میری جب سے شعور کی آنکھ کھلی ہے،تب سے میں جاگیرداری، نوابیت، وڈیرہ شاہی ،سرداری اور جات پات کی اونچ نیچ کے خلاف رہا ہوں۔ لیکن کچھ شخصیات ایسی ہیں جنھوں نے میرے دل میں اپنی جگہ بنائی اور خوب بنائی،چاہے ان کے کئی ایک خیالات سے مجھے اتفاق رہا ہو یا نہ رہا ہو۔ ان میں سے ایک شخصیت امیر محمد خان کی ہے جو راجہ محمود آباد صاحب کے نام سے معروف تھے اور آج 14 اکتوبر کو ان کی برسی تھی-

راجہ محمود آباد صاحب 5 نومبر،1914ء کو ہندوستان کے صوبہ اتر پردیش کے ضلع سیتاپور میں اس وقت قائم محمودآباد سٹیٹ میں راجہ علی محمد خان کے ہاں پیدا ہوئے۔ محمودآباد آج سیتاپور کی تحصیل اور لکھنؤ سے 47 کلومیٹر/37میل دور ہے۔

راجا آف محمودآباد کے آباؤاجداد کا تعلق آج کے عراق سے تھا اور وہ حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کے حامیوں میں شامل تھے اور پھر وہ عباسی دور حکومت میں بغداد منتقل ہوئے اور وہاں پر ان کے آباؤاجداد تعلیم و تدریس سے اور فنون حرب سے وابستہ تھا۔

سلطنت عباسیہ پر جب ہلاکو خان کی قیادت میں تاتاری حملہ آور ہوئے تو یہ خاندان ہندوستان چلا آیا اور محمد تغلق کے دور سے لیکر جہانگیر کے دور تک اور پھر اودھ ایڈمنسٹریشن تک ان کا تعلق حکومت اور سرکار سے رہا- جلال الدین اکبر کے زمانے میں ان کو ضلع سیتاپور میں جاگیر ملی۔ یہاں پر ایک بڑی حویلی جسے قلعہ کہا جاتا ہے تعمیر کرائی گئی اور اس کے اردگرد کے 66 گاؤں اس خاندان کی تحویل میں تھے اور اسے محمودآباد کا نام دیا گیا۔ نواب واجد علی شاہ کی ریاست اودھ میں محمودآباد کی جاگیر کے نگران نواب علی خان تھے۔ اور نواب علی خان نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف بغاوت میں نواب واجد علی شاہ کا ساتھ دیا تھا،جس کے سبب ایسٹ انڈیا کمپنی نے ان سے محمودآباد جاگیر ضبط کرلی تھی لیکن بعد ازاں جب برٹش حکومت نے ہندوستان کا کنٹرول ایسٹ انڈیا کمپنی سے لے لیا تو اس جاگیر کا ایک بڑا حصّہ بحال ہوگیا۔

سن 1903 میںعلی محمد خان محمودآباد اسٹیٹ کے راجہ بنے۔ علی محمد خان اپنے زمانے کی مسلمان جاگیردار اشرافیہ میں ان نواب جاگیرداروں میں شمار ہوتے تھے جو ایک طرف تو صرف جاگیروں کی پیداوار پر طفیلیہ بنکر نہیں رہنا چاہتے تھے،دوسری طرف وہ اپنے اطراف میں جدید تعلیم کی روشنی بھی پھیلانا چاہتے تھے۔ علی  محمد خان نے ایک طرف تو اس زمانے میں بڑے پیمانے پر عطر بنانے کا کارخانہ لگایا اور ان کا عطر پورے ہندوستان میں بکتا تھا۔

راجا علی محمد خان وائس چانسلر علیگڑھ یونیورسٹی

علی محمد خان محمودآباد مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے سب سے بڑے مالی معاون تھے۔ انھوں نے 1906ء میں ڈھاکہ میں کانفرنس کے اجلاس میں آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام میں اہم کردار ادا کیا اور اس کی مالی معاونت بھی کی۔

یہ محمڈن ایجوکیشنل سوسائٹی اور اس کے تحت بننے والے ایم اے او کالج علیگڑھ کے بورڈ آف ٹرسٹی میں شامل تھے اور جب یہ کالج یونیورسٹی بن گیا تو اس کے پہلے وائس چانسلر بھی  علی محمد خان ہی تھے۔

 علی محمد خان نے لکھنؤ یونیورسٹی کے قیام کے لیے اس زمانے میں ایک لاکھ روپیہ دیا- جبکہ لکھنؤ میں کنگ جارج میڈیکل کالج اور امین الدولہ لائبریری کے قیام کے لیے بھی کئی لاکھ روپے کا چندہ دیا۔ ان کے عطیات کے بغیر لکھنؤ میں ان اداروں کا قیام بہت مشکل ہوتا۔

