عصر حاضر میں مارکس کا ایک اشتراکی ناری وادی مطالعہ
)Marx for Today: A Socialist-Feminist Reading – Johanna Brenner(

کارل مارکس کے مجموعی کام کا اگر ہم جائزہ لیں تو اس نے عورتوں پر جبر یا پدرسریت کے سرمایہ داری کے ساتھ رشتے داری کے بارے میں براہ راست بہت ہی کم بات کی تھی-(1) اور کچھ باتیں جو اس نے کہیں وہ تو بہت ہی گمراہ کن تھیں- پھر بھی مارکسی ناری وادیوں نے ان مسائل کو سمجھنے کے لیے ایک ممتاز فہم پیدا کرنے کی خاطر اس کی فکر پر توجہ مرکوز کی –

مارکسی ناری وادی/مارکسسٹ فیمنسٹ بھی وہیں سے اپنا کام شروع کرتے ہیں جہاں سے مارکس کرتا ہے- اور وہ ہے اجتماعی محنت-

انسانوں کے لیے محنت کو سماجی طور پر منظم کرنا پیداوار کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے جس کی ہمیں زندہ رہنے کے لیے ضرورت ہوا کرتی ہے- سماجی طور پر محنت کیسے منظم ہوتی ہے، جواب میں کیسے یہ ساری سماجی زندگی کی تنظیم کی صورت گری کرتی ہے اس کا جواب جرمن آئیڈیالوجی میں مارکس نے جرمن آئیڈیالوجی میں اس طرح سے دیا ہے:

“The fact is, therefore, that definite individuals who are productively active in a definite way enter into these definite social and political relations. Empirical observation must in each separate instance bring out empirically, and without any mystification and speculation, the connection of the social and political structure with production. The social structure and the State are continually evolving out of the life-process of definite individuals, but of individuals, not as they may appear in their own or other people’s imagination, but as they actually are; i.e. as they act, produce materially, and hence as they work under definite material limits, presuppositions and conditions independent of their will.” (MECW 5:37)

“حقیقت یہ ہے کہ متعین افراد جو کہ پیداواری اعتبار سے فعال ہوتے ہیں وہ متعین راستے سے متعین سماجی اور سیاسی تعلقات میں داخل ہوتے ہیں- تجرباتی مشاہدات کو لازمی طور پر ہر ایک جداگانہ مثال میں تجرباتی طور پر باہر لانا ضروری ہوتا ہے اور کسی قسم کی پراسراریت اور قیاس کے بغیر سماجی اور سیاسی ڈھانچے کا پیداوار سے تعلق سمجھنا ضروری ہوتا ہے-سماجی ڈھانچہ اور ریاست متعین افراد کی زندگی کے عمل سے مسلسل نمودار ہوتے ہیں، لیکن افراد جیسا کہ وہ ہوتے ہیں(ان کے لائف پروسس سے سماجی ڈھانچہ اور ریاست کی تشکیل ہوتی ہے-) ناکہ وہ افراد جو افراد کے خود اپنے یا دوسرے لوگوں کے تخیل کآ نتیجہ ہوتے ہیں- حقیقی افراد وہ ہوتے ہیں جو عمل کرتے ہیں،مادی طور پر جو پیدا کرتے ہیں،اور یہاں تک کہ جیسا کہ وہ متعین مادی حدود، پہلے سے لاگو شرائط اور حالات کے تحت کام کرتے ہیں جو ان کے اختیار اور مرضی سے ماورا ہوتے ہیں-
(مجموعہ کارل مارکس و اینگلس جلد پنجم،صفحہ 37)

جب مارکس ان افراد کا حوالہ دیتا ہے جو متعین راستے سے پیداواری طور پر فعال ہوتے ہیں تو وہ مادی اشیاء کی ابتدائی طریقے سے پیداوار بارے سوچ رہا ہوتا ہے- مارکسی ناری وادی سماجی طور پر ضروری محنت کی اختراع کو توسیع دیتے ہوئے اس میں جہاں وہ بقائے فرد کے لیے ضرورتوں کو پورا کرنے کو اور اس کے زریعے روزانہ کی بنیاد پر اپنے آپ کو تازہ دم کرنا شامل کرتے ہیں وہیں وہ اس میں افزائش نسل اور اور نئی نسل کو پالنے پوسنے کے کام کو بھی شامل کرتے ہیں-

‘سوشل ری پروڈکشن’ کی اصطلاح اسی طرح کی محنت کا حوالہ دینے کے لیے بنائی گئی ہے-(3) سوشل ری پروڈکشن کا مطلب سرگرمیاں، رویے، سلوک ، جذبات، ذمہ داریاں اور تعلقات ہیں جو براہ راست روزمرہ بنیادوں پر زندگی اور باہمی نسیلیات کو برقرار رکھنا ہے-
سوشل ری پروڈکشن سماجی طور پر ضروری کام کی کئی اقسام پر مشتمل ہوتی ہے۔ ذہنی، جسمانی اور جذباتی وغیرہ- اس کا مقصد تاریخی اور سماجی طور پر اور حیاتیاتی طور پر متعین ضرورتوں کو پورا کرنا ہوتا ہے- ان ضرورتوں کو پورا کرنے کے زریعے آبادی کو برقرار رکھنا اور اس کی افزائش نو کرنا ہے۔

دوسری چیزوں کے علاوہ،سماجی ری پروڈکشن میں اور کئی باتیں بھی شامل ہوتی ہیں

جیسے خوراک، کپڑے اور رہائش کیسے فوری استعمال کے لیے دستیاب ہوسکتے ہیں ، بچوں کی دیکھ بھال اور معاشرتی زندگی بہتر کیسے کی جاسکتی ہے؟ بالغ عمر کے لوگ کیسے سماجی اور جذباتی حمایت وصول کرتے ہیں؟ اور کیسے سیکسچوئلٹی کا تجربہ کیسے کیا جاتا ہے؟ اس نکتہ آغاز سے، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کیسے جینڈر/صنف اور جینڈر ری لیشنز/صنفی تعلقات جیسے محنت کی صنفی تقسیم ہوتی ہے سماجی، تاریخی ساختیے ہیں اور سوشل ری پروڈکشن کے ڈھانچے کے ساتھ نتھی ہوتے ہیں-

اصل میں موجودہ سرمایہ دارانہ معاشرے میں سے ہر ایک کی اپنی تاریخیں اور تبدیلی کے اپنے راستے ہیں اور ایسے ہی ہر ایک کے ہاں صنفی تعلقات کا ڈھانچہ تشکیل کے دوران متنوع راستوں سے گزرا ہے- اس پیچیدگی کو تسلیم کرتے ہوئے اشتراکی ناری وادی مارکس کے کام پر توجہ دیتے ہیں تاکہ وہ پدرسری تعلقات پر مبنی کام کا سرمایہ دارانہ معاشروں تجزیہ کرسکیں-

سوشل ری پروڈکشن اور محنت کی صنفی تقسیم

ہم ایک طرف تو پروڈکشن/ پیداوار کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف ہم سوشل پروڈکش کی بات کرتے ہیں- یہ جزوی طور پر مردانہ مارکس واد نظریہ کی ترقی اور سرمایہ دارانہ طریق پیداوار دونوں کا نمونہ ہے- سرمایہ دارانہ نظام میں جو کام گھر میں کیا جاتا ہے، اگرچہ وہ انسانوں کی ری پروڈکشن کے لیے بہت اہم ہوتا ہے لیکن اسے اسے پیداوار اور اجناس/ کاموڈیٹیز کی گردش سے الگ کردیا جاتا ہے- غلام داری دور کو چھوڑ کر سرمایہ دارانہ معاشروں سے پہلے جو ماقبل سرمایہ دارانہ معاشروں میں گھر گھرہستی کو شادیوں، کنبہ داریکے زریعے سے منظم کیا جاتا اور یہ مادی پیداوار کے ساتھ ساتھ انسان کی دیکھ بھال کے بنیادی یوںٹ تھے-

