نواب اکبر شہباز بگٹی

 

ایڈیٹر کا نوٹ: 16 ستمبر 1972ء کو حمیدہ کھوڑو نے بلوچستان کے سیاست دان نواب اکبر بگٹی کا انٹرویو کیا۔ وہ لندن میں خود ساختہ جلا وطنی کاٹ رہے تھے۔ پاکستان کو دولخت ہوئے 12 ماہ ہوچلے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھے۔ اس وقت پاکستان کے نوے ہزار سویلین اور فوجی بھارت کی قید میں تھے۔ پاکستان نے بنگلہ دیش کو قبول نہیں کیا تھا۔ بچے کچھے پاکستان پر تاحال بے یقینی کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ ذہنوں میں سوال تھے کہ کیا بنگلہ دیش بننے کے بعد مغربی پاکستان کے صوبے بلوچستان، سرحد اور سندھ کے قوم پرست تو کہیں پاکستان کے وفاق میں رہنے سے انکار تو نہیں کردیں گے؟ پاکستان کیسے چل پائے گا؟ ایسے میں حمیدہ کھوڑو نے نواب اکبر بگٹی سے ایک انٹرویو کیا۔ جو کراچی سے شایع ہونے والے ہفت روزہ ” آؤٹ لک” میں چھپا۔ یہ انٹرویو بعد ازاں آکسفورڈ پریس کراچی سے شایع ہونے والی کتاب ” آؤٹ لک اے جرنل آف اوپینن: سلیکٹڈ آرٹیکلز” کے صفحات 143 تا 152 پر موجود ہے۔ نواب اکبر بگٹی کا یہ انٹرویو ان کے کہے ان الفاظ پر ختم ہوتا ہے:

مجھے پنجابی متعصب پریس یا ذہنیت نے مسلسل بدنام کیا ہےجو دوسرے کے نکتہ نظر یا احساسات کو سمجھنا یا قبول ہی نہیں کرنا چاہتا۔ یا تو آپ ان کی لائن قبول کرو،ورنہ آپ غدار ہو ، ریاست مخالف ہو یا غیر ملکی ایجنٹ ہو۔ وہ اس ہر وقت(بے جا) مخالفت یا تقسیم کو زندہ رکھتے ہیں تاکہ لوگوں کو ان کی نجات کی جدوجہد سے بھٹکا دیں اور مختلف قومیتیں اس مقصد(نجات) کے لیے اکٹھی نہ ہونے پائیں۔

وہ مسلسل کہہ رہے ہیں میں آزاد بلوچستان یا گریٹر بلوچستان چاہتا ہوں جبکہ میں حقیقت میں آزاد پاکستان چاہتا ہوں جہاں بلوچی آزاد ہوں تو پنجابی بھی آزاد ہوں، جہاں وہ برابر نمائندگی اور برابر کی آزادی رکھتے ہوں

انٹرویو 

سوال: آپ کی شہرت ایک غیر مصالحت پسند اور بے عمل قوم پرست کی ہے۔ آپ اس سے واقف ہی ہوں گے۔ آپ اپنے آپ کو کیسے بیان کریں گے؟

اکبر بگٹی: میں قوم پرست ہوں، میں امید پرست ہوں، میں غیر مصالحت پسند اور بے عمل ہوں یا نہیں ، میں کچھ کہہ نہیں سکتا ۔بعض اوقات چند لوگوں کے لیے کچھ چیزیں ناقابل عمل لگتی ہیں اور دوسروں کے نزدیک وہ قابل عمل ہوتی ہیں ۔ یہ رائے کا اختلاف ہے ۔ میں امید رکھتا ہوں کہ میں بہرحال قوم پرست ہوں۔

سوال: ایک مثالیت پسند؟

اکبر بگٹی: تھوڑی سی مثالیت پسندی بھی مجھے چھوتی ہے شاید ۔ مہم جوئی سے کہیں زیادہ مثالیت پسندی۔

سوال: وہ کون سے اثرات ہیں، جنھوں نے آپ کے سیاسی خیالات کی صورت گری کی ہے؟

اکبر بگٹی: یہ کئی سالوں پر مشتمل آہستہ آہستہ ہونے والا عمل ہے۔ جب میں اسکول میں تھا تو کانگریس کے “عدم تعاون” اور “ہندوستان چھوڑ دو” پروگرام نے مجھے متاثر کیا۔ اگرچہ مجھے اس تحریک کے اثرات و نتائج کا پوری طرح سے اندازہ نہیں تھا، جسے میں 1942 سے 1945ء تک سپورٹ کرتا رہا۔ ہم مسلم لیگ کی تحریک سے کہیں زیادہ کانگریس تحریک سے آگاہی رکھتے تھے۔

