پانچ جون 2020 بروز جمعہ سندھ اسمبلی کے اجلاس میں کورونا وبا بارے بحث ہوئی- اس بحث میں جہاں اپوزیشن لیڈر اور پاکستان تحریک انصاف کے ممبر صوبائی اسمبلی شمیم فردوس نقوی خطاب کرتے ہوئے سندھ میں لاک ڈاؤن کو اور نرم کرنے کا حیران کن مطالبہ کرڈالا- انہوں نے نہ صرف مارکیٹوں کے کھلنے کے اوقات کار میں امزید اضافے کی تجویز دے ڈالی بلکہ انہوں نے سنیما گھروں اور تفریحی پارکوں کو کھولنے کا مطالبہ کردیا- اپوزیشن لیڈر کی جانب سے یہ مطالبہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب جمعے کے دن ایک روز میں میں کورونا وائرس سے 40 افراد جاں بحق ہوئے جو ابتک ایک دن میں ہونے والی اموات میں بلند ترین شرح اموات تھی- پاکستان تحریک انصاف کے سندھ اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر خرم شیر زمان بھی اس سے قبل کورونا وائرس کو ایسے موقعہ پر کمزور اور کم خطرناک قرار دیتے پائے گئے جب پاکستان چین سے کہیں زیادہ کورونا کے شکار مریض رکھنے والا ملک بن گیا جب کہ چین کی آبادی پاکستان سے تین گنا زیادہ ہے-

چیف منسٹر سندھ سید مراد علی شاہ نے سندھ اسمبلی میں جمعہ کے روز انتہائی جامع اور اعداد و شمار سے بھرپور اور بہت واضح سیاسی موقف کے ساتھ تاریخی تقریر کی اور کورونا وبا سے لیکر لاک ڈاؤن تک اور اس سے آگے ریلیف ورک تک بارے سندھ حکومت کی کارکردگی کی تفصیل عوام کے سامنے رکھ دی-

 انہوں نے اپنی تقریر میں تفتان باڈر سے سندھ میں آنے والے زائرین کے حوالے سے کورونا وائرس کی مقامی آبادی میں منتقلی کے دعوے کو جھوٹ قرار دیتے ہوئے بتایا کہ رائے ونڈ سے تبلیغی جماعت کے اراکین ہزاروں کی تعداد میں سندھ داخل ہوئے اور ان میں سے کئی ایک مقامی آبادی کو یہ وائرس منتقل کرنے میں کامیاب ہوئے- اگر وفاقی حکومت ان کی بات مانتے ہوئے پنجاب سمیت پورے ملک میں لاک ڈاؤن کرتی تو تیرہ مارچ کو سندھ کے مختلف اضلاع سے  تبلیغی جماعت کے اراکین کو سندھ ميں داخل ہوکر مقامی آبادی میں کورونا پھیلانے سے روکا جاسکتا تھا-

میں چیف منسٹر سندھ سید مراد علی شاہ کی تقریر کے اہم نکات ذیل میں پیش کررہا ہوں، اس سے یہ اندازہ لگانے میں مدد ملے گی کہ کورونا وبا سے نمٹنے کے لیے سندھ حکومت کی ابتک کیا کارکردگی رہی ہے:   

پاکستان کے صوبے سندھ کے چیف منسٹر سید مراد علی شاہ نے پاکستان میں کورونا میں مبتلا مریضوں کی تعداد میں اضافے کا براہ راست ذمہ دار وزیراعظم پاکستان عمران خان اور وفاقی حکومت کو ٹھہرادیا- وہ جمعے کے روز سندھ اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کررہے تھے-

“صورت حال اس قدر بدتر نہ ہوتی اگر لاک ڈاؤن کا فیصلہ پہلے کرلیا جاتا”، انہوں نے کہا۔

“لاک ڈاؤن کے فیصلے میں تاخیر اور اس کے بعد مرکز سے نیم دروں،نیم بروں قسم کے بیانات نے لاک ڈاؤن کے لازم ہونے بارے عوام کو کنفیوژ کردیا اور لاک ڈاؤن سے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوسکے”

چیف منسٹر سندھ نے سندھ اسمبلی میں کورونا وبا پر بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ کورونا تفتان سے آنے والے زائرین کے زریعے سے سندھ میں نہیں پھیلا- سندھ میں  زائرین تفتان کے راستے سکھر جب پہنچے تو ہر کا کورونا ٹیسٹ کیا گیا جن کا ٹیسٹ مثبت آیا ان کو آئسولیٹ کرکے اور صحت یاب ہونے کے بعد گھر بھیج دیا گیا- جب تبلیغی جماعت کے 5000 اراکین کا کورونا ٹیسٹ ہوا جن میں سے 765 کا نتیجہ مثبت تھا- اگر لاک ڈاؤن کی میری تجویز مان لی جاتی تو تبلیغی جماعت سے جو مقامی آبادی میں کورونا وائرس سندھ اور دیگر صوبوں میں منتقل ہوا وہ نہ ہوتا اور صورت حال اس قدر بدتر نہ ہوتی-

