تین جنوری بروز اتوار پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع بولان کی تحصیل مچھ  کے علاقے گشتری میں مسلح افراد نے کان کنی کی صغنت سے وابستہ مزدوروں کی رہائشی علاقے پر دھاوا بولا اور باقاعدہ شناخت کرکے ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے 11 مزدوروں کو الگ کرلیا۔ ان کے ہاتھ پشت پر باندھ کر ان کو پہاڑوں میں ایک اور جگہ پہ لے گئے جہاں ان سب کے گلے کاٹ کر ان کو قتل کردیا گيا۔

یہ تصویر صاف بتارہی ہے کہ ہزارہ مزدوروں کو ان کے رہنے کے کمرے میں قتل کیا گیا

گشتیری میں اس وقت 22 کے قریب کوئلے کی سائٹس حکومت نے لیز پہ دی ہوئی ہیں- لیز ہولڈر ان 22 جگہوں سے کوئلہ نکال رہے ہیں اور سینکڑوں کان کن مزدور ان سائٹس پر کام کرتے ہیں اور ان کی اکثریت وہیں بنے رہائشی کوارٹرز میں رہتی ہے۔ ان کان کن مزدوروں میں سب سے زیادہ تعداد پشتون کی ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب اور سندھ سے آنے والے محنت کش بھی ان کانوں میں کام کرتے ہیں- اس واقعے سے واقف دیگر کان کن محنت کشوں کا کہنا ہے کہ آنے والے مسلح افراد نے باقاعدہ شناخت کرکے ہزارہ کمیونٹی کے مزدوروں کو الگ کیا اور انھیں اپنے ساتھ لے گئے۔ بعد ازاں عالمی تکفیری دہشت گرد تنظیم داعش نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرلی اور اپنی آفیشل ویب سائٹ پہ اس واقعے کی تفصیل دیتے ہوئے بتایا کہ یہ کاروائی داعش میں شامل ہونے والے ان کے گوریلوں نے کی ہے۔

اس تفصیل سے صاف پتا چلتا ہے کہ بلوچستان کے علاقے گشتیری میں ہونے والی دہشت گردی کی واردات فرقہ وارانہ بنیاد پر ہونے والی دہشت گردی ہے جس میں 11 مزدور اپنی شیعہ ہزارہ شناخت کی وجہ سے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو یٹھے۔

گشتری میں اپنے کمرے میں قتل ہونے والے ہزارہ شیعہ مزدور

اس واقعے میں دوسرا قابل غور پہلو یہ ہے کہ بلوچستان جس کے حالات بہت خراب ہیں اور بلوچستان کے اکثر علاقوں میں مزدوروں کے خلاف دہشت گردی کے ارتکاب کے متعدد واقعات رونما ہوچکے ہیں تو گشتیری کے علاقے میں جہاں 22 سائٹسسے کوئلہ نکالا جارہا ہے اور سینکڑوں مزدور کام کررہے ہیں تو ان سائٹس پر اور مزدوروں کے رہائشی علاقے پر ایف سی کو تعینات کیوں نہیں کیا گیا اور وہاں تک پہنچنے والے داخلی و خارجی راستے پہ حفاظتی چوکی کیوں نہ بنائی گئی؟ کیا بلوچستان میں کام کرنے والے مزدوروں کی جانیں غیر اہم ہیں؟ کیا ان کی حفاظت کا ویسا انتظام کرنے کی ضرورت نہیں ہے جیسا انتظام خود بلوچستان کی باوردی اور بے وردی ایڈمنسٹریشن اپنے لیے روا رکھتی ہے؟ کیا اس واقعے نے ایک بار پھر یہ ثابت نہیں کیا کہ بلوچستان میں عام آدمی کی جان اس صوبے کی اشرافیہ کی جانوں سے زیادہ معتبر نہیں ہے۔