ان سالوں میں علامہ آئی آئی قاضی صاحب کی سرپرستی میں تھا۔ میں بہت چھوٹا تھا جب میرے والد کی وفات ہوگئی تھی اور علامہ صاحب میرے لیے والد کی طرح تھے۔ اصل میں میری نوجوانی کا سارا دور سندھی دانشوروں کی صحبت میں گزرا۔ ڈاکٹر داؤد پوتہ اور مسٹر بروہی میرے اتالیق تھےاور میں ان کے بہت اثر میں تھا۔

آزادی کے وقت بلوچستان میں ایک ریفرنڈم منعقد ہوا۔ اس میں شاہی جرگہ اور بلدیہ کوئٹہ کے ممبران نے حصّہ لیا تھا۔ آزادی کے بعد بلوچستان میں آئینی اصلاحات کے لیے بہت ایجی ٹیشن تھا اور اس کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے دو رکنی ایڈوائزری کونسل بنائی گئی جس نے اسٹنٹ گورنر جنرل کی معاونت کرنا تھی۔ قاضی عیسا اور نور محمد گولا ایک سال کے لیے ایڈوائزی کونسل کے رکن بنائے گئے تھے۔ اگلے سال 1951ء میں ارباب کرم خان کانسی اور مجھے ممبر بنایا گیا۔ اس سے پہلے میں سی ایس پی اکیڈیمی لاہور میں ایڈمنسٹریشن کی تربیت پارہا تھا۔ اس سے پہلے وہ منصوبہ لاگو ہوتا، ون یونٹ کا منصوبہ آگیا اور ایڈوائزی کونسل وغیرہ سب تحلیل ہوگئے۔

دستور ساز اسمبلی میں بلوچستان کی ایک نشست تھی۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ ہمیں بلوچیوں اور پٹھانوں کے درمیان لڑائی سے بچنا چاہیے اور نشست باری باری بلوچی اور پٹھان لیں۔ انتخابی حلقہ بلدیہ کوئٹہ اور شاہی جرگہ تھا۔ پہلی بار نواب جوگیزئی پٹھان کو منتخب کیا گیا۔ جب مدت ختم ہوئی تو ہمیں قدرتی طور پر امید تھی کہ اب نشست کسی بلوچی کے حصّے میں آئے گی۔ لیکن اسکندر مرزا نے ڈاکٹر خان صاحب کو کھڑا کردیا- میں نے اس منصوبے کی مخالفت کی اور ڈاکٹر خان صاحب سے درخواست کی کہ وہ بیٹھ جائیں لیکن ڈاکٹر خان صاحب پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا اور ڈاکٹر خان صاحب حکومت کی مدد سے منتخب ہوگئے ۔ جب ایک پیٹشن کے زریعے ان کو ہٹایا گیا تو حکومت نے الیکٹرول کالج بدل کر اراکین قومی اسمبلی کو الیکٹرول کالج بنادیا۔ تاہم میں نے ڈاکٹر خان صاحب کی مخالفت میں مہم چلائی اور تمام حکومتی دباؤ کے باوجود میں نے بیس ووٹوں کے مقابلے میں 18 ووٹ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ ڈاکٹر خان صاحب بلوچستان سے قومی اسمبلی کے اس وقت رکن رہے جب تک ان کو موت نہ آگئی۔ 1958ء میں، میں قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہوا اور وير داخلہ بنا اور اور اکتوبر 1958میں مرزا-ایوب مارشل لاء سے پہلے تک اسمبلی کا رکن رہا۔ اصل میں مارشل سے ایک دن پہلے میں نے تمہارے والد(حمیدہ کھوڑو کے والد ایوب کھوڑو) سے اپنی وزرات بدل لی تھی۔ وہ وزیر داخلہ میں وزیر دفاع بن گیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ 7 اکتوبر شام کو میں ان سے ملاقات کرنے ان کے گھر گیا تھا اور ہم نے اگلے دن دفتر جانے کی بجائے واقعات کا انتظار کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ رات کو ہی فوج نے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا۔

سوال: کیا آپ وضاحت سے بتا سکتے ہیں کہ بلوچستان میں حالات کیسے خراب ہوئے جن کا نتیجہ ایک لمبی جدوجہد کی شکل میں نکلا؟

