“سوز خوانی کا فن” کراچی کے معروف شاعر و ادیب سید عقیل عباس جعفری کی مرتب کردہ نئی تصنیف ہے- یہ کتاب لوک ورثہ پبلی کیشنز سے شائع ہوئی ہے- مجھے سید صاحب نے اطلاع دی تھی کہ وہ مذکورہ کتاب مجھے ارسال کررہے ہیں- اور تیسرے دن بعذریعہ ڈاک یہ کتاب مجھے موصول ہوئی- میں نے شوق سے اس کتاب کی ورق گردانی شروع کی- ابتدا میں ڈاکٹر ہلال نقوی کا لکھا تعارف تھا- ان کی تحریر نے مجھے اپنی گرفت میں لیا- سوز خوانی کی تاریخ مرتب کرنے میں ہمارے ناقدین اور اہل تحقیق کی غفلت کا ذکر کرتے ہوئے نقوی صاحب نے لکھا

وہ اصناف و فن جن کا تعلق کسی نہ کسی زاویے سے مذہب کے دائرے میں آجاتا ہے ان پر ہمارے نقادوں اور اہل تحقیق کی نظر نہیں جاتی——–

 

اگر میں کسی تکلف اور احتیاط کو ایک طرف کرکے بات کروں تو دیانت دارانہ حقیقت تو یہی ہے کہ ہمارے تعصبات نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے- ادب وہ واحد تہذیبی رویہ ہے جو ہمیشہ انسانیت کی ترویج و فروغ میں آگے آگے رہا ہے لیکن افسوس سے یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ ادبی حلقوں نے بھی انسان کو تقسیم کردیا- کربلا کسی گروہ یا فرقے کا مسئلہ نہیں ہے۔۔۔۔۔

 

سوز خوانی ،صفحہ پانچ،مطبوعہ ورثہ پبلی کیشنز

اس کتاب کے تعارف کے بعد “حرف آغاز” کے نام سے سید عقیل عباس جعفری نے اپنی کتاب کا مقدمہ پڑھنے والوں کے سامنے رکھا- وہ لکھتے ہیں

 

مجھے جب سوزخوانی کے فن سے دلچسپی پیدا ہوئی تو اس فن کے اسرار و رموز جاننے کی ہمک ہوئی- اس موضوع پرکچھ پڑھنے کا تجسس ہوا مگر معلوم ہوا کہ اس موضوع پر کام نہ ہونے کے برابر ہے اور یہ کام بھی ان کتابوں اور رسالوں میں مضامین کی شکل میں بکھرا ہوا ہے——– ایسے میں میرے احباب علامہ ارتضی عباس نقوی اور فرحان رضا نے مشورہ دیا کہ کیوں نہ میں خود ہی سوز خوانی کی کتاب مرتب کرنے کا بار اٹھاؤں- چناچہ ڈاکٹر نئیر مسعود کی کتاب مرثیہ خوانی کا فن اور فرحان رضا کی کتاب تحت اللفظ خوانی کے انداز کو رہنما بنایا اور یوں یہ کتاب وجود میں آگئی

 

کتاب میں 14 ابواب ہیں جن میں پہلے پانچ ابواب میں سوز خوانی کا تعارف، ابتدائی خدوخال، ابتدائی اساتذہ کا احوال، سوز خانی کے عناصر ترکیب اور سوزخوانی کے حرف و صوت کی تفصیل شامل ہے- چھٹے باب میں سوز خوانی کے مقبول ترین شعرا دلگیر و انیس اور دبیر کا ذکر ہے- ساتویں باب میں ہندوستان میں دبستان سوز کے اہم مراکز لکھنؤ، حیدرآباد(دکن) اور امروہا کا زکر ہے- آٹھویں باب میں پاکستان میں سوز خوانی کا آغاز و ارتقا کا احوال شامل ہے- نویں باب میں پاکستان میں سوزخوانی کے چند دبستان کا احوال ہے- اس باب میں سرائیکی زبان میں سوزخوانی کی عظیم الشان روایت اور اس کے بڑے مراکز جن میں ملتان، ڈیرہ جات کا بڑا کردار ہے کا تذکرہ بالکل ہی نہیں کیا گیا- حالانکہ سرائیکی زبان میں جس کے پہلے نام ملتان،ریاستی، جھنگوچی، ڈیروی وغیرہ ہوا کرتے تھے سوز خوانی کی تاریخ ماقبل نوآبادیاتی دور سے پہلے کی ہے- لیکن اس میں عقیل عباس جعفری صاحب کا قصور نہیں ہے- ان کی رسائی سرائیکی سوز خوانی کے بانیان اور بعد میں آنے والے سرائیکی سوز خوانوں تک نہیں ہوسکی ہوگی- دسواں باب سوز خوانی اور خواتین کے عنوان سے ہے- گیارھویں باب میں سوز خوانی کے موضوع پر اہم کتابوں کا تعارف ہے- بارھویں باب میں اصلاحات سوز خوانی پر بات کی گئی ہے- تیرھویں باب میں سوز خوانوں کے لیے چند ہدایات کا زکر ہے اور چودھویں باب میں ہندوستان میں سوزخوانی کے زوال کے اسباب کا جائزہ لیا گیا- اور آخر میں جن کتابوں سے استفادہ کیا گیا، ان کے نام لکھے گئے ہیں

