زندگی میں کہاں حقیقت شروع ہوتی ہے اور اس میں کہاں فنتاسی داخل ہوجاتی ہے،ٹھیک سے ہم کچھ کہہ نہیں سکتے۔ ہم حقیقت اور فنتاسی کو الگ الگ کر بھی نہیں پاتے۔ میں فیصل آباد جانے لگا تو ٹرین اس وقت چل پڑی جب میں پلیٹ فارم پر آنے کے لیے سیڑھیاں اتر رہا تھا۔ میں ہچکچاہٹ کا شکار تھا اور ایک دل کررہا تھا کہ ٹرین کو جانے دوں،دوسرا دل کر رہا تھا بھاگ کر سوار ہوجاؤں۔

                                                                                                                                            

 اسی دوران راشد رحمانی کے واقف کار نے آواز لگائی،’دوڑو،سوار ہوجاؤ’،اس آواز نے میرے پیروں میں بجلی بھردی اور میں دوڑنے لگا اور راشد سے بھی آگے نکل گیا۔ اور ٹرین کا آخری ڈبہ جو گارڈ کا تھا اس کے قریب ہوا اور دروازے کے ہینڈل کو پکڑ ا اور جھٹ سے اندر داخل ہوگیا۔ لیکن اس دوران بھی میرا ذہن جو تھا وہ اس بھاگ دوڑ بارے فنتاسی بننے میں لگا ہوا تھا۔’ہاتھ پھسل گیا اور میں نیچے گرگیا۔۔۔۔’ لیکن ایسا نہیں ہوا۔

 لیکن اگر ایسا ہوجاتا تو اسی وقت زندگی یا تو ختم ہوتی یا پھر  کسی اور رخ پر چل پڑتی۔ میں نہ تو گارڈ راؤ عمر فاروق سے واقف ہوتا اور نہ ہی اسی ڈبے میں بیٹھے کیبن مین سے جو ایک بار ریلوے سے ریٹائر ہوکر دوبارہ ریلوے ميں جاب کرنے لگ گیا تھا- اس کا بیٹا ٹریفک وارڈن بن گیا تھا۔

راؤ عمر فاروق ریٹائرمنٹ کے قریب ہے۔ اسے ابتک ریلوے کالونی میں رہائش نہیں مل سکی- بیٹی کی شادی کے لیے گھر ایسا چاہئیے جس کے دروازوں سے بیٹی کے جہیز کے لیے خریدے گئے بڑے صندوق گزارے جاسکیں۔ اس دوران ٹرین سرشمیر اسٹیشن پر رکتی ہے۔ وہاں ایک وقت سے پہلے بوڑھا ہوگیا کسان دو عورتوں کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے۔ اس نے کوئی لوکل ٹرین پکڑنی تھی۔ اب یہ فیصل آباد ایکسپریس اتفاق سے رک گئی تو اس میں سوار ہورہا تھا۔ میں سگریٹ پھونک رہا تھا۔ اس نے ہچکچاتے ہوئے مجھ سے بچی ہوئی سگریٹ مانگ لی- نئی سگریٹ مانگنے کی اسے ہمت نہ ہوئی تھی شاید- میں نے پیکٹ سے نیا سگریٹ نکال کر دیا تو پہلے اس نے انکار کیا،’باؤ جی! رہن دیو، ایہی دے دیو’۔ لیکن میرے اصرار پر نئی سگریٹ پکڑ لی اور مجھ سے لائٹر لینے کی بجائے اپنے کرتے کی جیب سے اس نے ماچس کی ڈبی نکالی اور دیا سلائی کو جلاکر سگریٹ سلگائی اور اس نے بہت زور سے کش لیا،جیسے سگریٹ نہیں حقّہ پی رہا ہو۔’کدھر جارہے ہیں؟’ میں نے یونہی اچانک سے سوال کردیا۔ ابھی ٹرین نہیں چلنے والی تھی۔ پیچھے سے شاہ حسین ایکسپریس اپ بھاگی چلی آرہی تھی- اس کا کراس تھا۔ وہ گزرتی تو ہماری ٹرین چلتی۔

‘باؤ جی، نہ ای پچھو'(باؤ جی! نہ ہی پوچھیں)

کیوں، کیا ہوا؟

‘سوہنے رب نے دھی دیتی سی، زمین تے ہیگی نئيں تے بٹائی تے اک چودھری دی زمین تے کم کردا سی، میں ہمت کیتی کہ آپنی دھی نوں پڑھاواں گا۔ دھی نے وی ہمت کیتی۔ میٹرک کیتا تے میں اونھوں کالج ٹور دتا۔ کالج شہر اچ سی تے روز آنا جاؤنا پیندا سی- ہاسٹل دے کمرے دا کرایہ ساڈی برداشت توں باہر سی۔ خورے کس دی نظر لگ گئی،ساڈے چک دے زمیندار دا منڈا میری دھی دے مگر پئےگیا۔ میں زمیندار نوں شکایت لان گئیا تے اونھے منڈے نوں ڈکن دی بجائے مینوں ذلیل کیتا تے نال اپنے بندیاں نال میری کٹ وی لوائی۔ میں کتھے جاندا۔ پلساں وی انھاں دیاں تے چک دے سارے وڈے وی انھاں دے۔ہور کجھ تے سجھیا نئیں۔ فیصلہ کیتا میری سالی تے سالے فیصل آباد اچ رہندے نئیں،محنت مزدوری کردے نئیں،اونھاں نال گل کیتی۔ نیک لوگ نئیں اونھاں سانوں سد لیا اے تے ہن اوتھے ایجارہے نئیں۔ دھی نوں تے میں پڑھاواں گا، خورے مینوں آپنا آپ ای ویچنا پئے۔’

