Manan Ahmed Asif is a historian and professor at Columbia University in New York City. He is the founder of the South Asia blog Chapati Mystery and co-founder of Columbia’s Group for Experimental Methods in Humanistic Research.

مترجم کا نوٹ: پاکستان میں سرکاری بیانیہ تو یہ ہے کہ برصغیر میں مسلمان کی اصلیت غیر مقامی کی ہے۔ اور اس کا آغاز 712ء میں محمد بن قاسم کی سندھ میں فتح سے ہوا جو مسلمان قیدی عورتوں کا نجات دہندہ بن کر سندھ میں آیا تھا۔ راجا داہر اس بیانیے کے مطابق ولن اور راکھشش ٹھہرتا ہے۔ اور محمد بن قاسم ہیرو ٹھہر جاتا ہے۔ یہ سرکاری بیانیہ آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر اور پاکستان کے بانی محمد علی جناح نے مسلمانوں کو ہندوستان میں الگ قوم ثابت کرنے کے لیے مستعار لیا۔ تب سے لیکر آج تک یہ ہمارا سرکاری بیانیہ ہے اور جو اس بیانیہ کو رد کرتا ہے، اسے پاکستان اور ریاست کا مخالف ٹھہرادیا جاتا ہے۔ محمد بن قاسم کو ہیرو نہ ماننے سے آپ پر توہین کا الزام بھی لگ سکتا ہے۔ ہمارے ہاں ابتک اس موضوع پر بظاہر کوئی بڑا علمی تحقیقی کام اردو زبان میں موجود نہیں ہے۔ انگریزی زبان میں بھی اس موضوع پر جو کام ہے وہ بھی برٹش نوآبادیاتی دور میں مستشرقین نے جو ہندوستان میں مسلمانوں کی اصلیت کا بیانیہ تشکیل دیا سے مستعار ہے۔ یہ صورت حال نوآبادیاتی دور سے مابعد بعد نوآبادیات یونہی چلی آرہی تھی کہ اس دوران منان آصف کی تحقیق کتابی صورت میں سامنے آئی جس نے “جنوبی ایشیا” میں مسلمانوں کی اصلیت کے نوآبادیاتی بیانیہ کی رد تشکیل کرڈالی۔ اور یہ ردتشکیل جہاں ایک طرف دائیں بازو کی جانب سے مسلمانوں کی اصلیت کے بیانیہ کی رد تشکیل کرتی ہے وہیں یہ ہندوستانی نیشنلسٹ مورخین کے بیانیے کی بھی رد تشکیل کرتی ہے۔ ایسے میں یہاں اس کتاب کے دیباچے اور ابواب کتاب کا ترجمہ پیش کیا جارہا ہے۔ امید ہے کہ اس سے اس موضوع پر جذباتی فضا میں کمی آئے گی اور سنجیدہ تاریخی مکالمے کی راہ ہموار ہوگی ۔عامر حسینی

 

تعارف

“اصل” ایک لبھانے والی احتیاج ہوا کرتی ہیں- اصل میں دلچسپی – اصل اور انساب کے چوکھٹے کے نئے بیانیے نہیں ہیں جن میں اکثر ماضی کا اندراج ہوتا ہے-پھر بھی جدید قوم کے لیے اصلیت کا رومان اور ایک منفرد علم الانساب میں سنجیدگی ناگزیر ٹھہرتی ہے-

جدید ریاست کے لیے ایسی کہانیاں اور ایک یک خطی ترقی فخر کی پیشکش کرتی ہیں- ان جدید ریاستوں کے شہریوں کے لیے یہ کہانیاں نصابی کتابوں میں نقش کی جاتی ہیں، جہاں وہ اقدار، اخلاق اور قومی کردار کی مالک ہوا کرتی ہیں- مثال کے طور پر امریکہ میں اس کے بانیان ایک منثور اور جدید طریقوں سے اس قوم کی شروعات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کے سامنے یا پبلک پارکوں میں سڑک کے دونوں اطراف لگے الیگزنیڈر ہملٹن یا تھامس جیفرسن کے مجسمے ریاست کی خاص اصل کا اشارہ ہیں- یہ مجسمے اصلیت کے جامد لمحات – فلسفہ غایات اور اخلاق کی تجسیم ہیں- جرمنی میں (جنرل) آرمینیوس، فرانس میں (فرنکیا و روم) کا بادشاہ شارلیمین، برطانیہ میں کنگ آرتھر؛ ہندوستان میں اشوک وغیرہ اسی طرح کی “اصل” کی تجسیم ہیں- ان میں سے کچھ اصل موثر ٹاسک سرانجام دیتی ہیں-(جیسے مجلس مردگاں جس نے اقوام متحدہ کو جنم دیا کا مطلب اس کے شہریوں خاندانی جذبات محبت کو ابھارنا نہیں ہے- جبکہ کچھ دوسرے ہمیشہ تازہ رہنے والے ماضی کو (چنگیز خان کو سابقہ سوویت یونین کی ریا ستوں میں بطور ہیرو کے لیے جانے کا مطلب) ایک ماقبل اشتراکی ماضی کو ابھارنا ہے-) ابھارنا ہوتا ہے۔

اصلیت کا سوال

مغربی تحقیق و تجسس میں دنیا اور نوآبادیائے گئے لوگوں کے ماضیوں میں تانک جھانک کرکے اصلیتوں کا سوال اہم رہا ہے- “روشن خیالی” کے دور میں ڈیکارٹ سے لیکر وائیکو اور کانٹ تک یورپ کی اپنی اصلیت کی تحقیق کی ناگزیت اتنی ہی اہم تھی جتنی کہ نئی دنیا یا چین و ہندوستان کی اصلیت کی چھان بین کرنا- یہ “علم اللسان” یعنی زبان کی اصل اور انسانی سماج کی اصل بارے میں “سائنسی” چھان بین اٹھارویں صدی کے آخر میں فلسیفانہ اور ایتھنوگرافک / ثقافتی نسلیاتی مواد پر مشتمل ادارے نے تخلیق کیا جو نوآبادیائے گئے/کالونائزڈ اور مستشرقی دنیا بارے بنایا گيا تھا- یہ ایسی چھان بین کا سیٹ ہے جہاں سے میری تحقیق کا پروجیکٹ شروع ہوتا ہے-

میری دلچسپی خاص طور پر ہندوستانی مسلمانوں کی اصلیت کی کہانی اور ان طریقوں سے ہے جن میں جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے ماضی کے مطالعوں کے ڈھانچے موجود ہیں- اس کا جو سب سے ننگا بیانیہ ہے وہ اس بات پہ زور دیتا ہے کہ اسلام بنیادی طور پر عربی نژاد ہے اور یہ جغرافیائی طور پر ہندوستان میں باہر سے آیا ہوا ہے- توعقیدے کی بیرونی اصل، اس کے ماننے والوں کو بیرونی قرار دے ڈالتی ہے- تو اس اعتبار سے مسلمان ہندوستان سے باہر سے آئے چاہے وہ بیرونی فاتحین تھے یا بیرونی تاجر تھے یا بیرونی مبلغ تھے ، یہ سب کے سب “مقامی” لوگوں سے الگ تھے۔ اس طرح کی اصلیت میں کئی نکات پہناں ہیں۔

ان میں سے ایک نکتہ ابتدائی آٹھویں صدی ھجری میں محمد بن قاسم کے ماتحت عرب سے سندھ پر چڑھائی کی مہم کا ہے اور ایک اور نکتہ گیارھویں صدی میں محمود غزنوی کی غزنی سے گجرات پر چڑھائی کی مہم کا ہے۔

ایسا ایک اور نکتہ سولہویں صدی میں ظہیرالدین بابر کا کابل سے دہلی پر چڑھائی کی مہم کا بھی ہے-

اصلیتوں کے یہ بہت سارے نکات اس اصل کی کہانی میں غیریت کے مستقل احیا نو کے طور پر کردار ادا کرتے ہیں- تضادیے کے اعتبار سے یہ ہندوستان میں متنوع احیائے نو کو یک نوعی، اے ہسٹاریکل/ ماورائے تاریخ اور تغیر سے ماورا اسلام کے طور پر پیش کرتے ہیں- تنقیدی اعتبار سے دیکھا جائے تو ہندوستان میں سیاسی ریاستوں کی تاریخ جن پر مسلمان ہونے کا ٹیگ لگا ہے ان سب کی سماجی اور ثقافتی زندگیوں کو پھلانگ جاتی ہے جو اسلام کی کسی بھی شکل کو اپنے مذہب کے طور بیان کرتی ہیں۔

اس کتاب میں، میرا مقصد ہندوستان میں اس مسلمان سیاسی ریاست کی تاریخی خصوصیت اور جس طریقے سے بعد ازاں اس کی تشکیل نو ہوئی کو بے نقاب کرنا ہے- اور وہ ہے 712ء میں محمد بن قاسم کی سندھ پر چڑھائی کے تناظر میں تشکیل دیا گيا مسلمان ریاست کا تصور۔

جب ہم اس اصلیت اور تاریخ پر ازسر نو سوال اٹھاتے ہیں اور اس تاریخ پر نظر ثانی کرتے ہیں جو اس سے باہر ہے تو کیا چیز داؤ پر لگ جاتی ہے؟
مجھے یہ ماننے میں کچھ عار نہیں ہے کہ خاص طرح کے “غلطی سے پاک” سماجی اور سیاسی فریم ورک ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں اور ایک نیا نکور فریم ورک ابھرتا ہے-

سب سے پہلے مجھے جنوبی ایشیا اس اصلیت کے بیانیے کی طاقت اور غلبے کو دکھانے کی اجازت دیں- مسلمانوں کو ہمیشہ ممتاز طور پر باہر سے آنے والوں کے مقام پر رکھنے والا بیانیہ ان نظریاتی سہاروں میں سے ایک ہے جس کے نتیجے میں کالونیل/ نوآبادیاتی ہندوستان کی 1947ء میں تقسیم ہوئی- اس نظریے کی ایک تشکیل ہمیں 1940ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے رہنماء و اول گورنر جنرل پاکستان محمد علی جناح کے اظہار میں نظر آتی ہے:

