لینن نے کارل کاوتسکی کی مذمت میں جو “غدار” کا شہرہ آفاق جملہ کہا تھا، اس کی مارکس وادیوں نے ہمیشہ سے حوصلہ شکنی کی، جب کبھی ان کا جرمن-آسٹریائی نژاد اشتراکی کی تحریروں کا سامنا ہوا- لیکن یہ بات بھی سب کے سامنے ہے کہ اگر بالیشوک رہنما لینن نے کاوتسکی کے الٹے پاؤں پھر جانے پر اس پر شدید تنقید کی تو ساتھ ساتھ اس کے ابتدائی تحریری کام پر اس کی زبردست تعریف بھی ایسے بھی کی تھی

 

A revolutionary Marxism that lay decisive stress on the battle for democracy.

 

انقلابی مارکسزم جو جمہوریت کے لیے لڑائی  پر سب سے زیادہ زور دیتا ہے

 

مارکس کے بعد کی مارکس واد دنیا میں کارل کاؤتسکی سب سے متنازعہ ترین شخصیت رہا- بہت سارے لوگ اسے مارکس واد کا پوپ قرار دیتے رہے تو بہت سے لوگ لینن کے شہرہ آفاق لقب “غدار” سے اسے پکارتے رہے- وہ انیسویں صدی کے آخر میں سیکنڈ انٹرنیشنل اور جرمن سوشل ڈیموکریٹس میں مارکسی خیالات کو مقبول بنانے والا رہنما خیال کیا جاتا تھا- لیکن پہلی جنگ عظیم کے بعد کاوتسکی بالشیوک انقلاب کا سخت ناقد بن گیا- اور جواب میں لینن ازم کے مرکزی دھاروں نے اس کی شدید مذمت کی-

 

کاؤتسکی کے تصنیفی کام کی طرف حالیہ عشروں میں ماہرین تاریخ نے پھر سے توجہ کی ہے- یہ دوبارہ سے توجہ ازخود بہت متنوع ہے اور اس میں اس کے ابتدائی انقلابی دور سے لیکر کاؤتسکی کے بالشیویزم مخالف کاؤتسکی کی مثبت تصویر کشی تک شامل ہے-

 

 

بین لیوس جرمن سوشل ڈیموکریسی سے تعلق رکھنے والے اسکالر ہیں- انھوں نے جرمن زبان میں موجود مارکسی تحریروں کا انگریزی میں ترجمہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے- وہ ” کارل کاؤتسکی اور ڈیموکریسی و ری پبلکن ازم” کے عنوان سے ہسٹاریکل میٹریل ازم کے 2019ء کے ایک کتابی سلسلے کے لیے مترجم اور ایڈیٹر بھی رہے

 

بین لیوس نے جرمنی سے شایع ہونے والے میگزین “جیکوبن” کے ڈیوڈ بروڈر سے کاؤتسکی کے سوشلسٹ انقلاب کے فہم بارے بات کی- خاص طور پر کاؤتسکی کے ہاں جو عوامی جمہوری مطالبات پر جو بہت زیادہ اصرار تھا، اسے زیرگفتگو لائے- اور جیسے آج اس کے خیالات کو مسخ کرکے پیش کیا جارہا ہے، اس کا مقابلہ کیسے کیا جاسکتا ہے پر بات کی-

 

 

 

ڈی بی: آپ کی شہرت ایک ایسے عالم کی ہے جو کاؤتسکی کو “اصلاح پسند” سمجھنے والوں کی سوچ کو ایک افسانہ کہہ کر مسترد کرتا ہے- لارس لہہ کی طرح آپ کا اصرار ہے کہ لینن نے 1918ء میں جب “غدار کاؤتسکی” کہہ کر اس کی مذمت کی تھی تو یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ اس نے اپنے ابتدائی ریکارڈ سے ہٹ کر کردار ادا کیا تھا جب وہ مارکس وادی ہوا کرتا تھا- تو کیا آپ ہمیں 1914ء سے پہلے مزدور تحریک میں کاؤتسکی کے کردار بارے بتاسکتے ہیں؟ میں خاص طور پر ان دعوؤں کے بارے میں آپ کے خیالات جاننے میں دلچسپی رکھتا ہوں جوکاؤتسکی کے کردار کو بطور مارکسی خیالات جاری رکھنے یا ان کو مقبول بنانے والا بناکر دکھانے کو مارکس کے خیالات کی پامالی قرار دیتے ہیں

 

 

 

