کل 4 اکتوبر،2019ء جمعہ کے روز 222ویں کورکمانڈرز کانفرنس جی ایچ کیو میں منعقد ہوئی- کانفرنس کا اعلامیہ آئی ایس پی کے دفتر سے جاری ہوا- جس میں کہا گیا ہے کہ مسلح افواج ہندوستان کی جانب سے کسی بھی قسم کی جارحیت یا مہم جوئی کا جواب دینے کے لیے تیار ہے۔ یہ عزم قابل تحسین ہے۔

لیکن کورکمانڈرز کانفرنس کے بارے میں جاری کردہ آخری تین پیراگراف محل نظر ہیں اور کچھ سوالات کو جنم دیتے ہیں

 

Forum acknowledged effective highlighting of Kashmir dispute exposing Indian human rights violations in under siege IOJ&K during UNGA session.

Forum expressed appreciations for effectively dealing foreign backed efforts at destabilising Pakistan through various machinations.

Kashmir is jugular vein of Pakistan and no compromise shall be made which denies right of self determination to our brave Kashmiri brethren”, COAS.

کشمیر بارے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں قرارداد پیش کرنے میں ناکامی اور جنرل اسمبلی اجلاس میں کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر بحث کی تحریک پیش کرنے میں ناکامی دو ایسے واضح دکھائی دینے والے امر تھے جس کے بعد  کورکمانڈرز کانفرنس کے اعلامیہ میں ایسے فقروں کی شمولیت سوالیہ نشان ہی نہیں بلکہ فوجی قیادت کے پاکستان میں موجود سیاسی تقسیم میں پارٹی بن جانے کا الزام لگانے والوں کے دعوے کو تقویت دینے والا عمل بن جانے کا خدشہ ہے۔

اس کے بعد والا پیراگراف ذہنوں میں یہ خدشہ پیدا کرتا ہے کہ پہلے سے تنگ ہوتی ہوئی سیاسی و صحافتی و سماجی سطح پر اختلاف کی گنجائش اور کم کی جاسکتی ہے-

 پاکستان کے اندر اس سے پہلے بھی سیاسی اختلاف کرنے اور آزادی رائے کا حق استعمال کرنے والوں کو ‘غیرملکی حمایت یافتہ’ منصوبہ برائے عدم استحکام پاکستان کا الزام لگاکر جبری گمشدہ یا ان کو پاکستان پروٹیکشن آرڈیننس یا اینٹی سائبر کرائمز ایکٹ کے تحت قید کیا جاتا رہا ہے اور بعض انتہائی اقدام میں تو ماورائے عدالت قتل بھی ہوئے ہیں- جبکہ اپوزیشن پہلے ہی نیب اور ایف آئی اے کے زریعے سیاسی مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنانے کا الزام لگارہی ہے- جبکہ احتساب کے عمل میں امتیازی سلوک کی ٹھوس مثالیں بھی سامنے آچکی ہیں

تیسرے پیراگراف کو پڑھنے سے یہ سوال جنم لیتا ہے کہ کشمیر کے ایشو پر پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کیا معاملات طے پاتے ہیں اس کا تعین کرنا تو پارلیمنٹ کا کام ہے- اور اس بات کا تعین کرنے کا اختیار کیا مسلح افواج کی قیادت کو ہے کہ کون سا فریم ورک سمجھوتہ/کمپرومائز ہے اور کون سا نہیں ہے؟

 مسلح افواج کا بنیادی کام پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کا تحفظ یقینی بنانا اور اس تحفظ کے لیے عوام کے منتخب نمائندوں کی دی گئی گائیڈ لائن کو فالو کرنا ہے- جنگ کرنے نا کرنے اور کس نوعیت کی جنگ کرنی ہے یا نہیں کرنی یہ اختیار بھی آئین پاکستان کے تحت سیاسی منتخب قیادت کے پاس ہے-

پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ اس سے پہلے تاجروں، صنعت کاروں اور دیگر سویلین شعبوں میں جاکر خالص ایسے مسائل پر بطور آرمی چیف بات کررہے ہیں جو آئین پاکستان میں سراسر سویلین قیادت کے معاملات ہیں- پاکستان پیپلزپارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے کل ہی صبح کے وقت اس بات پر تشویش کا اظہار کیا تھا کہ  پارلیمنٹ،وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کے دائرہ کار میں آنے والے معاملات پر آرمی چیف،فوج،رینجررز وغیرہ کی طرف جانا پاکستان میں جمہوریت اور سیاسی عمل کے لیے نیک شگون نہیں ہے-

