میں کراچی میں دو ہفتے گزارنے کے بعد واپس اپنے گھر لوٹا ہوں۔ ان دو ہفتوں میں بہت کچھ ہوا۔ مجھے بطور لکھاری ان پر کچھ نہ کچھ تو لکھنا ہے۔ جہادیوں اور تکفیریوں کے صحافتی قصیدے لکھنے والا 12ویں عالمی اردو کانفرنس پر کچھ جرنیلوں اور کچھ رئیل اسٹیٹ کے ناخداؤں کے بارے میں اپنے تئیں ‘بڑا سچ’ بول گیا۔ ایسا سچ جو اس کے بقول اسے نہ تو اپنے مالک کے اخبار میں لکھنے کی اجازت ہے اور نہ ہی اپنے مالک کے ٹی وی چینل پر کہنے۔ اس سچ پر اسے لاپتا ہوجانے کا خطرہ لاحق تھا۔ مگر وہ ‘جبری بے روزگار ہونے والے اور اپنے واجبات سے تاحال محروم ہونے والوں’ کے مجرم اپنے مالک کے خلاف سچ کہنے سے قاصر رہا کیونکہ 42 لاکھ  ماہانہ کی تنخواہ سے محروم ہونے کا خطرہ وہ مول لے نہیں سکتا تھا۔ وہ 12ویں عالمی اردو کانفرنس کے منتظم کراچی آرٹس کونسل کے صدر کے بارے میں بھی سچ بولنے کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔اس کے بارے میں یہ بتانے کا حوصلہ نہیں رکھتا تھا کہ اس نے یہ انتخاب پیسے کی طاقت کے بل بوتے پر جیتا تھا کیونکہ اس کونسل کی صدارت پر فائز ہونے کا حقدار تو سب سے زیادہ وہ ہوتا جو کسی بھی فن میں خدمات کے اعتبار سے سب سے آگے ہوتا۔

میں ایسے صحافیوں، اینکرز اور کالم نگاروں کو کیسے ‘ریڈیکل ترقی پسند، روشن خیال اور مشعل راہ’ مان لوں جو نوے کی دہائی میں پنجاب کے شہر جھنگ سے جنم لینے والی فرقہ پرست، تکفیری اور مذہبی بنیاد پرست خون آشام سپاہ صحابہ پاکستان کو پنجاب میں جاگیرداروں چیلنج کرنے والی ابھرتی ہوئی انقلابی تنظیم کے طور پر پیش کررہے تھے اور مارکس واد کے کسی ایک اصول کو سیاق و سباق سے کاٹ کر اسے انتہائی مسخ کرکے ایسی فکر اور نظریہ کی حامل تنظیم کی پروجیکشن کررہے تھے جس سے متاثر ہوکر غریب نوجوانوں کی ایک معتدبہ تعداد نے ہتھیار اٹھاکر اپنے سے اتفاق نہ کرنے والوں کی ٹارگٹ کلنگ کی۔ مساجد و مزارات، امام بارگاہوں،میلاد و عاشورہ کے جلوسوں، کلیساؤں،مندروں،مجالس عزا، محافل نعت پر خودکش حملے تک کرڈالے- جنھوں نے 80ء کی دہائی سے شروع ہونے ہونے افغان اور کشمیر جہاد پروجیکٹ کے اسامہ بن لادن، عبداللہ عزام، صوفی محمد، حکمت یار،ملّاعمر اور یہاں تک کہ جھنگوی جیسوں کی پروجیکشن کی اور ان کی تخریب میں بھی تعریف کے پہلو نکال لیے۔ دائیں، بائیں اور لبرل جھولوں میں جھولنے والوں کی یہ فوج کمرشل ازم کے جس گند میں لتھڑی ہوئی ہے اس سے اگر کسی کو ان کی تحریروں کے بطن سے اٹھتا تعفن نظر نہ آئے تو اسے اپنی نظر اور حس شامہ دونوں کا علاج کرانے کی اشد ضرورت ہے۔

بارھویں عالمی اردو کانفرنس میں ایسے اپنے تئیں ‘بڑا سچ’ بولنے والی ایک صحافی و اینکر اپنے ‘مالک’ کی طرف سے ساتھی صحافیوں کی جبری برطرفیوں اور واجبات کو دبانے کا سچ بول نہ پانے پر زرا شرمندہ نہیں تھی جیسے وہ جعلی اینٹی اسٹبلشمنٹ وزیراعظم کی نوازش سے سرکاری خرچے پر حج کرنے پر پیشمان نہیں تھی۔

