نوٹ: درج ذیل میں مولانا رجب علی وارثی دامت برکاتہ کی تقریر کا متن پیش کیا جارہا ہے جو انہوں نے نماز عشاء کے بعد اپنے مدرسے کے مدرسین،مفتیان کرام اور طلباء کے سامنے دیا

اللہ کی پناہ مانگتا ہوں شیطان مردود (کے شر سے بچنے کے لیے)-اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے- سب تعریف اللہ کے لیے ہیں جو سب جہانوں کا رب ہے۔ ہم اس کی عبادت کرتے ہیں اور ہم اسی سے مدد طلب کرتے ہیں- ہمیں سیدھی راہ چلا- ان لوگوں کا راستا جن پر تیرا انعام ہے- جو نہ تو تیرے غضب کا شکار ہوئے اور نہ ہی وہ گمراہ ہوئے- اے اللہ تو درود و سلام بھیج  محمد و آل محمد پر بھیج جیسے تو  نے درود و سلام بھیجا تھا ابراہیم اور آل ابراہیم پر-اے اللہ تو برکت بھیج محمد و آل محمد پر جیسے تو نے برکت بھیجی ابراھیم و آل ابراھیم پر-

تعوذ و تسمیہ و حمد و دورد و سلام کے بعد میں اپنے سننے والوں کے سامنے یہ بات رکھنا چاہتا ہوں کہ ہم نے آج ایک ویڈیو کلپ وٹس ایپ مسیج میں دیکھا جو ہمارے ایک دوست نے بھیجا تھا- اس ویڈیو کلپ میں تحریک لبیک یارسول اللہ کے سربراہ ساکن لاہور اشرف جلالی نے باغ فدک کے مسئلے کے تناظر میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جگر گوشہ،سیدۃ النساء في الجنۃ،صدیقۃالکبری و طاہرہ مطہرۃ جناب فاطمۃ زھرا سلام اللہ علیھا کے موقف اور رائے کو لیکر ان کے لیے “مخطیئۃ” کا لفظ استعمال کیا(اللہ پاک ہم سب کی زندگی میں ایسا وقت نہ لائے جب ہم اہل بیت اطہار کے کسی ایک فرد کے بارے میں ایسا یا اس سے ملتا جلتا لفظ استعمال کریں- سب کہہ دیں: اے اللہ میں ایسی جہالت میں گرفتار ہونے سے بچنے کے لیے تیری پناہ میں آتا ہوں-

علامہ کوکب نورانی دامت برکاتہ نے اپنے ہاتھ  سے لکھی ایک تحریر میں اشرف جلالی کو فوری طور پر ایسی جسارت پر اللہ سے توبہ مانگنے اور اپنی رائے سے رجوع کرنے کو کہا ہے۔

لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ اہلسنت و جماعت جیسے مسلک حق کے منابر پر بیٹھے کچھ لوگ یہ کیسی باتیں کررہے ہیں؟ لوگ ٹھیک کہتے ہیں یہ تکلم،یہ انداز، یہ طرز اہلسنت و جماعت میں کبھی کسی نے نہیں اپنایا- دیوبندی فرقہ ہو یا اہلحدیث کہلانے والے غیرمقلد ہوں ان کے ہاں تو ہمیں ایسے تکلم اور ایسے انداز سو کے ساتھ ایسے معاملات پر گفتگو نظر آتی ہے لیکن ہمارے بزرگان دین،علمائے اسلام، محدثین کبار، اہل الفقہ  نے کبھی بھی ایسے معاملات میں بے ادبی اور طعن کا راستا اختیار نہیں کیا-

 ایسے معاملات جو السابقون الاولون من المہاجرین و الانصار اور اہل بیت کے درمیان ہوئے جو انتہائی حساس اور نازک ہیں اور ان مقامات کی نزاکت کے سبب علماء و مشائخ اہلسنت کے جمہور نے ‘مسلک سکوت’ اس باب میں اختیار کیا کہ کوئی لفظ ایسا نہ نکلے جس سے طعن و بے ادبی کا پہلو نکلے- باغ فدک کے مسئلے پر اہل سنت کے جتنے بھی جید علماء نے قلم اٹھایا انھوں نے کسی ایک جگہ بھی جناب سیدہ فاطمۃ زھرا سلام اللہ علیھا کے بارے میں ویسے کلام نہ کیا جیسے اشرف جلالی نے کیا اور کسی نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ وہ کسی جگہ سہوا بھی آپ سلام اللہ علیھا کی شان میں ایسی بے ادبی کریں کہ آپ کے کسی موقف کو لیکر آپ کے لیے استغفراللہ، العیاذ باللہ ،نقل کفر، کفر نباشد خاطئی یا مخطیئۃ جیسے ایمان سوز الفاظ استعمال کریں-