”ہندؤ اور مسلمان دو مختلف مذہبی فلسفوں، سماجی رواج اور ادبیات سے تعلق رکھتے ہیں- وہ نہ تو آپس میں شادیاں کرتے ہیں، نہ ہی اکٹھے کھانا کھاتے ہیں اور اصل میں وہ دو مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں جن کی بنیاد دو باہم متصادم تصورات اورخیالات پر ہے- ان کے زندگی بارے پہلو اور ان کے زندگی کے پہلو مختلف ہیں- یہ صاف واضح ہے کہ ہندؤ اور مسلمان دونوں تاریخ کے مختلف سرچشموں سے جذبہ پکڑتے ہیں- ان کے اساطیری قصّے الگ ہیں ، ان کے سورما الگ ہیں اور ان کے ہاں اساطیری قصوں کی اقساط الگ الگ ہیں- اکثر ایک کا ہیرو دوسرے کا دشمن ہے- اور اسی طرح ان کی فتوحات اور شکست ایک دوسرے پر چڑھی ہوئی ہیں(یعنی ایک کی فتح،دوسرے کی شکست ہے)”-2

جناح کا ماضی کے لحاظ سے مختلف ہونے کا اظہار متضاد طور پر ایک وسیع جغرافیہ کے ثقافتی رواجوں کو یکساں طور پر پیش کرتا ہے-(ہمیں اس اظہار کا عکس 20ویں صدی کے مسلم نیشنلزم میں دکھائی دیتا ہے)- اور وہ یہ ہے کہ مسلمان نہ تو غیر مسلم سے شادی کرتا ہے، نہ کھانا کھاتا ہے چاہے وہ حال میں رہ رہا ہو یا ماضی کا مسلمان ہو- یہ مسلمانوںکو ہندوستان میں ایک یکساں قسم کی برادری بناکر پیش کرتا ہے۔

حال کے اس قسم کے مطالعے کی حمایت میں جناح تاریخ اور ہسٹریوگرافی/تذکرہ نویسی میں ایک فرق پر زور دیتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ دونوں برادریوں کے ماضی مختلف ہیں اور دونوں کے ماضیوں کے سرچشمے مختلف ہیں اور اس لیے لازم ہے کہ تاریخ کی ایک مختلف طرح سے تعبیر و تشریح کی جائے۔

اب یہاں پر کوئی کہہ سکتا ہے کہ مغل اشراف نے غیر مسلموں میں شادیاں کیں تو جناح کا جواب ہوگا کہ ہمیں ان کے اقدام کی مختلف تہذیبی معیارات کے مطابق تاویل کرنی ہوگی یا مختلف آرکائیوز میں ان کی عکاسی کرنی ہوگی۔

جناح کے نیشنل ازم کی طرح، ہندؤ کمیونل ازم بھی ماضی کی طرف دیکھتا ہے اور وہ بھی ہسٹریوگرافی/ تذکرہ نویسی پر انحصار کرتا ہے- وہ عددی دلائل دیتا ہے اور ساتھ ہی ریڈیکل انداز میں ایک یکسر مختلف ماضی اور مستقبل کا نکتہ نظر مرتب کرتا ہے- 1940ء میں ہی، ہندؤ بالادستی کے اولین قدامت پرست نظریہ ساز جیسے وی ڈی ساوارکر اور ایم ایس گوالگر نے سورماؤں اور دشمنوں کی تعبیر نو کی تھی:

” اس برے دن سے، جب مسلمان پہلی بار ہندوستان اترے تھے آج لمحہ موجود تک، ہندؤ قوم بہادری سے لٹیروں اور غاصبوں کو بھگانے کے لیے لڑ رہی ہے۔”3

ہندؤ دایاں بازو کے لیے ہندوستان میں مسلمانوں کی “بدیشی” اصلیت فتح اور غلبے کے خلاف ان کی مقامی جدوجہد کا ثبوت ہے۔ مسلمانوں کی ہر بار نئی آمد انتشار کی ایک اور جنگ تھی-

تقسیم کے بعد ماضی کی اس طرح کی تفہیم کے نتائج و عواقب 1992ء میں صاف ظاہر ہوگئے- سولہویں صدی میں تعمیر ہونے والی مسجد، ایودھیا کی بابری مسجد کی اینٹ سے اینٹ ایسے ہجوم نے بجادی جن کا یقین تھا کہ یہ جگہ رام کی جنم بھومی ہے-اس تباہی میں، تاریخ اور اساطیری زمانے کا باہم میلاپ کوئی اتفاق نہ تھا- یہ تفہیم ہندؤ دائیں بازو کے لیے کئی عشروں پر محیط اصلیتوں کے اسطورے کے استعمال میں لانے کے خلاصے کی نمائندگی کرتی تھی-
ماضیوں کی تفہیم کے یہ دو ریشے یعنی جناح کا علیحدگی پسندی پر اصرار اور ہندؤ دائیں بازو کا ماضی کی غلط کاریوں کا بدلہ لینے پر اصرار بہت نمایاں ہیں اور مستقبل کے لیے وسیع طور پر مختلف راستوں کو جنم دیتے ہیں- پھر بھی ان میں سے ہر ایک مسلمانوں کے بدیشی/ غیر ملکی ہونے کے تصور سے شروع ہوتا ہے۔وہ ہر ایک ایک ہزار سال پر مشتمل تاریخ کے واقعات کو بیان کرتے ہیں جو اس فرق پر اصرار کرتا ہے۔ اور وہ ہر ایک دوسرے سے متضاد مطالعے پر انحصار کرتے ہیں-4 یہ اصلیتوں کا بیانیہ معاصر وائلنس۔ تشدد کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور اس پر پردہ بھی ڈالتا ہے۔ اور ہمیشہ فرق کے ہونے کو تسلیم کرنے کے حق میں دلیل دیتا ہے۔

“ایک کا سورما/ ہیرو دوسرے کے دشمن سے حالت جنگ میں ہیں- فاتح تہذیب شکست کی تہذیب بھی ہے۔دونوں کے دونوں ہمگام ہیں”-5

فتوحات اور شکستوں کے کھاتے الگ الگ رکھے جاتے ہیں- لیکن رژیم کی جدول بندی تو ایک ہی ہے- ہر ایک کے لیے ” فارن/ بدیشی” وہ مقصود پیدا کردیتا ہے جو اسے بچاتا ہے یا جس سے بچا جانا ہوتا ہے۔

ہر ایک کے لیے حال کا فرق اصلیتوں کے فرق سے نکلتا ہے- حقیقت میں ایک خاص موقعہ پر مسلمانوں کے مختلف گروہ ہندوستان میں سیاسی طور پر غالب آئے تو کیسے ان کو فتح کی عینک سے بدیشیوں کے طور پر دیکھا گیا جسے میں اصلیتوں کا بیانیہ قرار دیتا ہوں-
ہندوستانی ماضیوں کو مختلف برادریوں/کمیونٹیز کے درمیان تشدد کا طویل نظریہ غایت کے طور پر سمجھنے کا کارنامہ بہت سارے مورخین کا کام ہے-

قدیم یا قرون وسطی اور جدید دور پر کام کرنے مورخین کی متعدد نسلوں نے ہندوستانی ماضیوں میں “فرق کے سوال” پر غور و فکر کیا ہے۔ رومیلا تھاپر، گیاندرا پانڈے، اوما چکرورتی، رچرڈ ایٹن، سنتھیا ٹالبوٹ اور شاہد امین اس ہسٹریوگرافی/تذکرہ نویسی میں چند ایسی ممتاز شخصیات ہیں جنھوں نے ہندؤ-مسلمان ہونے کی درجہ بندیوں کے کالونیل دور میں ان طریقوں کے استعمال ہونے سے آگے جاکر معرض وجود میں آنے کوتلاش کرنے کی کوششیں کیں-6

معاصر الجھاؤ کا ایک جواب تو وہ ممتاز مورخ تاریخ کی طرف سے فراہم کیے جانے والے ہندوستانی ہونے کے متعدد فہم کی صورت میں پیش کرتے ہیں-

فرقہ پرستانہ ماضی کی نوآبادیاتی تشکیل کی یہ نشاندہی ایک ناقدانہ مداخلت تھی جو کہ بنا معائنے کے رہی اور یہ اصلیتوں کے بیانیہ کا مرکز تھی۔ جس بے ساختگی کے ساتھ “مسلمان” بدیشی بنے رہے جیسے کہ ہر ایک تاریخی دور بغیر کسی نئے پن کے ساتھ شروع ہوا-(مثال کے طور پر،قرون وسطی کی تاريح کے ماہرین کے پاس ایک ہی مفروضہ تھا کہ مغل نظریہ اور سیاست اپنے پیش رو ہندوستانیوں کے ساتھ کم ہی رشتہ رکھتا تھا اور ایسے ہی سلاطین دہلی کا سندھ میں عربوں کی حکمرانی سے کم ہی رشتہ تھا-)7

اگرچہ مورخین نے یہ دکھایا کہ نوآبادیاتی ریاست نے فرقہ وارانہ اشکال کو تشکیل دیا تھا جس میں فرق اور تضاد مختلف برادریوں کے درمیان فطری بناکر دکھایا گیا تھا لیکن انہوں نے اسے ان طریقوں کے خلاف آگے نہ بڑھایا بڑھایا جس میں ماضی کی تفہیم کو اصلیتوں کا بیانیہ چلارہا تھا۔ اس کا نتیجہ تھا کہ سکون آور ہمگام پرستی کو مختلف برادریوں کے درمیان بنیادی فرق کے طور پر باقی رکھا- چاہے کوئی ہمگام پرستی کی نظر سے دیکھتا یا محاز آرائی کی صورت ،مسلمانوں کی موجودگی کا فلسفہ غایت بنانے والے کا جواز نمایاں طور پر جنوبی ایشیا کی تاریخ اور تاریخ نگاری کے اصلیتوں والے بیانیے میں مسلسل موجود رہا ہے- پاکستانی تاریخ لکھنے والوں نے خاص لمحات پر توجہ مرکوز کی:

آٹھویں یا گیارھویں صدی کی فتوحات، مغل کا دور آخریں اور 19ویں صدی سے شمالی ہندوستان پر توجہ – وہ مسلمان اور مسلمانوں کے ماضی جو ہندوستانی علاقوں میں رہ گئے تھے ان کو بھی پاکستانی تاریخ نگاری نے ترک کردیا۔

شمالی ہندوستان کے مورخوں نے 13ویں صدی سے پہلے کی مسلمانوں کی تاریخ کو اپنی تحقیق سے باہر نکال دیا کیونکہ جغرافیہ اب پاکستان کے علاقے میں تھا۔ جنوبی ہندوستان کے مورخوں نے قرون وسطی اور ابتدائی جدید ادوار میں آبادکار برادریوں، تجارت اور مسلمان ہونے کی بحثوں کو سرے سے خارج کردیا-8