اکبر بگٹی: قلات کا معاملہ پوری طرح سے پک چکا تھا۔ خان(آف قلات) ایک تو قلات کو بطور سٹیٹ کے تسلیم کرانا چاہتا تھا اور اس کی کافی حد تک خود مختاری بھی منوانا چاہتا تھا۔ مرزا نے خان کی حوصلہ افزائی اور خان کو بتایا کہ وہ قلات کی حثیت اور اس کی خودمختاری کو مانننے پر راضی ہوجائے گا لیکن اسے حکومت کو قائل کرنا ہوگا اور اس کے لیے خان کے پاس پیسے اور قوت کا اظہار لازمی ہے۔ خان کا جواب تھا کہ پیسے تو وہ نہیں کرسکے گا اس کے پاس نہیں ہیں لیکن طاقت کا اظہار وہ کرسکتا ہے۔ جبکہ رقم کا انتظام بہاولپور سے ہوجائے گا۔ لیکن مرزا کے منصوبے ہی دوسرے تھے۔ خان کی حوصلہ افزائی کرنا اس کے منصوبے کا حصّہ تھا تاکہ یہ دکھایا جائے کہ ملک میں افراتفری ہے۔ اخبارات اس کے کھیل میں شریک ہوگئے اور ہاہاکار مچ گئی کہ خان آف قلات بغاوت کرنے والا ہے۔ مرزا نے خان کو کراچی آنے کو کہا لیکن مرزا کی ہی خفیہ ہدایات کے سبب خان نے آنے سے انکار کردیا۔ میں نے وہاں جاکر اسے مزید مشکل پیدا کرنے سے روکنے کی پیشکش کی لیکن مرزا نے مجھے دو روز ٹھہرنے کو کہا ، میں دیکھ سکتا تھا کہ مرزا کے درپردہ عزائم ہی اور تھے، دو روز بعد تو بہت دیر ہوجاتی۔ مجھے یقین تھا کہ دو روز بعد خان کو گرفتار کرلیا جائے گا اور دو روز بعد مارشل لاء لگا دیا گیا۔

خان کو گرفتار کرلیا گیا لیکن گڑبڑ پھیل گئی تھی اور نواب نوروز خان نے جھلاوان کی پہاڑیوں میں ایک بڑا لشکر اکٹھا کرلیا تھا۔ فوج کا ایک پورا ڈویژن اس کے خلاف بھیجا گیا۔ جے او سی و بریگیڈئر ریاض حسین انچارچ بنادیے گئے۔ چھے ماہ تک بڑے پیمانے پہ فوجی کاروائی کی گئی جس میں فضائی بمباری بھی کی گئی ۔ بہت سارے بلوچی جان سے چلے گئے۔ بے چینی اور بے اطمینانی پھیلتی چلی گئی اور دوسرے قبائل بھی مزاحمت میں شریک ہوگئے۔ حکومت نے جواب میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کیں۔ کوئٹہ چھاؤنی میں ایک بڑا اذیتی کیمپ بنایا گیا جسے قلی کیمپ کے نام سے جانا جاتا ہے اور وہاں پر غیرانسانی طریقوں سے اذیت دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا- چھے ماہ بعد نواب نووروز خان اور ان کے ساتھیوں کو قرآن کے سائے میں سرنڈر کرنے کی پیشکش کی گئی تاکہ ان کے ساتھیوں کو معافی دی جائے۔ نوروز خان کا فوجی کیمپ میں شاہانہ استقبال ہوا لیکن جیسے ہی اس کے ساتھیوں نے سرنڈر کیا، ان سب کو قید کرلیا گیا اور کنسٹرشن کیمپ بھیج دیا گیا۔ حبر وستم جاری رہا۔ بزنجو اور گل خان نصیر کے ساتھ ساتھ بہت سارے دوسرے جو براہ راست ملوث نہ تھے کو بھی اس کیمپ میں ڈال دیا گیا۔ واقعات سارے بلوچستان میں ہوتے رہے۔ مجھ پر قتل کا الزام لگایا گیا اور گرفتار کرکے قلی کیمپ لے جایا گیا جہاں میں چار ماہ رہا۔ نوروز خان، ان کے رشتے داروں اور ساتھیوں کے خلاف مقدمہ چلا اور ان میں سے سات کو سزائے موت اور سات کو عمر قید سنائی گئی جن میں نوروز خان بھی شامل تھے۔ خصوصی فوجی عدالتیں قائم ہوئیں جہان بہت سارے لوگوں پر مقدمات چلاکر سزائیں سنائی گئیں۔ ایک خصوصی فوجی عدالت میرے لیے بھی بنائی گئی اور میرےخلاف مقدمہ وہاں چلایا گیا۔مجھے سزائے موت اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ کیا گیا جس کی منظوری جیف مارشل اللہ ایڈمنسٹریٹر نے دی۔ یہ سزا سنانے کے بعد جج نے میری طرف دیکھا اور توقف کیا۔۔۔۔۔ بعد میں مجھے بتایا گیا کہ میرے چہرے پر اس وقت مسکراہٹ تھی۔۔۔۔۔۔۔ بعد میں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نے کمال مہربانی کرتے ہوئےمیرا سزا عمر قید میں بدل دی۔ مجھے حیدرآباد جیل لیجایا گیا، جہاں نوروز خان کے کچھ لوگ رکھے گئے تھے جبکہ کچھ اور لوگوں کو سکھر جیل لیجایا گيا تھا۔جبکہ نوروز خان کے خاندان کے سات افراد جن میں اس کا بیٹا بھی تھا کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔

بیس ماہ بعد( ساٹھ کی دہائی کے وسط ميں) میری سزا معطل کرکے 50 ہزار جرمانے کے عوض مجھے ضمانت پر رہا کردیا گیا۔ جب میں حیدرآباد چیل میں تھا تو میں حیدر بخش جتوئی کو ملا۔۔ ان کو ایک نظم لکھنے پر پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی تھی کیونکہ نظم مارشل لا رجیم کو پسند نہیں آئی تھی۔ ہم ایک سال اکٹھا رہے۔ میں پہلی بار کسی حقیقی بائیں بازو کی سوچ رکھنے والی شخصیت سے ملا تھا۔۔۔۔ ایک بار پھر سندھی کے زریعے۔۔۔۔ اور مجھ پر سیاسی اعتبار سے ان کا گہرا اثر پڑا۔
اس دوران ایوب کے خلاف نفرت اور بے چینی بڑھ رہی تھی اور زیادہ تر بلوچستان فوجی قبضے میں تھا۔ ملیشیا بھی ہمارے علاقوں میں بھیجی جاچکی تھی۔جب انیس سو باسٹھ میں ایوب خان کی حکمرانی میں پہلے انتخابات ہوئے تو مجھ پر پابندی تھی۔ بلوچستان کے لیے قومی اسمبلی کی دو نشستیں تھیں۔ خیر بخش مری کوئٹہ سیٹ سے اور عطاء اللہ مینگل قلات سیٹ سے منتخب ہوئے۔ قومی اسمبلی کے پہلے سیشن میں عطاء اللہ مینگل نے اپنی تقریر میں جو کچھ بلوچستان میں ہوا بیان کیا اور ایوب خان کے اس دعوے کو غلط ثابت کیا کہ اس کا مارشل لا بنا خون بہائے لگایا گیا تھا۔ اس تقریر نے اسمبلی سیشن میں سنسنی پھیلا دی کی کیونکہ اراکین قومی اسمبلی کی اکثریت نے پہلی بار بلوچستان مین ہوئے واقعات کو سنا تھا۔۔۔۔۔ ان میں سے کئی ایک نے کہا کہ ان کو ان سب باتوں بارے کچھ نہ پتا تھا۔ عالمی پریس کو سخت سنسر شپ کی وجہ سے کچھ پتا نہ تھا۔ خیر بخش مری نے بھی انہی خطوط پر بات کی اور میرا چھوٹا بھائی صوبائی اسمبلی (مغربی پاکستان اسمبلی ) میں بولا۔

اسے کالا باغ نے دھمکی دی کہ میری سزا ابھی بھی باقی ہے(معطل ہوئی تھی ختم نہیں)اور مجھے بھی تنبیہ کی گئی۔ اسمبلی کے بعد میں کوئٹہ واپس پہنچا جہاں ہم نے جلسہ عام منعقد کرنا تھا۔ شاید پانچ اگست کو۔ ہم نے میر رسول بخش ٹالپر اور دوسرے رہنماؤں کو مدعو کیا تھا۔ ایوب خان نے بھی 6 اگست کو کوئٹہ میں ایک جلسے سے خطاب کرنا تھا اور ہمیں جلسہ نہ کرنے کو کہا گیا لیکن ہم نے پروگرام کے مطابق عمل کیا۔ میرے دوستوں نے مجھے خطاب نہ کرنے دیا۔ جبکہ دوسروں نے شعلہ بیان خطاب کیے۔ بلوچستان میں ہوئے واقعات کی پبلک انکوائری کرنے کا مطالبہ کیا گیا اور دوسرے اہم مسائۂ پر بات کی گئی۔ یہ خطاب ایوب خان سے تھے جس نے اگلے دن خطاب کرنا تھا۔ ایوب خان نے اگلے دن اپنی تقریر میں جو جواب دیا وہ میرے حوالے کے ساتھ تھا:

” ایاں ایک سابقہ سیاست دان ہے جس نے جرم کیا اور جس کو سزائے موت ملا پھر میں نے مہربانی کرکے عمر قید میں تبدیل کیا۔ پھر اس کو چھوڑ دیا ۔ وہ میری مہربانیوں کو سمجھ نہیں رہا ہے۔ اس نے کرائے کے مقررین لاکر میرے اور آئین کے خلاف جدوجہد کررہا ہے۔ اسے معلوم ہونا چاہئیے کہ میں اس کو پھر اندر کرسکتا ہوں۔”
قریب قریب، یہی اس کے الفاظ تھے۔ ہر ایک کو توقع تھی کہ جلد ہی میں حراست میں لے لیا جاؤں گا۔ اگلے دن پھر ہمارے جلسے میں ہزاروں لوگ امنڈ چلے آئے۔ کالا باغ ایک بند جیپ میں آیا اور جلسہ گاہ کے مدمقابل ایک اسکول کے پاس کھڑا تقریریں سنتا رہا۔ ہم بہت غصے میں تھے اور مقررین نے خوب دل کی بھڑاس نکالی۔

اس کے بعد ہم نے کراچی میں بلوچ گروپوں کا اجلاس بلایا۔ اس دوران بہت سارے رہنماؤں کے بلوچستان سے نکالے جانے کے حکومتی احکام جاری ہوچکے تھے۔ ہم کراچی میں اکٹھے تو ہوئے لیکن ہمارا جلسہ نہیں ہونے دیا گیا، پولیس نے اسے منتشر کردیا۔ جلسے کی نئی تاریخ 21 اگست رکھی گئی تھی میرے خیال میں۔ 21 اگست کو مجھے پھر گرفتار کرلیا گیا اور میری سزا کی معطلی ختم کردی گئی۔ اس حکم پر دستخط جنرل موسی مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نے کیے تھے۔ جلسہ ککری گراؤنڈ کراچی میں ہوا۔ میرے بھائی اور نواب خیربخش مری نے تقاریر کیں۔ پولیس شاید تقریروں کو سمجھ نہیں سکی کیونکہ وہ بلوچی زبان میں کی گئی تھیں۔ ورنہ وہ لازمی بغاوت کے مقدمات قائم کرتے۔ مجھے لائل پور جیل منتقل کردیا گیا۔ اور ایک ہفتے میں عطاء اللہ اور دوسرے کئی بلوچی رہنماء گرفتار کرلیےگئے۔ شیر محمد مری جوبلوچستان سے باہر تھا، اس کے بھی گرفتاری کے آڈر جاری ہوئے۔ وہ روپوش ہوکر بلوچستان کی چٹانوں میں نمودار ہوا۔ اور گوریلا بنیادوں پر مزاحمتی تنظیم کی تعمیر شروع کردی۔ شیر محمد پرانا سوشلسٹ ہے اور اس کے طریقہ کار سائنسی تھے۔ اس کی تنظیم جھالاوان سے ہوتی ہوئی پورے مشرقی بلوچستان میں پھیل گئی۔ تاہم یہ بہت سست رو کام تھا اور اسے پوری طرح سے تشکیل دینے میں ڈیڑھ سال لگ گیا۔ شیر محمد مری اس تنظیم کی مشرقی کمانڈ کا سربراہ اور علی محمد مینگل اس کا مغربی کمانڈ کا سربراہ تھا۔

بلوچ کے خلاف فوجی کاروائیاں پھر بڑے پیمانے پر شروع ہو گئیں۔ 1963ء کے شروع میں جنرل ٹکا خان کو اس کا انچارج بنادیا گیا۔ فوج جھالاوانکی طرف بڑھی اور اس نے ویت نام پر امریکی مہم کی طرح کھانے اور پانی کی رسد کو کاٹا،گاؤں جلائے ،فضائی بمباری کی اور دوسرے اقدامات اٹھائے۔ ہمارا خود کو منظم کرنے کا پروسس بھی سست رفتاری کا شکار تھا۔ جھالاوان سے لڑائی قدرے افراتفری میں شروع ہوئی، لیکن شیر محمد مری بتدریج مری علاقوں کی طرف بڑھا اور اس نے مری اور بگٹی قبائل کے ساتھ ساتھ سارے مشرقی بلوچستان کو منظم کرلیا۔ جن سرداروں کی سرداری کو سرکاری طور پر ختم کیا گیا ان میں خیر بخش مری، عطاء اللہ مینگل اور میں خود شامل تھا۔ ان قبیلوں کے جن لوگوں کو سردار حکومت نے متعین کیا تھا وہ سب عام قبائلیوں نے مار ڈالے۔ گڑبڑ ساتھ کے ملحق علاقوں میں پھیلتی چلی گئی۔ بلوچستان میں عام لا قانونیت کی فضا تھی۔ یہ جو صورت حال پیدا کی گئی تھی اس نے قدرتی طور پر ہمارا فائدہ کیا۔ ایک زیر زمین رسالہ “سپارک” کے نام سے بلوچی، اردو اور انگریزی میں جاری کیا گیا۔ اس کی کچھ کاپیاں مشرقی پاکستان بھیجی جاتی تھیں، جہاں وہ بنگالی میں ترجمہ ہوتا اور بڑے پیمانے پر تقسیم ہوتی تھی۔