ہم سے یہ بھی پوچھا جارہا ہے کہ اس طر ح کے رجحان کو کیا نام دیں-

ہم از حد احتیاط کا دامن تھامیں تو واللہ باللہ یہ مائل بہ ناصبیت،اقرب الی النصب ہے- ایسا رویہ بالآخر سلب ایمان تک لیجاسکتا ہے

اہلسنت و جماعت کے اندر بدقسمتی سے گزشتہ ایک سال سے ایک ایسا گروہ پیدا ہوگیا ہے جو بعض معاملات میں اہلسنت و جماعت کے جمہور علماء و مشائخ کے عقیدے اور راہ کو ترک کرچکے ہیں- جب مشاجرات صحابہ کرام اور خاص طور پر حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کے خلاف بغاوت کرنے والوں، ان کی بیعت نہ کرنے اور بیعت کرکے توڑ دینے والوں اور ایسے آپ کی شان میں توہین آمیز الفاظ کا استعمال کرنے والوں کا معاملہ آتا ہے جن کا شمار صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین میں ہوتا ہے اور اہلسنت و جماعت کے ہاں ایسے صحابہ کا تا وفات صاحبان ایمان رہنا ثابت ہے تو ان کے بارے میں مسلک سکوت کو ترک کردیا گیا- اور اہلسنت کا مسلک جمہور ان سب معاملات میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے حق پر ہونے کا ہے- لیکن مذکورہ گروہ نے کبھی تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا “عرس” منایا- جو کبھی شعار اہلسنت و جماعت نہیں رہا- ہمارے ہاں نہ ہی کبھی اللہ کے گھر مساجد اور مدارس کے نام ان کے نام پر رکھے گئے تھے- اہلسنت و جماعت نے ہمیشہ خلافت علوی اور خلافت امام حسن کے زمانے میں موجود کیمپوں میں سے اپنے آپ کو وہاں رکھا جسے شیعان علی المرتضی کیمپ کہا جاتا ہے اور اسے ہی حق والوں کا کیمپ خیال کیا جبکہ صلح عام سے قبل تک اہلسنت و جماعت نے اہل شام اور ان کے اتحادیوں کو باغی قبیلہ ہی سمجھا- اور ان میں جو شرف صحابیت رکھتے ہیں ان کے بارے میں زان طعن دراز نہ کرنے کا مسلک رکھا- لیکن آج بدقسمتی سے اہلسنت و جماعت میں سے ایک گروہ نے مسلک سکوت ترک کردیا اور ان کا رویہ وہی ہوگیا ہے جو دیوبندی فرقہ اور اہلحدیث کہلانے والے غیرمقلد مولویوں کا ہے-

اشرف جلالی جیسوں کی جسارت اور سوئے بے ادبی نے آج سوشل میڈیا پر روافض کی جانب سے جو خلفائے راشدین میں خاص طور پر خلفاء ثلاثہ رضوان اللہ علیہ اجمعین کی شان میں بے ادبی کی جارہی ہے اس کے بالواسطہ ذمہ دار اشرف جلالی جیسے لوگ ہیں- ان کی وجہ سے اہلسنت و جماعت پر العیاذ باللہ یہ تہمت اور بہتان لگایا جارہا ہے کہ ہم اہل بیت اطہار سے سینے میں کدورت رکھتے ہیں- ہمارے دشمنوں نے بھی کبھی ہم پر یہ الزام نہیں لگایا تھا- ہم پر وہابی، خارجی، ناصبی اور دیوبندی بدعتی ہونے کا، مشرک ہونے کا الزام لگاتے رہتے ہیں اور وہ ہمیشہ ہمارے مسلک کو عقیدت میں ڈوبا مسلک قرار دیتے رہے ہیں- اور آج اشرف جلالی جیسے گروہ کے سبب ہم پر ‘بے ادب، گستاخ’ ہونے کا بھی الزام لگ گیا- یہ دن ہمیں کھلے دشمنوں کے ہاتھوں دیکھنا نہیں پڑا بلکہ ان کے ہاتھوں دیکھنا پڑا ہے جنھوں نے ہماری شناخت کو اپنے چہروں پر سجا رکھا ہے-