کورونا وبا سے نمٹنے میں ایک ارب نوے لاکھ خرچ

انھوں نے بتایا کہ کورونا وائرس ایمرجنسی فنڈ میں سندھ کو تین ارب 60 کروڑ روپے وصول ہوئے ہیں جن میں سے ایک ارب نوے لاکھ روپے سندھ حکومت نے خرچ کیے ہیں- 40 لوگ صرف جمعہ کے روز سندھ میں کورونا وائرس سے مرے ہیں جو اب تک کی ایک دن میں بلند ترین شرح اموات ہے-

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کورونا پازیٹو کیسز میں سے 57250 کیسز ایکٹو وائرس کے ہیں اور انہوں نے ان کی جلد صحتیابی کی دعا کی-جبکہ کورونا سے جاں بحق ہونے والے پاکستانی شہریوں کی مغفرت کی دعا کی-

سندھ میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا سیاق و سباق

چیف منسٹر سندھ سید مراد علی شاہ نے بتایا،’25 فروری2020ء کو وہ اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری ساتھ بیٹھے تھے جب ان کے پاس وزیر صحت سندھ ڈاکٹر عذرا پیچیھو کا فون آیا اور انہوں بتایا کہ سندھ میں کورونا کا شکار پہلا مریض سامنے آگیا ہے-27 فروری 2020 کو انہوں نے اس ایشو پر اجلاس کا انعقاد شروع کیا اور آج تک وہ اس سلسلے میں اقدامات اٹھارہے ہیں جبکہ کورونا وبا کو سندھ میں داخل ہوئے 101 دن ہوگئے ہیں-27 فروری کے اجلاس میں ان کو بتایا گیا کہ کراچی کے ہسپتالوں میں کل 14 وینٹی لیٹر ہیں تو انھوں نے انڈس ہسپتال کے ڈاکٹر عبدالباری کو کہا کہ وہ سندھ حکومت کے وینٹی لیٹر خریدنے کی تیاری کریں کیونکہ سندھ حکومت کا سرکاری طریقہ کار کافی لمبا تھا-ہم نے غیرسرکاری گروپوں سے وینٹی لیٹر کی جلد دستیابی کے لیے ایم او یو سائن کیے-

ہسپتالوں میں کورونا ٹیسٹ کی استعداد

چیف منسٹر سید مراد علی شاہ نے بتایا کہ 28 فروری 2020 تک آغا خان ہسپتال کراچی کی کورونا ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت 80 مریض یومیہ تھی- انڈس ہسپتال میں یہ سہولت نہیں تھی لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ اسے فوری شروع کرسکتے ہیں- سید مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے فوری طور پر چھیانوے سو ٹیسٹنگ کٹس کی خریداری کا آڈر جاری کردیا-

سندھ میں یومیہ کورونا ٹیسٹ کی جو استعداد 80 مریض تھی وہ بڑھ کر اب سات ہزار یومیہ ہوگئی ہے- اور کورونا ٹیسٹ کی سہولت سندھ کے نو اضلاع کے ہسپتالوں میں موجود ہے جہاں پر کورونا ٹیسٹ لیبارٹری بنادی گئی ہے-اور اس معاملے میں سندھ دیگر صوبوں سے اگے ہے-اور سندھ کے نو اضلاع میں کورونا ٹیسٹ لیب میں کورونا ٹیسٹ کرنے کی یومیہ صلاحیت کے پی کے سے کہیں زیادہ اور بہتر ہے،جہاں گزشتہ سات سالوں سے پی ٹی آئی حکمرانی کررہی ہے- اس کے باوجود پی ٹی آئی کہتی ہے کہ سندھ میں کورونا وبا سے نمٹنے کے لیے سندھ نے کیا؟