جو اس مکمل خامشی پر حکمرانی کرتی ہے وہ معاصر جنوبی ایشیا کی سیاسی و سماجی جگہ کی تقسیم ہے تو ساتھ ساتھ آرکائیول ماضیوں کی سیاسی و دانشورانہ تقسیم بھی ہے۔ جو اسے متحرک رکھتا ہے وہ مسلمانوں کی کی آمد پر مبنی اصلیت کا بیانیہ ہے- یہ وہ منفرد قسم کے چیلنجز ہیں جن کا سامنا ماقبل جدیدہندوستان کے زمان ، مکان اور شروعات پر دانشورانہ تحقیق کرنے والے سامنا کرتے ہیں۔

یہ کتاب اصلیتوں کے بیانیے کے خلاف ایک حجت ہے- یہ کتاب مقدمہ قائم کرتی ہے کہ ‘اصلیت’ کو بھی تاریخی طور پر متعین ہونا چاہئیے- تاریخ کو خود ہی تاریخ سے سے مسئلے کا حل ڈھونڈ لینا چاہئیے- علم کو اپنی نوک خود اپنے خلاف ایستادہ کرلینی چاہیے-9 اصلیتوں کے بیانیہ پر تنقید کے دوران میں نے اس کی تشکیل کے لیے سب سے زیادہ اہم کتاب “چچ نامہ” کی نشاندہی کی ہے- میں نے ان طریقوں کو پیش کیا ہے جن جس میں تیرھویں صدی کا فارسی متن کالونیل تفہیم میں مسلمانوں کی اصل کی تاریخ بتانے والا متن بن گیا-

میں نے ہندوستان میں اسلام کی اصل بارے فکر کی اس تاریخ کو اس کے تاریخی زمانے میں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے- تاہم میں متن اور تیرھویں صدی کی طرف مڑتا ہوں تاکہ تیرھویں صدی میں فرق کرنے کی تفہیم کے دوسرے طرق جو تھے ان کو بھی دکھا سکوں- تفہیم فرق کے وہ طرق جو اس اصلیت بیانیہ سے باہر پائے جاتے ہیں- اور یہی اس کتاب کا مغز ہے-
اگر جدید سیاست کے بطن سے ہندوستان ، پاکستان اور بنگلہ دیش نے نوآبادیاتی نظام کی طرف سےسیاسی اختلافات کو بڑھاوادینے کی وجہ سے جنم لیا تو جدید تاریخ نگاری ان کو فطری،معیاری اور اندر تک دخیل اختلافات کے طور پر جاری رکھے ہوئے ہے- ایک خاص قرون وسطائی ماضی کی میری چھان بین دکھاتی ہے کہ کیسے “اصلیت کا بیانیہ” تاریخی جانچ اور اس کے پیشن گوئی کردہ راستوں کی حدود کا تعین کرنے آتا ہے-

چچ نامہ بطور اصلیت

انیس سو اکیاسی میں وی ایس نائپال نے پوسٹ کالونیل/مابعد نوآبادیاتی مسلم ریاستوں بارے معلومات کے لیے کراچی کا دورہ کیا- جہاں اس نے چچ نامہ کا پیپربیک ایڈیشن کا انگلش ترجمہ پڑھا جو 1900ء میں کراچی میں دوبارہ شایع ہوا تھا:

چچ نامہ کئی طریقوں سے برنال ڈیاز ڈیل کاسٹیلو نئے اسپین کی فتح جیسا تھا جوکہ ایک ہسپانوی/اسپینش سپاہی تھا جس نے اپنے بڑھاپے میں اپنی فوجی مہمات کے بارے میں کورٹیس کے ساتھ میکسکو میں لکھا تھا- لکھنے کا یہ عمل 1519ء اور اس کے بعد تک جاری رہا- دونوں کتابوں کا مرکزی خیال ایک ہے: ایک مشن کا طاقتور شعور اور دنیا بارے وسیع علم سے لیس ایک سامراجی طاقت کے ہاتھوں ایک دور افتادہ ثقافت کی تباہی جسے اپنے سوا کسی اور بارے کچھ علم ہی نہیں تھا اور وہ یہ سمجھنا ابھی شروع نہیں ہوئے تھے ، یہ لڑائی ہے کیا۔11

نائپال نے چچ نامہ کو ” ریاست پاکستان کی اسلامی اصل” کی داستان کے طور پر پڑھنا شروع کیا- نائپال نے اپنی کتاب میں استدلال بنایا کہ یہ اصل وہ ابتدائی راستا تھا جس میں پاکستان کے تسلط کی روش رکھنے والے مسلمانوں نے ہندوستان سے اپنے آپ کو بطور فاتحین الگ ہونے کا تصور باندھا۔ اور چچ نامہ وہ متن تھا جس نے ان کی فتح کی تاریخ فراہم کی۔

نائپال کے مطالعے میں اس کے تاريخی ماخذ کے اندر کے پاکستان کے تصور میں نوآبادیاتی چشم نگاہ کی جارجیت تھی- نائپال نے چچ نامہ میں اس عرب فوج کے سالار کے طور پر بیان کردہ قاسم کی شکل میں تشدد/ وائلنس کو پڑھا جس نے سندھ فتح کیا تھا- اس نے عرب فوج کے مظالم بیان کیے – ان کے مندروں کو تباہ کرنے یا ان کے ہاتھوں شہریوں کی قتل و غارت گری کو بیان کیا- اور اسے پاکستان کےجتھا بند مسلمانوں کے مظالم سے جوڑ دیا جو اکہتر میں بنگلہ دیش کی جنگ سے شروع ہوئے تھے۔

پاکستان 1981ء میں دس سال پرانا تھا- ماضی میں یہ مغربی پاکستان تھا جو جغرافیائی اعتبار سے دوسرے”مشرقی پاکستان” سے الگ تھا- 1971ء میں ملک میں خانہ جنگی ہوگئی، اور خون میں نہلادیا گیا مشرقی آدھا حصّہ بنگلہ دیش بن گیا۔

بنگلہ دیش کی پرتشدد پیدائش کے ساتھ ، پاکستان کے مسلمان جنھوں نے پہلے اپنے آپ کو مذہبی خطوط پر الگ صف میں کھڑا کیا تھا اب انھوں نے اپنے آپ کو دوبارہ نسلیاتی اور لسانیاتی خطوط پر تقسیم کیا۔

نائپال نے ٹھیک طور پر اس بیانیہ کی دوبارہ سے ابھرنے کے طور پر شناخت کیا جسے پاکستان ریاست نے اپنے لیے خود چنا تھا:

“پاکستان 1947ء میں نہیں بنا تھا بلکہ یہ 712ء میں بن گیا تھا-“

نائپال نے جہاں نوـآبادیاتی تباہی کو دکھایا ،وہیں اس نے پاکستان ریاست کے غیر مسلموں پر اپنے عقیدے کے جائز قرار دیے گئے غلبے کو بھی دکھایا۔

چھٹی کلاس کی سوشل اسٹڈیز کی نصابی کتاب 1979ء میں جنرل ضیاء الحق کے تعلیمی عزائم کے پہلے مرحلے میں شایع ہوئی، اس کا باب”پہلا شہری/فرسٹ سٹیزن” کا مطالعہ اسے ثابت کرتا ہے اور سرکاری طور پر اجازت دی گئی کہانی کو یوں بیان کرتا ہے:

“اسلام کے ظہور سے پہلے،ہندوستان اور عربوں کے درمیان تجارتی تعلقات قائم ہوچکے تھے- مسلمانوں نے 712ء میں برصغیر پر حملہ کیا- اس سے پہلے عرب خرید و فروخت کرنے اس سرزمین پر آتے تھے- عرب تاجر راسخ العقیدہ مسلمان تھے اور اس لیے ہندوستان کے لوگوں کو اسلام کی تعلیم دیتے تھے- بہت سارے عرب تاجر سری لنکا آباد ہوگئے تھے-تجارت کی وجہ سے ان کے لوگوں سے اچھے تعلقات تھے- وقت گزرنے کے ساتھ ان میں سے کچھ تاجر فوت ہوگئے- سری لنکا کا راجا بو بہت رحم دل تھا، اس نے بیواؤں، بچوں، ان کے ترکے کو مسلم خلیفہ کے لیے تحائف کے ساتھ آٹھ جہازوں میں روانہ کیا- جب یہ جہاز دبیل کی بندرگاہ کے قریب پہنچے تو بحری قزاقوں نے ان جہازوں کو لوٹ لیا- عرب عورتیں اور بچے قیدی بنالیے گئے- ان میں سے کچھ مسلمان بچ کر نکلنے میں کامیاب ہوگئے- انھوں نے حجاج بن یوسف کو سارا واقعہ بیان کیا- عربوں اور سندھ کے حاکم کے درمیان یہاں سے تنازعہ شروع ہوا- حجاج نے محمد بن قاسم کو سندھ فتح کرنے بھیج دیا- یہ پاکستان کی بنیاد تھی۔”12

جیسا کہ میں آنے والے باب میں، جنوبی ایشیاء میں اسلام کی اصل کے طور پر اس مثال پر زور دینے اور مسلمان عورتوں پر حملے کی خاص مثال کے استعمال پر تفصیل سے بحث کروں گا ۔ اس بات کو ان مورخین کی کتابوں میں تلاش کیا جاسکتا ہے جنھوں نے یہ نصابی کتابیں لکھیں تھیں۔ جیسے آئی ایچ قریشی اور ایس ایم اکرام کی کتابیں تھیں۔ یہ ریاست کی طرف سے منتخب کردہ گروپ کا حصّہ تھے جو کہ پاکستان کے لیے ایسے ساختہ متون اور پالیسیاں بنانے پر مامور کیے گئے تھے۔

یہ کام مسلمان مورخین اور مصنفوں کی ابتدائی نسل پر استوار ہوا جیسے عبدالحلیم شرر، سید سلیمان ندوی، ندوی کے استاد شبلی نعمانی تھے، جنھوں نے جنوبی ایشیا میں اسلام کی ابتدائی تاریخ پر فوکس کیا۔ انہوں نے جنوبی ایشیا میں اسلام کی ابتدائی تاریخ پر مختلف وجوہات کے سبب فوکس کیا تھا- لیکن ان کا بنیادی مقصد ہندوستان کی نوآبادیاتی تاريخوں کا جواب دینا تھا۔

برطانوی کالونیل مورخین جیسے وینسٹ اے سمتھ، ایم الفنسٹن ، ایچ ایم ایلیٹ کے لیے آٹھویں صدی میں مسلمانوں کی بطور فاتحین آمد اور ان کا بتدریج ہندوستان کو نوآبادی بنانا ہی غالب فریم ورک تھا۔
ابتداء میں جیمز مل نے مقامی/ہندؤ ہندوستان اور بدیشی مسلمان ہندوستان میں تقسیم دکھائی- اس ابلاغ کا شجرہ جس دھاگے کے زریعے چلتا ہے وہ چچ نامہ ہے۔ دو سو سالوں تک، اسے بطور فتح نامہ پڑھا جاتا رہا۔ اور یہ ہندوستان میں اسلام کی آمد کا بیانیہ فراہم کرتا رہا- کئی سو سالوں تک، اسے 226 عیسوی میں فارسی میں ترجمہ شدہ کتاب سمجھا جاتا رہا جو ابتدائی آٹھویں صدی میں عربی میں لکھی گئی تھی۔