جیسا کہ مارکس نے نشان دہی کی ہے ، سرمایہ داری پیداوار سے بننے والی اجناس اور خریدنی و فروختنی بنائی جانے والی خدمات / کاموڈوفائیڈ سروسز دونوں قدر صرف اور قدر تبادلہ دونوں ہیں-

مارکس اینگلس مکمل مجموعہ تصانیف

پھر یہ کہ وہ پیداواری اجناس اور جنس بنادی گئی سروسز/خدمات کسی نہ کسی ضرورت کو پورا کرتی ہیں ورنہ دوسری صورت میں ان کو بنانے کی کوئی وجہ نہیں بنتی لیکن ان کو ضرورتیں پورا کرنے کے لیے پیدا نہیں کیا جاتا بلکہ ان کی پیداوار کا مقصد ‘قدر زائد ‘ یا منافع کا حصول ہوا کرتا ہے-

قدر استعمال کی پیداوار کے نکتہ نظر سے اجرتی اور غیر اجرتی محنت ایک متحدہ پروسس کی تشکیل کرتی ہیں جس کا انجام کار نتیجہ انسانوں کی ری پروڈکشن نکلتا ہے- قدر تبادلہ کی پیداوار کے نکتہ نظر سے ایک مربوط پروسس کو جو چیز دو مختلف ٹائپ کی محنت میں جدا کرتی ہے یعنی قابل خرید و فروخت محنت اور ناقابل خرید و فروخت محنت / جنس محنت اور غیر جنس محنت وہ پیداوار کے طبقاتی رشتوں کا نتیجہ ہے ناکہ وہ انسانی سماجی زندگی کا عالمگیر سچ ہے۔

یہ علیحدگی عوامی و نجی سطحں کے درمیان، خاندان اور کام کے درومیان، ریاست اور معشیت کے درمیان تقسیم کے ظہور کے متوازی ہوتی ہے اور یہ سرمایہ دارانہ معاشروں کا سب سے بڑا امتیازی نشان بھی ہیں- ان دوہری علیحدگیوں یعنی معشیت / گھر گرہستی اور معشیت/ریاست نے صنفی رشتوں اور عورتوں کی جدوجہد کی تحریکوں کی صورت گری کی ہے جن کا مقصد ان کو سرمایہ داری معاشروں کۓ اندر بدلنا ہے-

اب تک سوشل ری پروڈکشن کے جتنے بھی جانے پہچانے نظام ہیں ان کی بنیاد محنت کی صنفی تقسیم ( اگرچہ بعض اوقات یہ تقسیم غیر لچک دار اور کبھی زیادہ لچک دار رہی ہے) – محنت کی تقسیم کا یہ پیٹرن بظاہر تو تولیدی عمل کی ضروریات اور شیر خوار بچوں کے تقاضوں کے اعتبار سے ناگزیر طور پر حیاتیاتی لگتا ہے- اور اسی طرح سوشل ری پروڈکشن کے کام کی خاندانوں، برادریوں، منڈیوں ریاستوں اور عورتوں و مردوں کے درمیان تقسیم تاریخی اعتبار سے مختلف رہی ہے- یہ تغیر جزوی طور پر طبقہ اور صنف کے گرد ہونے والی جدوجہد کے نتیجے کے زریعے سے ماپی جاسکتی ہے۔ وہ جدوہائے جہد جو اکثر سیکسچوئلٹی اور جذباتی رشتوں کے ساتھ ساتھ سیاسی طاقت اور معاشی زرایع کے متعلق بھی ہوتی ہے-

وہ معاشرے جو سرمایہ داری سے پہلے ہوگزرے ان میں مرد گھروں کے سربراہ ہوتے تھے اور وہی پدر سری اتھارٹی کی بنیاد بھی تھے- واقعی یہ باپوں کی حکمرانی تھی-طبقاتی سرمایہ دارانہ تعلقات کو ابھرنے کے لیے، اس نظام کے ملکیتی حقوق کو اکھاڑ کر پھینکنا پڑا تھا- زبردستی سے نافذ کیے گئے قانونی اور ماورا قانونی پروسس کے زریعے سے جو مردوں کو ان کی ملکیت سے محروم کرتے تھے نے ان کو اجرتی مزدوروں میں بدل دیا اور اس سے پدرسری نظام کے کمتر ہوجانے کا خطرہ پیدا ہوگیا—- کم از کم ورکنگ کلاس / محنت کش طبقہ کے لیے اس خطرے نے حقیقی شکل اختیار کی- انیسویں صدی کے کارخانوں اور فیکڑیوں میں عورتوں اور بچوں کے بدترین استحصال کا مشاہدہ کرتے ہوئے مارکس نے اپنی کتاب سرمایہ کی پہلی جلد میں لکھا:

“However terrible and disgusting the dissolution, under the capitalist system, of the old family ties may appear, nevertheless, modern industry, by assigning as it does an important part in the process of production, outside the domestic sphere, to women, to young persons and to children of both sexes, creates a new economic foundation for a higher form of the family and of the relations between the sexes…Moreover, it is obvious that the fact of the collective working group being composed of individuals of both sexes and all ages, must necessarily, under suitable conditions, become a source of humane development; although in its spontaneously developed, brutal, capitalistic form, where the labourer exists for the process of production, and not the process of production for the labourer, that fact is a pestiferous source of corruption and slavery.” (MECW vol. 35:492-493)

“تاہم پرانے خاندانی بندھنوں کی سرمایہ داری نظام کے تحت خوفناک اور غلیظ ترین تحلیل ظاہر ہوتی ہے،مزید جدید صنعت گھریلو دائرے سے باہر عورتوں ،نوجوانوں اور دونوں جنسوں کے بچوں کو پیداوار کے عمل میں ایک اہم کردار سونپتی ہے جو خاندان کی ایک بلند شکل کی نئی معاشی بنیاد کو جنم دیتی ہے اور مرد و عورت کے رشتوں/ تعلقات کی نئی معاشی بنیاد کی جنم داتا بھی بنتی ہے—– مزید اس سے یہ حقیقت بھی ظاہر ہے اجتماعی محنت کرنے والے گروپ جو مرد اور عورتیں دونوں قسم کے افراد پر مشتمل ہوتے ہیں اور ہر عمر کے ہوتے ہیں ان کے لازمی طور پر ضروری ہے کہ وہ سازگار حالات میں انسانی ترقی کا سرچشمہ بن جائیں- اگرچہ اپنی انتہائی تیزی سے بے ڈھب اور ظالمانہ سرمایہ دارانہ شکل میں مزدور پیداوار کے عمل کے لیے جیتا ہے نہ کہ پیداوار کا عمل مزدور کے لیے ہوتا ہے تو وہاں یہ حقیقت ہے کہ یہ پروسس کرپشن/بدعنوانی اور غلامی کا مہلک زریعہ ہوا کرتا ہے-“

اگرچہ مارکس اس بارے میں ابہام کا شکار تھا کہ خاندان کی ایسی بلند شکل اور صنفوں میں تعلقات کی صورت کیسے تشکیل پائے گی ، لیکن وہ سرمایہ دارانہ خاندان پر تنقید میں بہت واضح تھا جہاں پر مرد مالکان جائیداد اپنے بیوی اور بچوں کو اس ملکیت سے دور رکھنے کا عمل جاری رکھے ہوئے تھے-

