گڑھی خدا بخش لاڑکانہ میں ہوئی نئی تاریخ رقم

لیل و نہار


lailonihar@gmail.com


بے نظیر بھٹو کی 13ویں برسی گڑھی خدا بخش میں منائی جارہی تھی ۔ ملک کے کونے کونے سے ہزاروں قافلوں کی صورت میں پاکستان پیپلزپارٹی کے جیالے اور جیالیاں بھٹو خاندان اور ان کی پارٹی کے دیگر شہداء کی قبروں کے سامنے کھلے میدان میں بچھی دریوں پر بیٹھے تھے۔ اسٹیج پر پہلی بار صرف پاکستان پیپلزپارٹی  کی قیادت براجمان نہیں تھی بلکہ وہاں پر نیشنل عوامی پارٹی – نیپ سے نکل کر بنی بلوچ اور پشتون قوم پرست سیاسی جماعتوں کی قیادت بھی موجود تھی- جبکہ مذہبی جماعتوں میں جے یو پی، جمعیت اہل حدیث پاکستان کی مرکزی قیادت بھی موجود تھی ۔ لیکن ان سب سے زیادہ اہمیت کی حامل بات یہ تھی کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے تیرھویں برس برسی کے جلسے کے اسٹیج پر پاکستان مسلم لیگ نواز کی مرکزی ںائب صدر مریم نواز شریف پی پی پی کے مرکزی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے بائیں طرف بیٹھی تھیں اور ان کے ساتھ محمود خان اچکزئی بیٹھے ہوئے تھے۔ دسمبر کے دوسرے ہفتے یہ خبر اخبارات اور سوشل میڈیا پہ آنے لگی تھیں کہ مریم نواز شریف نے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی 13ویں برسی کے سالانہ جلسے میں شرکت کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اور پھر 26 دسمبر کی صبح نواز لیگ کے میڈیا نے مریم نواز شریف کو اپنی گاڑی میں مسلم لیگ نواز کی ترجمان مریم اورنگ زیب اور ترجمان میاں نواز شریف پرویز رشید کے ہمراہ لاہور سے گڑھی خدا بخش روانگی کی تصویر بھی میڈیا کو جاری کردی- مریم نواز شریف رات کے ڈیڑھ بجے رتوڈیرو لاڑکانہ میں نوڈیروہاؤس پہنچیں تو بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو اور فریال ٹالپر نے ان کا استقبال کیا اور وہ ملاقات کے اس کمرے میں پہنچے جہاں محترمہ بے نظیر بھٹو سیاسی شخصیات سے ملاقاتیں کیا کرتی تھیں۔ یہ پرجوش استقبال تھا۔ 27 دسمبر 2020ء کو بی بی کی برسی کے جلسے میں مریم نواز شریف کو پی پی پی سنٹرل پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے خطاب کی دعوت دی اور زبردست انداز میں انہوں نے مریم نواز شریف کی مزاحمتی سیاست کو سراہا۔ انہوں نے کہا” وہ میاں نواز شریف کی بیٹی ہیں جنھوں نے ان دنوں میں اسٹبلشمنٹ کو چیلنج کیا ہے۔” پاکستان کی سیاسی تاریخ میں وہ لمحات ہمیشہ کے لیے یادگار لمحات بن چکے جب میاں نواز شریف کی بیٹی مریم نواز نے اسٹیج پر کھڑے ہوکر بے نظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کو شہید کہہ کر یاد کیا۔ یہ اسٹبلشمنٹ کے لیے ایک اور بڑا دھچکہ تھا جو 5 جولائی 1977ء کے بعد سے پاکستان کی سیاست کے دو بڑے دھاروں کے درمیان اتنی بڑی تلخی کو پیدا کرچکی تھی کہ یہ دھارے کبھی اتفاق سے قریب بھی آئے تو قریب نہ ہوسکے- جسے اینٹی بھٹو کیمپ کہا جاتا تھا اس میں سب سےبڑی جماعت مسلم لیگ نواز تھی اور اس کا ووٹ بینک اینٹی بھٹو کہلاتا تھا – لیکن پاکستان میں اسٹبلشمنٹ کے سلوک نے مسلم لیگ نواز کے ووٹ بینک کو “اینٹی بھٹو” سے “مداح بھٹو” میں بدل ڈالا ہے۔ یہ ایک بڑی کایا کلپ ہے۔ اسٹبلشمنٹ ہمیشہ پاکستان میں جمہوری کیمپ کے خلاف کم از کم پنجاب اور کراچی کے شہری علاقوں میں ایک مخصوص بھاشا کے ساتھ سامنے آتی رہی اور اس بھاشا کے تحت یہ اچھا خاصا عوامی سیکشن اپنے ساتھ رکھنے میں کامیاب ہوتی رہی ۔ مخصوص بھاشا میں “غدار، ہندوستانی ایجنٹ، اسلام دشمن، فوج دشمن، پاکستان دشمن” جیسے ان گنت الفاظ شامل ہوتے تھے۔ یہ بھاشا جو سیاسی قوتیں استعمال کرتیں ان کو “محب الوطن، پاک فوج کی حامی قوتیں” قرار دیا جاتا تھا اور مخالف ملک دشمن، نظریہ پاکستان کا دشمن اور غدار و اسلام دشمن قرار پاتا۔ یہ پریکٹس اسٹبلشمنٹ نے قدرے کامیابی سے اس وقت تک جاری رکھی جب تک مسلم لیگ نواز اس بھاشا کے ساتھ کھڑی رہی جس کے پاس جی ٹی روڑ پر بسے پنجاب میں زبردست حمایت حاصل تھی اور ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز نے اسٹبلشمنٹ کی تقسیم کرو اور حکمرانی کرو پالیسی کا مکمل احترام دیکھا جائے تو بس 85ء سے 1990ء تک کیا اور میاں محمد نواز شریف 1993ء کے شروع ہی میں “مکمل تابعداری” ترک کردی اور وہ یہاں تک گئے کہ الٹا انھوں نے اسٹبلشمنٹ سے مکمل ذاتی وفاداری کے مطالبے شروع کردیے۔ اس لیے نومبر 1993ء میں وہ پہلی بار پنجاب اور وفاق دونوں میں اقتدار سے محروم کردیے گئے۔ بے نظیر بھٹو سے یہ توقع ہی بے کار تھی کہ وہ “تابعدار” بنکر حکومت کرتیں تو محض ڈھائی سالوں میں ان کے بھائی مرتضی بھٹو کی بھینٹ دے کر ان کی حکومت کا خاتمہ کیا گیا۔ اسٹبلشمنٹ پھر نواز شریف کی طرف جھکی اور نواز شریف کو دو تہائی اکثریت تک 1997ء میں دلائی ۔ نواز شریف سے اسٹبلشمنٹ کا معاہدہ ایک ناتجربہ کار لاڈلے کا معاہدہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک ایسے سیاست دان سے معاہدہ تھا جو اپنی ذات کو ریاستی طاقت کا سرچشمہ بنانے کا شدت سے خواہاں تھا ۔ نواز شریف کو یہ بھی زعم تھا کہ وہ ایسی جماعت کا سربراہ ہے جس کی ووٹ پاور پنجاب ہے اور اسٹبلشمنٹ پنجاب کو ڈسٹرب ہونے سے ہر صورت بچائے گی، اس لیے اس کے خلاف مارشل لا لگانا بہت مشکل ہوگا اور اسی زعم میں نواز شریف نے دو چیف آف آرمی اسٹاف گھر بھیجے اور جنرل مشرف کو جب گھر بھیجنے کی کوشش کی تو مارشل لگ گیا۔ اس دوران نواز شریف کے خاندان سمیت نواز لیگ کے سب کارکن پہلی بار فوجی آمریت کے سخت ترین تجربے سے گزرے۔ دس سال کی جلاوطنی نے نواز شریف بہت سے سبق دیے ہونگے۔ 2013ء میں وہ پھر وزیراعظم بنے اور محض ایک سال بعد پھر وہ اسٹبلشمنٹ سے زبردست ٹکراؤ میں آگئے۔ وہ ایک بار اپنی ذات سے ریاستی اداروں کے سربراہان سے تابع داری چاہتے تھے اور اس مرتبہ نااہلی سے لیکر قید کے مرحلے کے دوران ان کو پہلی بار اسٹبلشمنٹ کی جانب سے ان کے مفروضہ جرائم کی میڈیا میں بازگشت ویسے ہی سنائی دی جیسے کبھی اس سے ملتی جلتی پروپیگنڈا وار پی پی پی کی قیادت کے خلاف لڑی گئی تھی ۔ 2018ء میں میاں نواز شریف کی جماعت کو جیسے الیکشن میں کارنر سے لگایا گیا، ان سے 21 سے زیادہ قومی اسمبلی اور 60 کے قریب صوبائی اسمبلی کی نشستیں پری پول دھاندلی ، الیکشن کے دن دھاندلی اور الیکشن کے بعد نتائج میں گڑبڑ جو کی گئی اس سے گھر کا بھیدی بخوبی واقف تھا۔ 2014ء سے آج سن 2020 تک یعنی 6 سال میں نواز شریف اور ان کے خاندان کی کردار کشی میں ہر وہ حد پار کرلی گئی جو پی پی پی کے خلاف پار کی گئی تھی ۔ اسٹبلشمنٹ ووٹ بینک رکھنے والی تجربہ کار سیاسی قیادت کی حامل سیاسی جماعتوں کو اقتدار میں آنے کی اجازت دینے کے عمل سے “مطلوبہ نتائج” پیدا ہونے سے مایوس تھی تو اس نے عمران خان کی پارٹی کو دیگر اسٹبلشمنٹ نواز طاقتوں کی مدد سے الیکشن میں سلیکشن کے زریعے اقتدار میں لانے کا فیصلہ کرلیا۔ یہ فیصلہ اسٹبلشمنٹ کے فیصلہ ساز سلیکٹرز کے حق میں تو بہت ہی بہترین رہا- عسکری اسٹبلشمنٹ کی قیادت ایک طرح سے سیاہ سفید کی مکمل مالک بنی ۔ اسے مین سٹریم میڈیا کو مکمل کنٹرولڈ رکھنے میں مدد میسر آئی اور پہلی بار پردے کے پیچھے بیٹھ کر وہ مکمل کنٹرول کی حامل بنی ۔ فوجی سرمایہ سے جڑے جملہ دھندوں کو مزید وسعت دینے کا موقعہ بھی ہاتھ آگیا۔ لیکن ملک کے ادارے اس سے قطعی نہیں چل پارہے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں حزب اختلاف کے اتحادوں کی سیاست پر نظر ڈالی جائے تو یہ کہنا پڑے گا کہ ماضی کا کوئی ایسا اتحاد نہیں تھا جس نے ”وقت قیام” سجدہ نہ کیا ہو۔ جیسے ایوب خان کے خلاف چل رہی بحالی جمہوریت کی تحریک نے ایوب خان کی جگہ جنرل یحیی خان کے مارشل لاء کو وقتی طور پر قبول کرلیا۔ ایسے ہی جنرل ضیاء الحق کے خلاف چل رہی تحریک کے آخر میں اقتدار سمجھوتے کے زریعے حاصل کیا۔ اور پھر اے آر ڈی کا انجام بھی اسٹبلشمنٹ سے سمجھوتے پر ہوا۔