چچ نامہ کی ایسی تعبیرات اسے ایک ایسا کام بنا دیتی ہیں جس پر اہل علم کی نسلوں نے کام کیا ہو جن سب نے چچ نامہ کو ایک ایسے متن کے ترجمے کے طور پر برقرار رکھا جو ابتدائی تاریخی بیانیہ فراہم کرتا ہے۔ اس طرح سے مطالعے کا نتیجہ تھا کہ چچ نامہ کو ہندوستان میں مسلمانوں کی اصل کی سب سے ابتدائی قدیم داستان قرار دیا گیا، جس میں ان کے غلبے تک کی تاریخ محفوظ تھی۔

چچ نامہ کے بطور اصلیت کے بیانیہ والے متن کا خیال پھیلتا چلا گیا اور اصلیت کا بیانیے نے پرتشدد اصلاحات کا جواز فراہم کرنا جاری رکھا۔

پچیس فروی دو ہزار چھے ایک نوجوان پاکستانی پروفیشنل فیصل شہزاد نے کنیٹیکٹ سے ایک ای میل پیغام “میری محبوب اور پرامن امت” بھیجا، اس نے لکھا:

“سترہ سالہ محمد بن قاسم نے پاک و ہند برصغیر پہ حملہ کیا اور کافر حکمران راجا داہر کو شکست دے دی، کیونکہ وہ ایک مسلمان عورتوں جس کی عصمت دری کی گئی تھی کی خبر سن کر وہاں آیا تھا!!! اور آج ہمارے پیغمبر علیہ الصلوات و التسلیم کی توہین کی گئی ہے اور ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اور شرم اور دکھ کا مقامہے اورہم سے اکثر کو اس کی پرواہ بھی نہیں ہے”۔13

یہ ای میل پیغام شہزاد کی طرف سے امریکہ کے ٹائم اسکوائر پر ناکام بم دھماکہ کی کوشش کے بعد منظر عام پر آیا تھا- ہندوستان میں اسلام کے لیے ایک اصلی لمحہ کے طور پر خواتین کے خلاف تشدد کے خلاف غم و غصے کے دوسرا سبب عافیہ صدیقی کی قید تھی جو کہ پیشہ کے اعتبار سے کیمسٹ تھی اور القاعدہ کے ساتھ ملکر سازش کرنے پر اسے سزا ہوئی تھی:

“میری اس قوم کے لیے ایک محمد بن قاسم کی آرزو ہے جو عافیہ صدیقی کی چیخیں سن سکے اور اس کی مدد کرسکے۔ ہمیں اس کی اور اس کی فوج کی ضرورت ہے۔”

یہ بات جاوید چودھری نے روزنامہ جنگ میں چھپے ایک کالم میں لکھی-
(چودہ دسمبر 2007)

ایک اور تجزیہ کار نے لکھا “ایک محمد بن قاسم جیسے قلمکار کی ضرورت ہے جو اسلام کی بیٹی کے لیے درکار حمایت کو اکٹھا کرسکے۔”15

ایک مسلمان عورت کے ریپ کے واقعے کا بیان اصلیت کے بیانیہ کا حصّہ ہے۔ یہ بطور خاص ایک مربوط سیاسی بیانیے کے اندر جو چچ نامہ سے لیا گیا سیاسی اقدام کی پیدائش کے طور پہ پیش کیا جاتا ہے۔16

ماضی کی عظمت کو صاف طور پر ابھارنے کی یہ متعدد کوششیں حال کے ایک تاریخی ٹراما سے نبردآزما ہونے کی کوشش کا حصّہ ہیں-17میرے لیے جو دلچسپی کی بات اس میں ہے وہ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے دستیاب تمام تاریخی ماضیوں میں سے اس خاص واقعہ کی طاقت اور لچک دار فطرت ہے-
چچ نامہ برٹش کالونیل تاريخوں کے لیے ایک “اصلیت کا بیانیہ” ہے جس کی جانچ ہندوستانی قوم پرستوں نے کی اور بعد ازاں پاکستانی نیشن سٹیٹ نے اسے ہندوستان میں اسلام کی سچی آمد کی کہانی بیان کرنے کے لیے استعمال کیا ۔

اسے بڑے پیمانے پر ہندوستان کی فتح کی کہانی سمجھا جاتا ہے اور اسے ایک کمیونٹی یا ریاست کی عقلی توجہیہ فراہم کرنے والا بیانیہ بھی سمجھا جاتا ہے۔

مطالعہ چچ نامہ

نوآبادیاتی مورخوں سے چچ نامہ کی تعبیر کرنے کا غالب فریم ورک میسر آیا:

پہلے اس کی ابتدائی قدر آٹھویں صدی میں محمد بن قاسم کی کہانیوں کو بیان کرنے والے سرچشمے کی تھی کیونکہ یہ عربی تاریخ کا ناپید ہوجانے والے متن کا فارسی ترجمہ تھا- دوسرا عام تاریخی متون سے ہٹ کر اس متن میں رومانوی چیزوں کا بیان بھی تھا۔

ان مفروضات نے قوم پرست مورخین کو چچ نامہ کو ایک ایسا متن رکھنے والی کتاب سمجھنے کی راہ دکھائی جسے بہت احتیاط سے کھول کر عیاں کرنا پڑتا ہے اور پھر اسے ایک درست تاریخی بیانیے میں ڈھالنا پڑتا ہے۔ ایسی سوچ نے اس متن کے سارے کے سارے مطالعے کی احتیاج ہی مٹاڈالی اور جو اخلاقی کائنات بنائی گئی تھی اس کی جانچ کی ضرورت بھی ختم کردی گئی۔ یہاں تک کہ اسے اچ شریف کی لینڈاسکیپ میں رکھ کر جانچنے کی ضرورت ختم کردی گئی۔
یہ ابتدائی اسلام کا عالمگیر فتح کا بیانیہ بن گیا-

ایسی سوجھ بوجھ میں کم ہی درستگی کی گئی۔ یہ محدود اور بھٹکانے والا “چچ نامہ” آٹھویں صدی کی ابتدائی اسلام کی تاریخ کا معیار بن گیا- پھر بھی قوم پرست مورخین جیسے محمد حبیب ہیں(1895-1897) نے چچ نامہ کے ماقبل اسلام دور کو پورے کا پورا رد کردیا اور پرجوش طریقے سے باقی ماندہ حصّوں کو آٹھویں صدی کی مسلمان فتح کے طور پر قبول کرلیا:

“اس لیے ہم اعتماد کے ساتھ چچ نامہ کو حملے کے سب سے آسان طریقےسے رہنمائی کرنے والے رہنماء کے طور پر بھروسہ کرسکتے ہیں”-18

یہاں تک کہ جو زرا زیادہ متشکک تھے انھوں نے بھی رومان سے تاریخی سچ نکالنے والی جانچ پر راضی تھے- آر سی موجمدار (1888-1890) نے چچ نامہ کو “تاریخی حقائق کے بیج رکھنے والا” متن قرار دے ڈالا- اگرچہ اس میں بیان کردہ حقائق کو آرکیالوجیکل اور متنی ماخذ سے چیک کرنے کی ضرورت ہے-19

چچ نامہ کے وہ حصّے جو براہ راست محمد بن قاسم کی فتح سے متعلق نہیں تھے ان کو بے کار اور مستردشدہ سمجھا گیا- جیسے ہوڈیوالا کہتا ہے:

“چچ نامہ کا پہلے جزو کا سارے کا سارا مواد افسانوں سے بھرا ہوا ہے اور تاریخ کے طور پر اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔۔۔۔۔ اس کی لوک روایت میں کوئی اہمیت ہو تو ہو ،لیکن اگر ایسا ہو بھی تو حیرت انگیز افسانہ ترازیوں کے سفر میں یہ اس حد تک مسخ ہوگئی کہ اس میں سچائی نہ ہونے کے برابر رہ گئی”20

چچ نامہ پہلے ہی نوآبادیاتی مورخین کے زریعے بطور ایک سیاسی اعتبار سے حساس متن کا درجہ حاصل کرچکا تھا جو مسلمانوں کے ہاتھوں ہندوستان کے سنہری دور کی تباہی (ماقبل مسلمان کلاسیکی دور) اور تاریکی کے دور کی اصل کا انکشاف کرتا تھا- اس تاریخ نگاری کی بحث کے پس منظر میں چچ نامہ کو آٹھویں صدی عیسوی کی تاریخ کے طور پر پڑھا گیا نہ کہ تیرھویں صدی کی تاریخ کے متن کے طور پر جس صدی میں یہ متن لکھا گیا تھا-

جیسے سومناتھ کی تباہی پر بحث میں اسے مثال بنایا گیا- چچ نامہ کی مخفی تاریخی قدر و قیمت والا یہ نکتہ نظر پوسٹ کالونیل/مابعد نوآبادیاتی محققین جیسے ٹی ایس لیمبرک، پیٹر ہارڈی اور یوحنان فرائڈ مان کی تحریروں میں تجزیہ و تحلیل کے عمل سے گزرتا ہے-21

انہوں نے مربوط طریقے اور تفصیل کے ساتھ تاریخ کو افسانوی روایت سے الگ کیا جو اسے گھیرے ہوئے تھی-

افراد اور مقامات کے نام، واقعات کی تاریخ، سیاسی،مذہبی یا سماجی ثقافتی اہمیت کے اقدامات کو الگ کرکے اکٹھا کیا گیا اور احتیاط سے ان کا موازانہ دستیاب سوانحی لغات، تواریخ اور روزنامچوں سے کیا گیا۔ تاریخ کے اس شعبے میں چچ نامہ کی حثیت آٹھویں صدی میں ہندوستان میں ابتدائی اسلام کی تاریخ رکھنے والے متفقہ متن کی ہوگئی۔

چچ نامہ کا اکثر حصّہ ایسا ہے کہ جسے کسی دوسرے متن سے ماخوذ قرار نہیں دیا جاسکتا- اگر ایسا سمجھا جاسکتا ہے تو تب جب علی کوفی کی اپنی گواہی پہ اعتماد کیا جائے کہ یہ کسی ابتدائی عربی متن کا ترجمہ ہے- جیسا کہ فرائیڈمان کہتا ہے:

اگرچہ بہت سارے افراد جو چچ نامہ میں نمودار ہوتے ہیں، ان کو عرب تاریخ نگاری میں تلاش کرنا آسان نہیں ہے، لیکن ایک ممتاز تاثر یہ ہے کہ علی کوفی کے پاس عرب روایت تھی اور اس نے اس روایت کو بے خوف استعمال کیا- اس طرح سے چچ نامہ ایسے لگتا ہے کہ سندھ کی فتح کے حوالے سے تفصیل سے بیان کی گئی عرب روایت رکھتا ہے-22

اس فریم ورک کے اندر سے، مورخ نے رومانویت کو تاریخ کے لیے تبدیل کیا اور جو ہندوستان کے مسلمانوں کے ماضی میں ہوا تھا کے لیے ایک مربوط دلیل تراشتا ہے۔

ایسی تحقیق کی بہترین مثال ڈیرل این مکلین کی کتاب “عرب سندھ میں مذہب اور معاشرہ” ہے- یہ تحقیق چچ نامہ سے آگے جاتی ہے اور آٹھویں صدی بارے اہم بصیرتوں کی نشاندہی ہی نہیں کرتی ہے بلکہ اس پر چچ نامہ کا ناگوار اثر بھی پڑھتا ہے۔

مثال کے طور پر عرفان حبیب، چچ نامہ کو ہندوستانی تصورات کے لسانیاتی نشانات کی تلاش کے لیے کھوجتاہے۔ یہ ایک ایسا طریقہ کار ہے جو چچ نامہ کو ٹیکسٹ کیرئر کے طور پر لینے والی سوچ کو لازم کرتا ہے۔23

میں یہاں ہر اس پوسٹ کالونیل تحقیقی کام کی تفصیل نہیں دوں گا جس نے چچ نامہ کی تاریخیت کو استعمال کیا۔ لیکن میں مقبول تاریخی نصابی کتاب ” سندھ میں مسلمانوں کی فتح پر ہماری معلومات کے بنیادی ماخذ” کا حوالہ دوں گا جو اتفاق سے خلاصہ یوں کرتی ہے:

“چچ نامہ مسلمانوں کی فتح سندھ پر ہماری معلومات کا بنیادی ماخذ، ایک شاہی ضابطہ پر روشنی ڈالتی ہے جو سیاست کی حقیقی دنیا کی سیال اور بدلتی ہوئی فطرت کی طرف حساسیت کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہ کوتلیہ کی کلاسیکل اور نظریاتی کتاب ارتھ شاشتر سے مختلف ہے جو شہزادوں کو مطلق اور مرکزیت پسند طاقت کو تحلیل کرنے والے طریقوں سے گریزاں رہنے کی نصحیت کرتی ہے”۔24

مختصر طور پر ہم چچ نامہ کے بارے میں پائے جانے والے فہم کی رو سے یہ فیصلہ دے سکتے ہیں:

“چچ نامہ آٹھویں صدی کی تاریخ ہے جو ہمیں چند تجرباتی یا لسانیاتی یا قانونی فہم آٹھویں صدی بارے تلاش کرنے کی اجازت دیتا ہے- یہ کوئی سیاسی نظریہ رکھنے والا متن نہیں ہے اور نہ ہی اسے اس کے جنم کے زمانے مین بطور خاص منفی سیاست کے قدم کے طور پر اس کے اپنے سیاسی و سماجی مقاصد کی نیت سے پڑھے جانے کے لیے ہے”

(مصنف آگے چل کر بتاتا ہے کہ جن مورخین نے چچ نامہ کو آٹھویں صدی کی عرب فتح کی تاریخ سمجھا وہ کسقدر غلط تھے)

چچ نامہ کیا ہے؟

چچ نامہ فارسی میں لکھی جانے والی کتاب ہے۔ اسے 1226ء مں علی کوفی نے سندھ خطے کے درالحکومت اچ شہر میں لکھا-25 یہ تاریخ شمالی ہندوستان کے علاقے سندھ کے خطوں کی 680ء سے 716ء تک کی تاریخ بیان کرتی ہے- یہ ہندؤ برہمن بادشاہ چچ کی کہانی بیان کرتی ہے جو سندھ کا حاکم ہوا کرتا تھا۔ (چچ + نامہ= چچ کی کتاب) یہ مسلم کماندار محمد بن قاسم کا تذکرہ کرتی ہے، جس نے سندھ میں مسلم سلطنت کی بنیاد رکھی تھی۔

اچ آج کل ایک شہر کا نام ہے جو بندوبست پنجاب میں جانب جنوب واقع ہے۔ کوفی نے اپنے متن کو “بادشاہ داہر بن چچ بن سلائج اور اس کا محمد بن قاسم کے ہاتھوں قتل پر مشتمل کہانیاں” کا نام دیا تھا لیکن بعد میں اس کا نام “چچ نامہ” ہوگیا۔

چچ نامہ کا قدیم ترین نسخہ اس وقت جو دستیاب ہے وہ 1651ء میں نقل کیا گیا اور یہ پنجاب یونیورسٹی لاہور کے ذخیرہ قلمی نسخوں میں موجود ہے-26 حیدرآباد سندھ میں تالپور ذخیرہ میں، بانکی پور میں رام پور کتب خانے میں اور برٹش لائبریری میں اس کے نسخے موجود ہیں۔

زیادہ تر تجدیدات اٹھارویں اور انیسویں صدی کی ہیں- چچ نامہ کے مکمل مخطوطے کا انگریزی میں پہلا ترجمہ سندھی ڈرامہ نگار اور مترجم مرزا قلیچ فریدون بیگ (1853-1929) نے 1900ء میں کیا۔27 یہ چچ نامہ متن کا واحد ترجمہ ہے جو باقی رہا اور یہ سات سے آٹھ قلمی نسخوں کو سامنے رکھکر کیا گیا ترجمہ تھا لیکن اس میں پنجاب یونیورسٹی میں رکھا گیا قدیم ترین مخطوطہ شامل نہیں تھا۔

فارسی متن پہلی بار 1939ء میں عمر بن محمد داؤد پوتہ نے شایع کیا-28

ادارہ برائے اسلامی تاریخ و ثقافت و تہذیب اسلام آباد کے زیر اہتمام ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے 1982ء میں اس فارسی متن کا شاندار ایڈیشن شایع کیا جسے میں نے اپنی تحقیق کے لیے سامنے رکھا ہے-29 چچ نامہ کے بیانیہ کا وسیع خاکہ اس میں ایسے کھینچا جاتا ہے:

“چچ نامہ کا آغاز زیریں سندھ کے شہر اروڑ سے ہوتا ہے اور اس کا موضو، ایک نوجوان صاحب اہلیت برہمن چچ بن سلائج کے برسراقتدار آنے سے ہے- یہ چچ کی دارالحکومت آنے کے وقت کے سیاسی اور سماجی حالات اور چچ کے بطور نائٹس چیف منسٹرز کے سیکرٹری کے طور پر نوکر ہوجانے اور نوجوان چچ پر ملکہ کے فدا ہونے کا تذکرہ کرتا ہے- ملکہ بادشاہ کی موت کے بعد چچ کے تحۃ نشین ہونے کا انتظام کرتی ہے۔بادشاہ بننے کے بعد چچ سندھ کے چاروں کونے فتح کرنے کی مہم شروع کرتا ہے- چچ نامہ بتاتا ہے کہ کیسے چچ قلعوں پہ قلعے فتح کرتا، بدھ مت اور ہندؤ مت کو ماننے والی رعایا سے معاہدے کرتا ہے۔ چچ سندھ میں کامیاب حکومت بنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ کافی طویل مدت حکمرانی کے بعد وہ فوت ہوجاتا ہے- اس کے دو بیٹوں داہر اور دہرسیا کے درمیان تخت پر قبضے کی لڑائی ہوتی ہے۔داہر اپنے بھائی دھرسیا سے تاج دھوکے سے چھین لیتا ہے اور اروڑ کا بادشاہ بن جاتا ہے۔ داہر کی سیاست عرب باغیوں، قزاقوں اور گھومتے پھرتے جنگی سرداروں کو خوش آمدید کہنا بن جاتی ہے اور یہ عراق میں قائم مسلم سلطنت کے لیے مسائل پیدا کرتی ہے-

یہ کہانی چچ نامہ کے پہلے تین حصوں تک پھیلی ہوئی ہے اور اس میں ایک دوسرے پر چڑھے خیالات موجود ہیں: حاکم کے جواز حکمرانی کی قانونی بنیاد ،مشاورت کے لیے اچھی کونسل اور ایک منصفانہ حکومت کرنے کی ضرورت- اس کے بعد علی کوفی اپنے متن کا دوسرا حصّہ متعارف کراتا ہے جس کا عنوان ہے” خلفائے راشدین سے ولید تک کی تاریخ”۔ یہ حضرت عمر رض(634-644 عیسوی) کے دور سے شروع ہوتی ہے اور مسلمانوں کی سندھ و ہند پر حملوں کی مہمات کا بیان کرتا ہے۔ مختلف صوبوں جیسے مگران، زابلستان اور قندھار کے گورنروں کی مختصر داستان بیان کرتا ہے۔ اس کے بعد باغی مسلمان گروپوں کے سرحد کی طرف فرار ہونے کا زکر کرتا ہے۔30 کوفی تفصیل سے علوی بغاوتوں اور سندھ میں فوجی دستوں کے آنے کا زکر کرتا ہے جو دمشق ریاست کے خلاف سازشیں کررہے تھے۔ ان گروہوں کا قلع قمع کرنے اور خطے پر اپنا کنٹرول مضبوط بنانے کے لیے عراق کے گورنر حجاج بن یوسف نے اپنے نوجوان کماندار محمد بن قاسم کو 711ء میں سندھ کی طرف کماندار بناکر بھیجا- ابن قاسم نے مکران کے شہر اردبیل پر قبضے سے شروع کیا اور پھر دبیل شہر کا محاصرہ کرلیا- دبیل کی فتح کے بعد اس نے نیرون کے قلعوں پر چڑھائی کردی- راجا داہر سے لڑائی دریائے سندھ کے کنارے پر ہوئی- داہر کی شکست کے بعد، قاسم اروڑ، برھمن آباد کو فتح کرتا ہوا آخرکار ملتان پہنچ گیا۔ بیانیہ محمد بن قاسم کی موت پہ ختم ہوتا ہے جس کا حکم بغداد میں خلیفہ اس وقت دیتا ہے جب داہر کی بیٹیوں سے محمد بن قاسم کی جنسی زیادتی کا الزام لگتا ہے۔ چچ نامہ چھوٹے سے انتساب اور دعا پر کوفی کی طرف سے اختتام کو پہنچتا ہے۔ چچ نامہ کے اس حصّے میں قاسم کی مہم ارادی طور پر چچ کی فوجی مہمات کی جھلک لگتی ہیں جو اس نے سندھ کے چاروں کونوں میں سرانجام دی تھیں۔ مرکزی خیال اچھا مشورہ، اچھی حکومت اور حکومت کے لیے مربوط سیاسی نظریہ رہتا ہے- متن میں خطبات ہیں جو پالیسی، محصولات کی تفصیل بیان کرتے ہیں، کمانداروں کے مابین نجی گفتگو ، خواب، پیش گوئیاں، چالیس سے زیادہ خطوط مختلف حریفوں کے درمیان، سیاسی نظریے اور گورننس پر بیانات ہیں جن میں غیر مسلموں کے انتظامی اور اعزازی عہدوں پر تعیناتی کا بیان بھی شامل ہے۔”