“But you communists would introduce community of women, screams the whole bourgeoisie in chorus. The bourgeois sees in his wife a mere instrument of production. He hears that the instruments of production are to be exploited in common, and, naturally can come to no other conclusion than that the lot of being common to all will likewise fall to the women. He has not even a suspicion that the real point aimed at is to do away with the status of women as mere instruments of production.” (MECW 6: 502)

“سارے بورژوازی / سرمایہ دار کورس میں چلاتے ہیں کہ تم کمیونسٹ عورتوں کی ایک برادری متعارف کراؤ گے- سرمایہ داری اپنی بیوی کو آلہ پیداوار کے طور پر دیکھتے ہیں- وہ سنتا ہے کہ آلات پیدارار کا عام طور پر استحصال ہوتا ہے اور وہ قدرتی طور پر اس کے سوا کسی اور نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتے کہ سب میں مشترک ہونے والی بہت سی چیزیں اسی طرح سے عورتوں پر صادق آجائیں گی- وہ اس بارے میں کسی شک میں مبتلا نہیں ہوتا کہ اس طرح کی چیزوں کی نشان دہی کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کا مرتبہ محض آلات پیداوار ہونے کا نہ رہے۔”

“It is, of course, just as absurd to hold the Teutonic-Christian form of the family to be absolute and final as it would be to apply that character to the ancient Roman, the ancient Greek, or the Eastern forms which, moreover, taken together form a series in historical development.” (MECW 35:492).

مارکس کا اصرار تھا کہ خاندان کی کوئی ‘قدرتی شکل’ یا زمانے سے ماورا کوئی شکل ہوتی ہے- اس طرح اس نے سرمائے کی پہلی جلد میں لکھا،

“اس لیے بہرحال یہ ایک مہمل بات ہے کہ خاندان کی ٹیوٹنک- مسیحی شکل مطلق اور حتمی سمجھا جائے اور ایسے اس بات کا اطلاق قدیم رومن یا قدیم یونانی یا مشرقی خاندان کی اشکال پر ہوگا، ان سب کو تاریخ کے ارتقاء میں ایک سلسلہ وار اشکال کے طور پر اکٹھے لیا جائے گا-“

.” For example, Marx points to the simultaneous emergence of hierarchical rank and men’s collective control over women (as captives/slaves) in clan societies prior to the development of private property. (Brown 2013)

لیکن مارکے کبھی بھی ماقبل سرمایہ داری معاشروں کے بارے میں اپنے نوٹس اور اس تاریخی ارتقا کے بارے میں اپنے تجزیوں کو زیادہ ترقی یافتہ جدلیاتی فہم تک ترقی نہیں دے سکا تھا جتنا اسے پھر اینگلس نے ترقی دی، جس کے لیے نجی ملکیت کا تعارف ہی عورت کی عالمی تاریخی شکست کا سبب تھا-

مثال کے طور پر “مارکس نجی ملکیت کے ارتقا سے پہلے کے قبائلی معاشروں میں درجہ بندی پر مبنی صفوں کے بے تحاشا ابھرنے اور مردوں کے عورتوں پر اجتماعی کنٹرول (بطور مقبوضہ /کنیزوں کی شکل میں) کی صرف اشارہ کرتا ہے-“

مارکس ایک زاویہ نگاہ سے پدرسری خاندانی رشتوں کو چیلنج کرنے کے دور رس امکانات بارے جو عورتوں کی اجرتی محنت تک رسائی رکھتے تھے کے بارے میں بالکل ٹھیک تھا- تاہم اس کی استحصالی ملازمت پر تنقید جبکہ وہ ساتھ ساتھ عورتوں اور بچوں کی صحت کی تباہی اور ان کی بہتری کی بربادی کو بے نقاب کرتا ہے وہ اس نسائی نیکی کے آدرشوں پر توجہ مرکوز کردیتی ہے جو کے اس کے زمانے کی عورت اور مردوں کی الگ الگ جگہوں کے صنفی نظریے کا مرکزی خیال تھے- اور اس کے ہاں ہم سرمایہ داری نظام کے اندر فیکٹری ورک کے اثر کو بدعنوان بنانے کا حوالہ دیکھتے ہیں-(4)

مارکس انیسویں صدی میں کام کے حالات پر اپنی شدید ترین تنقید میں جسمانی اور اخلاقی صحت کو باہم ملانے کی طرف مڑتا نظر آتا ہے اور اپنی مذمت کو ایسی مثالوں کے لیے مختص کردیتا ہے جہاں پر صنفی اختلاف نظر انداز ہوگیا تھا، جیسے وہ سرمایہ کی پہلی جلد میں کمیشن کی رپورٹ سے یہ بات نقل کے لیے چنتا ہے:

“The greatest evil of the system that employs young girls on this sort of work consists in this…They become rough, foul-mouthed boys, before Nature has taught them that they are women…they learn to treat all feelings of decency and of shame with contempt…Their heavy day’s work at length completed, they put on better clothes and accompany the men to the public houses.” (MECW 35: 467)

“نظام کی سب سے بڑی برائی اس طرح کے کام کے لیے جو اس میں مشتمل ہے۔۔۔۔ نوجوان لڑکیوں کو ملازم رکھنا ہے- وہ کھرردے ، بدخوئی کرنے والے لڑکے بن جاتی ہیں ، اس سے پہلے کے فطرت ان کو سکھائے کہ وہ عورتیں ہیں۔۔۔۔ ان کو نفیس ہونے کے جذبات پر مبنی سلوک کرنا اور توہین کرنے سے حیا کرنا سیکھنا ہوتا ہے۔۔۔۔۔ ان کا دن بھر کا بھاری بھر کم کام مکمل ہوا تو انہوں نے بہتر کپڑے پہننے ہیں اور سرکاری گھروں میں مردوں کی محفل میں بیٹھنا ہے-“

مارکس کے تجزیے کے ساتھ اس سے بھی زیادہ اہم مسئلہ یہ ہے کہ وہ انسانی بقا کے لیے درکار دیکھ بھال کی محنت کی پوری مقدار کو شامل نہیں کرتا اور جہاں تک وہ اس پر توجہ مرکوز کرتا ہے تو ول یہ فرض کرنے کی طرف رخ کرلیتا ہے کہ فطری طور پر یہ عورتوں کے کرنے کے کام ہیں- مارکس کبھی کبھار عورتوں کے گھریلو کام کی اہمیت کا اشارہ دے دیتا ہے۔ جیسے مثال کے طور پر سرمائے کی پہلی جلد میں مالکان سرمایہ کی طرف سے اپنے منافع میں اضافے کے لیے عورتوں اور بچوں کو مردوں کے ساتھ ملازمت کرنے کے خاندان کے لیے تباہ کن نتائج کا بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے:

“Compulsory work for the capitalist usurped the place, not only of the children’s play, but also of free labour at home within moderate limits for the support of the family. The value of labour-power was determined, not only by the labour time necessary to maintain the individual adult labourer but also by that necessary to maintain his family. Machinery, by throwing every member of that family on to the labour-market, spreads the value of the man’s labour-power over his whole family.” (MECW 35:398-399)

” سرمایہ داری کے لازمی کام نے صرف بچوں کے کھیلنے کے مقام کو ہی اکھاڑ نہیں پھینکا بلکہ اس نے خاندان کی مدد کے لیے اعتدال پسندانہ حد میں گھر کے اندر مفت محنت پر حملہ کیا ہے- قوت محنت کی قدر کا معیار نہ صرف بالغ مزدور فرد کو باقی رکھنے والے لیبر ٹائم سے طے کیا جاتا ہے بلکہ یہ اس کے خاندان کو باقی رکھنے کے لیے بھی ضروری ہے- میشنری اس خاندان کے ہر فرد کو لیبر مارکیٹ میں پھینک کر آدمی کی قوت محنت کو اس کے سارے خاندان پر پھیلادیتی ہے-“