ہم اہلسنت کے ہر مرد و زن اور نوجوانان اہلسنت کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اپنی صفوں میں ایسے مریضوں کو پہچان لیں جن کے دماغ ناصبیت کے وائرس سے متاثرہ ہیں اور ان میں سے اکثر کو یہ پتا ہی نہیں چل رہا کہ وہ اس مرض کا شکار ہیں- اور کوئی شک نہیں ہمارے اندر ایک گروہ ایسا بھی ہے جس کا دماغ رافضی وائرس سے متاثرہ ہیں اور انہوں نے بھی بزرگان دین و ملت کے مسلک احتیاط و سکوت کو ترک کردیا ہے اور وہ یہ کہنے سے آگے بڑھ گیا کہ جنگ جمل سے لیکر نھروان تک اور آگے صفین تک سب میں مولا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم حق پر تھے اور خلافت مرتضوی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والے صلح عام سے پہلے تک باغی قبیلے میں سے تھے- لیکن جو شرف صحابیت رکھتے ہیں ان کے بارے میں کلمہ طعن نہیں نکالا جائے گا- لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کے برخلاف یہ کہنا شروع کردیں کہ جناب علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کے مقابل آنے والے اجتہادی غلطی کا شکار ہوئے اور ان کو  مقابل آنے کے عمل کا ایک درجہ ثواب اور جو حق پر تھے ان کو دو درجے ثواب ملے گا- یہ اہلسنت و جماعت کا کے جمہور کا کبھی مسلک نہیں رہا-

ہم واضح طور پر اپنے نوجوانان اہلسنت کو باور کرانا چاہتے ہیں ہمارا موقف مشاجرات صحابہ کے باب میں اور ایسے ہی مقام اہل بیت اطہار بارے نہ تو خوارج قدیم کا سا ہے اور نہ ہی روافض کا سا ہے- نہ ہی ہمارا موقف اہل بیت اطہار اور مشاجرات صحابہ کرام کے بارے میں وہ ہے شیخ ابن تیمیہ کا تھا یا پھر امام الوہابیہ محمدبن عبدالوہاب نجدی کا تھا- نہ ہی ہمارا موقف ہندوستان کا امام الوہابیہ شیخ اسماعیل دہلوی اور سید احمد بریلوی اور اس ہی طرح ان کے پیروکار کئی دیوبندی شیوخ اور غیر مقلدین شیوخ جیسا ہے- ہمارا موقف عقائد کی کتب میں موجود ہے- جیسے شرح نسفی سے واضح ہوتا ہے-

آخر میں  آپ کی سماعتوں کی نذر کچھ فضائل جناب بانوئے نمونہ اسلام فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کرتا ہوں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

چار عالم میں چار خواتین سب سے بہترین ہیں: حضرت مریم دختر عمران،آسیہ زن فرعون،خدیجہ دختر خویلد، فاطمہ دختر محمد

ایسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

اے علی رض تم مجھے عزیز تو فاطمہ س-ا-ع مجھے محبوب ہے

 

حضرت عائشہ صدیقہ ام المومنین رضی اللہ عنھا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے پوچھا کہ ان کو سب سے محبوب کون ہے تو فرمایا

خدیجہ ، اس کے بعد فاطمہ

آپ نے فرمایا

اے فاطمہ جو تجھے غضبناک کرے گا اللہ اس پر غضبناک ہوگا اور جس سے آپ خوش ہوں گی اللہ اس سے خوش ہوگا

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول تھا کہ اگر آپ سفر کے لیے مدینہ سے باہر جاتے تو سب سے آخر میں آپ جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا سے ملتے، ان کا ماتھے کا بوسہ دیتے اور پھر ان سے رخصت ہوتے اور واپسی پر سب سے پہلے آپ فاطمہ سلام اللہ علیھا کے گھر جاتے اور ان کی خیر و عافیت پوچھتے اور پھر دوسروں سے ملتے-

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فاطمہ(سلام اللہ علیھا)میرے جگر کا ٹکڑا ہیں-

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا

خدا کی قسم، بعد از رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میں نے فاطمہ سلام اللہ علیھا کو ہی سب سے زیادہ سچ کہنے والا پایا-

حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے روایت ہوا

اللہ کے ہاں فاطمہ سلام اللہ علیھا کے اسم ہائے گرامی میں فاطمہ،صدیقہ،مبارکہ،طاہرہ، زکیہ، رضیہ،مرضیہ،محدثہ، زھرا –

فاطمہ نام اس لیے ہے کہ آپ سے شر اور بدی ہمیشہ کے لیے دور کردیے گئے تھے-

اللہ پاک ہم سب کو محبت و مودت رسول اللہ و اہل بیت اطہار و احترام صحابہ کرام سے سرفراز رکھے-(آمین)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here