چچ نامے کا متن چچ اور قاسم کے قرون وسطی میں سندھ کے شہروں میں میتھڈوکل فوجی مارچ میں گھلا ملا ہوا ہے۔ یہ چچ نامہ کہانی ہے، تاریخ ہے، ایک رومان ہے، ایک سبق ہے جس کا زمانہ ساتویں اور ابتدائی آٹھویں صدیاں ہیں۔

یہ چچ اور قاسم کی کہانی ہے، دونوں نوجوان سندھ میں ایک اخلاقی حکومت قائم کرنے نکلتے ہیں لیکن ان کا کام دوسروں کی ہوس و لالچ کے سبب ناممکل رہتا ہے۔

کوفی ہمیں دیباچے میں بتا تا ہے کہ اس نے آٹھویں صدی میں مسلمانوں کی فارس میں فوجی مہمات کے عربی متن سے اسے ترجمہ کیا تاکہ ناصر الدین قباچہ(1206 تا 1226) کے دربار میں خوشنودی حاصل کرسکے۔

چچ نامہ اچ شہر میں لکھا گیا جب وہ قباچہ کی سلطنت واقع شمالی ہندوستان کا دارالحکومت تھا- علی کوفی نے ابتدائی تیرھویں صدی میں ایک دور دراز ماضی کا تصور کیوں کیا؟

اس متن کی بناؤٹ اور تغیر والی زندگی کیا ہے؟ یہ متن 13ویں صدی میں نظریہ تاریخ میں کیسے حصّہ لیتا ہوا معلوم ہوتا ہے؟31

میں نے اپنی کتاب میں دو اہم ترین دعوے کیے ہیں:

“چچ نامہ جوکہ جنوبی ایشیا میں اسلام کی اصل بارے افسانہ گری کا بنیادی مرکز ہے کسی کتاب کا ترجمہ نہیں ہے۔ اور یہ کتاب فتح نامہ نہیں ہے۔ جنوبی ایشیا میں ابتدائی اسلام کی اصلیت کے بیانیے کی تردید مجھے اجازت دیتی ہے کہ میں اس متن کے مطالعے کے غالب طریقے کو بھی رد کردوں جو اس کتاب کو سیاسی نظریے کے طور پر پڑھنے کا باب کھولتا ہے۔

چچ نامہ کو دوبارہ پڑھنے کا کام اس فہم سے شروع ہوتا ہے کہ چچ نامے کو اس کی کلیت کے ساتھ جانچنا چاہيے اور اس کے مختلف و متعدد ٹائپ اور متن کے سیاسی وژن کا پتا چلانے کےلیے سب رجسٹروں کو دوبارہ کھولنا چاہیے۔

سارے کے سارے متن کا مطالعہ ایک متھڈولوجیکل قدم کے طور پر ضروری یوں ہے کہ چچ نامل برٹش اورئنٹلسٹ/برطانوی متشرقی کتب خانے کے آرکائیو میں داخل چچ نامہ نہ صرف غلط کیٹلاگ میں داخل کیا گیا ہے بلکہ اس میں پورا متن بھی نہیں ہے۔

الیگزینڈر ڈاؤ نے 1782ء میں اسے شروع کیا اور متن کے کچھ حصّے زیادہ تر جو مسلم حصّے تھے ترجمہ کیے گئے اور ان کو پھر نوادرات کے مضامین اور وسیع تواریخ میں دوبارہ شایع کیا گیا- ان اقتباسات پر “تاریخ” کا لیبل لگایا گیا اور ان کی قدر وقیمت فقط اتنی تھی کہ یہ ابتدائی آٹھویں صدی میں کیا ہوا تھا کے سوال کا جواب دیتے تھے۔

چچ نامہ کو ایسے متن کے طور پر پڑھنے کے جو ایک تو ترجمہ ہو اور دوسرا وہ ہندوستان کے لیے غیر ملکی ہو کے ایسے ہی ریڈیکل نتائج نکلنے تھے کہ یہ سمجھا جائے کہ اسلام کی اصلیتوں کی تحقیق اس متن کے ماقبل اسلام حصّے کو چھوڑ کر کی جاسکتی ہے۔

برطانوی متشرقین اور مورخین جنھوں اس مخصوص حصّے کے متن کے ترجمے کی پیروی کی (خاص طور پر قوم پرست اور سوشل مکاتب فکر)، یہ چچ نامہ ان کے لیے اسلام کی اصلیت کی وحدانی تفہیم کے لیے سماجی، لسانیاتی فلسفیانہ اور تاریخی بنیاد بن گیا۔

اہل علم نے عربی لسانیاتی فلسفے پر احتیاط سے کام کیا تاکہ متن کے اصل ہونے کا پتا چلایا جاسکے۔ وہ اس ناقابل شک عقیدے کے زیر اثر تھے کہ تاریخ کا سچ واضح ترین ہوجاتا ہے جب یہ واقعے کے تاریخی زمانے کے قریب تر ہوتا ہے۔

جدید علم “حقائق” کے لیے جملوں کو اسکین کرتا ہے جو دوسرے متنی حقائق سے تعلق میں مدون کیے جاتے ہیں اور اصلیت کے سچ کے لیے قائم مقام ہوجاتے ہیں۔
متن میں جو کردار تھے وہ عصر حاضر کے ہیرو اور ولن بن گئے جبکہ ان کی متنی یا تاریخی حثیت کیا تھی اسے دیکھا ہی نہیں گیا۔

تاہم میرا استدلال یہ ہے کہ چچ نامہ ہندوستان برصغیر میں اسلام کی آمد و اصلیت بارے فتح کا بیانیہ نہیں ہے۔ بلکہ ایک ایسا تناظری متن ہے جو 13 ویں صدی کی دنیا اور اس کے سیاسی نظام کے لیے عصری مکالمے کی حمایت کرتا ہے جو کہ اس حال میں تنوع کو شمار کرتا ہے۔

یہ سنسکرت ،عربی اور فارسی سے زرخیز متنی روایات کو لیکر ایسا کرتا ہے جوکہ اپنے زمانے کے اہل علم قارئين کے لیے دستیاب تھے۔

چچ نامہ کو واقعہ کرنے کا مطلب متن کو اس کی پیدائش کے تاریخی مقام سے پڑھنا اور متن کے تناظر سے اس کے لینڈ اسکیپ پر نظر ڈالنا ہے۔

میں نے اس کتاب میں ایک دلیل کو آگے بڑھایا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہندوستان کے قرون وسطی کے ماضی کو معاصر جنوبی ایشیا کے مابعد نوآبادیائے گئے اور مابعد تقسیمائے کئے گئے موضوعات کے تناظر سے جوڑنا چاہیے۔

جدید ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش اور افغانستان کا مورخ بہت شوق سے ان طریقوں کو زیر غور لاتا ہے جس میں 1947 یا 1971 کی تقسیم کے اثرات ان کے لسانیات، ارکائیوز، یادگاروں اور برادریوں کی تقسیم کے کام پر ہوتے تھے۔ اس کے برعکس قرون وسطی کے مورخین ماضی کی ان تنقیدی دستاویزات اور زندہ ثبوتوں کے سامنے ہونے پر پرامید اور رجائیت پسند ہی رہے۔

کتاب کو متحرک کرنے کے حوالے سے مرکزی زیرغور معاملہ یہ ہے کہ کیسے ہم متن کو اس کے مکان کے زریعے اور ایک مکان کو متن کے زریعے سے پڑھ سکتے ہیں۔

مکان سے میری مراد مادی جغرافیہ (لینڈ اسکیپ، قصبہ، شاہراہیں، خطہ) اور تصواتی مکان جیسے دار، بلاد، دیش اور ملک بھی ہیں۔

متن سے مراد مسودہ، شایع شدہ کاغذ، ثقافتی حافظہ اور ماضی کی رہ گئی مادی باقیات ہے۔

چچ نامہ آخری آٹھ صدیوں میں کیسے ثقافتی اور سیاسی حافظے میں مستقل موجود رہا؟ میں اس سوال کا جواب چچ نامہ کو ایک جیتا جاگتا متن سمجھ کر —- اس کے ساتھ آج کی معاصر مادی اور ثقافتی تاریخ کو ملاکر اور اس کے ثقافتی حافظے کو اس کے ساتھ جوڑ کر دیتا ہوں۔

یہ تحقیقی کام مکانی اور متنی دونوں ہی ہے- بلکہ میری جو ایتھنوگرافک اور آرکو-ٹوپوگرافک کام کے ساتھ مصروفیت ہے یہ اس کے نتائج کا پھیلاؤ ہی ہے۔( ایستادہ ماحولیات۔ ماضی کی زندہ باقیات اور لوگوں کی بودوباش)۔

میں تین سال (2009-2012) اچ شریف میں چلا پھرا۔ میرا مقصد چچ نامہ کی پیدائش کی جگہ تیرھویں صدی کے اچ کو تخیل میں دوبارہ لانا تھا۔۔۔۔۔ ایسی دنیا جس میں اقتدار کا مرکز نہ تو دہلی تھا اور نہ لاہور تھا، نہ لندن نہ اسلام آباد تھا۔
دنیا کے ایک سیاسی مرکز کے طور پر ایک عبوری وقت میں اچ کو سوچنا شمالی ہندوستان کے تصوراتی جغرافیے کو دوبارہ تصور میں لانا ہے۔ آخرکار ، یہ اچ تھا جہاں سے قباچہ نے گجرات کے علاقے دیو میں گورنروں کو بھیجا اور یہ اچ تھا جہاں تجارت اور قافلے کابل، مکران اور مسقط سے آتے تھے۔ یہ قرون وسطی کے اچ میں مختلف متون(مقدس، شاعرانہ اور تاریخی) کا مطالعہ ہی تھا جس کے بعد میں چچ نامہ کو ایک ہندوستان کے سمندر کی دنیا کے تذکرے کے طور پر دیکھنے کے قابل ہوا تھا جو مسقط اور گجرات پر مشتمل تھی۔