مارکس مزید آگے کا استدلال کرتا ہے کیونکہ خاندان گھریلو کام کے مقابلے میں اجناس کو خریدنے پر زیادہ انحصار کرتا ہے- خاندان برقرار رکھنے کی قیمت بڑھ جاتی ہے اور اس سے زیادہ آمدنی بھی بیلنس ہوجاتی ہے-

” اجرتی کام کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ خاندان کے معیار زندگی کو بلند نہیں کرتا بلکہ کم کرتا ہے کیونکہ معشیت ، کھپت میں فیصلہ اور اشیائے ضرورت کے زرایع کی تیاری ناممکن ہوجاتی ہے-“

دوسرے لفظوں میں، عورتوں کی گھریلو مہارتوں میں جو پنہاں قدر ہوتی ہے وہ کھوجاتی ہے۔

امریکہ میں خانہ جنگی کے دوران، جس نے کاٹن کی تجارت کو برباد کیا، برطانیہ میں ٹیکسٹائل ورکرز بڑے پیمانے پر بے کار ہوگئے- یہاں مارکس استدلال کرتا ہے کہ عورتوں کی کوآپریٹو کے پاس کھانا پکانے کا وقت ہاتھ آگیا- بدقسمتی سے یہ ہنر ایسے وقت ہاتھ آیا جب ان کے پاس پکانے کے لیے کچھ تھا ہی نہیں- لیکن اس سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کیسے سرمایہ خود اپنے ذاتی پھیلاؤ کے مقصد کے لیے خاندان کے گھر میں ضروری محنت کو اچک لیتا ہے-
(مجموعہ مارکس و اینگلس جلد 35 صفحہ 399)

مارکس سرمایہ داری کے مرکزی تضاد کی پہچان کرواتا ہے- وہ یہ کہ اگرچہ سرمایہ قوت محنت کی ری پروڈکشن پر انحصار کرتا اور منافع کا مطالبہ خود محنت کشوں کی ری پروڈکشن کو کمتر بنانے کا خطرہ پیدا کرتا ہے- مارکس نے اس پہیلی کوسرمائے کی پہلی جلد میں مشہور ستم ظریف تبصرے میں قابو کیا ہے:

“The maintenance and reproduction of the working-class is, and must ever be, a necessary condition to the reproduction of capital. But the capitalist may safely leave its fulfillment to the labourer’s instincts of self-preservation and of propagation.” (MECW 35:572).

” محنت کش طبقے کی دیکھ بھال اور ری پروڈکشن سرمائے کی ری پروڈکشن کے لیے ایک لازمی شرط ہے اور ہونی بھی چاہئیے- لیکن سرمایہ دار محفوظ طریقے سے اس کے پورا کرنے کو محنت کش کی خود کی حفاظت کی جبلتوں اور پروپیگنڈے پر چھوڑ سکتا ہے-

قوت محنت/لیبر پاور ایک بنیادی طریقے سے پیداوار کے دوسرے عوامل سے مختلف ہوتی ہے- سرمایہ دار جو مشینری پر سرمایہ لگاتا ہے معقول طور تر اپنے سرمائے کا ثمر حاصل کرنے بارے یقین رکھ سکتا ہے- درحقیقت ایک ضابطے کے طور پر، سرمایہ دار لاگت اور مسابقت میں کمی کے لیے پیداواریت کو بڑھانے میں سرمایہ کاری لازمی کرتے ہیں- جبکہ سرمایہ داروں کا اپنے موجودہ ملازمین کے بچوں پر کوئی کنٹرول نہیں ہوتا تو وہ ایسی اجرت دینے سے گریزاں ہوتا ہے جو (بچوں کی بابت میں) ان کو سپورٹ دے سکے- اس لیے اجرتوں کو کم سے کم رکھنے کی طرف رجحان پیدا ہوتا ہے:

”In the chapters on the production of surplus-value it was constantly pre-supposed that wages are at least equal to the value of labour-power. Forcible reduction of wages below this value plays, however, in practice too important a part, for us not to pause upon it for a moment. It, in fact, transforms, within certain limits, the labourer’s necessary consumption-fund into a fund for the accumulation of capital …If labourers could live on air they could not be bought at any price. The zero of their cost is therefore a limit in a mathematical sense, always beyond reach, although we can always approximate more and more nearly to it. The constant tendency of capital is to force the cost of labour back towards zero.” (Capital Vol. I, MECW 35:595-596)

” قدر زائد کی پیداوار کے ابواب میں یہ مستقل فرض کیا گیا کہ اجرتیں کم از کم قوت محنت کی قدر کے برابر ہوتی ہیں- اجرتوں میں زبردستی کمی اس قدر کو کم کرنے کا کردار ادا کرتی ہے، تاہم عمل میں ایک جزو ہمارے لیے اہم یہ ہے کہ ہم ایک لمحے کے لیے بھی اس پر توقف نہ کریں- اصل میں یہ چند خاص حدود میں محنت کش کی ضروری کھپت پر مبنی فنڈ کو سرمائے کے ارتکاز کے فنڈ میں بدل ڈالتی ہے—- اگر محنت کش ہوا کھا کر زندہ رہ سکتے ہوں تو اس کی قوت محنت کو کسی قیمت پر بھی نہ خریدیں- ان کی لاگت کا صفر ہونا ایک ریاضیاتی سینس میں ہمیشہ ناقابل رسائی ہوتا ہے- اگرچہ ہم ہمیشہ زیادہ سے زیادہ اس کے قریب ہونے کا اندازہ لگا سکتے ہیں- سرمائے کا مستقل رجحان محنت کی لاگت کو صفر کی طرف پھیرنا ہوتا ہے۔”

اس تناظر سے، محنت کش طبقے کی اپنے آپ کو ری پروڈیوس کرنے کی صلاحیت خود محنت کش طبقے پر منحصر ہوتی ہے-یعنی اس صلاحیت کا انحصار طبقاتی جدوجہد کی سطح اور حدود پر ہوتا ہے- ایک دن میں کام کے گھنٹوں کے کم سے کم رکھنے، اجرتوں کے زیادہ سے زیادہ ہونے ، کام کے حالات کو سازگار بنانے ، فلاحی ریاست کی حدود کو بڑھانے اور دوسری عوامی خدمات کے لیے جدوجہد کے زریعے محنت کش طبقہ کی عوام اپنی اور اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے سرمایہ دار مالک سے وسائل کھینچتے ہیں-

اسی وقت جدوجہد کی جو صورتیں بنتی ہیں وہ یہ بھی طے کرتی ہیں کہ کیسے محنت کش طبقہ کے مرد اور عورتیں اپنے مقاصد متعین کے تے ہیں، کیسے اپنی قوتوں کو منظم کرتے ہیں اور کیسے اپنی حکمت عملیوں کو ترقی دیتے ہیں- اور یہ طاقت/ اور مراعات کے ادارہ جاتی تعلقات کی صورت گری بھی کرتی ہیں جو نسل، صنف، سیکسچوئلٹی اور قومیت کے گرد تشکیل پائے ہوتے ہیں- خاص طور پر محنت کش طبقہ کی عورتوں کی ‘دیکھ بھال کرنے’ کی ذمہ داریوں اور جن حالات کے اندر وہ کام کرتی ہیں اکثر مردوں کے ساتھ ان کے تعلق کے اعتبار سے سیاسی مسابقت اور فیصلہ کرنے کے میدانوں میں ان کے نقصان میں جاتی ہیں-