خاص طور پر ہزارہ کمیونٹی جس کی بھاری اکثریت شیعہ مسلمان ہے اور دوعشروں سے مسلسل اپنی شیعہ شناخت کے سبب تکفیری دہشت گرد تنظیموں کی دہشت گردانہ کاروائیوں کا نشانہ ہے اور ہزارہ قبائل بلوچستان میں اسی طرح نسل کشی کا شکار ہے جیسے وہ افغانستان میں ہیں۔ وفاقی و صوبائی حکومتیں، جی ایچ کیو اور کورکمانڈر بلوچستان و کمانڈر سدرن کمانڈ نے ہزارہ کمیونٹی کے تحفظ کی جو بھی یقین دہانی کرائی وہ چند ماہ میں ہی زبانی تسلی ثابت ہوئی اور ہزارہ شیعہ مسلمانوں کی نسل کشی کو روکا نہیں جاسکا۔

بلوچستان ہو یا سابق فاٹا ہو یا اندرون سندھ ہو یا پاکستان کے بڑے بڑے اربن علاقے ہوں وہاں پر سپاہ صحابہ جیسی تنظیمیں اور نیٹ ورک موجود ہیں جو کالعدم ہونے کے باوجود شیعہ مسلمانوں کی تکفیر کی مہم چلائے ہوئے ہیں اور ان کے مذہبی منافرت کو اس سطح پر پھیلاتی ہیں جس سے تشدد اور دہشت گردی برآمد ہوتی ہے۔ بلوچستان ایسا علاقہ ہے جہاں عرصہ دراز سے مذہبی دہشت گرد تنظیموں کے نیٹ ورک خاصے مضبوط ہیں جن میں سب سے فعال لشکر جھنگوی اور داعش ہیں- داعش اصل میں بلوچستان اور افغانستان میں تحریک طالبان افغانستان و پاکستان کے منحرف گروہوں، لشکر جھنگوی العالمی  کے عسکریت پسندوں پر مشتمل ہے اور یہ ایسے مسلح جتھے ہیں جن پر یہ الزام بھی لگتا ہے کہ ان کو پاکستانی انٹیلی جنس اور سیکورٹی اداروں کے اندر موجود ڈیپ سٹیٹ اور تزویراتی گہرائی کی پالیسی چلانے والے اہلکاروں کی اشیرباد حاصل ہے۔ اور یہ جہادی فرقہ پرست عسکریت پسند گروہوں کو بلوچ قوم پرستوں کے  خلاف بطور ڈیتھ اسکواڈ کے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ڈیتھ اسکواڈ محض بلوچ قوم پرستوں کے خلاف استعمال نہیں ہوتے بلکہ یہ مسلسل بلوچستان میں شیعہ ہزارہ، صوفی سنّی اور ذکریوں کے خلاف دہشت گردی کی کاروائیوں میں مصروف رہتے ہیں۔

ہزارہ کمیونٹی کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بلوچستان میں جاری تصادم میں ان کو سینڈوچ کی طرح استعمال کیا جارہا ہے۔ ایک طرف اس کمیونٹی کے  کئی ایک موقعہ پرست مذہبی و سیاسی رہنما ہیں جو بلوچ حقوق کی تحریک اسلام آباد مرکز کی طرح ہندوستانی فنڈنگ سے جاری تحریک قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف بلوچ قوم میں بھی ایسے  شاؤنسٹ عناصر ہیں جو ہزارہ قبائل کو بلوچستان کا حصّہ نہیں سمجھتے اور وہ بلوچ اور ہزارہ برادری درمیان یک جہتی ہونے کے روادار نہیں ہیں۔

پاکستان کی اینٹی اسٹبلشمنٹ جمہوری سیاسی قوتوں کا خیال ہے جب پورے ملک میں جرنیل شاہی کے سیاسی پروسس میں مداخلت کے خاتمے جیسے پی ڈی ایم کے ایجنڈے کو عوام میں مقبول ہوتا دیکھ کر غیر جمہوری طاقتیں مذہبی منافرت اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کا ہتھیار استعمال کرکے عوام کو تقسیم کرنا چاہتی ہیں اور ایک بار پھر مذہبی دہشت گردوں کی کلنگ مشین کو فری ہینڈ دے دیا گیا ہے اور ملک میں جمہوری تحریک کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

