‘کفّار مکّہ ‘ پروفیسر عباس زیدی کا ناول ہے جسے روپا پبلیکشن انڈیا نے شایع کیا ہے۔ اس ناول کا لینڈ اسکیپ پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد اور اس سے ملحقہ شہر راولپنڈی ہے۔ اور ناول کا زمان و مکان ٹھیک سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی خودساختہ جلاوطنی کے بعد 18 اکتوبر 2007ء کے بعد شروع ہوتی ہے اور اس دوران بہت سے فلیش بیک ہیں جن میں جنرل ضیاء الحق کا دور آمریت،جہاد افغانستان، جہادازم، اقلیتوں سے روا رکھے جانے والا سلوک کی جھلکیاں بار بار دکھائی دیتی ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی ناگہانی شہادت کے پس منظر میں لکھا گیا یہ پہلا سنجیدہ ادبی کام ہے۔

لیکن حیرت انگیز طور پہ پاکستان اور پاکستان سے باہر بیٹھے انگریزی لبرل ایلیٹ لکھاریوں اور ناقدین کے ہاں اس ناول بارے کوئی گفتگو دکھائی نہیں دے رہی۔ کیوں؟ روپا پبلیکیشن نے بھی اس ناول کی زیادہ پروجیکشن نہیں کی۔ پروگریسو لبرل ہوں یا مذہبی جنونی یا سنٹر رائٹ سے تعلق رکھنے والے سب کے ہاں خاموشی ہے، کیوں؟ کیا یہ ناول اپنے کرافٹ کے اعتبار سے کمزور ہے؟ یا اس کا پلاٹ متاثر کن نہیں ہے؟ ہم نے یہ سوال بات سے بات نکالتے ہوئے کئی نامی گرامی لکھاریوں کے سامنے رکھا۔ انہوں نے اس کے کرافٹ اور پلاٹ دونوں کو ‘شاندار’ قرار دیا لیکن اس پہ ان کے قلم کیوں حرکت میں نہیں ہیں؟ اس سوال کا جواب ہمارے پاس نہیں ہے۔ حال ہی میں فاطمہ بھٹو اور محمد حنیف کے ناول آئے ہیں۔ دونوں ناولوں پہ پروگریسیو لبرل کا عمومی حلقہ بہت کچھ لکھ رہا ہے۔ ہم قسط وار اس کا اردو ترجمہ اپنی ویب سائٹ پہ شایع کررہے ہیں۔ امید ہے کہ قاری اس ناول سے ٹھیک انصاف کرپائے گا

 

عوام کے لیے بہار انقلاب کی بو ۔ آزادی، تبدیلی اور سماجی انصاف کی بہار کی آمد ہے! اب صوفی ڈھول کی تھاپ گولیوں کی ہلاکت انگیز آوازوں کی جگہ لے لے گی۔ اب فتح مند،محبت اور وحدت انسانیت کی فتح پہ مبنی صوفی دھمال بربریت اور تشدد کی جگہ لے گی!’ پروفیسر عمر کے اعلان نے کیفے منیر کے مغربی گوشے میں بجلی سی بھردی تھی

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here