دوسری طرف، عورتیں اپنی دیکھ بھال کی ذمہ داریوں میں عزت، اتھارٹی اور طاقت کے لیے زمین ہموار پاتی ہیں- اور جہاں عورتیں سوشل ری پروڈکشن میں اپنے کام کو پورا کرنے کے لیے گھروں کے لیے تعاون کرتی ہیں تو وہ اجتماعی عمل/ ایکشن کے لیے سماجی بنیاد کو جنم دیتی ہیں- عورتوں کی سماجی ری پروڈکشن میں جگہ جہاں مزاحمت کا سرچشمہ ہوتی ہے وہیں پر بے اختیاری کا زریعہ بھی ہوتی ہے-

گھروں کے اندر عورتوں کی محنت پر پدر سری فرد کے کنٹرول کی پرانی صورتوں کو کمتر بناتے ہوئے، سرمایہ دارانہ پھیلاؤ عورتوں کے لیے اپنی خود کی سیاسی تنظیم کاری کے امکانات تو کھولتی ہے لیکن سوشل ری پروڈکشن کی تنظیم عورتوں پر جبر کی نئی شکلوں کی بنیاد بن جاتی ہے جبکہ ایک سرمایہ دارانہ معشیت میں سرمایہ دارانہ مالک کے نکتہ نظر سے لاکھوں عورتیں سوشل ری پروڈکشن کی تنظیم میں وہ سوائے سرپلس آبادی کے سوا کچھ نہیں ہوتیں

کچھ ناری وادی/فیمنسٹ اس بدلاؤ/شفٹ کو نجی / پرائیویٹ سے پبلک پدرسری کی طرف بدلاؤ/ شفٹ کا نام دیتے ہیں کیونکہ پہلی نظر میں یہ اس کی بنیاد مردوں کی پبلک پاور تک رسائی پر ہوتی ہے ناکہ گھر کے ممبران پر ان کے ملکیت کا مالک ہونے کے سبب براہ راست کنٹرول پر- سوال تاہم یہ رہ جاتا ہے کہ مرد پبلک پاور تک زیادہ رسائی ایک سرمایہ دارانہ جمہوریت میں کئی عشروں تک ناری وادیوں کی جدوجہد کے باوجود کیوں رکھتے ہیں جبکہ یہ سرمایہ دارانہ جمہوریت تو مردوں اور عورتوں کے شہری حقوق کی برابری کی پرچارک ہوتی ہے؟

اس سوال کا جواب ان ناری وادیوں کو ضرور دینا بنتا ہے جو اس مشاہدے سے شروع کرتے ہیں کہ صنفی تفریف کے کلامیے / ڈسکورس سیاسی طاقت / پولیٹکل پاور کے جواز اور تشکیل کا مرکز ہیں-(5)اگرچہ صنفی تفریق کے کلامیے یقینی طور پر ایک اثر تو رکھتے ہیں ، ایک مارکسی نارک واد کے نکتہ نظر سے ، ہم یہ اضافہ کریں گے خیالات خود کو روزمرہ کے تجربے میں داخل ہوئے بغیر اپنے آپ کو باقی نہیں رکھ سکتے-

بہرحال یہی تو مارکس کی عظیم بصیرتوں میں سے ایک تھی جب وہ ‘ اجناس کی پرستش/ فیٹش ازم کا زکر کرتا ہے:

.” That relationships between people come to be seen as relationships between things is a reflection of the wage relation in commodity production. This is not a “false consciousness” in the sense of ideas imposed by cultural and social forces; rather, it is a world­view that expresses, or is consonant with, actual experience under the relations imposed by the commodity form.

” لوگوں کے درمیان تعلقات کو چیزوں کے درمیان تعلق دکھائی دیتا ہے اور اجناس کی پیداوار میں اجرت کے رشتے کی عکاسی ہوتی ہے- اس معنی میں غلط شعور نہیں ہے کہ خیالات ثقافتی اور سماجی قوتیں مسلط کرتی ہیں- بلکہ یہ ایک عالمی نکتہ نظر ہے جس کا اصل تجربے کے ساتھ جنس کی شکل میں مسلط کیے گئے تعلقات کے تحت اظہار ہوتا ہے یا اس کے ساتھ مطابقت میں ہوتا ہے-“

اسی طریقے سے سمجھنے کے لیے کہ کیسے مردانہ غلبہ اپنے آپ کو کسی بھی معلوم لمحے میں مستحکم رکھتا ہے،ہمیں زیر تہہ سماجی تعلقات کی تلاش کرنا پڑتی ہے جو صنفی تفریق کے کلامیوں کی ایک منطق بیان کرتے ہیں یا اسے قابل تفہیم یہاں تک کہ ان کو پیداواری کلامیے تک بنا ڈالتے ہیں-

سرمایہ دارانہ مالکان کی لیبر پاور کی ری پروڈکشن میں سرمایہ کاری کرنے کے خلاف مزاحمت ، ورکروں کے درمیان مسابقت،اجرت کی شکل کو بذات خود انفرادی دباؤ بناتے ہوئے، ساری طاقت گھریلو دیکھ بھال کے کام کو سوشلائز کرنے کی بجائے اسے نجی / پرائیوٹائز بنانے میں صرف ہوتی ہے- لیکن جتنی دیر تک گھر داری کی نجی ذمہ داری رہتی ہے جس کے ممبران کئی گھنٹے جاہے وہ اجرتی ہوں یا بنا کسی اجرت کے ہوں اس میں صرف کرتے ہیں اور اس وقت تک محنت کی طنفی تقسیم ایک لازمی منطق کے طور پر اپنا مقام برقرار رکھے گی-

محنت کی صنفی تقسیم کے اندر بہرحال فرد اور خاندان کی بقا کی حکمت عملیاں سادہ طور پر مردوں اور عورتوں کے مادی مشکلات کی طرف محض عقلی ردعمل ہی نہیں ہیں- وہ عورتوں اور مردوں کے مفادات اور خواہشات کی عکاسی بھی کرتی ہیں جو کہ سماجی و ثقافتی اور معاشی طور پر صورت اختیار کرتی ہیں-(6)

طبقاتی رشتے اور سوشل ری پروڈکشن
)Class Relations and Social Reproduction(

سرمایہ دارانہ نظام کے تین دوسرے پہلو جو مارکس نے دریافت کیے جو ہمیں سوشل ری پروڈکشن کے بارے میں سوچنے میں مدد دیتے ہیں اور اس نظام کے اندر محنت کی صنفی تقسیم کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں- ان تینوں پہلوؤں نے کیسے اپنی تنظیم کی اور وقت کے کے ساتھ یہ کیسے بدلے بھی-

پہلا پہلو تو اس نظام کی کاموڈیفیکشن / اجناس کی تجارت کی طرف بڑھنا ہے جو کہ سرمایہ دارانہ مسابقت اور منافع کمانے کے نئے میدانوں کی تلاش ابھرتا ہے- یہاں دوبارہ، ہم سرمایہ دارانہ پھیلاؤ کی دو طرفہ فطرت دیکھتے ہیں- پدر سری اشکال کے چیلنچز کا سامنا کرنے کے قابل بننا اور ساتھ ہی وہ چیلنچز کیا حاصل کرسکتے ہیں ان کو محدود کرنا-

جیسے ہی سرمایہ داری انسانی سرگرمی کے تمام علاقوں میں داخل ہوتا ہے، قدر استعمال اجناس/ کاموڈیٹی میں بدل جاتی ہیں- وہ ساری چیزیں جن کو خریدا جاسکتا ہو، بیچا جاسکتا ہو ناکہ ان کو ادلہ بدلا جاسکے یا ان کو اپنے استعمال کے لیے پیدا کیا جائے- قدر استعمال کا قدر تبادلہ میں بدل جانا لوگوں کو اور زیادہ مضبوطی سے سرمایہ دارانہ معشیت سے باندھ دیتا ہے کیونکہ استعمال کرنے کے لیے کمانا پڑتا ہے-

