سانحہ کارساز 18 اکتوبر 2007ء میں شہداء پی پی پی کی برسی کے موقعہ پر کراچی میں منعقدہ جلسے سے پاکستان پیپلزپارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے مرکزی خطاب کیا۔ اس خطاب میں، انھوں نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت نہ تو جمہوریت ہے اور نہ ہی عوام کے جمہوری، انسانی اور معاشی حقوق کا تحفظ ہورہا ہے بلکہ ایک سیلکٹڈ حکومت اپنے سلیکٹرز کے ذاتی مفادات کو پورا کرنے کے لیے سارا بوجھ عوام پر ڈال رہی ہے۔ وہ ایسا اب اور نہیں ہونے دیں گے۔ عمران خان کو گھر جانا پڑے گا۔

پی پی پی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ وہ 27 اکتوبر کو پنجاب اور سندھ کی سرحد کشمور میں احتجاج کریں گے اور یکم نومبر سے وہ جنوبی پنجاب میں انٹری ماریں گے اور پھر کشمیر تک احتجاجی جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے عمران حکومت کو بے نقاب کریں گے۔

پی پی پی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے دعوی کیا کہ جب کشمیر سے ان کی واپسی ہوگی تو عمران خان اقتدار میں نہیں رہیں گے ان کو جانا ہوگا۔

بلاول بھٹو زرداری تقریر دوران سخت غصّے میں نظر آئے اور اس غصّے کی فوری وجہ تو پی ایس -11 لاڑکانہ کے ضمنی الیکشن میں ان کے امیدوار جمیل سومرو کی شکست ہے جس کی انتخابی کمپئن وہ خود مسلسل کئی دن چلاتے رہے اور اس حلقے میں آصفہ بھٹو زرداری صاحبہ بھی گئی تھیں۔
اس شکست کے بعد ایک طرف تو پی پی پی کے سندھ میں مخالفین نے بلاول بھٹو کو تضحیک کا نشانہ بنایا تو دوسری جانب خود پی پی پی کے کارکنوں کی جانب سے ایک تو جمیل سومرو کو پی ایس-11 لاڑکانہ پر الیکشن لڑانے پر اعتراض اٹھایا گیا اور ساتھ ساتھ پی پی پی لاڑکانہ کے اندر ‘دیہاڑی باز’ کلچر پر سخت تنقید کی گئی اور خوداحتسابی کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔

اگرچہ بلاول بھٹو زرداری پی ایس-11 کے ضمنی الیکشن میں شکست کا سارا بوجھ عوامی بیانات میں رینجرز اور الیکشن کمیشن کو دے رہے ہیں لیکن اندرون کھاتہ انہوں نے اس حلقے میں شکست پر نثار کھوڑو،سہیل انور سیال سمیت کئی پارٹی رہنماؤں کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے اور آنے والے دنوں میں پیپلزپارٹی لاڑکانہ کے تنظیمی امور میں کئی ایک تبدیلیاں متوقع ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری جو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے کسی بھی سڑک ایجی ٹیشن کی مخالفت کرتے رہے ہیں اٹھارہ اکتوبر کے جلسے میں تقریر کے دوران بالواسطہ یہ عندیہ دے گئے ہیں کہ ان کی نظر میں بھی ملک میں سیاسی استحکام اور معاشی بحالی کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے عمران خان کا استعفا۔
عمران خان کے استعفے کی مانگ کرنے والے بلاول بھٹو زرداری نے اپنی حکمت عملی واضح کردی ہے۔ 27 اکتوبر کو مولانا فضل الرحمان سکھر سے آزادی مارچ شروع کریں گے اور بلاول بھٹو کشمور میں احتجاجی جلسے سے خطاب کریں گے۔ اور جب مولانا 31 اکتوبر تک اسلام آباد پہنچیں گے تو بلاول بھٹو ملتان میں دس روز قیام کریں گے اور اس دوران مختلف کارنر میٹنگ اور جلسوں سے خطاب کریں گے۔

ایسا لگتا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ کے اسلام آباد تک جانے اور وہاں پیش آمدہ صورت حال کی مناسبت سے اپنا کارڈ کھیلیں گے۔ اگر حکومت لڑائی کرنے کے موڈ میں ہوئی اور حالات خراب ہوئے تو ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ نواز، اے این پی کے ساتھ ساتھ پی پی پی بھی اسلام آباد کے معرکے میں کود پڑے گی اور اسلام آباد میں ہونے والے ہنگامے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔
پاکستان پیپلزپارٹی آصف علی زرداری ،فریال تالپور، سید خورشید شاہ وغیرہ کی گرفتاریوں اور آصف علی زرداری کی جیل میں بگڑتی صحت کے حوالے سے کافی فکر مند ہے اور اس سے موجودہ حکومت کے خلاف اس کے غصّے میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔

پی پی پی کی قیادت کے اندر یہ احساس بھی جڑ پکڑ رہا ہے کہ اسے ایک طرف تو پنجاب سے فارغ کیا گیا اور اب اسے سندھ میں بھی کٹ ٹو سائز کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔

پی پی پی کی قیادت کو نہ صرف اقتدار والوں کی جانب سے سخت چیلنج کا سامنا ہے بلکہ اسے اپوزیشن میں نواز شریف اور اس کے اتحادی کیمپ کی جانب سے بھی سخت چیلنج کا سامنا ہے کیونکہ اس وقت اپوزیشن میں مولانا فضل الرحمان، حاصل بزنجو، محمود خان اچکزئی، مولانا اویس نورانی کھل کر نواز شریف کیمپ میں ہیں جبکہ مین سٹریم میڈیا کے بڑے گروپوں میں سے جن گروپوں کا رجحان اپوزیشن کی جانب ہے ان پر بھی نواز شریف کیمپ کےاثرات غالب اور انمٹ ہیں۔

سب سے بڑا چیلنج پی پی پی کے سامنے یہ ہے کہ اگر سلیکٹرز عمران خان کو گھر بھیجنے پر تیار ہوتے ہیں تو کیا وہ نوازشریف کیمپ کے ساتھ ساتھ پی پی پی کو بھی جگہ فراہم کریں گے؟ بلاول بھٹو کی قیادت میں کیا پی پی پی سیاسی شطرنج کی بساط میں اپنا کھیل آسانی سے کھیل پائے گی؟

بلاول بھٹو زرداری کے سامنے پارٹی کے اندر سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ پی پی پی کے عام کارکنوں کا مورال بلند کریں

کیونکہ پی پی پی کا داخلی بحران اسے درپیش خارجی چیلنچ سے کہیں زیادہ بڑا اور خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here