‘سوہنے رب نے بیٹی دی،زمین تھی نہیں،ایک چوہدری کی زمین پر بٹائی پر کام کرتا تھا۔ہمت کی کہ بیٹی کو پڑھاؤں گا۔ بیٹی نے بھی ہمت کی،میٹرک کرلیا تو میں نے کالج میں بھیج دیا- کالج شہر میں تھا،روز آنا جانا پڑتا تھا۔ ہاسٹل میں کمرے کا کرایہ برداشت سے باہر تھا۔ نہ جانے کس کی نظر لگ گئی، ہمارے چک کے ایک زمیندار کے لڑکا میری بیٹی کے پیچھے پڑگیا۔ میں نے زمیندار سے شکایت کی۔ اس نے اپنے لڑکے کو روکنے کی بجائے مجھے ہی ذلیل کیا اور اپنے بندوں سے مروایا۔ میں کہاں جاتا۔ پولیس بھی ان کی اورچک کے سارے بڑے بھی ان کے۔ کچھ اور تو سوجھا نہیں۔ میں نے فیصل آباد اپنے سالے اور سالی کے پاس جانے کا فیصلہ کرلیا جو وہاں محنت مزدوری کرتے ہیں۔ نیک لوگ ہیں،انھوں نے ہمیں بلالیا۔ اب وہیں جارہے ہیں۔ بیٹی کو تو پڑھاؤں گا چاہے مجھے اپنا آپ ہی بیچنا کیوں نہ پڑے۔’

اتنے ميں شاہ حسین ایکسپریس فراٹے بھرتی ہوئی گزر گئی۔ اور ٹرین نے ہارن بجاکر چلنے کا اشارہ دیا۔ کسان اپنے ڈبے کی طرف بڑھ گیا اور میں گارڈ کے ڈبے میں سوار ہوگیا۔ یہاں سے فیصل آباد ریلوے اسٹیشن 14 کلومیٹر دور تھا۔ میں کسان کی کہانی میں الجھا ہوا تھا۔ فیصل آباد جانے والا یہ کسان وہاں پہلے سے موجود لاکھوں مزدوروں میں شامل ہونے جارہا تھا۔ اس کے سامنے محدود آپشن ہوں گے۔ یا تو یہ بے ہنر مزدوری کرے گا یا پھر کسی پاور لوم میں یا کسی اور کارخانے میں کچھ عرصہ رہ کر کوئی ہنر سیکھے گا اور ڈیلی ویجر کی فوج میں شامل ہوجائے گا۔ قسمت نے یاوری کی تو کچے مزدور سے یہ کنٹریکٹ پر اور اگر بہت خوش قسمت ہوا تو پکا ہوجائے گا۔ اس دوران اس کی بیٹی کو اگر کسی کی رہنمائی ملی تو وہ کوئی ٹیکنکل انسٹی ٹیوٹ میں ڈپلوما وغیرہ کرکے جلد کمانے کے قابل ہوجائے گی ورنہ دوسری صورت میں سمپل ایف اے، بی اے اور زیادہ زور مارا تو ایم اے کرنے کے بعد کسی اسکول یا کالج میں (وہ بھی زیادہ امکان پرائیویٹ سیکٹر میں ہے) ملازم ہوجائے گی اور ایک کچے مزدور کی حثیت سے آغاز کرے گی اور پھر ایک لمبا سفر ہوگا زندگی کا۔ اس دوران اسے پاکستانی میل شاؤنسٹ سماج اپنے ذہنی اور جسمانی استحصال کی کوششوں سے پالا پڑے گا۔ گویا محنت کا استحصال اور جسمانی و ذہنی استحصال دونوں ساتھ ساتھ برداشت کرنا ہوں گے۔

 میں سوچتا ہوں کہ دیہی زندگی کے جبر،گھٹن اور تنگنائی سے نکل کر ایک صنعتی شہر میں جبر اور گھٹن کی نئی شکلوں سے اس خاندان کو جب پالا پڑے گا اور کسان باپ کو جب یہ پتا چلے گا کہ تعلیم سے خوشحالی کا دروازہ یونہی نہیں کھلتا تو کیا ہوگا؟ شہری سماج میں بے روزگاری اور کام کے مستقل نہ ہونے سے جو مشکلات جنم لیتی ہیں وہ انسان کو انسان ہی نہیں رہنے دیتیں۔ اور پھر شہری سماج میں طاقت اور دولت ان دونوں کی باہمی ساجھے داری سے نئے چودھری اور نئے بدقماش گروہ سامنے آتے ہیں۔ یہاں بھی پولیس،عدالتیں، کہچریوں میں بیٹھے وکیل، انسانی حقوق کے اشراف رضاکار، جمہوریت پسند بڑے سیاست دان اور یہاں تک کہ پاپوش علاقوں میں رہنے والے کمیونسٹ، سوشلسٹ، اسلام پسند سب کے سب کسی کی مدد کرنے نہ کرنے کا فیصلہ ریٹنگ سے کرتے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here