دوسری طرف، کھپت کے ہمیشہ سے پھیلتے ہوئے امکانات نئی انفرادی پہچان اور اظہار ذات کی نئی اشکال کی اجازت دیتے اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں- جیسے روزمیری ہینز نے 20ویں صدی میں نشان دہی کی تھی:

“(S)tructural changes in capitalist production that involved technological developments, the mechanization and consequent deskilling of work, the production boom brought on by technological efficiency, the opening of new consumer markets, and the eventual development of a widespread consumer culture…displaced unmet needs into new desires and offered the promise of compensatory pleasure, or a least the promise of pleasure in the form of commodity consumption…This process took place on multiple fronts and involved the formation of newly desiring subjects, forms of agency, intensities of sensation, and economies of pleasure that were consistent with the requirements of a more mobile workforce and a growing consumer culture.” (Hennessy 2000: 99)

“سرمایہ دارانہ پیداوار میں ڈھانچہ جاتی تبدیلیاں جن میں ٹیکنالوجیکل پیش رفت بھی شامل ہیں، میکنائزیشن/میکانیکیت ،بتدریج کام کے لیے مہارتوں کی کمی، پیداوار میں عروج ٹیکنالوجیکل ایفی شینسی کے زریعے آئی، نئی صارف منڈیوں کا کھلنا اور بتدریج ایک وسیع و عریض صارف ثقافت کی طرف پیش رفت نے بے دخل نہ پوری ہونے والی ضرورتوں کو خواہشات اور پیش کیے گئے تشف بخش مسرت یا کم از کم جنس کی کھپت کی شکل میں مسرت کے وعدے میں بدل ڈالا- یہ عمل مختلف محاذوں پر جگہ سنبھالتا ہے اور نئی آرزومند رعایا، ایجنسی کی اشکال ، سنسناہٹ کی شدتزں اور مسرت کی معشیتوں کو ملوث کرتا ہے جوکہ ایک زیادہ متحرک محنت کی افرادی قوت کی ضرورتوں اور ایک بڑھتے ہوئے صارف کلچر کے مطابق تھے-“

صارفیت، اجرتی محنت، اربن نائزیشن کے پھیلاؤ، چھوٹے کارباروں کے زوال اور نئے پروفیشن کے متعلقہ ابھار جس سے وابستہ افراد اداروں کی سٹیٹ ریگولیشن کی طرف قوت متحرکہ تھے (جیسے ادویات، پبلک ہیلتھ، سوشل ورک، سائیکالوجی وغیرہ) نے سیکسچوئلٹی اور خانگی زندگی (خاص طور پر مڈل کلاس میں) کی تںظیم نو کی بنیاد رکھی- زچکی، شادی اور سیکسچوئلٹی کے پرانے پدر سری ضابطے بدل گئے بلکہ ایک کثیر المعیاری رجیم نے ان کی جگہ لے لی جس نے محنت کی صنفی تقسیم کو دوبارہ سے لکھا-(7)

بیسویں صدی کے آخر میں، شدید ہوگئی کاموڈیفیکشن نے جیسا کہ الان سیئرز کہتا ہے کھلے لیزبی این اور گے وجود کے لیے جگہ بنائی بلکہ طبقہ اور نسل کے گرد موجود خاص شناخت کے ساتھ گے کے نظر آنے کو مستحکم کیاجس کا انحصار کھپت کرنے کی صلاحیت پر ہے۔
(Sears 2005: 92-112)

زندگی جتنی اجناس کی پیداوار اور کھپت کے گرد منظم ہوتی جاتی ہے اتنا ہی لوگوں کی اپنی انسانیت کے ہر ایک پہلو سے رقم بنانے کے امکان / پوٹنشل کا لحاظ کرنے کی اجازت اور حوصلہ افزائی کی جارہی ہے- ملکیتی فردیت اور قوت محنت کو جنس خویدنی و فروختنی بنانا/ کاموڈیفیکشن یہ اس کی بنیاد ہے جوکہ لگاؤ، سیکسچوئلٹی اور یہاں تک کہ حیاتیاتی افزائش کی طلاحیتوں کو اجناس بنانے کی طاقتور مہم ہے جوکہ خریدی اور بیچی جاسکتی ہے-

جیسا کہ مارکس اور اینگلس نے ‘کمیونسٹ مینی فیسٹو ميں سرمایہ داری کے سماجی رشتوں کا پھیلاؤ بیان کرتے ہوئے لکھا:

“All fixed, fast-frozen relations, with their train of ancient and venerable prejudices and opinions are swept away, all new-formed ones become antiquated before they can ossify.” (MECW 6: 487)

“تمام متعین- منجمد رشتے اپنے قدیم اور ناپائیدار تعصبات اور آراء کا صفایا ہوجاتا ہے- تمام بننے والی نئی چیز دریابرد ہونے سے پہلے ایک دفعہ نوادر بن جاتی ہیں-

معاصر سیاسی کلامیوں(ڈسکورس) میں غیرمحدود طور پر بار بار جدیدیت،روایت، ثقافت اور فطرت،مقدس اور گستاخی کے متنازعہ موقف قدرتبادلہ اور قدر استعمال کی ثنویت کے گرد کھومتے رہتے ہیں- اس درمیان کون سا سیاسی کلامیہ پیچا جاسکتا ہے یا بیچا جانا چاہیے یا نہیں بیچا جاسکتا یا نہیں بیچا جانا چاہیے کے درمیان بحث چلتی رہتی ہے-

اس ثنویت سے نکلنے کا راستا نہیں ہوتا اور اس وقت تک یہ بحث سے باہر رہے گا جب تک لوگ اپنی جن جسمانی صلاحتیوں کے مالک ہیں ان کو سرمایہ داری نظام کے تحت زندگی کی کمیابی اور عدم تحفظ کے زریعے سے کنٹرول کیا جاتا رہے گا- جبر کے تناظر میں، جو کہ ہمیشہ اس وقت تک موجود رہتا ہے جب تک لوگوں کو ان کی بقا کے زرایع سے جدا کیا جاتا رہتا ہے، اس محنت کو ممتاز کرنا مشکل ہے جو بامعنی ہو اور اس چیز سے آزادی کے ساتھ الگ کرکے چنی گئی ہو جو آزاد نہ ہو-

تولیدی عمل کو جنس خریدنی و فروختنی بنانے کا عمل ( جن میں نئی توہیدی ٹیکنالوجی کی ضرورت ہوتی ہے) منافع بنانے کے نئے میدان کی پیشکش کرتا ہے جبکہ نئے سماجی گروہوں کی حیاتیاتی والدین تک رسائی کا دائرہ بھی وسیع کرتا ہے جیسے گئے کے لیے بیضہ کا عطیہ/سروگیسی، لے زی بین کے لیے سپرم بینک کی فراہمی اور بانجھ ہیٹروسیکچوئل جوڑوں کے لیے سروگیسی اور وٹرو فرٹیلائزیشن کی فراہمی- تولیدی عمل کو خریدنی و فروختنی جنس بنانے کا عمل زچگی کے آدرشوں کو کمتر بناتا ہے جو قدرتی طور پر لازمی شناخت سے جڑے ہوتے ہیں اور یہ پدرسری خاندانی رشتوں کی مذہبی اور حیاتیاتی بنیادوں پر مبنی جواز کو چیلنچ کرتے ہوئے ان کی جگہ چوائس/انتخاب اور مرضی کے معاہدہ جاتی معیاروں کو دیتے ہیں-

اسی وقت، تولیدی عمل کو جنس برائے خرید و فروخت بنانے کا عمل عورتوں کی تولیدی صلاحیتوں کے استححصال کے زریعے سے منافع پیدا کرنے کے نئے امکانات کو پیدا کرتا ہے-(جیسے ساروگیٹ پریگننسی اور ايگ ڈونیشن) جبکہ عورت کے آمدنی کمانے کی نئی اشکال کو ان کے ‘آزادانہ’ اجرت کمانے والیوں کے حق تک رسائی کے طور پر بھی متعارف کراتا ہے۔(8)