لکھنؤ یونیورسٹی

امیر علی محمد خان نے اپنی جاگیر کی آمدنی سے پورے ہندوستان میں قیمتی جائیدادیں خرید کیں جن میں کئی ہوٹل بھی شامل تھے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے نام سے ایک عطر کا برانڈ پورے ہندوستان میں فروخت ہوتا تھا۔ اور اکثر جائیدادیں کرائے پر تھیں۔ اس طرح سے ہوٹل سے لیکر کرائے پر چڑھی جائیدادوں اور عطر کے کاروبار بشمول پشتینی جاگیر سے جو آمدنی آتی تھی، اس کا بہت بڑا حصّہ وہ تعلیمی،رفاعی،مذہبی وسماجی و سیاسی سرگرمیوں پر خرچ کردیا کرتے تھے۔

گنگ جارج میڈیکل کالج کے سنگ بنیاد کی تقریب کے موقعہ پر پرنس ویلز کے ساتھ گروپ فوٹو

یہاں تک کہ امیر علی  محمد خان نے لکھنؤ میں بالخصوص اور اودھ میں بالعموم سابق ریاست اودھ کے دربار سے وابستہ موسیقی، رقص و مصوری و خطاطی و کتابت و طبابت سے وابستہ جو ہنرمند اور فنکار تھے ان کی سرپرستی بھی جاری رکھی۔

محمودآباد والوں کا یہ شعار بھی رہا کہ یہ خانوادہ جب سے ہندوستان منتقل ہوا اور اسے مالی آسودگی نصیب ہوئی تب سے  یہ اپنے مال کا ایک حصّہ نجف اشرف،کربلا ،مشہد اور دمشق میں آثار اہل بیت اطہار پر خرچ کرتا رہا۔ لکھنؤ سمیت اترپردیش میں بھی اس نے حب اہل بیت کو فروغ دینے میں اپنا مال پانی کی طرح لٹایا۔

راجا امیر علی محمد خان کے انتہائی قریبی دوستوں میں موتی لال نہرو(والد جواہر لال نہرو)، مولانا عبدالباری فرنگی محل والے اور سرآغا خان تھے۔ ان میں ایک نوجوان دوست کا اضافہ بعد ازاں غالبا انیسویں صدی کے پہلے عشرے میں ہوا۔ یہ لندن سے بیرسٹر بنکر ممبئی میں تازہ تازہ پریکٹس کرنے والے محمد علی جناح تھے جو اس زمانے میں ممبئی کے مالدار تجارت پیشہ پارسی،بوہرہ،اسماعیلی گھرانوں سے تعلقات رکھتے تھے اور ساتھ ساتھ اس زمانے کی ہندؤ اور مسلم کمیونٹی کی تعلیم یافتہ پروفیشنل مڈل کلاس گھرانوں سے ان کا بڑا تعلق تھا جو اس زمانے میں دادا نوروبھائی،جمشید مہتہ، گوکھلے کی انگریز لبرل سیاست کی روایت سے متاثر تھے۔ راجا امیرمحمدعلی خان اپنی روشن خیالی کے سبب جناح کے قریب آئے اور جلد ہی وہ دونوں بہت گہرے دوست بن گئے۔ نواب نے ان کو اپنا قانونی مشیر بھی مقرر کردیا۔

امیرعلی محمد خان اور جناح کی یہ دوستی امیر احسن خان کی وفات تک قائم دائم رہی۔1931ء میں اپنی وفات سے قبل انہوں نے اپنے بیٹے محمد امیر خان کو  جناح کی سرپرستی میں دیا اور کہا،بیٹا! اپنے چچا کا ساتھ کبھی نہ چھوڑنا۔

امیرعلی محمد خان کی وفات 1931ء میں ہوئی تو امیر علی محمد خان اس وقت تک سینئر کیمبرج لکھنؤ سے کرچکے تھے۔ وہ آگے یونیورسٹی کی تعلیم کے لیے جناح سے مشورہ کرنے آئے تو جناح نے کہا،’بھتیجے!تمہاری یونیورسٹی میں ہی ہوں،بس تم میرے ساتھ رہو۔’ اور یوں محمود آباد کے نئے راجہ امیر محمد علی خان کا سفر شروع ہوا۔

راجا محمود آباد صاحب کے نام سے شہرت پانے والے محمد امیرخان آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے سب سے کم عمر رکن تھے۔ اور وہ اس کے اعزازی خزانچی بھی رہے۔ انھوں نے ہی 1937ء میں آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی اور اس کے پہلے سربراہ بھی وہی بنے۔

