لاہور- سیالکوٹ موٹروے پر ایک شادی شدہ عورت کے ساتھ ہوئے ریپ کے دوران پنجاب پولیس کی غفلت پر تنقید ختم نہیں ہوئی تھی کہ گوجرانوالہ میں پنجاب پولیس کے اہلکاروں کی مبینہ درندگی کا واقعہ سامنے آگیا- اوباشوں سے کپڑے پھٹ جانے کے بعد ون فائیو پر پولیس کو کال کرکے بلانے والی لڑکی، دو پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں ریپ ہوئی، سی سی پی او گوجرانوالہ نے لڑکی کو جھٹلایا، والد کی ہمت سے معاملہ میڈیا پر آگیا ہے- واقعہ 10 ستمبر کو ہوا- پولیس دس دن تک لڑکی پر واقعہ سے انکاری ہونے کے لیے دباؤ ڈالتی رہی- تادم تحریر اس قدر خوفناک واقعے پر سی ایم پنجاب نے کوئی نوٹس نہیں لیا- اس سے پہلے بہاولپور میں ایک ریپ کا شکار لڑکی نے پولیس کے ملزمان کا ساتھ دینے کے رویے سے تنگ آگر خودکشی کرلی تھی-

پاکستان میں رہنے والے ہی نہیں بلکہ پاکستان سے باہر رہنے والے بھی وزیراعظم عمران خان اور پنجاب کے سی ایم سردار عثمان بزدار سے ایک ہی سوال پوچھ رہے ہیں کہ نئے پاکستان کے نئے صوبے پنجاب اور ریاست مدینہ کے اندر پنجاب پولیس کا جو کردار ہے وہ پہلے سے بھی زیادہ شرمناک اور قابل مذمت کیوں ہوگیا ہے؟

پنجاب میں پانچ مرتبہ آئی جی تبدیل ہوئے ہیں- اور درجنوں شہروں میں ڈسٹرکٹ پولیس افسران بھی تبدیل کیے گئے لیکن پولیس کا عوام دشمن رویہ اور امیج بدل نہیں پایا،کیوں؟

پنجاب میں ایم این ایز، ایم پی ایز، پاکستان تحریک انصاف اور دیگر حکومتی اتحادی جماعتوں کے بااثر افراد تھانوں پر ایسے ہی اثر انداز ہوتے ہیں جیسے سابقہ ادوار میں ہوتے آئے تھے- لوگ یہ سوال بھی کرتے نظر آتے ہیں کہ اگر سندھ میں پولیس کا سیاسی کردار کا خاتمہ تھانوں میں انصاف کی فراہمی کی پہلی سیڑھی ہوسکتا ہے تو پھر یہی اصول پنجاب میں لاگو کیوں نہیں ہوتا؟

سابقہ دور حکومت میں پنجاب کے تمام اضلاع کے تھانوں میں فرنٹ ڈیسک قائم کیے گئے تھے اور یہ دعوی کیا گیا تھا کہ اب کسی بھی درخواست کو ردی کی ٹوکری میں نہیں ڈالا جاسکے گا، لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ جب تک ایس ایچ او اور اس کے ساتھ کی ٹیم کو راضی نہ کیا جائے ایف آئی آر تک کا اندراج بہت مشکل ہے- اور خاص طور پر اکیلی عورت تو ان تھانوں میں شکایات لیکر جائے تو اسے جنسی ہراسانی سے لیکر ریپ تک کا خطرہ لاحق ہوتا ہے- اکثر تھانوں میں لیڈی کانسٹیبلز، اے ایس آئی اور ایس آئیز ہوتی ہی نہیں ہیں- اور مرد پولیس اہلکاروں کا رویہ کیا ہوتا ہے، اس کا اندازہ ہم گوجرانوالہ میں پولیس اہلکاروں کی مظلوم لڑکی سے کی جانے والی زیادتی سے لگا سکتے ہیں-