سرمایہ داری پیداوار کے دوسرے پہلو کے طور پر جو ری پروڈکشن اور محنت کی صنفی تقسیم کی تنظیم کی صورت گری کرتا ہے کام کے عمل پر سرمایہ دارانہ کنٹرول ہی ہے- جیسا کہ مارکس نشاندہی کرتا ہے جہاں تک پیداوار کے عمل کے اہم پہلوؤں کو ورکرز کنٹرول کرتے ہیں وہ مزاحمت کی بنیاد رکھتے ہیں- اس لیے سرمایہ دار مالکان ورکرز کا کنٹرول جہاں انسانی مہارتوں پر انحصار کو کم سے کم کرنے کے زریعے کرتے ہیں وہیں ان کی نگرانی کے نظام کو بڑھاکر بھی کرتے ہیں-

سرمایہ کی جلد اول میں مارکس ایک پیچیدہ کوآپریٹو لیبر پروسس اور اس پروسس کے سرمایہ داری کردار کے زریعے سے مختلف کام کو کنٹرول کرنے کو ضرورت بنانے کے درمیان امتیاز کی نشان دہی کرتا ہے جو کہ ایک ناقابل گریز کشمکش/ تضاد استحصال کرنے والے، زندگی اور محنت کا وہ خام مواد جس کا وہ استحصال کرتا کے درمیان پیدا کرتا ہے-
)MECW 35: 336)

وہ اس سے آگے جاتا ہے:

“If then the control of the capitalist is in substance two-fold by reason of the two-fold nature of the process of production itself — which on the one hand is a social process for producing use values, on the other a process for creating surplus value — in form that control is despotic.”’ (MECW 35: 337)

“اگر ٹھوس شکل میں سرمایہ دارانہ کنٹرول پیداوار کے عمل کی دو پہلو فطرت کی دو وجوہات کا حامل ہو تو تب یہ ایک طرف قدر استعمال کو پیدا کرنے والا سماجی عمل ہوتا ہے تو دوسری طرف قدر زائد کو تخلیق کرنے والا عمل ہوتا ہے اور یہ دوہرا عمل ہئیت کے اعتبار سے جابرانہ عمل ہوتا ہے-“

لیبر کو قابو میں رکھنے کے لیے جو انتظامی/مینجریل حکمت عملیاں ہوتی ہیں وہ طاقت اور مراعات کے رشتوں کو تخلیق کرتیں، ان کو ان کارپوریٹ کرتیں، ان کو ری پروڈیوس کرتیں ہیں جو نسل، صنف، قومیت اور سیکسچوئلٹی کے زریعے سے منظم کیے جاتے ہیں-
(Burawoy 1979; Munoz 2008)

جسموں اور شناختوں کے صنفیائے جانے، سیکسجولائز کرنے کے عمل سرمایہ دارانہ منیجمنٹ کے اندر ہی پنہاں ہوتا ہے- صنفی ثنویت کے غالب ساختیوں کو لینا اور اس کو پھر سے مسلط کرنا یہ سوشل ری پروڈکشن میں محنت کی صنفی تقسیم کا مرکز ہوتے ہیں- اسی وقت محنت کشوں کا کام کی جگہ پر مینجریل طاقت کے خلاف مزاحمت کرنا اور ایک وسیع معاشرے میں بھی نسل،صنف اور سیکسچوئلٹی سے منظم ہونے والی طاقت اور مراعات کے رشتوں کا عکس ہوتی ہے-مثال کے طور پر مقامی لیبر منڈیاں اور اسی طرح مختلف گروپوں کی اجرتوں کی صورت گری بھی صرف معاشی پروسس کے زریعے ہی نہیں بلکہ سیاسی پروسس کے زریعے بھی ہوتی ہیں-

جس طریقے سے لیبر سے کوآرڈینیشن کی جاتی ہے پر ورکر کے کنٹرول کے کھوجانے کا نتیجہ یہ ہے کہ انسانی ضرورتوں کی مکمل رینج کو پروڈکشن/ پیداوار کو جیسے منظم کیا جاتا ہے کے متعلق فیصلوں میں جوڑا نہیں جاسکتا-

کسی بھی سرمایہ دارانہ معاشرے میں پیداوار اس لیے نہیں کی جاتی کہ اس سے سماجی طور پر ضروری بچوں اور خانگی دیکھ بھال کی محنت کی سرگرم ہوکر سپورٹ کی جائے- جبکہ یہ کام انتہائی اور بلند ترین ہنرمندی کا ہوتا ہے اگرچہ اکثر وبیشتر اسے نسائی فطرت لیے ہوئے غیرہنرمند اور وراثتی سمجھا جاتا ہے- یہاں تک کہ اکثر خاندان دوست فلاحی ریاستوں کی حکومتیں جیسے سویڈن کی ہے پرائیویٹ فرموں کی ایمپلائمنٹ پالیسیوں میں مداخلت نہیں کرتیں-

سرمایہ دارانہ نظام کا تیسرا پہلو استحصال ہے جو اجرتی معاہدے کے زریعے کیا جاتا ہے اور اس لیے اسے سیاسی اور معاشی طاقت کی علیحدگی کی ضرورت پڑتی ہے- گزشتہ صدی میں سرمایہ دارانہ معاشروں میں سوشل ری پروڈکشن کی تنظیم میں اہم بدلاؤ/شفٹ فلاحی ریاست کے جنم کی شکل میں آیا تھا- جس میں تعلیم ، صحت اور بچوں کے پالنے پوسنے کی حکومتی ذمہ داری میں توسیع کے ساتھ ساتھ خاندانوں کے لیے ریاستی ضابطوں میں اضافے خاص طور پر محنت کشوں کے زیادہ کمزور حصوں پر ریاست کی طرف سے خاندان کی تشکیل کے لیے ریاستی ضابطوں میں اضافہ بھی دیکھنے کو ملا ہے- ان کمزور حصوں میں تارکین وطن،مجبور و محکوم نسلی و ایتھنک گروہ ، غریب اور سنگل مدر شامل ہیں-

اگرچہ ان پیش رفت کو سمجھنا قابل ترغیب لگتا ہے جب ریاستی مینجرز طویل مدت کے سرمایہ داری طبقہ کے مفادات میں مداخلت کرتے ہوئے لیبر فورس کی ری پروڈکشن کی ضمانب دینے کے لیے آگے آتے ہیں جب سرمایہ دار مالکان آگے نہیں بڑھ رہے ہوتے لیکن ہم اس ترغیب کا شکار ہونے کی بجائے مارکس کی لیڈ کے تعاقب میں اپنی توجہ محنت کش طبقہ کی از خود اپنی تنظیم پر رکھ سکتے ہیں-

سرمائے کی پہلی جلد میں قابل نفاذ کام کے اوقات کی قانونی حدود کے کی فتح کو بیان کرتے ہوئے مارکس فیکٹری مالکان اور ان کے نظریات کے بدلاؤ کو ريگولیشن کے آئیڈیل میں بدل جانے اور اس کے پیچھے محنت کشوں کے ہاتھوں ان کی شکست کو یوں بیان کرتا ہے:

“The masters from whom the legal limitation and regulation had been wrung step by step after a civil war of half a century, themselves referred ostentatiously to the contrast with the branches of exploitation still ‘free'[of regulation]. The Pharisees of ‘political economy’ now proclaimed the discernment of the necessity of a legally fixed working-day as a characteristic new discovery of their ‘science.’” (MECW 35: 300)

