میرے والد صاحب شیعہ اور والدہ سُنی ہیں ۔ میرے والد صاحب اور ددھیال نے کبھی اس موضوع پر بھول کر بھی بات نہیں کی ۔ کہ وہ دو مختلف فرقوں سے ہیں ۔ ہمیں یعنی بچوں کو گھر میں پرسکون ماحول ملا، محبت، احساس اور انسانیت۔

میں نے اپنے والدین کو مسلم، غیر مسلم، شیعہ ، سُنی، دیوبندی سب کے ہی کام آتے دیکھا ہے ۔ مختلف لوگوں سے ملتے یا ان کے کام آتے ہوئے اپنے والدین کو کبھی بھی کسی بھی قسم کی نفرت کے بغیر مدد کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔ ہمارے اندر بھی یہی رویئے رچ بس گئے اور فرقہ وارانہ تقسیم سے زخم زخم اس معاشرے میں گزارا مشکل لگتا ہے-

میرے دو بہنوئی اہلِ سنت خاندان سے ہیں ۔

اور میرے لئے ،میرے والدین کے لئے یہ فخر کی بات ہے کہ ہم نے اپنے آپ کو فرقہ وارانہ نفرتوں سے بالا رکھا ہے، ہمیشہ۔ آج بھی ۔

میں نے ایک قلمی یا فرضی نام سے فیس بک جوائن کی، تربیت کا اثر تھا کہ میری اپنی طبیعت ایسی تھی کہ جہاں کبھی ظلم دیکھتی، ضرور بولتی، لکھتی، کیمینٹ کرتی۔ یہ سوچے بغیر کہ کوئی کرسچین ہے یا احمدی ہے، شیعہ ہے کہ سُنی ہے ۔

پانچ چھے پہلے شیعہ پاکستانیوں پر مظالم پر بات کی، تو حیران کن بات ہوئی کہ ایک تو بے شمار شیعہ پاکستانیوں نے مجھے فرینڈ ریکوئسٹ سینڈ کی، دوسرا ان باکس تعریف ،گالیوں ، دھمکیوں اور غیر ملکی ایجنٹ ہونے کے الزامات سے بھر گیا ۔ پوسٹ پر جب گالی کیمینٹ کی جاتی میں ڈیلیٹ کر دیتی، ہاں ان باکس گالیاں اور دھمکیاں پڑھتی تو کُڑھتی رہتی ، 🙂 ۔ اچھے کی امید پر کبھی غلط رپلائی نہ کیا۔ زیادہ متعصب لوگوں کو بلاک کر دیا۔

بطور انسان کربلا میرے لئے اہم ہے ۔ محبتِ اہل بیت علیہم السلام سے نہال ہوں ۔

میں اپنے اس روّیے کو ترک نہیں کر سکی ۔ ظلم کے خلاف دل دکھی ہوتا ہے، ظالم کے خلاف بولتی ہوں چاہے کوئی بھی ہو۔

مختصراً یہ کہ

جو اچھا انسان نہیں، وہ اچھا مسلمان بھی نہیں، وہ اچھا سُنی بھی نہیں اچھا شعیہ بھی نہیں ۔

اصل چیز انسانیت ہے اور بس۔

عابدہ حسینی شمالی پنجاب پاکستان کے ایک شہر سے تعلق رکھتی ہیں، پیشے کے اعتبار سے استانی ہیں

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here