وزیراعظم عمران خان پر عوام کی طرف سے یہ بھی شدید تنقید کی جارہی ہے کہ وہ سیکورٹی ایجنسیوں کے ماورائے عدالت اقدامات پر سخت نوٹسز لینے اور قانون توڑنے والے سرکاری اہلکاروں کے خلاف سخت اقدام اٹھانے کا جو دعوے کرتے رہے،وہ جھوٹے ثابت ہوئے ہیں- وزیراعظم قانون کے نزدیک سب کے برابر ہونے کا عملی مظاہرہ کرکے دکھانے میں ناکام رہے ہیں- اب ان کے پاس اپنے دعوے کے جھوٹ نکل آنے پر کئی عذر بھی ہیں-

عوام معاشی خوشحالی ، نوجوان روزگار کے میسر آنے کے وعدوں کو بھول کر اپنی عزت و آبرو بچانے کی فکر میں لگ گئے ہیں- ان کی کمر بجلی، گیس کے ہوش ربا بل توڑے دے رہے ہیں- گھر کا خرچ چلانا بہت مشکل ہوچکا ہے- لیکن  ان سب باتوں کی پرواہ عمران خان اور ان کی ٹیم کو یکسر نہیں ہے-

کبھی کبھی تو ایسے لگتا ہے جیسے وہ اب تک خود کو اپوزیشن میں سمجھتے ہیں- وہ ہر بات کا الزام حزب اختلاف کے سر تھونپ کر ذمہ داری سے عہدہ براہ ہوجاتے ہیں جبکہ اب حکومت ان کی ہے- ادارے جتنے ان کے تابع ہیں، اتنے تو کبھی وہ کسی سابق حکومت کے ہوئے نہیں تھے- پنجاب جیسے بڑے صوبے کی حکمرانی بھی ان کے پاس ہے- لیکن ہمیں ایسا کیوں لگتا ہے کہ ان کو پنجاب اور کے پی کے میں صورت احوال بہتر بنانے سے کہیں زیادہ فکر سندھ حکومت اور اپوزیشن کا “قبلہ” درست کرنے کی ہے-

حکومت اپنے آپ کو بند گلی میں دھکیل چکی ہے- وہ اس قابل بھی نہیں ہے کہ گلگت بلتستان کی آئینی حثیت کے تعین اور آئیندہ انتخابات بارے فیصلوں کے لیے حزب اختلاف کو اپنے ساتھ بیٹھنے پر آمادہ کرپائے- کتنے شرم کی بات ہے کہ یہ فیصلے کرنے کے لیے جی ایچ کیو میں اجلاس بلایا گیا- اس اجلاس میں مسلح افواج کے سربراہ کا زیادہ وقت یہ صفائی دینے میں گزر گیا کہ ان کا کوئی سیاسی کردار نہیں ہے- چار دن بعد کل جماعتی کانفرنس میں اپوزیشن نے مشترکہ اعلامیے میں اسٹبلشمنٹ سے غیر سیاسی ہونے کا مطالبہ کردیا- اس سے تو یہ تاثر ملا ہے کہ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے حزب اختلاف کو جو صفائی دی تھی ، اسے حزب اختلاف نے مسترد کردیا ہے-

کہا جاتا ہے کہ سلیکٹرز اور سلیکٹڈ دونوں الطاف حسین کے بعد نواز شریف اور ان کی بیٹی کو آؤٹ کرکے پنجاب میں “مکمل فتح” چاہتے تھے- نواز شریف کی اے پی سی میں تقریر اور مریم نواز کی شرکت نے ایک بار پھر فتح کے تاثر کو دور کردیا- پنجاب میں مسلم لیگ کے ممبران کو توڑنے کے جو دعوے تھے وہ ٹھس ہوگئے ہیں- نواز شریف اور مریم نواز کی اینٹی اسٹبلشمنٹ لائن کی مقبولیت نے شہباز شریف کی مصلحت پسندی کی لائن سے سبقت لےگئی اور پنجاب میں نواز شریف کا ڈسکورس ہی عام کارکن پر غالب نظر آرہا ہے- جبکہ ادھر سندھ میں پی پی پی کو رول بیک کرنے کا مشن بھی مشن امپاسبل ثابت ہوا ہے-