“وہ مالکان جن سے قانونی حدبندیاں اور ضوابط نصف صدی کی خانہ جنگی کے بعد درجہ بدرجہ منوائے گئے خود کنایوں اشاروں سے ایسی شاخوں کے موجود ہونے کا اعتراف کرتے ہیں جہاں استحصال کی آزادی ہے اور اب بھی ضابطوں سے آزاد ہیں- سیاسی معشیت کے ملّاں اب دعوا کرتے ہیں کہ قانونی طور پر کام کے وقت کے تعین کی ضرورت کی تشخیص ان کی ‘سائنس’ کی مخصوص دریافت ہے۔”

سوشل ری پروڈکشن کے اندر حکومت کی حد اور پھیلاؤ اصلاح کی ان جدوجہد کا نتیجہ ہے جس میں مڈل کلاس اور ورکنگ کلاس کے مرد اور عورتوں کے ساتھ ساتھ سرمایہ دار مالکان اور ریاستی مینیجرز نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے- جدوجہدکے ثمر کے طور پر ریاستی پالیسسیاں عورتوں کے خود کو سیاسی طور پر منظم کرنے کی سطح اور مقاصد کی عکاسی کرتی ہیں بلکہ یہ مختلف طبقات اور نسلی و ثقافتی گروہ کی عورتوں اور مردون کو دستیاب ریسورسز اور طاقت کی عکاسی بھی کرتی ہیں-

مزید راستا جس پر ان گروپوں نے خود کو چلایا وہ مشکل سے غیر جانبدار رہا ہے- سرمایہ دارانہ معشیت میں پیش رفت نے سیاسی شروعات اور سیاسی وسائل کی فراہمی کو یقینی بنایا- مثال کے طور پر عورتوں کو اجرتی مزدور بناتے ہوئے سرمایہ دارا طبقے کے مفادات نے ان پر ایسی قدغن لگائیں کہوہ کس حد تک اور کیا حاصل کرسکتیں ہیں؟

یہ روکاوٹیں دو طریقوں سے روبہ عمل لائی جاتی ہیں- ایک خاص طور پر لبرل منڈی کی معشیتوں میں ، سرمایہ دار مالکان نے مستقل طور پر اور اکثر جگہ پر کامیابی سے اپنے کاروباری پریکٹس اور اپنے منافعوں پر نمایاں ٹیکس لگانے کی حکومتی مداخلتوں کے خلاف مزاحمت کی ہے- زیادہ بنیادی طور پر ریاستی مینجرز اور قانون ساز آخرکار معاشی گروتھ اور خوشحالی پر انحصار کرتے ہیںاور بدلے میں ان کو سرمایہ دار انویسٹرز کنٹرول کرتے ہیں-(9)

لیکن ان روکاوٹوں کا اعتراف کرتے ہوئے، ہم بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں کہ کیسے اور کیوں فلاحی ریاستوں کیپالیسیاں صنفی تقسیم محنت کو چیلنج کرنے کی بجائے ان کو ادارہ جاتی شکل دے ڈالتی ہیں- مثال کے طور پر 20ویں صدی کے اوائل میں امریکہ پہلا ملک تھا جس کی حکومت نے سنگل ماؤں کو سپورٹ دینے والے پروگرام شروع کیس جو کہ بہت شدید قسم کی ورکنگ کلاس موبلائزیشن اور ان کے سیاسی ہونے کے بعد ہی ممکن ہوسکا تھا لیکن اس کے زیادہ تر ایکٹوسٹ اور رہنما غالب سفید فام اور مڈل کلاس/بالائی طبقہ کی عورتیں تھیں اور اس کا سبب نئے پروفیشنل گروپوں کی مداخلت تھی جنھوں نے حکمرانی کے تحت نہ آنے والے طبقات کو مینج کرنے، اوپر اٹھانے اور جذب کرنے کے لیے اپنی مہارتوں کو صرف کرنے کی پیشکش کی تھی-

مالکان سرمایہ داروں کی طرف سے طاقتور مخالفت کے تناظر اور اس کے نسلی/طبقاتی قوتوں کی کہکشاں کی عکاسی کرنے والی تحریک کا غالب کلامیوں نے نے حکومت کو یہ اختیار دینے کی حمایت کی کہ وہ اس سنگل ماں کو تنخواہ پر کام دے جو اچھی ماں کا کردار ادا کررہی ہو
(Mink 1995; Brenner 2000)

حاصل کلام
بہت سے معاصر فیمنسٹ ایکٹوسٹ اور دانشور یہ تسلیم کرتے ہیں کہ صنفی رشتوں کو دوسرے سماجی رشتوں جیسے طبقہ، سیکسچوئلٹی ، قومیت وغیرہ سے الگ کرکے تجرید میں دیکھا نہیں جاسکتا- مارکے نے اس سوال کو مشکل ہی حل کیا کہ ان سماج رشتوں کی کلیت پر مبنی ایک نظریہ کیسے بنایا جائے-(10) لیکن اب بھی سرمایہ داری کو ایک طریق پیداوار کے طور دیکھنے کا اس کا تجزیہ ایک فیمنسٹ/ناری واد نظریہ اور عمل کے لیے ثمرآور نکتہ آغاز ہے جو نہ صرف اس کی کلیت کو سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے بلکہ ان تحریکوں سے بھی اسے جوڑ سکتا ہے جو آخرکار اس نظام کو بدل سکتی ہیں-

Glossary
Marxist –مارکس وادی
‏Marxism – مارکس واد
Feminist- ناری وادی
Feminism- ناری واد
Socialist – سماج وادی
Socialism- سماج واد
Gender- صنف
Gendered division of labor: محنت کی صنفیاتی تقسیم

References

1-I am very grateful to Nancy Holmstrom, Barbara Laslett, and Marcello Musto for their comments on earlier drafts of this essay and Heather Brown for her critical excavation and examination of Marx’s writing on gender and the family.
2• As with any political/intellectual endeavor, Marxist feminism contains a range of approaches. Beyond writers who locate themselves explicitly in Marxist theory, a broader group of socialist feminists draw on Marxist ideas. See, e.g., Nancy Holmstrom (2002); Hennessy (2000); Vogel and Gimenez (2005); Hennessy and Ingraham (1997); Federici (2004); Ferguson (1989), Arruzza (2014).
3• C.f. Brenner (2000); Armstrong and Armstrong (1983); Ferguson (1999); Vogel (2000); Gimenez (2005), Bhattacharya (2017).
4• As Terrell Carver points out, given Marx’s antagonism to Victorian social values, he might also be read here as in line with some strains of Victorian feminism (Carver 1998: 229-230).
4• Cf. Scott (1986); drawing on Marx, Teresa Ebert (2005) offers a critique of the “post-modern turn” in feminism.
5• Debates about the origin and reproduction of the household gender division of labor in capitalism have figured largely in Marxist and socialist feminist theorization of women’s oppression. For a range of approaches, see Delphy (1984); Mies (1986); Costa and James (1975); Barrett (1980); Federici (2004).
6• In addition to Hennessy, see Laslett and Brenner (1989).
7• Like other industries facing government regulation, high wages (or both), the surrogate pregnancy business is going global (Gentleman 2008).
8• For a classic statement of this argument, see Fred Block’s (1980) “Beyond Relative Autonomy: State Managers as Historical Subjects.”
9• For a feminist reading of Marx and theorization of the ensemble of social relations see Himani Bannerji (2005) “Building from Marx: Reflections on Race and Class,” and see also Cinzia Arruzza, (2014) “Remarks on Gender.”
10-For a feminist reading of Marx and theorization of the ensemble of social relations see Himani Bannerji (2005) “Building from Marx: Reflections on Race and Class,” and see also Cinzia Arruzza, (2014) “Remarks on Gender.”

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here