وصیت نامہ – ناظم حکمت

ساتھیو، اگر مجھے وہ دن دیکھنا نصیب نہ ہو

میرا مطلب ہے میں آزادی پانے سے قبل ہی دنیا سے اٹھ جاؤں

تو مجھے دور لے جانا

اور اناطولیا کے کسی قبرستان میں دفن کردینا

مزدور عثمان کو، جسے حسن بے کے حکم سے گولی مار دی گئی تھی

میرے ایک جانب اور

شہید عائشہ کو، جس نے رائی کے کھیت میں جنم دیا

میرے دوسرے جانب دفن کرنا

صبح کی روشنی میں

ٹریکٹر اور گیت قبرستان کے نیچے سے کزرتے رہیں گے

نئے لوگ اور سوختہ پٹرول کی بو

اور مشترکہ ملکیت میں کھیتوں اور ندیوں میں پانی ہوگا

وہاں خشک سالی اور پولیس کا نہ ڈر ہوگا

صحیح ہے ہم وہ گیت سن نہ پائیں گے

مردے زمین کے نیچے چت پڑے ہوتے ہیں

اور سیاہ  شاخوں کی طرح گلتے سڑتے رہتے ہیں

زمین کے تلے کنگ، ناشنوا و بے بصر

جہاں تک میرے ہمسایوں کا تعلق ہے

مزدور عثمان اور شہید عائشہ کا،

جب تک زندہ وہ زندہ رہے

ایک شدید خواہش سے وابستہ رہے

شاید اسے جانے بغیر ہی

ساتھیو، اگر وہ دن دیکھنا میرے نصیب میں نہ ہو

جو روز بروز زیادہ ممکن نظر آتا ہے

مجھے اناطولیا کے کسی قبرستان میں دفن کردینا

اور اگر ممکن ہوسکے

میری قبر کے سرہانے ایک چنار کا درخت اگا دینا

تب مجھے کسی کتبے کی خواہش نہیں ہوگی

(ترجمہ فاروق حسن)  

 

نوٹ: یہ نظم ناظم حکمت نے 27 اپریل 1953ء کو بارہیو ہسپتال  ماسکو سوویت یونین/ روس میں بیماری شدید ہوجانے کے دوران لکھی تھی- ناظم حکمت 1902ء میں سالوینکا میں پیدا ہوا اور 1963ء میں وہ ماسکو میں انتقال کرگیا- وہ ترکی کی کمیونسٹ پارٹی کا دانشور کارکن تھا اور اس کی شاعری کو ترکی میں وہی اہمیت حاصل ہے جو پاکستان میں فیض احمد فیض کی شاعری کو ہے

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here