پاکستان کے مین سٹریم میڈیا نے سانحہ گشتری مچھ بلوچستان میں ہوئے دہشت گردی کے واقعے کی ابتدا میں جو رپورٹنگ کی اس میں سرکاری طور پر ارسال کیے جانے والے موقف کی جانچ پڑتال نہیں کی گئی اور اسے بنا کاؤنٹر چیک کیے شایع/نشر/پوسٹ کردیا گیا۔ سرکاری موقف یہ تھا کہ مسلح افراد نے پہاڑوں میں لیجاکر کان کن مزدوروں کو گولیاں مار کر قتل کیا اور اس سے تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ دہشت گردی کا یہ واقعہ مذہبی بنیاد پر نہیں ہوا بلکہ اس کے پیچھے آزادی/ علیحدگی پسند بلوچ عسکریت پسند ملوث ہیں – یہ تاثر پختہ ہوجاتا اگر 11 ہزارہ مزدوروں کی لاشوں کی تصویریں سوشل میڈیا میں وائرل نہ ہوتیں جن میں ان کے گلے کٹے صاف دیکھے جاسکتے ہیں جبکہ ان کی لاشوں پر گولیوں کے کوئی نشان نہیں تھے۔ آخر ڈپٹی کمشنر بولان اور ایف سی کے ترجمان کو حقائق سے ہٹ کر معلومات میڈیا کو دینے اور میڈیا کو اسے  بغیر تحقیق کے شایع کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

پاکستان میں مذہبی و نسلی اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے تحقیقات کرنے والے ماہرین کے اندر بھی یہ رائے پائی جاتی ہے کہ پاکستان کی حکومت اور انسانی حقوق سے متعلقہ ادارے مذہبی اور نسلی اقلیتوں کی مارجنلائزیشن، ان کی شناخت کے نام پر تعذیب اور ان کو باقاعدہ نسل کشی کی مہم کا ہدف بنائے جانے کی حقیقت کے انکار کی طرف مائل ہیں جبکہ شیعہ مسلمانوں کا مقدمہ تو اس سے بھی زیادہ بری حالت کا شکار ہے۔ پروفیسر عباس زیدی جو آسٹریلیا میں ایک یونیورسٹی میں میڈیا اسٹڈیز کے استاد ہیں اور ” پاکستان میں شیعہ کلنگ پر میڈیا ڈسکورس” ، ” بے رحم شیعہ نسل کشی” کے عنوان سے دو تحقیقی مقالے لکھ چکے ہیں  جو عالمی جرائد میں چھپ چکے ہیں اور میری مدون کردہ کتاب “شیعہ نسل کشی: افسانہ یا حقیقت” میں ان کا اردو ترجمہ شامل ہے کا کہنا ہے کہ پاکستان کے مین سٹریم میڈیا کا شیعہ نسل کشی پر ڈسکورس کہیں مبہم ہے، کہیں اس کا جواز پیش کرنے والی بائنری بنانے والا اور کہیں پر اس کا سرے سے انکار کرنے والا ہے۔ ان کا کہنا ہے عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں نے کوئٹہ بلوچستان، ڈیرہ اسماعیل خان اور کرم ایجنسی جیسے علاقوں میں شیعہ نسل کشی پر کوئی خاص فیکٹ فائنڈنگ اور تجزیاتی رپورٹس تیار نہیں کروائیں اور نہ ہی انسانی حقوق کے مقامی رضاکاروں کو حکومت نے اس کی جانچ کرنے کے لیے ان علاقوں میں آزادی سے کام کرنے دیا ہے بلکہ ان علاقوں کے سرکاری حکام  اور مین سٹریم میڈیا کا رویہ شیعہ کلنگ کو دو فرقوں اور کئی ایک قبیلوں کی باہمی لڑائی قرار دینے والا رہا ہے۔ جبکہ اسٹبلشمنٹ ان علاقوں میں بنیاد پرست جہادی تکفیری تنظیموں کی سرپرستی تک کرتی رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حقیقت سے انکار سے مسئلہ حل نہیں ہوتا بلکہ اور بگڑ جاتا ہے۔     

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here