارادہ ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کا ہے-

پاکستان کا کہنا ہے کہ یہ ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال اس صورت میں کرے گا جب ہندوستان پاکستان کے بڑے حصّے پر قبضہ کرلے اور اس کی معشیت کو برباد کرے یا یا داخلی انتشار سے فائدہ اٹھاکر اسے کمزور کرنے کی کوشش کرے۔ فیروز حسن کے بقول پاکستان کی فوجی ڈاکٹرائن ہندوستان کی روایتی جنگ کے جواب میں ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی نہیں ہے-

جب سیاست اور معشیت دونوں کمزور ہوتے ہیں تو ایٹمی ہتھیاروں کی مدافعتی شیلڈ بھی کام نہیں آتی جیسے سوویت یونین کے معاملے میں ہوا تھا تو کیا پاکستان کے کام آئے گی؟ یہ مسئلہ ابھی حل طلب ہے-“

جنرل شجاع کی باتوں سے سوال یہ جنم لیتا ہے اگر اقوام متحدہ یا امریکہ مودی سرکار کو کشمیر کے اسپیشل اسٹیٹس کے خاتمے کو واپس لینے پر راضی نہیں کرپاتے اور پاکستان کے بلوچ انسرجنسی اور پشتون علاقوں میں پھیلی بے چینی کو پاکستان کی فوج کے خلاف ایک بڑی سازش کے طور جو دیکھا جارہا ہے اگر اس پر بھارت کو روکنے کے پاکستانی حکومت کے مطالبے پر کان نہ دھرے گے تو کیا پاکستان اس سے سٹیٹس کو ‘ٹوٹنا’ مراد لے گا اور کسی تصادم میں ایٹمی ہتھیار استعمال کرے گا؟

(انگریزی میں جنرل شجاع نواز کی کتاب کے افتباسات ویب سائٹ سکرول ان سے لیکر ترجمہ وتلخیص کیے گئے ہیں)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here