اداریہ: پشاور بم دھماکہ  – عوام کب تک تزویراتی گہرائی پالیسی کی سزا بھگتیں گے؟

 

اکتوبر 27، 2020 کی صبح پشاور میں دیر کالونی میں واقع مدرسہ زبیریہ کے مرکزی ہال میں دھماکہ خیز مواد پھٹنے سے سات طالب علم جاں بحق ہوگئے اور 110 کے قریب زخمی ہوگئے- اب تک کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مدرسہ کے مرکزی ہال میں قرآن پاک کی تعلیم دینے کا سلسلہ جاری تھا کہ دوسرے پریڈ میں کالا شاپر لیے ایک شخص داخل ہوا- تھوڑی دیر بعد وہ شخص چل دیا اور دھماکہ ہوگیا- صوبائی حکام کا کہنا ہے کہ آئی ڈی ایکس تھا جس کے پھٹنے سے دھماکہ ہوا ہے-
ادھر کابل کے مغربی ضلع میں ایک ٹیوشن سنٹر کوثر دانش کے گیٹ پر خودکش حملہ آور نے اپنے آپ کو اڑا لیا جس سے 18 افراد جاں بحق اور 57 لوگ زخمی ہوگئے- کابل کا مغربی اضلاع شیعی اکثریت کا علاقہ شمار ہوتا ہے- اس واقعے کی ذمہ داری داعش افغانستان نے قبول کی ہے اگرچہ اس نے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا-
پشاور کے جس مدرسے میں بم دھماکہ ہوا، اس مدرسے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں افغان طالبان سے منسلک کئی سو افغان طالب علم زیر تعلیم ہیں- یہ ان مدارس میں سے ایک مدرسہ ہے جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ مدرسے امارت اسلامی افغانستان عرف افغان طالبان تحریک سے منسلک ہیں- اس تعلق کو دیکھتے ہوئے کوئی بات بعید نہیں ہے کہ اس کاروائی میں افغانستان کا کوئی ایسا گروپ ملوث ہو جو امارات اسلامی افغانستان سے برسر پیکار ہو- بات جو بھی ہو پشاور بم دھماکہ پاکستان کے جند ناعاقبت اندیش جرنیلوں کے افغان پروجیکٹ کا براہ راست نتیجہ ہے جسے انہوں نے نام نہاد”تزویراتی گہرائي” کی پالیسی کے تحت بنایا تھا اور گہرائی کی یہ پالیسی نائن الیون کے بعد موڈیفائی ہوئی اور پاکستان نے 75 ہزار جانیں، سینکڑوں مساجد و امام بارگاہوں و کلیساؤں و مندروں و مزارات کی تباہی دیکھی-
سٹریٹجک ڈیپتھ سٹیٹ/تزویراتی گہرائی کی حامل ریاست کی تشکیل کا منصوبہ جنرل ضیاء الحق اور ان کے ساتھی جرنیلوں نے شروع کیا اور بعد میں آنے والوں نے اسے تندہی سے جاری رکھا- اور پاکستان میں ایسے سینکڑوں بھرتی کے مراکز وجود میں آئے جنھوں ہزاروں ایسے پیدل سپاہی تیار کیے جن کا کام طاقت کے زور پر اپنا یک رخی اور یک نوعی ریڈیکل وہابی تصور سماج کی تشکیل کرنا تھا- اس پروجیکٹ کو بنانے والے جرنیل اور ان جرنیلوں کی نرسری میں پلنے والے اور پھر نیٹ ورک میں بدلنے والوں کی تقدیر بدل گئی- آج جہادی جرنیل اور جہادی ملاؤں کی پر مشتمل نیٹ ورک کے پاس کھربوں روپے کے اثاثے رکھتے ہیں- اور آج تک پاکستان کے کسی موقر احتساب کے ادارے نے ان سے منی ٹریل مانگنے کی جرآت نہیں کی- سوال یہ بھی جنم لیتا ہے کہ حکومت پاکستان آخر کیا سوچ کر افغان طالبان سے جڑنے والے مدارس عربیہ کو اپنی تحویل میں نہیں لیتی؟
پاکستان کے غریب اور محکوم عوام کب تک دہشت گردی کا شکار رہیں گے؟ وہ کب تک سٹرٹیجک ڈیپتھ سٹیٹ کے جھوٹے سپنوں کی آڑ میں اپنے خون کی قربانی دیتے رہیں گے؟

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here