“28 فروری کو ہم نےتب تک بیرون ملک سے آنے والے 45،000 مسافروں کا ڈیٹا اکٹھا کیا اور ہر ایک مسافر سے کورونا کی علامت بارے پوچھنے کے لیے رابطہ کیا-جبکہ محکمہ صحت سندھ نے کراچی ائرپورٹ پر محمکہ سندھ کی ٹیمیں تعینات کردیں جو ہر مسافر کی سکریننگ کرتی تھیں-جبکہ ائرپورٹ وفاق کے کنٹرول میں تھے اور یہ کام بھی وفاق کے کرنے کا تھا جو سندھ حکومت نے رضاکارانہ طور پر کیا-یکم مارچ کو وزیرتعلیم سندھ سے مشاورت کے بعد ہم نے سندھ بھر کے تعلیمی اداروں کو  بند کرنے کے ساتھ ساتھ ہم نے عوام کے رش والی جگہوں کو بھی بند کرنے کا فیصلہ کیا- پی ایس ایل کرکٹ میچ بنا کراؤڈ کے کرائے گئے- میں 8 مارچ کو کورونا کے ایک مریض سے ملا تھا جس کے بعد میں نے خود کو قرنطین کرلیا لیکن میں نے آئسولیشن میں بھی کام جاری رکھا اور ویڈیو کال پر اجلاس کی صدارت کرتا رہا-11 مارچ کو میرا کورونا ٹیسٹ منفی آيا تو میں نے آئسولیشن ختم کی- اس کے بعد وزیراعظم  کی دعوت پر میں اور صوبائی وزیر صحت سندھ وفاقی حکومت کے بلائے گئے اجلاس میں شریک ہوئے- اجلاس میں اس بات کی نشاندہی ہوئی کہ پوری دنیا میں اس وقت ایک لاکھ اسی ہزار کورونا کے مریض تھے-اس پر میں نے وزیراعظم پاکستان جو وفاقی وزیر صحت بھی ہیں کو مشورہ دیا کہ 15 مارچ سے 31 مارچ 2020 تک تمام پروازوں کو بند کردیا جائے- لیکن میری تجویز نہیں مانی گئی- وفاقی لیجسلیٹو لسٹ کے مطابق سرحدوں کا انتظام و انصرام وفاق کے ماتحت ہوتا ہے اور یہ وفاق کا فرض بنتا تھا کہ وہ تمام سرحدوں کو بند کرتی اور تفتان سرحد پر ہی ملک میں داخل ہونے والوں کو آئسولیٹ کرنے اور وہیں ان کا کورونا ٹیسٹ کے آڈر کرتی لیکن اس نے یہ کام نہ کیا اور بلوچستان حکومت جو کرسکتی تھی اس نے کیا-1380 افراد تفتان کے باڈر سے پاکستان آئے جن کو باڈر پر ہی بلوچستان حکومت نے آئسولشن میں رکھا- لیکن جب یہ زائرین بعذریعہ بس سکھر آئے تو وہاں ان کا کورونا ٹیسٹ ہوا جس میں 200 زائرین کورونا وائرس میں مبتلا پائے گئے-ان کو لیبر کالونی میں رکھا گیا اور صحت یابی کے بعد ان کے گھروں کو روانہ کیا گیا-

سندھ اور وفاق کی کورونا وبا سے نمٹنے کے لیے مالیاتی پوزیشن کا موازانہ

چیف منسٹر سندھ نے کورونا وبا سے نمٹنے اور ریلیف ورک کے حوالے سے وفاق اور صوبہ سندھ کی مالیاتی پوزیشن کا معائنہ کرتے ہوئے بتایا کہ وفاقی حکومت کے پاس بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا فنڈ ہے، گندم کی خریداری کے لیے فنڈز ہیں،بین الاقوامی ایڈ ہے، آئی ایم ایف سے مالیاتی امداد کا معاہدہ ہے جو وفاقی حکومت کی پوزیشن قرض لینے کے لیے مستحکم بناتے ہیں-جبکہ ٹاپ کے صنعتکاروں، سرمایہ داروں،تاجروں اور دولت مند لوگوں نے وزیراعظم کے قائم کردہ کورونا فنڈ پروگرام میں بھاری بھرکم چندہ جمع کرایا ہے- جبکہ اس کے مقابلے میں صوبہ سندھ محض 15 ارب روپے تک کے قرضے لے سکتا ہے- سندھ حکومت نے ان روکاوٹوں کے باوجود لاک ڈاؤن کے دوران عوام کو ریلیف پہنچانے کے لیے اپنی استعداد سے بڑھ کر ریلیف پہنچایا- سندھ حکومت نے ریلیف آرڈیننس جاری کیا جسے بہت لیت و لعل کے بعد گورنر  نے دستخط کرکے نافذ العمل ہونے دیا- بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور نادرا سے درکار مستحق لوگوں کے ڈیٹا کی فراہمی میں روکاٹیں ڈالی گئیں-

چیف منسٹر سندھ سید مراد علی شاہ نے اپنی تقریر کے دوران ڈاکٹروں سمیت صحت ملازمین کو زبردست خراج تحسین پیش کیا- انہوں نے ڈاکٹر باری، ڈاکٹر فیصل، پروفیر ڈاکٹر سعید قریشی، عالمی ادارہ صحت کی ڈاکٹر سارا،ڈاکٹر قیصر سجاد اور ڈاکٹر ادیب الح

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here