محمودآباد والوں کا ایک اور اہم کردار جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا مسلمانوں میں شیعہ-سنّی ہم آہنگی کو فروغ دینا تھا۔ اور یہ کام امیر علی محمد خان نے فرنگی محل مدرسے کے اس وقت کے روح رواں مولانا عبدالباری فرنگی محل سمیت ریاست اودھ /یوپی کے صلح کل صوفی سنّی علماء و مشائخ کے ساتھ مل کر بہت خوش اسلوبی سے ادا کیا۔ 1925ء میں جب پہلی بار لکھنؤ سمیت یوپی کے کئی شہروں اور دیہاتوں میں ناصبی اور غالیوں کی طرف سے شیعہ-سنّی ہم آہنگی کی فضا کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہوئی تو یہ راجا آف محمود آباد علی محمد خان اور مولانا عبدالباری فرنگی محلی تھے جنھوں نے ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی کی۔ اور جب 1935ء سے لیکر 1938ء تک اترپردیش میں خوفناک شیعہ-سنّی فسادات پھوٹ پڑے تو اس زمانے میں بھی راجہ محمود آباد صاحب محمد امیر خان اور مولانا عبدالباری فرنگی محلی کے نوجوان فرزند ارجمند مولانا محمد جمال میاں فرنگی محلی نے مل کر اس فساد کو رفع کیا۔ حالانکہ اس زمانے میں جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا حسین احمد مدنی بھی اس فرقہ وارنہ کشیدہ فضا میں پارٹی بن گئے تھے جیسے کئی ایک شیعہ سیاسی شخصیات پارٹی بن گئی تھیں۔

راجا آف محمودآباد صاحب جناح اور آل انڈیا مسلم لیگ کی سیاست سے اس وقت تھوڑی دیر کے لیے الگ ہوئے جب قراداد لاہور سامنے آئی- ان کو اعتراض یہ تھا کہ قرارداد لاہور مسلم اکثریتی صوبوں پر ہی فوکس کرتی ہے اور یہ مسلم اقلیت والے علاقوں میں مسلم- ہندؤ کمیونل ایشو کا سرے سے کوئی حل ہی پیش نہیں کرتی۔ 1940ء میں ہی مختصر وقت کے لیے انھوں نے آل انڈیا جمہور مسلم لیگ بھی قائم کرلی تھی لیکن بعد ازاں محمد علی جناح کے اصرار پر وہ واپس آل انڈیا مسلم لیگ میں آگئے۔

انھوں نے روزنامہ ڈان سمیت آل انڈیا مسلم لیگ کی حمایت کرنے والے چھے پرچوں کی بھرپور مالی مدد کی۔ ان کے تعاون کے بغیر یہ پرچے چل نہ پاتے۔

راجہ محمود آباد صاحب شاید ان گنے چنے مسلم لیگی زعماء میں سے ایک تھے جن کو ہندوستان کی مجوذہ تقسیم میں کم از کم مسلم اقلیتی علاقوں میں موجود کمیونل ایشو کا کوئی حل نظر نہیں آتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تقسیم فائنل ہونے کے وقت ان کی فرسٹریشن اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی اور وہ پاکستان بننے سے دو سال پہلے عراق چلے گئے۔

پھر 1958ء میں وہ اچانک پاکستان چلے آئے لیکن ان کی اہلیہ کنیز عابد بيگم اور ان کے بیٹے نے ہندوستان کا شہری رہنا پسند کیا۔ راجا محمود آباد صاحب دیکھا جائے تو 1947ء میں تقسیم کے وقت ہی سیاست کو خیرباد کہہ چکے تھے۔ اور جب وہ پاکستان واپس آئے تو اس وقت جنرل ایوب خان کا مارشل لاء تھا اور اسی زمانے میں 64ء کا آئین بنا- کنونشن مسلم لیگ بنی اور ایوب خان نے ان کو پہلے سفیر بننے کی پیشکش کی۔ پھر ان کو کنونشن لیگ کا صدر بننے کی پیشکش کی اور جب 1965ء میں صدر شاشتری نے ان کی ہندوستان میں موجود ساری املاک کو ضبط کرلیا تو ان کو دو کارخانے لگانے کی پیشکش ہوئی- راجا محمود آباد صاحب نے یہ ساری پیشکشیں مسترد کردیں۔ اور وہ کسی آمر یا کسی جعلی سیاست دان کا دست و بازو نہ بنے۔

محکمہ ڈاک کا جاری کردہ راجا محمود آباد صاحب یادگاری ٹکٹ

ان کی یاد میں کراچی میں محمودآباد کالونی بنائی گئی جو اب جمشید ٹاؤن کراچی میں شامل ہے۔

بعد ازاں وہ لندن منتقل ہوگئے اور وہاں اسلامک سنٹر کے ڈائریکٹر بنے۔14 اکتوبر 1973ء کو جب ان کی وفات ہوئی تو انھوں نے عراق ولندن میں موجود اپنی ساری جائیداد حکومت پاکستان کو رفاعی کاموں میں استعمال میں لانے کے لیے وقف کردی تھی اور ایک لمبے عرصے سے وہ انتہائی سادہ اور فقیر منش زندگی گزار رہے تھے۔ سنت بوزری پر انہوں نے عمل کرکے دکھایا۔

راجا آف محمودآباد صاحب کو ان کی وصیت کے مطابق مشہد میں امام علی رضا کے مزار کے احاطے میں دفن کیا گیا۔ اور یوں اپنے وقت کے ایک نابغہ مسلم سوشلسٹ کا باب اپنے اختتام کو پہنچا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here