پھر بھی اس قسم کے صحافی، اینکر، کالم نگار، تجزیہ کار اور دانش ور ریڈیکل کہلائیں اور ان کی واہ واہ ہو تو مجھ جیسا لکھاری چپ نہیں رہ پاتا اور بول پڑتا ہے۔

مجھے دوست کہتے ہیں کہ میں ‘انتہا پسند’ واقع ہوا ہوں کیونکہ میں ڈیرہ اسماعیل خان سے بھرتی ہوکر آنے والے اسلامی جمعیت طلباء کے غنڈے کی 84ء میں ڈاکٹر ظفر حسن عارف کو گریبان سے پکڑ تھپڑ اور لاتیں مارنے کے منظر کو بھول نہیں پاتا اور اس غنڈے کو بی بی سی اردو میں ایک معزز مضمون نگار اور ڈان نیوز ٹی وی میں ‘زرا ہٹ کے’ اینکر کے طور پر شہرت و عزت سمیٹتے دیکھ کر زرا خوش نہیں ہوتا اور جب کبھی وہ مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھائے تو اس نفرت سے اس کی طرف دیکھ کر منہ موڑ کر چلتا بنتا ہوں۔ دوست کہتے ہیں کہ ماضی بعید کی بات کو بھول کیوں نہیں جاتا۔ میں کہتا ہوں کہ اگر جمعیت کے جامعہ کراچی میں سابق غنڈے نے اپنی غنڈا گردی کی معافی مانگ لی ہوتی، اس استاد کی پراسرار موت پر لکھے تعزیتی کالم میں اپنی حرکت پر پیشمانی ظاہر کردی ہوتی اور اپنی سابقہ اہلیہ کے ساتھ برے سلوک کی اس انتہا پر معافی مانگ لی ہوتی جس سے وہ ٹراما میں گئي اور ابتک نفسیاتی کونسلنگ کے سیشن سے گزرتی ہے تو میں یقینی بات ہے بھول جاتا اور اس کی ترقی پسندانہ، لبرل اور روشن خیال لفاظی پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسا رہا ہوتا۔

مجھے یہ سب بھول جانے کا کہنے والے مشرقی بنگال میں نسل کشی اور ریپ کرنے والے ان جرنیلوں اور البدر و الشمس کے دہشت گردوں کے گناہ معاف نہیں کرتے جو بنا معافی مانگے آج جمہوریت پسند بھی ہیں اور انسانی حقوق کے محافظ بھی اور وہ بنگلہ دیش میں بیگم حسینہ واجد کی مشرقی بنگال میں 71ء میں قصائی بن جانے والوں کے ٹرائل میں انصاف کے تقاضے پورا نہ کرنے پر جمہوریت پسند ماننے سے انکاری ہیں۔ بنگلہ دیش اور پاکستان میں  جمہوریت پسند اور آئین و عدلیہ کی آزادی  کے علمبردار بنے یہ سابق جرنیل اور آج جماعت اسلامی کے لیڈر بھی تو 71ء میں قصائی بنے تھے اور ان کی بربریت کو بیتے بھی آج 47 سال ہوگئے ہیں جبکہ جس پر میں برہم ہوں اس کی غنڈا گردی کو محض 21 سال ہوئے ہیں۔

” حر بن ریاحی کا ماضی اس لیے دفن ہوا تھا کہ اس نے ضمیر انسانیت کے حضور اپنے سابقہ کردار پر معافی مانگی اور پھر اعلانیہ ضمیر انسانیت کے خلاف برسرپیکار قبیلے کے خلاف لڑتے ہوئے جان دے دی تھی اور اس نے اپنے ماضی کو نہ تو چھپایا تھا اور نہ ہی اس پر پیشمانی ظاہر کرنے سے گریز برتا تھا”

کسی  کی ترقی پسندی یا روایت پسندی اس وقت احترام کھو دیتی ہیں جب یہ کمرشل ازم اور موقعہ پرستی کے تابع ہوجاتی ہے۔اور آج یہ جو بار ایسوسی ایشن، پریس کلب سمیت پروفیشنل ٹریڈ باڈیز،ٹریڈ یونیز، پارلیمنٹ اپنا احترام کھوبیٹھی ہیں تو اسکا سبب بھی بدترین کمرشل ازم اور موقعہ پرستی ہے۔