سن 1967ء کے شروع میں حکومت کو لگا کہ جبر کی پالیسی کے الٹے اثرات ہوئے ہیں اور اب مفاہمت کے راستے پہ چلا چائے۔ بزنجو رہا کردیے گئے۔ جب ایوب خان اور کالا باغ کے درمیان لڑائی ہوگئی تو کالاباغ نے بزنجو کو کراچی میں سپورٹ کیا اور الیکشن جیت گئے جبکہ مقابلے میں ایوب خان کا امیدوار تھا۔ اس کے بعد جلد ہی جنرل موسی گورنر بن کر آئے اور عام معافی کا اعلان کیا۔ بارہ سو یا تیرہ سو لوگ رہا کیے گئے، موسی ہمیں ملنے کوئٹہ آیا۔ حکومت بلوچ عوام کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پہ لانا چاہتی ہے۔ وہ ہمیں دوبارہ سرکاری طور پر سردار ہونے کا اعلان کرنا چاہتے تھے۔ ہم نے ان کو جواب دیا کہ ہم تو سردار ہیں تو ہمیں ان کی طرف سے بحالی کی ضرورت نہیں ہے۔ حکومت کی خواہش تھی کہ نمائشی طور پر چند لوگ ہتھیار ڈالنے کی عام نمائش کردیں، ہم نے ایسا کرنے سے بھی انکار کردیا تھا۔ ہمارا موقف تھا کہ بلوچ عام طور پر ہتھیار ساتھ لیکر چلتے ہیں اور وہ ایسا کرنا نہیں چھوڑیں گے۔ اور پھر ہمارے پاس سردار نوروز خان کا تجربہ بھی تھا۔ نتیجہ یہ تھا کہ ہم پر عدم تعاون کا الزام لگا اور ہراساں کیا جانے کا عمل دوبارہ شروع ہوگیا۔ کوئٹہ میں فوج نے ایک ہاسٹل کو گھیرلیا اور وجہ یہ بتائی کہ ان کو وہاں بلوچی اور پنجابی طلباء کے درمیان تصادم کا خطرہ تھا اور چار ہزار گولیوں کے راؤنڈز فائر کیے جس کے نتیجے میں کچھ بلوچ اور پٹھان طلباء مارے گئے۔ پٹ فیڈر علاقے میں گڑبڑ شروع ہوگئی۔ مئی 1968ء میں مجھے دوبارہ گرفتار کرلیا گیا اور میانوالی جیل میں بند کردیا گیا۔ اس وقت گل خان نصیر میرے ساتھ تھا۔ اس پر یہ الزام بھی تھا کہ جب مجھے گرفتار کیا جارہا تھا تو اس کے چہرے پہ سخت غضب کے آثار تھے اور اسے تین سال سزا کاٹنا پڑی۔ بزنجو کو اس لیے گرفتار کیا گیا کہ اس کے پاس سے ایک کرنسی نوٹ نکلا تھا جس پہ لکھا ہوا تھا:

ون یونٹ توڑ دو – بلوچستان کے حقوق دو- ایک بار پھر بگٹی ایریا اور بالائی سندھ میں لڑائی شروع ہوگئی ۔ نہروں میں شگاف ڈالے گئے ، ٹرینیں لوٹ لی گئیں، وغیرہ وغیرہ ۔ عبدالصمد خان اچکزئی جو 14 سال کی مکمل قید کاٹ کر رہا ہی ہوئے تھے پھر دوبارہ گرفتار کرلیے گئے۔

اس دوران باقی ماندہ ملک میں واقعات تیزی سے رونما ہونے لگے- ایوب خان کے خلاف ایجی ٹیشن طاقتور ہونے لگی۔ بھٹو بھی گرفتار ہوگیا اور بڑے پیمانے پر حالات کی خرابی کے بعد ایوب خان نے گول میز کانفرنس طلب کرلی۔ مجیب، بھٹو اور میں سب رہا کردیے گئے۔ ہم میں سے کچھ بلوچستان سے راولپنڈی گئے۔ جلد ہی ہمیں پتا چل گیا کہ کچھ نہیں ہونے والا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ہم بلوچستان واپس لوٹ آئے۔

مارشل لاء کے دوبارہ لاگو ہوتے اور ون یونٹ سسٹم کے ٹوٹ جانے کے ساتھ ہی جنرل ریاض حسین گورنر بلوچستان مقرر کیے گئے۔ قدرتی بات تھی کہ اس پر لوگ غصہ ہوئے۔ ہم میں سے کوئی بھی اسے نہیں ملا۔