شمالی بحر ہند کی دنیا کے اس جامع پن کے ساتھ اس خطے کے لوگوں، نظریات اور دست کار نموونوں کے پھیلاؤ نے ان کہانیوں کی صورت گری کی تھی جو چچ نامہ میں موجود ہیں اور اس نے ان سوالوں کی صورت گری بھی کی جو میں اس کے متن کے حوالے سے اٹھا رہا تھا۔32

اچ میں مقدس مقامات کی موجودگی مذہبی ، سیاسی اور تجارتی برادریوں کی آمد کی ایک طویل تاریخ کا اشارہ ہے۔ اور ان کی مادی و آرکیالوجیکل باقیات اب بھی وہاں پر موجود ہیں اور یہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ ایسا مکان ہے جہاں ماضی شناخت ذات کے اہم حصّے کے طور پر موجود رہا ہے۔

اچ کا ثقافتی حافظہ اور اس کی موجودہ معاشی اور سیاسی زندگی میں بہت بڑا تضاد ہے۔ ایک بھلادیے گئے دار الحکومت کی مادی باقیات قرون وسطی کے ہندوستان پر تحقیقی کی سرحدوں کی کیسے صورت گری کرتی ہے؟
ہماری معاصر ترین تاریخ نگاری ماضی پر سوال کرنے کے نئے طرق وضع کرتی ہے اور مکانیت و عارضی تقسیم پیدا کرتی ہے جو فطری نظر آتی ہے لیکن اصل میں یہ ماضی کی حقیقتوں کو چھپا لیتی ہے۔ متنی مواد مورخین قرون وسطی کے ماضیوں کے مطالعہ کے لیے استعمال کرتے ہیں، وہ اپنی پیدائش کے مقامات سے بہت دور ہوتے ہیں۔ آرکائیوز اب لندن، برلن یا کیمبرج میں ہیں۔ اور مسودات کا مطالعہ ان کی میکانیاتی اور متنی تاریخ کا مطالعہ ضروری توجہ دیے بغیر کیا جاتا ہے۔ ایسی تحقیقات ماضی کے غلط جغرافیے کو جنم دیتی ہیں۔ پس تو میری تحقیق کا میدان متن، متن کے بعد کی زندگی اور مورخ کا طریقہ تحقیق کو شامل کرلیتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ چچ نامہ اور اس کی زندگی کے بعد کے ماضی کی جانچ کو کیسے ہم لیتے ہیں جیسے سوال کی حدود کو وسیع تر کردیتا ہے۔ کیسے اصلیت کے بیانیے کو نہ پڑھنے اور اس کے سیاسی مقصد کی قرات سے تاریخی سوالات کا راستا کھلتا ہے کا فہم اس کتاب کا بنیادی مقصد ہے۔

کھنڈرات کی لینڈ اسکیپ میں قرون وسطائی سیر اور حال یا مستقبل کے لیے اسباق اخذ کرنے کی میتھڈولوجی پوسٹ رانکین ہسٹاریکل انٹرپرائز کا جزو اور حصّہ ہے۔ ٹھیک طور پر جب سامراجی تفخر و بڑائی کو دوبارہ جنم دیا جاتا ہے۔ ہم فرانسیوں کا مصری کھنڈرات سے سامنے کو یاد کرسکتے ہیں، جیسے قسطینطین فرانسس والنی کا سفر مصر بعذریعہ شام کا کیس ہے۔ جو “کھنڈرات یا سلطنتوں کے انقلابات پر دھیان جیسی اس کی انتہائی بااثر کتاب کے بعد سامنے آئی تھی۔ جو اس کے معاصر شام کے شہروں کے مادی کھنڈرات سے زوال کو اخذ کرتی ہے۔33

یا ہم ایڈورڈ گبن کے روما اور اٹلی کے کھنڈرات کی سیر اور اس سے “زوال” کے سوال کو فریم کرنے کے عمل کو تصور کرکے کرسکتے ہیں۔ یا ہم آرنالڈو مومی گیلانو کے انہی کھنڈرات میں بعد میں گھومنے پھرنے اور سلطنت کی سیاست اور تاریخ نگاری کی تنقید کو متعارف کرنے کا خیال باندھ سکتے ہیں۔34

اچ تو پھر کوئی کھنڈر نہیں ہے اور نہ ہی اسے ایسا خیال کرنا چاہئیے35 یقینی طور پر یہ ایسا کیس ہے۔ آہستہ سے ابھرتے ہوئے اور تیزی سے کوہان ظاہر کرتے ریت کے ٹیلے، راستوں سے گھلے ملے یہ ٹیلے قرون وسطی اور ابتدائی جدید تعمیرات کے ڈھانچے جو کہ ان کو ماننے والوں اور دعاؤں کی ایک ٹریفک کے لیے کشش رکھتے ہیں۔

یہ بھی سچ ہے کہ اس کی لینڈ اسکیپ کا بڑا حصّہ مقبروں پر مشتمل ہے۔ اور ایسے قبرستانوں پر جو درختوں کے سائے سے بھرا ہوا ہے اور فٹ پاتھوں سے عبور کیا جاتا ہے۔ پھر بھی یہ کھنڈرات کی ٹوپوگرافی ، زمان میں جما ہوا نہیں ہے جو معاصر ترین دلچسپی کے آئینے سے دیکھ کر اس کی تعبیر کرنے کی مانگ کرتا ہو۔

اچ اپنے ٹیلوں کے ساتھ جنوبی دیہی پنجاب کے ہموار میدانوں سے خود کو کاٹ لیتا ہے اور دور دراز کے افق کا نظارہ پیش کرتا ہے۔ اگلے قدموں کے پاس بنی قبریں زمین کے بالکل قریب ہونے کا احساس دلاتی ہیں۔ مزارات عظیم امپورٹ کا سماجی مرکز ہیں جو زندہ باش ٹریفک کو برقرار رکھتے ہیں؟

تجزیاتی آنکھ کو اس زندہ باشی اور زندہ باشد اور خاص طور پر سرگرم ماضیوں کو جواب دینا پڑتا ہے۔ تجزیاتی آنکھ کو گبن اور مومی گلیانو کی آنکھ سے مختلف سٹرکچر میں سمونا ہوتا ہے۔36 یہ میری والٹر بنجمن —– خاص طور بنجمن کی پیرس اور برلن پر انیسویں صدی کی تحریروں میں موجود تصورات سے شغف تھا جس سے میں نے ایک میتھڈولوجیکل فریم ورک بنایا جو اچ کو چچ نامہ کے مطالعے کے لیے ایک نمائشی پس منظر تک محدود نہیں کرتااور نہ اسے پرانی یادوں کو تازہ کرنے کا زریعہ بنانے تک محدود کرتا ہے۔

پیرس اور برلن پر دو مختصر متون میں، بنجمن ہمیں سماجی میکانیات کی تخلیق بطور کہانیوں ، باطن اور مشہود کی باز پرس کے ساتھ ساتھ بطور متن کی قرآت کی اطلاع بارے سوچنے کو کہتا ہے۔38

اچ کی لینڈ اسکیپ کے ساتھ میرے سامنے میں، ماضی کی موجودگی کبھی بھی ایک جیسے ماضی کی نہیں تھی۔ اس نے مجھے چچ نامہ کو ایک ایسے پیدا شدہ متن کے طور پر سوچنے کی ضرورت سے شروع کرنے پر مجبور کیا جس میں مرکز کا ایک واضح خیال ہو اور اس نے مجھے ماضی کی مکانی تفہیم بارے سوچنے پر مجبور کیا جوکہ اس کی مادی اور قدرتی لینڈ اسکیپ کو بھی شمار کرتا ہے۔

یہاں میں نے اچ کو سیاسی اور روحانی مرکز کے طور پر بھی دیکھا جیسا کہ یہ چچ نامہ کی پیدائش کے وقت ہوا کرتا تھا۔ اس نے مجھے خود متن میں تعبیراتی نشانات کو تلاش کرنے کی اجازت دی۔ اچ میں میرے گشت نے مجھےان کہانیوں سے روشناس کرایا جو خاص مقامات، خاص فطرت اور خاص طور پر لینڈ اسکیپ سے جڑی ہوئی تھیں۔ اچ کے مقدس، تاریخی اور سیاسی جغرافیے ایک ہم آہنگی کا رشتہ رکھتے ہیں۔ مختلف متون جیسے چچ نامہ 1226ء،صوفی مخدوم جہانیاں جہاں گشت کا سفر نامہ 1350ء،میر محمد معصوم بکھروی کی تاریخ معصومی 1660ء اور میر علی شیر قانی کی تحفۃ الکرام 1788ء ماضی کو اور نمایاں بنانے کے لیے ان متنوع متون پر زور دیا گیا تاکہ یہ حال کی توجیح فراہم کرسکے۔

ان تاریخی ماخذ سے واقعات، شخصیات، بیانات اور اشیاء روزمرہ کی بات چیت کا حصّہ ہیں۔ حضرت جہانیاں جہاں گشت کا فیروز تغلق کو پیغمبر علیہ السلام کے دست مبارکہ نقش دینا تاکہ اس کا اور اس کے جانشینوں کا دلّی پر راج مستحکم رہے والا واقعہ زبان زد عام ہے۔39 سولہویں اور سترھویں صدی کے درمیان تعمیر شدہ قلعوں کا ایک سلسلہ اچ اور احمد آباد گجراب کے درمیان چولستان کے کناروں پر بندھا ہے۔ دراوڑ، اسلام گڑھ،میر گڑھ، جام گڑھ ، خان گڑھ، خیرگڑھ اور رام گڑھ کے قلعے اچ کی لینڈ اسکیپ کو تخیل میں لانے کے لیے مرکزی کردار ادا کرتے ہیں حالانکہ سات عشروں سے ہندوستان اور پاکستان کی بین الاقوام سرحد نے اس راستے کو بند کر رکھا ہے۔ اگرچہ قلعوں کا سلسلہ راجھستان صحرا تک پھیلا ہوا ہے، لیکن کہانیاں اچ میں سرحد کے پار دوسری طرف تک جڑی ہوئی ہیں۔ یاتریوں، تاجروں، سوداگروں اور سپاہیوں کا اونٹوں کے زریعے اس روٹ پر سفر کرنے کی یہ یادیں اچ میں زندگی کے ردھم بارے معلومات دینا جاری رکھتی ہیں۔ ان صحرائی سرحدوں پر بنی چوکیوں کے دعوے اچ کی مقدس لینڈ اسکیپ اور اس کے قرون وسطی ہندوستان کی لینڈ اسکیپ سے رشتے داری کا لازمی جزو ہیں۔