بین لیوس

کاؤتسکی کی اہمیت اور بطور ایک مفکر کے اثر کے بیان میں مبالغہ آرائی مشکل بات ہے- اسکا کردار بہت گونا گوں تھا: اور بہت ساری چیزوں کے درمیان، اس نے مارکس کے بہت سے مسودے اور خطوط قابل اشاعت بنائے(جیسے قدر زائد کے نظریات، جنھیں ہم عام طور پر “سرمایہ” کی پانچویں جلد کہتے ہیں)- اس نے مارکس واد خیالات کو مقبول بنایا- اور وہ مارکس اور اینگلز سے کہیں زیادہ بین الاقوامی ناظرین کی توجہ ان تصورات تک کھینچ کر لایا- 1883ء سے 1918ء کے عرصے کے درمیان اس نے 40 کے قریب کتابیں لکھیں، پانچ سو سے زیادہ مضامین رسالوں میں لکھے اور تین سو سے زائد مضامین اخبارات کے لیے لکھے- اس کا تحریری کام 20 سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہوا- سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایس ڈی پی کے ایرفرٹ پروگرام برائے 1891ء پر اپنے تبصرے کی بھاگ دوڑ کے بعد وہ دوسری انٹرنیشنل میں “بیبل-کاؤتسکی” نظریاتی رجحان کے سب سے موثر نظریہ ساز کے طور پر ابھر کر سامنے آیا جو اس تنظیم کی سٹریٹجی اور ٹیکٹس کے پیچھے قوت محرکہ رکھنے والا رجحان تھا-

 

اس رجحان تک بین الاقوامی رسائی ابتدائی طور پر “نیا وقت” رسالے کے زریعے سے ہوئی تھی جس کا  1917ء تک ایڈیٹر کاؤتسکی تھا- یہ رسالہ بہت زیادہ مقبول رسالہ تھا-  یہ مارکس واد ہفت روزہ رسالہ تھا- اس رسالے کو جرمن سلطنت سے باہر بھی پڑھا جاتا تھا اور اس کے مضامین پر جرمنی سے باہر بھی بحث ہوا کرتی تھی- روس میں کاؤتسکی کو “اعزازی بالشیوک” طرح کا شخص سمجھا جاتا تھا کیونکہ اکثر وہ اس ملک میں سٹریٹجی/حکمت عملی اور ہتھکنڈے کے سوال پر  روسی سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی – آر ایس ایل ڈی پی کے بالیشویک گروپ کی حمایت کرتا تھا- روس پر اس کی تحریریں اسے 1917ء کے روسی انقلاب کے پیچھے ایک انسپائریشن کے طور پر پیش کرتی ہیں- آخرکار کو کاؤتسکی مستقل طور پر روس میں انقلابی پرولتاریہ(محنت کشوں) اور کسانوں کے درمیان اتحاد اور لبرل بورژوازی(سرمایہ داروں) کے ساتھ ایسے کسی بھی تعاون کی شکل کا سخت مخالف رہا تھا- لبرل بورژواز/سرمایہ دار طبقے سے معاہدے کی مخالفت پر مبنی سوچ نے ہی تو فروری اور اکتوبر 1917ء کے درمیان بالشیوک کی کامیابی کی خبر دی تھی- جیسے لہہ نے نتیجہ خیز طور پر ثابت کیا ہے کہ اکتوبر انقلاب روس فروری انقلاب کی تردید نہیں بلکہ اس کا ہی تسلسل تھا-

 

 

لینن کو باغيوں کے ہراول دستے کا قائد اور کاؤتسکی کو پارلیمانی سوشلسٹ بناکر پیش کرنے والوں کی طرف سے دونوں کے درمیان خلیج بڑھاکر دکھانے کی جاری کوششوں کے باوجود اکتوبر انقلاب اصل میں آئینی تھا کیونکہ اس نے زار شاہی کے گر جانے کے بعد سوویت کو ریاستی کردار دیا اور بتایا عبوری حکومت کیونکہ ان کے  مفادات کی نمائندگی نہیں کرتی تو اسے ہٹادینا چاہئیے- اس میں بہت بنیادی عامل اور عنصر اس پیش رفت کا بالشویک کا لبرل بورژوازی سے معاہدہ نہ کرنے کا رجحان و پیغام تھا-

 

کاؤتسکی کی پیروی کرتے ہوئے، انہوں نے مستقل طور پر بورژوا عبوری حکومت کے بارے میں کوئی الجھاؤ پیدا نہ ہونے دیا اور وہ محنت کشوں اور کسانوں کی بنیاد پر ایک نئی انقلابی اتھارٹی کے قیام کی حمایت کرتے رہے- اور بتدریج یہی پیغام جیت کا سبب بن گیا- جرمنی سے بیٹھ کر کاؤتسکی نے اکتوبر انقلاب کو ایک آمرانہ کودتا خیال کیا اور روسی ریاست کے ابتدائی دور پر کئی شدید تنقیدات لکھیں- لیکن اس سے یہ حقیقت دھندلائی نہیں جاسکتی  جب وہ مارکس وادی تھا تو وہ مارکس واد کے تسلسل پر اصرار کرتا تھا اور لاکھوں لوگوں کے لیے اس کا تاریخی حقیقت بن جانا تسلیم کرتا تھا- 