جب پاکستان فوج مشرقی پاکستان میں کاروائی کررہی تھی تو ہمیں معلوم ہوا کہ بلوچستان حکومتی ذمہ داران نے یحیی حکومت کو کچھ تجاویز بھیجی تھیں۔ جنرل ریاض حسین نے مثال کے طور پر بلوچستان میں پیشگی فوجی ایکشن کرنے کی تجویز دی۔ صوبے کے ممتاز لوگوں کی ایک فہرست تیار کی گئی اور کہا گیا کہ اس فہرست میں موجود لوگوں کو فوری طور پر ختم کردینا چاہیے تاکہ مشرقی پاکستان والی غلطی یہاں نہ دہرائی جاسکے۔ مجھے یقین ہے کہ اس میں سرفہرست میرا اور دوسرے نمبر پر (غوث بخش بزنجو) کا نام تھا۔ بلوچستان میں ان چیزوں کا ادراک اور احساس تھا اور لوگ دفاع کرنے کو تیار تھے۔۔۔۔ حکومت کو بغاوت کا خطرہ تھا۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے مشرقی پاکستان سے فراغت ہونے تک انتظار کرنا مناسب جانا۔ یہ ایک ہی وقت میں دو جگہوں پر خانہ جنگی متحمل نہیں ہوسکتی تھی۔ اور باقی سب حالیہ تاریخ کا حصّہ ہے۔

سوال: آپ نے قید تنہائی میں ڈال دیے جانے کے لمبے دور برداشت کرنے کے ساتھ کافی عرصہ جیل کاٹی۔ پاکستان کی مشکل ترین جیلوں میں سی کلاس میں بھی رہے۔ مجھے پتا ہے کہ آپ ایک بار 5 ماہ تک بھوک ہڑتال پر بھی رہے۔ کیا جیل آپ کے کردار اور خیالات پر اثرانداز ہوئی؟

اکبر بگٹی: میں نے ساڑھے سات سال جیل کاٹی۔ جیل انسان کو یا تو بنا دیتی ہے یا یہ توڑ دیتی ہے۔ اس نے مجھے توڑا نہیں بلکہ شاید مجھے کندن بنادیا۔

سوال کس چیز نے آپ کو نیشنل عوامی پارٹی – نیپ میں شامل ہونے پر مجبور کیا؟ کیا اس کے پروگرام نے آپ کو اپنی طرف کھینچا تھا؟

اکبر بگٹی: میں کبھی نیپ کا رکن نہیں رہا، عطاء اللہ(مینگل) اور نواب خیر بخش بھی نہیں رہے۔ (میر غوث بخش) بزنجو پہلے دن سے رکن تھے۔ عطا اللہ مینگل اور میں کافی عرصے کے لیے جیل رہے۔ میرا خیال ہے کہ خیربخش(مری) نے 63ء یا 64ء میں نیپ میں باقاعدہ شمولیت کی ۔ تب 1969ء میں آخر کار ہم دونوں رہا ہوئے تو عطا نے بھی نیپ میں باقاعدہ شمولیت اختیار کرلی۔ میں باقاعدہ اس میں کبھی شامل ہی نہیں ہوا کیونکہ یحیی خان کے ليگل فریم ورک آڈر(ایل ایف او) کے تحت مجھ پر پابندی تھی کیونکہ میں دو سال تک جیل رہا تھا۔ یہ پابندی محمود اچکزئی پر بھی تھی لیکن انہوں نے اس معاملے میں حکومت سے رجوع کیا تو پابندی اٹھالی گئی۔ میں سوچتا ہوں آخر میں واحد میں وہ شخص تھا جس پر ایل ایف او کے تحت پابندی برقرار رہ گئی تھی۔

سوال: نیپ کی بلوجستان میں موجودہ قیادت سے آپ کے تعلقات کیسے ہیں؟
اکبر بگٹی: میں ہمیشہ ہمدرد اور دعا گو رہا ہوں اور ابھی تک ہوں۔ ہماری گہری قربت اس سال فروری میں کسی وقت ختم ہوئی۔ ہمارے درمیان چند بنیادی باتوں پر اختلاف ہوا، جنھیں اب میں سمجھتا ہوں کہ ان کہا ہی رہنے دیا جائے۔

سوال: ولی خان سے آپ کے کیسے تعلق ہے؟

اکبر بگٹی: میرے ولی خان سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ہم دوست ہیں ۔ میں ان کے لیے اور ان کے خاندان کے لیے بڑی عزت دل میں رکھتا ہوں اور معترف ہوں۔

سوال: شیخ مجیب الرحمان کو اپ کتنا جانتے ہیں؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ وہ پاکستان کی بقا کے لیے مخلص تھا؟ یا آپ سوچتے ہیں کہ اس کا مقصد صرف علیحدگی تھا؟

