پی ایس-11 لاڑکانہ کے ضمنی الیکشن میں پاکستان پیپلزپارٹی کی شکست پر تجزیوں،تبصروں اور نوحوں کا ایک سیل رواں چلا آرہا ہے۔ خیبر سے کراچی تک سے بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو مل رہی ہیں ۔ میں لاڑکانہ میں بیٹھ کر کل سے یہ سوچنے میں لگا ہوا ہوں کہ اس شکست کو یقینی بنانے والوں کے بارے میں کیا پیپلزپارٹی لاڑکانہ اور لاڑکانہ کے اڑوس پڑوس کے باخبر لوگوں میں اتنی جرآت اور ہمت بھی نہیں ہے کہ وہ اس الیکشن کے پس پردہ کچھ ان کہانیوں کو بھی بیان کریں جو لاڑکانہ میں رہنے والوں میں زبان زد عام ہیں۔

جب بدین سے ذوالفقار مرزا نے پی پی پی کی پیٹھ میں چھرا گھونپا تھا تو آصف علی زرداری نے شعر پڑھا تھا

 

دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی

 

کچھ ایسی ہی کیفیت بلاول بھٹو زرداری کی بھی ہوئی ہوگی جب رات گئے انھوں نے اپنے قریبی ساتھیوں کے ساتھ پی ایس-11 لاڑکانہ کی نشست پر ہونے والی شکست کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہوگی۔

 

پی ایس-11 لاڑکانہ مونسپل کارپوریشن لاڑکانہ کے اندر آنے والے علاقوں پر مشتمل حلقہ ہے۔ اس حلقے کو اگر خالص مونسپل شہری حلقہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اور اس حلقے پر ایک طرف تو پیپلزپارٹی میں شامل سیال گروپ کافی عرصے سے نظریں جمائے بیٹھا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے انور سہیل سیال نے 2013ء میں آزاد الیکشن لڑا تھا اور وہ بعد ازاں پی پی پی میں شامل ہوگئے اور پی ایس-12 سے ٹکٹ بھی ان کو ملا جبکہ اس حلقے سے پی پی پی کا ٹکٹ لینے والے انڑ آؤٹ ہوگئے۔

 

انور سیال کے گروپ نے 2013ء میں پی ایس-35 (بعد میں پی ایس-12) آزاد انتخاب لڑنے کے ساتھ ساتھ پی ایس-11 جو اس وقت پی ایس۔36 تھا پر مسلم لیگ فنکشنل کے امیدوار نذیر احمد کا ساتھ دیا تھا جنھوں نے 14412 ووٹ لیے تھے اور صفدر عباسی نے 5416 ووٹ لیے تھے اور نثار کھوڑو نے 21143 ووٹ لیے تھے۔ اگر اس وقت بھی دیکھا جائے تو فکنشنل اور آزاد امیدوار صفدر عباسی کے ملاکر کل ووٹ 20 ہزار میں دو سو کم بنتے ہیں جبکہ نواز لیگ نے یہاں سے 3156 اور مجلس وحدت المسلمین نے 5296 اور جے یو آئی ایف کے ڈاکٹر خالد سومرو نے 4895 ووٹ لیے تھے۔
انور سہیل سیال نے 2018ء میں پی ایس-12 لاڑکانہ سے منتخب ہونے کے بعد آہستہ آہستہ پی ایس-11 میں اپنا اثرو رسوخ بڑھانا شروع کیا اور اپنے بھائی طارق انور سہیل کو آگے کردیا اور وہ ان کو ٹکٹ دلوانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہے۔

پی ایس-11 میں دوسرا گروپ نثار کھوڑو کا ہے جو اس سیٹ پر اپنے خاندان کاحق سب سے مقدم سمجھتے ہیں۔