 

تاہم، آج یہ تصویر انقلابی اعتبار سے بہت مختلف ہے- اس حد تک کاؤتسکی کو غدار سے ہٹ کر بھی یاد کیا جاتا ہے اگرچہ لینن نے اپنی کتاب”پرولتاری انقلاب اور غدار کاؤتسکی” کو غدار لکھا تھا، اس کا جواز بنتا تھا- اس کا نام آج کل ناگزیر طور پر مارکس واد کے جدلیاتی جوہر کو تباہ کرنے، تذلیل کرنے، بے ہودگی سے آلودہ کرنے یا اسے الگ کردینے جیسے الزامات سے جڑا ہوا ہے- جیسا کہ میں نے اس بارے میں تفصیل سے چیزوں کو اپنی کتاب میں دریافت کیا ہے تو میں یہاں پر یہی کہنے پر اکتفا کروں گا کہ ایسے الزامات کاؤتسکی کے تحریری کام کے ساتھ سنجیدگی سے وابستگی کے فقدان کے سبب ہے- سنجیدگی سے وابستگی کا اس فقدان کا سراغ تاریخی طور پر اس کے تصورات کو 20ویں صدی میں کمتر بنائے جانے کے رجحان میں لگایا جاسکتا ہے-   

 

میں کاؤتسکی کی ترجمانی کرنے والے تین ایسے  اسکولوں کی نشاندہی کرتا ہوں جو اس کے زندگی بھر کے کام کی طرف نفرت دکھائے جانے کے ذمہ دار ٹھہرتے ہیں:مشرقی (کمیونسٹ) کی مارکس واد کمینگی (اور اس کو دیکھنے کا ٹراٹسکائٹ آئینہ)، مغربی سرمایہ دارانہ سرد جنگ دور کی ہسٹریوگرافی/تاریخ نویسی اور مارکسزم کی نو ہیگلیئن  تعبیر- ان تین اسکولوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کے باوجود، یہتینوں کاؤتسکی کو ایک جبریت پرست میکانکیت کے قائل مفکر کے طور پر دیکھتے ہیں جس کا 1917ء کے روسی انقلاب پر کوئی مثبت اثر نہ تھا- مزید یہ کہ  مغرب میں مارکس واد کی نئی ہیگلی تعبیر اور مشرق میں خاص طور پر تاریخ نویسی میں کاؤتسکی کی جبریت پرست انفعالیت پسند عکاسی کی بنیاد مارکس کے ایک تصور کی غلط تعبیر پر رکھی گئی ہے- یہ تعبیر 1956ء کے بعد کے لیفٹ کے تصورات میں داخل کی گئی تھی- اس میں یہ دعوا کیا گیا تھا کہ اینگلز نے سب سے پہلے مارکس ازم کو بے ہودہ پن سے خراب کیا اور پھر اینگل ازم اور کاؤتسکی ازم نے مبینہ طور پر سٹالن ازم کی طرف پیش رفت کی-

 

میری تحقیق کے دوران، یہ بات مجھ پہ خوب روشن ہوگئی تھی کہ ولگرائزشن تھیسس جانچ و سکروٹنی کے سامنے کھڑا نہیں رہ سکتا- کاؤتسکی کے سیاسی –معشیت، تاريخ، جمہوریت، انقلابی حکمت عملی وغیرہ پرکئی جلدوں پر مشتمل کام پر گہری نظر ہی بتاتی ہے کہ بعد میں آنے والی تاریخ میں “مارکس واد کے پوپ” کے ساتھ کتنا برا سلوک کیا گیا- آج کے تناظر سے، اس کے نظریاتی کام کے عروج کے زمانے کے وقت کاؤتسکی کے نکالے گئے نتیجے صاف صاف پریشان کن نظر آتے ہیں: یہ خیال کہ سوشلسٹ انقلاب ابتداء میں قومی واقعہ ہوتا ہے ، 1890ء کے دوران سامراجیت کے کیفیتی اعتبار سے ایک نئے مرحلے کی نشاندہی، اس کا زندگی بھر وقتی طور پر اصول فراموش کرکے اتحاد کو ترجیح دینے کا رجحان وغیرہ ۔ تاہم میں اس بات پہ یقین نہیں کرتا کہ ایسے پریشان کن خیالات نے شعوری طور پر یا غیر شعوری طور پر مارکس واد کی تباہی میں کردار ادا کیا تھا- بلکہ وہ تو تیزی سے بدلتی دنیا میں اپنے پیش روؤں کے ساتھ مصروف عمل رہنے والے غیر کامل دانش وارانہ کارکردگی والے  شخص کی عکاسی کرتے ہیں- کاؤتسکی نے کبھی مارکس اور انيکلز کی تعلیمات کو نہ تو ری سائیکل کیا اور نہ ہی کبھی ان کی محض جگالی کی- وہ اپنی طرز کا ایک اصلی دانشور تھا جو اپنے زمانے کے ہیروز کے طریقہ کار کے اطلاق کا متلاشی رہتا تھا- بعض اوقات اسے اپنی پیش رفت او اپ ڈیٹ کرنا پڑتا اور دوسروں کو سچ تسلیم  کرنا پڑتا تھا- اس سینس میں کاؤتسکی ایک اچھا مارکس وادی تھا-   