اکبر بگٹی: میں مجیب کو کئی سالوں سے جانتا ہوں ۔۔۔۔۔۔ 1956ء سے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ بہت زیادہ چاہتا تھا کہ پاکستان باقی رہے۔ اس نے اس وقت تک مزاحمت کی جب تک اس کی جماعت کے اندر سے انتہا پسندوں کی جانب سے اعلامیہ آزادی جاری کرنے کا مطالبہ نہیں آگیا۔ فطری طور پر وہ مشرقی بازو کی ممکنہ مکمل خود مختاری چاہتا تھا۔

سوال: حال ہی میں جب مجیب لندن میں تھا تو آپ نے ان سے کئی ملاقاتیں کیں ۔ آپ کچھ بتاسکتے ہیں کہ پاکستان بارے اس کا رویہ کیا تھا؟ مستقبل میں کیا وہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بن سکتے ہیں؟

اکبر بگٹی: ہاں مجیب سے میں کئی بار ملا، جب وہ لندن میں موجود تھا۔ ہم نے بہت سارے معاملات پر بات چیت کی۔۔۔۔۔ ہماری مشکلات، اس کی مشکلات ۔۔۔ اور یہ بھی دیکھا کہ ان پر قابو کیسے پایا گیا؟ پاکستان کی جانب سے بنگلہ دیش کو تسلیم نہ کرنے پر وہ کافی ناخوش دکھائی دیا۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات کے حوالے سے اس کا خيال تھا کہ اگر اس کی رہائی کے فوری بعد پاکستان بنگلہ دیش کو تسلیم کرلیتا تو صورت حال کافی مختلف ہوجاتی ۔ جیسے جیسے دن گزر رہے ہیں ویسے ویسے بنگلہ دیش اور مغربی پاکستان کے لوگوں کے درمیان اختلافات بڑھتے چلے جائيں گے۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ جو کچھ بھی گزرا۔۔۔۔خون ریزی، المناک واقعات فوجی مداخلت کے بعد جو رونما ہوئے۔۔۔۔۔ پاکستان نے اس کی تلافی کی کوشش نہیں کی، اس نے نہ تو کوئی ترامیم کیں، نہ اپنا قصور تسلیم کیا، اس سے زخموں پر اور نمک چھڑکا گیا۔ اگر پاکستان بنگلہ دیش کوتسلیم کرتا ہے تو دونوں ملکوں کے قریب آنے کی امید کی جاسکتی ہے۔

سوال: کیا مجیب جنگی جرائم پر مقدمے چلانے کے لیے پرعزم ہے؟

اکبر بگٹی: ہاں۔۔۔۔ وہ کہتا ہے جنھوں نے مظالم ڈھائے ان کے خلاف مقدمات چلانے چاہیں اور ان کو کیفر دار تک پہنچایا جائے گا۔ وہ کہتا ہے کہ اگر صورت حال کا قانونی اعتبار سے جائزہ لیا جائے تو وہ ایک قانونی جواز کی حامل حکومت کا کا ایسا رہنما ہے جسے دونوں بازوؤں میں بھاری اکثریت حاصل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال: کیا پاکستان میں جمہوریت چل سکتی تھی اگر مارچ 1971ء میں پاکستانی فوج مداخلت نہ کرتی؟

اکبر بگٹی : میں سمجھتا ہوں، ایسا ہوسکتا تھا۔ بشمول مشرقی پاکستان پاکستان میں اس کے چلنے کے بہت امکان تھے۔ اگر اقتدار اکثریتی پارٹی کو منتقل کردیا جاتا توجمہوریت یقینی طور پر کام کرتی۔

سوال: آپ کے خیال میں آج پاکستان کا بنیادی مسئلہ کیا ہے؟ پاکستان کے حالات کیا ہوں گے؟ اور اس کی بقاء کیسے ممکن ہوگی؟

اکبر بگٹی: بنیادی مسئلہ تو قومیتیوں کا ہے جس کے ساتھ معاشی اور محنت کشوں کے مسائل ہیں۔ اصل میں سیاسی استحصال اور معاشی استحصال دونوں باہم مربوط ہیں۔ اگر ہم قومیتوں کا مسئلہ حل کرلیں گے تو پاکستان بچ سکتا ہے۔ اور اسے حل کرنا محال نہیں ہے اگر ہم کرنا چاہیں تو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نواب اکبر بگٹی (12 جولائی 1926 – 26 اگست 2006)

حمیدہ کھوڑو بنت ایوب کھوڑو (13 اگست 1936 – 12 فروری 2017)

 

انٹرویو ایڈیٹر ایسٹرن ٹائمز محمد عامر حسینی نے کیا ہے

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here