پی ایس-11 لآڑکانہ میں پیپلزپارٹی کے اندر تیسرا طاقتور گروپ شیخ گروپ ہے۔ یہ گروپ پی پی پی کے سابق ضلعی جنرل سیکرٹری خیر محمد شیخ کو پی ایس-11 سے پی پی پی کا ٹکٹ دلوانے کے شدید خواہش مند تھے۔

بائیں طرف سے پہلے خیر محمد شیخ ہیں جو پی پی پی لاڑکانہ ضلع کے سابق جنرل سیکرٹری ہیں

پیپلزپارٹی کے اندر ان تینوں گروپوں کو اس وقت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب ضمنی انتخاب میں بلاول بھٹو نے غیر متوقع طور پر اپنے پولیٹکل سیکرٹری اور 22 سال سے بلاول ہاؤس کراچی میں مقیم جمیل سومرو کو نامزد کردیا۔

بلاول بھٹو زرداری نے نہ صرف جمیل سومرو کو ضمنی انتخاب کے لیے پارٹی ٹکٹ دیا بلکہ انھوں نے ان کی ساری الیکشن کمپئن بھی چلائی۔

پیپلزپارٹی لاڑکانہ کے یہ تینوں بااثر گروپ جمیل سومرو کی نامزدگی کے بعد غیرمحسوس طریقے سے اس انتخاب میں ‘غیر فعال’ ہوگئے اور پولنگ والے دن میرےلیے حیرت کا سامان تھا۔ جمیل سومرو اکیلے ہی چند ورکروں کے ساتھ پولنگ اسٹیشنوں کا دورہ کررہے تھے اور ان کے ساتھ مذکورہ بالا تین گروپوں کے نمایاں سرکردہ افراد کہیں نظر نہیں آئے۔

ان تینوں گروپوں نے پی پی پی کے حامی علاقوں کے ووٹرز کے لیے بنائے گئے پولنگ بوتھ پر پولنگ کے سست رو عمل کو تیز کرنے کے لیے کوئی دکھائی دینے والی کوشش نہیں کی۔ خاص طور پر یہ تینوں گروپ چاہتے تو جن پولنگ اسٹیشن پر خواتین ووٹر کو ہراساں کیا جارہا تھا تو یہ وہ ہراسانی آسانی سے ختم کرسکتے تھے۔

اس علاقے میں ان تینوں گروپوں کے زیر اثر ووٹ بینک کا ایک بڑا حصّہ تو الیکشن کے دن پولنگ تک پہنچا ہی نہیں۔

دوسرا ڈی آر او کے دفتر کے سامنے جیالوں نے جو احتجاج کیا،اس وقت بھی ان تینوں گروپوں کے سرکردہ لوگوں نے آگے بڑھ کر دھاندلی کو رکوانے میں بھی اپنا کوئی کردار ادا کیا۔

پی پی پی شاید جی ڈی اے پلس جے یوآئی پلس نواز لیگ پلس مجلس وحدت المسلمین،جماعت اسلامی جیسے متحدہ الائنس سے جیت جاتی لیکن اس کو اس کے اپنے اندر بیٹھے تین گروپوں کی مخالفت لیکر بیٹھ گئی۔

یہ جمیل سومرو ناکام نہیں ہوئے بلکہ بلاول بھٹو زرداری کو ناکام بنایا گیا ہے۔ کیونکہ بقول شخصے اگربلاول کا امیدوار جیت جاتا تو ایک تو اسٹبلشمنٹ کے ہتھکنڈوں کو شکسۃ فاش ہوتی ساتھ ساتھ بلاول بھٹو پارٹی کے اندر بااثر وڈیروں کو یہ بھی باور کرانے میں کامیاب رہتے کہ پارٹی سے ان کا قد زیادہ بڑا نہیں ہے۔

مجھے آنے والے دنوں میں لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والے ایک وزیر اور پی پی پی سندھ کے صدر کا مستقبل خطرے میں نظر آرہا ہے۔

 

حسین احمد سیال لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والے سیاسی تجزیہ نگار ہیں

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here