 

جعفری صاحب نے مشکل کام کا بیڑا اٹھایا اور اسے خوش اسلوبی سے سرانجام دیا- اس کتاب میں انھوں نے ذکر کیا ہے کہ سوز خوانی کے فن کو آگے بڑھانے میں صرف شیعہ اثناعشری ہی سرگرم نہیں رہے بلکہ  اس فن کے موجدین میں  مولانا خواجہ حسن مودودی کا نام بھی شامل ہے جنھوں نے گداز کی تمام دھنوں کا انتخاب کرکے سوزخانی کے لیے مختص کیا

 

عقیل جعفری صاحب نے علماء کی رعایت میں لکھا ہے کہ اسلام نے موسیقی کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا- اسے لھو و لعب قرار دیا- اور ایک محدود طبقے کے ہاں محدود غنا کو مستحن سمجھنے کا ذکر کیا ہے- اگر انکی اس سے مراد تھیاکریسی و ملائیت ہے تو واقعی ان کی اکثریت نے اپنے تئیں اسلام میں مزامیر اور غنا دونوں کو حرام کہا لیکن اسلام میں جو عرفان و تصوف کی وسیع روایت ہے، اس نے اس کو جائز قرار دیا- ہندوستان میں اس ضمن میں صوفیائے چشت نے تو نہ صرف موسیقی و غنا بلکہ رقص کی بھی اجازت دی- خواجہ نظام الدین اولیا اپنے مرید خاص  امیر خسرو کے رقص سے اکثر محظوظ ہوا کرتے تھے- اور ان کی محافل میں ساز کے ساتھ دوران سماع جو غنا کے ساتھ ہوتی وجد میں رقص کیا جاتا تھا- اس کے علاوہ ہمارے ہاں ملامتیوں اور قلندریوں اور جمہور نے موسیقی اور دھمال وغیرہ کو فروغ دیا اور عملا ملائیت کے فتوؤں کو رد کردیا- اسی طرح شیعہ کی مذہبی پیشوائیت کے پیورٹن و کٹرپنتھی رویے اپنی جگہ لیکن شیعہ عوام نے اور شیعہ پس منظر سے آنے والے سوزخوانوں کی اکثریت نے موسیقی سے کٹھ ملاؤں کی نفرت کو خاطر میں نہ لاکر موسیقی سے اپنا شغف جاری رکھا اور سوزخوانی راگ راگنیوں میں کی جاتی رہی- اگرچہ یہ بات اس حد تک درست ہے جو امام بارگاہیں پیورٹن ملائیت کے اثر میں آئیں وہاں پر سوز خوانی قدرے کٹر پنتھی انداز میں شامل ہوئيں- دیکھا جائے تو شیعہ اسلام میں بھی اپنے طرز کی ایک وہابیت اور کٹر پنتھی رحجان سامنے آیا، جس کے ہاں ہندوستان کی صلح کلیت اور جامع شناخت اور تکثیریت کے الٹ چلنے اور کمپوزٹ کلچر سے الگ رہنے کا رجحان موجود ہے، جیسے سنّی اسلام کے اندر سے ہمیں وہابیت کا جنم نظر آتا ہے

 

یہ کتاب برصغیر پاک و ہند کی تہذیب اور ادب سے شغف رکھنے والے ہر شخص کو پڑھنے کی ضرورت ہے- اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ بھی ہونا چاہئیے تاکہ اور زیادہ لوگ فن سوز خوانی کی تاریخ سے آگاہی حاصل کریں- کتاب میں رابطہ کے لیے ای میل درج ہے

 

aqeelabbasjaffary@gmail.com

 

کتاب کے تقسیم کار فضلی بک سپر مارکیٹ ،507/3 ٹیمپل روڈ،اردو

بازار کراچی والے ہیں، ان سے کتاب کے حصول کے لیے رابطہ کیا

جاسکتا ہے   

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here