 

 

ڈی بی: بسمارک کے دور سے لیکر،سوشلزم کی متعدد اختراعات سامنے آچکی تھیں یہاں تک کہ قیصر جرمنی کے آئینی ضابطے کے اندر بھی اور کاؤتسکی پر اکثر موجود ریاستی مشین کوتباہ کرنے کے سوال کو پس پشت دھکیلنے کا الزام بھی لگایا جاتا رہا ہے- 1891ء میں ایس ڈی پی کے ایرفٹ پروگرام کے گرد اٹھنے والی بحثوں نے ایسے مطالعے کو کیسے رد کیا تھا؟

 

بین لیوس: ایک بار پھر، یہ خیال کہ نوجوان کاؤتسکی نے انقلاب کی ضرورت پر اپنے داؤ کو محدود کردیا تھا یا تاریخ نویس ڈک گیری کے لفظوں میں  کاؤتسی کی پیشگی شرائط انقلابی بھونچال کے لیے اسقدر تھکادینے والی ہیں کہ وہ انقلابی صورت حال میں بھی بے عملی کا جواز پیش کرتی ہیں ، اسے ایک غیر انقلابی یا انقلاب مخالف مفکر دکھاکر اس کی فکر کو غلط بتاکر مسترد کرنا ہے- اور یہ بات میں پہلے بھی کرچکا ہوں-

 

 

اٹھارہ سو نوے کی دہائی کے ابتداء میں، میں خاص طور پر ایرفرٹ پروگرام کے گرد گھومتی بحث میں زیادہ تجسس پیدا کرنے والی دو چیزیں پاتا ہوں- سب سے پہلے تو یہ ہے کہ اس سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ ایس ڈی پی کی قیادت پروگرام لانے اور اس کی نظریاتی بنیادیں فراہم کرنے میں کتنی سنجیدگی سے کام کرتی دیکھی گئی ہے- کام کے ختم ہونے کا مقام مقبول مطالبات کی لسٹ خرید لینا یا کسی زمانے میں کسی وقت میں فیشن بن جانےوالے تصورات کی شاپنگ نہیں ہوتا ہے بلکہ ایک آؤٹ لائن پیش کرنا کہ کیسے ایس ڈی پی کے رجعت پسندانہ بادشاہت کے مکمل خاتمے کے بعد اقتدار میں آئے گی- محنت کش طبقے کی حکمرانی کی جدوجہد کو طبقاتی حکمرانی اور حکمران طبقات کے خاتمے، برابری کے حقوق اور تمام کے جنس اور پیدائش کے امتیازات سے ہٹ کر برابر کے فرائض کی طرف پہلے قدم کے طور پہ دیکھا گیا-

 

اس طرح ایرفرٹ پروگرام نے لوگوں کو مسلح کرنے، بادشاہی تحلیل کرنے اور کلیسا اور ریاست کو الگ الک کرنے جیسے خیالات کا اعلان کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں  کی

 

دوسرا، اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ کیسے اینگلز نے بنا کسی شرم کے ایک مارکس وادی کے طور پر اس پروگرام ان پہلے پیش کیے پروگراموں کی روایت کے مرکز میں لانے میں کردار ادا کیا جو اس نے اور مارکس نے لکھے تھے- جیسے کمیونسٹ مینی فیسٹو 1848ء میں اور پارٹی پروگرام 1880ء میں- لندن سے اینگلز نے پروگرام کے ڈرافٹوں پر مضامین لکھے اور پارٹی کے اندر ریاستی سوشلسٹ ابہام کو شکست دینے کے لیے کاؤتسکی اور آگسٹ بیبل جیسےممۃاز رہنماؤں پر اثر ڈالنے کی کوشش کی- میری دلیل یہ ہے کہ اینگلز کا سب سے بڑی دلچسپی اور فکر اس بات کو یقینی بنانے میں تھی کہ پارٹی اپنے آپ کو ریاست اور سماج کو بدلنے کے لیے عوامی جمہوری اپروچ کے ساتھ وابستہ رکھے اور یہ ایک ایسی چیز تھی جسے ہم کاؤتسکی تحریروں میں اچھے سے پاسکتے ہیں- 

جاری ہے 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here