دائیں بازو نے مذہب،خدا،رام، گاڈ ان سب کو دیش بدر کرکے ان کے نام اور علامتوں جیسے کمرشل ازم سے ہم آہنگ کیا،ویسے ہی ترقی پسندی کو بھی کمرشل ازم سے ہم آہنگ کرلیا گیا ہے۔

پرینتھا شیٹی کرناٹک میں انگریزی کی استاد ہیں۔ ان کی ایک نظم ‘ رام ایک بار پھر دیش بدر ہوا’ اسی صورت حال کی عکاسی کرتی ہے:

رام ایک بار پھر دیش بدر ہوا- پرنیتھا شیٹی

نفرت کے غیظ و غضب  اور متشدد غصے سے

ہم رام کو دیش بدر کرچکے ہیں

برسوں پہلے اس کو 14 برس کا بن باس لینا پڑا تھا

تب اس کے بھائي بھارت نے اس کی کھڑاویں کو رکھا تھا اپنے تاج میں

اور کیا تھا راج اس کے مہربان نام سے

آج ہم نے اسے پھر بن باس لینے پر مجبور کردیا ہے

پیچھے بس اس کا نام رہ گیا ہے اور ہم نے اسے ترشول بنا دیا ہے

ہم نے اسے اپنے ہی بھائیوں کے خون سے رنگ دیا ہے

اور اپنی زبانوں سے اسے چھاپ دیا ہے

بہت برسوں پہلے رام نے بن باس لیا

 اس وقت پیچھے وہ سوگوار باپ،مائیں، بھائی اور رعایا چھوڑ گیا تھا

لیکن بن باس سے وہ لوٹا تھا

اپنی بیوی، اپنے بھائی کے ساتھ اور حق کی فتح کے ساتھ

اور ہم نے رکھ ڈالے تھے اس کے نام پر اپنے بیٹوں کے نام

جے رام، رام چندر، جان کرما، سیتا رام، پتابرھما

بطور برکت کے جن کے نام اس شریف بادشاہ کے نام پر رکھے گئے

ان کی حفاظت کرے گی

اور اس محبوب بیٹے دھشرتھ کی یادگار کے طور

ایک کامل بادشاہ کی نشانی کے طور

 جو ہمیں سیدھے راستے پر چلنے کی تحریک دے گی

اور ہم نے اس نام کو پکارا محبت سے

اپنے بیٹوں، بھائیوں اور باپ کے نام کے طور پر

ہم نے رام کو دیش بدر کردیا ہے ایک بار پھر

اب ہمارے پاس بس ایک نام ہے

نفرت، خوف اور غصّے میں ڈھلا ہوا

ہمارے پاس ایک نام ہے جو ماڑ ڈالنے، طنز کرنے اور بھد اڑانے کے کام آتا ہے

ہمارے پاس یہ نام ہے جس کے نام پر ہم بھلائی کی سلطنت کی بجائے زمین کے ایک ٹکڑے پر حق جتاتے ہیں

ہمارے پاس بس یہ ایک نام ہے جس سے اپنے بھائیوں کی زبانوں کو کاٹ ڈالتے ہیں

اور ان کے جسموں کے ٹکڑے کر ڈالتے ہیں

ہمارے پاس بس اب یہ ایک نام ہے جس کو ہم بدترین نفرت کے واحدانی ردھم میں پکارتے ہیں

ہمارے پاس یہ نام ہے جسے ہم نے نفرت کے گند میں بھگو دیا ہے جو بہتا جاتا ہے

ہماری منقسم دنیا کے تنگ گڑ سے  

ہمارے پاس ایک نام ہے جس کے ساتھ ہم نے اس بادشاہ کو دیش بدر کرڈالا ہے

جو اس نام کو ایک تاج کی طرح پہنتا تھا

ہمارے پاس ایک نام ہے جسے ہم ایک ایک جلتے برانڈ کی طرح تھامے ہوئے ہیں

اور اسے ہنومان کی دم کی طرح تھامے ہوئے ہیں  

وہ(ہنومان) جو رام کو بہت پیارا تھا

یہ ہم سب کو جلا کر راکھ کردے گا

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here