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ  کی طرف سے جاری ہونے والے پریس اعلامیوں اور اور ڈی جی آئی ایس پر کے پریس بریفنگ سیشن 2008ء سے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ جنرل مشرف کی آمریت کے دور میں سویلین معاملات میں دخل دینے کی جو روایت اس دور میں ڈی جی آئی ایس پی  آڑ ڈال گئے وہ بجائے ختم ہونے کے اور مضبوط ہوگئی ہیں- بلکہ سابق ڈی جی آئی ایس پی آر عاصم باجوہ کے دور میں جو جارحانہ ٹوئٹ ہینڈلنگ شروع ہوئی تھی اب اس کا دائرہ اور وسیع ہوگیا ہے-

ڈی جی آئی ایس پی آر نے یو این جنرل اسمبلی اجلاس میں وزیراعظم عمران خان کی تقریر پر تنقید پر ‘برنول’ ٹوئٹ کیا جو انتہائی غیر ذمہ دارانہ تھا-

پاکستان میں اگر سیاسی جماعتوں اور سیاسی و سماجی حقوق کی تحریکوں کی جانب سے مسلح افواج کے ماضی یا حال میں سیاسی عمل میں مداخلت، کمرشل سرگرمیوں اور الیکشن میں مبینہ مداخلت بارے کوئی تنقید ہوتی ہے تو اس کا جواب آئی ایس پی آر کی جانب سے نہیں بلکہ حکومت کے وزیر اطلاعات اور ترجمانوں کی جانب سے آنا چاہیے ناکہ آئی ایس پی آر اس کا جواب دے- اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر مسلح افواج کے خلاف کوئی پروپیگنڈا ہو بھی رہا ہے تو اس کا جواب حکومت کیوں نہیں دیتی وہ آئی ایس پی آر سے کیوں پریس ریلیز جاری کرواتی ہے؟

اس وقت پاکستان میں ایک بحث سنسر شپ کے سخت ترین نفاذ کے باوجود عوام کے اندر زور و شور سے ہورہی ہے اور وہ یہ ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج دفاع کے  بنیادی کام کے علاوہ اور کون کون سے کام کرے گی؟ اب تو حالت یہ ہے کہ کراچی کا کچرا صاف کرنے اور بند گٹر کھولنے تک کے لیے وفاقی حکومت کے کچھ وزراء فوج اور رینجرز کو پکارتے ہیں- یہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ وفاق کو کمزور کررہی ہے-

پاکستان میں اس وقت سیاسی عدم استحکام بہت واضح ہے اور اس کا سب سے بڑا بنیادی سبب 2018ء کے الیکشن کی شفافیت کا بری طرح سے متاثر ہونا ہے-

 اور اس وقت اپوزیشن ہی نہیں بلکہ ملک کی بڑی اکثریت کے نزدیک اس مبینہ غیر شفاف الیکشن کے نتیجے میں مشکوک جواز حکمرانی رکھنے والی موجودہ حکومت نے اپوزیشن کی جانب سے پارلیمنٹ میں بیٹھنے کے فیصلے کا احترام نہیں کیا- اور پارلیمنٹ کو مفلوج بنایا جبکہ اپوزیشن کی مرکزی قیادت کو جیل بھیج کر پروڈکشن آڈرز جاری نہیں کیے گئے- بلکہ اپوزیشن کا الزام ہے کہ ان کی خواتین تک کے بنیادی انسانی و سیاسی حقوق کا احترام تک نہیں کیا جارہا- ایسے میں مسلح افواج کی قیادت پر جانبداری کے تاثر میں اضافہ ہوتا ہے تو یہ تشویش ناک امر ہے-

پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ پر پاکستان کے سیاسی عمل میں مداخلت کرنے اور پاکستان کی خارجہ پالیسی کو یرغمال بنانے کا الزام اور تاثر اس وقت اس قدر گہرا ہوچکا ہے کہ مودی جیسا فاشسٹ ذہنیت کا مالک سربراہ پاکستان سے بات چیت نہ کرنے کے لیے یہی بہانے بازی کررہا ہے کہ اسے سمجھ نہیں آتا کہ پاکستان میں کس سے بات کی جائے؟

پاکستان کو عالمی برادری میں اپنے امیج کو بہتر بنانے اور تنہائی کو دور کرنے کے لیے کشمیر، افغان امن جیسے ایشوز پر حکومتی اور اپوزیشن بنچز کے درمیان اتفاق کو ‘محسوس’ کرانے کی اشد ضرورت ہے جو بدقسمتی سے اس وقت کہیں نظر نہیں آرہا-  

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here