لیکن پی ڈی ایم ایسی منتخب سیاسی جماعتوں کا اتحاد بن چکا ہے جو کہیں نام لیکر اور کہیں نام لیے بغیر اسٹبلشمنٹ کی قیادت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سیاسی کردار سے الگ ہوجانے کا کہہ رہا ہے۔ یہ اتحاد پنجابی، سرائیکی، سندھی، بلوچ، گلگتی بلتی، کشمیریوں اور پختونوں کا اتحاد ہے۔ جو اسٹبلشمنٹ کے بیانیہ کا ردعمل ہے۔ پہلی بار اسٹبلشمنٹ سیاسی و سماجی اعتبار سے دونوں طرح سے” تنہا” نظر آرہی ہے۔

جی ایچ کیو کو حکومتیں بنانے اور توڑنے کے کردار سے دست بردار ہونے کے لیے دباؤ روز بروز بڑھ رہا ہے۔ براہ راست چیف آف آرمی اسٹاف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو مخاطب کرنے کا طریقہ اب انہونی بات نہیں رہا ہے۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی پہ جہاں مریم نواز شریف کی گڑھی خدابخش حاضری جمہوریت پسند سیاست کے نئے مرحلے کا آغاز ہے وہیں پی پی پی کے چیئرمین کا “عوامی سی پیک” اور “اسٹبلشمنٹ سی پیک” کے درمیان فرق کرنا اور اختر مینگل کا “کریمہ بلوچ” کی موت کے تناظر میں دیا گیا گیا پیغام جمہوریت اور وفاق پاکستان کے لیے نیک شگون ہیں ۔ اسٹبلشمنٹ کو واضح پیغام ہے کہ وہ “جمہوری وفاق” اور “سلیکشن” میں سے کوئی ایک آپشن چن سکتی ہے۔

پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت نے واضح پیغام دیا ہے کہ وہ ایسے کسی سیاسی سیٹ اپ کا حصّہ نہیں بنیں گی جس میں چھوٹے صوبوں کو نوآبادیات کی طرح سے چلایا جانا ہو۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here