تنظیم کتاب

میں نے اس کتاب کو اس چوکھٹے/فریم میں منظم کرنا شروع کیا تھا جس کے اندر ہندوستان میں مسلمانوں کے ماضیوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے یہ ایک ایسا مستعار چوکھٹا ہے جو پہلے مکانی دوجے پن/ غیریت کے سوال کو دریافت کرتا ہے۔ اور پھر سیاسی، لسانیاتی اور سماجی غیریت کو دریافت کرتا ہے۔ یہ خاص فریم ورک نوآبادیاتی برٹش تحقیق کے زریعے انیسویں صدی میں وجود میں آیا جو ہندوستانی ماضی کو ناکام ہونے والی مسلم سلطنتوں سے پہلے کی تاریخ کے طور پر جاننے کے لیے کی گئی تھی۔ اس طرز کی تاریخ نگاری میں سب سے جانی پہچانی اور بہت زیادہ ادعائی شخصیت ہنری میرس ایلیٹ کی ہے۔ جنھوں نے جس کی کتاب
“The History of India as Told by its Own Historians”
نے ایک جیسے فریم کے اندر تاریخ اسلام اور مسلمان سلطنتوں کی تاریخ کو ڈھادیا۔

ایلیٹ نے چچ نامہ کے ترجمہ شدہ اقتباسات پر اعتماد کیا تاکہ وہ ہندوستان میں مسلمانوں کی تاريخ کی اصل میں وائلنس برائے وائلنس /تشد برائے تشدد اور محرومی کے بنیادی ثبوت کے لیے ان کو استعمال کرسکے۔ اس بیانیہ کی تشکیل پر میری سمجھ یہ ہے کہ چچ نامہ کے قلب کے طور پر متن کو غلط پڑھا گیا ہے۔ اس کی غلط کردار نگاری کی گئی اور اس کو اس کے اصل مقام سے بھی ہٹایا گیا۔ اسے ابتدائی عربی متن کے ترجمے کے طور پر غلط پڑھا گیا۔ اصل میں ابتدائی 13ویں صدی میں یہ اصلی فارسی متن سے ترجمہ کیا گیا متن ہے۔ اسے فتح کا بیانیہ سمجھ کر اس کی غلط کردار نگاری کی گئی۔ حقیقت میں سیاسی تھیوری(نظریہ) کا متن ہے۔ اسے اس کے مقام سے ہٹایا گیا کیونکہ اسے مسلمانوں کی اصلیت کے ماخذ کے طور پر لیا گیا، درحقیقت یہ تیرھویں صدی کے سندھ کی سیاسی طور پر متنوع دنیا کی نمائندگی کرتا ہے۔

میرا مقصد چچ نامہ کی ایک جنیاتی قرآت فراہم کرنا ہے جو ہمیں “اخلاق،آدرشوں اور مابعدالطبعیاتی تصورات” فراہم کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ جن کی مختلف تعبیرات کی جاسکتی ہیں۔۔۔۔۔۔ اور اسے تاریخی پروسس کے مرحلے پر واقعات کے طور پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔40

پھر میری کتاب “چچ نامہ” کو ایک کلیت میں پڑھتی ہے تاکہ اس کی تاریخی شناخت دوبارہ تشکیل ہو اور اس نے کیسے خاص کلامیوں/ڈسکورس کو بنایا کو تلاش کرتی ہے اور اس طرح ان طریقوں کو پہچانتی ہے جس نے ان کلامیوں کی خود اپنی روایتی شرائط کی پیروی کی یا ان کو چیلنچ کیا یا ان کے آگے جھک گئی۔41
میری کتاب سندھ علاقے کی سماجی اور سیاسی تاریخ کو ہندوستانی بحر ہند برصغیر کے اندر رکھنے سے شروع ہوتی ہے۔ پھر یہ چچ نامہ کو تیرھویں صدی کی سیاسی اور سماجی دنیا میں رکھتی ہے۔

اگلے تین ابواب متن کی خاص تاریخ نگاری کے رشتوں کے اندر بہت گہری قرآت کی تشکیل کرتے ہیں۔ آخری باب میں، میں چچ نامہ کے متن کے بعد کی زندگی کو تلاش کرتا ہوں اور ثابت کرتا ہوں کہ کیسے یہ ہندوستان میں اسلام کی اصلیت کا بیانیہ بن گیا۔

پہلے باب ” سونے کے گھر کی سرحد کے ساتھ” میں میں بحرہند کے آر پار پہلے ٹرانس لوکل نیٹ ورک کی سیاسی و سماجی تاریخ پیش کرتا ہوں اور میں ہندوستان اور عرب کی آٹھویں صدی سے پہلے کی باہم مربوط تاریخ کا سراغ لگاتا ہوں جو کہ ابتدائی عرب تاریخی ماخذ سے ہندوستان میں عربوں کی مہمات کی تاریخ ہے اور سندھ میں مسلمان سلطنتوں کی آٹھویں صدی سے اٹھارھویں صدی کی تاریخ ہے۔

دوسرے باب “بنیاد تاريخ” میں، میں نے ثابت کیا ہے کہ چچ نامہ عربی سے فارسی میں ترجمہ شدہ تاریخ نہیں ہے۔ بلکہ یہ تیرھوين صدی میں اچ میں تخلیق کیا گیا متن ہے سندھ میں قباچہ کے دربار کی سیاسی و سماجی فکرمندی کی عکاسی کرتا ہے۔ مین نے ایسا چچ نامہ کو فارسی تاریخ نگاری اور بارھویں و تیرھویں صدی کی متنی تخلیقات کے اندر رکھتے ہوئے کیا ہے۔ پھر میں نے یہ دکھایا ہے کہ چچ نامہ کی ٹائپ فتح کے بیانیے کی ٹائپ نہیں ہے۔ میں نے یہ چیز چچ نامے کی جانچ عرب کے فتح ناموں سے موازنے کے زریعے کی ہے۔ آخر میں، میں نے ایک متنوع اور ایک دوسرے میں پیوست قرون وسطی سندھ میں سیاسی و ثقافتی مکان کو دکھایا ہے اور یہ کام میں نے عربی و فارسی کے نویں صدی سے تیرھویں صدی کے آرکائیوز کی جانچ کرتے ہوئے دکھایا ہے۔

تیسرے باب”میرے بیٹے، تمہارے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟” میں، میں نے دلیل پیش کی ہے کہ چچ نامہ میں نظریہ سیاست کو پیش کرنے کا طریق نصحیتی مکالماتی ، عملی اور تجرباتی طریق ہے۔ خطوط متن میں نصحیت کے نمونوں کے ابتدائی ٹیمپلیٹ ہیں۔ وہ چچ نامہ کے نظریہ سیاست کی واضح ترین آرٹی کیولیشن فراہم کرتے ہیں۔ میری دلیل ہے کہ چچ نامہ مکمل طور پر ہندوی متن ہے جو کہ فارسی اور ساتھ ساتھ سنسکرت متون اور ٹائپ سے متاثر ہے جو سندھ کی تھیرھوين صدی کی باہم مربوط دنیا کی عکاسی کرتا ہے۔

چوتھے باب ” روبی کی انکھوں میں شیطان” میں ،میں چچ نامہ کے نظریہ سیاست میں اختلاف کے سوال کی طرف نمایاں طور پر پلٹتا ہوں۔ یہ باب تیرھویں صدی کی مذہبی اختلاف، بود باش اور سیاسی تنظیم کو زیر بحث لانے کے لیے چچ نامہ میں پیش کیے گئے سیاسی نظریے کے فرق کے فہم کو دریافت کرتا ہے۔ میں نے دکھایا ہے کہ چچ نامہ متنوغ تقدیسیت کی پہچان، مختلف برادریوں کی اکاموڈیشن اور گورننگ فرق میں سیاست کے کردار پر فوکس رکھتا ہے۔

پانچواں باب “نیم مسکراہٹ” چچ نامہ کی وسیع سماجی دنیا کی سرحد کو پیش کرتا ہے، جس میں بنیادی سیاسی کردار کی حامل طاقتور عورتیں بطور شہزادیاں اور مشیر شامل ہیں۔ یہ دکھاتا ہے کہ کیسے چچ نامہ سیاسی اعتبار سے طاقتور عورتون کے بیانیوں کو ان کی سیاسی منشا، وجدان اور سیاسی خطرات کا ٹھیک ٹھیک اندازہ کرنے کی صلاحیت پر فوکس کرتے ہوئے کام میں لاتا ہے تاکہ ایک اخلاقی رعیت کا نظریہ وضع کرسکے۔

چھٹے باب “”ماضیوں کی فتح” میں نے دکھایا ہے کہ کیسے انیسویں صدی کے مغرب ترجمہ پروجیکٹ نے ہندوستان میں اسلام کی اصلیتوں کا بنیادی سوال پیدا کیا۔ اور کیسے چچ نامہ کو ایک بنیادی متن کے طور پر پیش کردیا۔

تو میں چودھویں صدی سے ابتک چچ نامہ میں طویل دورانیے کی دلچسپی پیش کرتا ہوں۔ میں متن کی تاریخ کو قرون وسطی اور ابتدائی جدید ادوار سے شروع کرتا ہوں۔ چچ نامہ کو فتح کی تاریخ کے طور پر لینے کا عبوری سفر الیگزینڈر ڈاؤ(1735-1779) کے انگریزی ترجمے سے شروع ہوتا ہے۔ میں برطانوی کالونیل مورخین ، ہندوستانی نیشنلسٹ مورخین ، اسلام کے اہل علم اور ہندوستانی مارکس وادی مورخین کے کام میں چچ نامہ کو تلاش کرتا ہوں۔

اصلیتیں مورخین کے لیے لبھانے والی ضرورت ہے۔ ہم میرک بلوچ کی اس نصحیت پر کم ہی توجہ دیتے ہیں جو اس نے 1941ء میں کی تھی کہ ، “اصل ایک شروعات ہے جو وضاحت کرتی ہے۔ بدترین اصل وہ ہے جو مکمل وضاحت ہوتی ہے۔ اس میں ابہام ہوتا ہے، اور خطرہ بھی”۔42

اصلیتوں کے خلاف یہ کتاب قرون وسطی متن کا ایک سیاق و سباق میں کیا گیا مطالعہ ہے جو متن کا متن کے بعد کی زندگی کو پڑھنے کے بوجھ کو

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here