پاکستان جمہوری تحریک کے نام سے اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد اور نواز لیگ و پی پی پی میں بڑھتی ہوئی یگانگت نے حکومت کو ہی نہیں بلکہ اسٹبلشمنٹ کےبالادست جزو کو بھی پریشانی کا شکار کرڈالا ہے-

اس دوران پاکستان میں شیعہ کمیونٹی کے خلاف کراچی و اسلام آباد سمیت کئی شہروں میں فرقہ پرست ریلیوں نے یہ سوال بھی پیدا کردیا ہے کہ کیا حکومت خود فرقہ پرست،مذہبی انتہا پسند عناصر کو فری ہینڈ دے رہی ہے؟ اسلام آباد میں مذہبی انتہا پسندوں کے جلسے میں ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کے اسٹیج پر فورتھ شیڈول لسٹ میں شامل افراد کے ساتھ بیٹھنے کی تصویر کے وائرل ہونے نے بھی کئی سوالات اٹھائے ہیں-

ہندوستان کے نیشنلسٹ میڈیا کو اینٹی شیعہ بڑی بڑی ریلیوں سے یہ موقعہ بھی ملا ہے کہ وہ بتائیں کہ پاکستان میں ہندؤ، کرسچن، احمدی، سکھ تو مذہبی جبر اور عتاب کا شکار تھے ہی ،اب شیعہ برادری کے خلاف بھی بڑے پیمانے پر مذہبی جبر دیکھنے کو مل رہا ہے اور ہزاروں افراد کی ریلیوں میں اعلانیہ “کافر،کافر” شیعہ کافر کے نعرے سنائی دیتے ہیں- جبکہ شیعہ برادری کے عزاداری کے جلوسوں پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ دیوبندی فرقے کے مفتی اعظم مولانا تقی عثمانی کی طرف سے سامنے آیا ہے-

چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر باجوہ نے 17 ستمبر 2020ء کو جی ایچ کیو میں بلاول بھٹو زرداری، شہباز شریف سمیت اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے نمائندوں کے سامنے بھی پاکستان میں فرقہ وارنہ تناؤ کے بڑھ جانے کا زکر کیا- لیکن مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ خود بھی کالعدم تنظیموں کے رہنماؤں کے ساتھ کھڑے نظر آجاتے ہیں جبکہ کالعدم تنظیموں کی ملک گیر اینٹی شیعہ ریلیوں میں شرکت اور امام بارگاہوں کے محاصرے اور ان پر پتھر برسانے کی فوٹیج بھی ان کی نظر سے کیسے پوشیدہ رہ سکتی ہیں- وہ جو مشورہ فرقہ واریت کے حوالے سے اپوزیشن کو دے رہے تھے، وہ انہوں نے حکومت کو کیوں نہیں دیا-

پاکستان میں عسکری اسٹبلشمنٹ کے غیر اعلانیہ ترجمان کی حثیت رکھنے والا پرنٹ و الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے سیکشن ہندوستانی نیشنلسٹ میڈیا اور سوشل میڈیا پر اینٹی شیعہ ریلیوں بارے تبصرے اور پوسٹوں کو لیکر یہ باور کرانے کی کوشش کررہا ہے کہ پاکستان میں اس کے پیچھے را یا بھارتی ایجنٹ ہیں- یہاں سوال یہ جنم لیتا ہے کہ اگر یہ بھارتی ایجنٹوں کا کام ہے تو حکومت نے ابتک کالعدم تنظیموں کے سربراہوں اور مذہبی انتہا پسندوں کو حراست میں کیوں نہیں لیا؟

کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ اسٹبلشمنٹ کے سیاسی کردار اور اس کے کئی ایک کرداروں کے مالیاتی اثاثوں اور کئی ایک سیکشن کی کمرشل سرگرمیوں پر تنقید اور مزاحمت میں اضافے نے فرقہ واریت کے جن کو پھر سے بوتل سے باہر نکالے جانے پر مجبور تو نہیں کردیا؟ حکومت ، اسٹبلشمنٹ کے اندر یا باہر جو بھی اینٹی شیعہ فسادات کا کھیل کھیلنے کی کوشش کررہے ہیں، وہ بجا طور پر آگ سے کھیل رہے ہیں- ایک ایسی آگ جو لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بجھے ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here