قاضی داد محمد ریحان بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایسے نوجوان دانشور ہیں جن کے نظریات و خیالات نے بہت تھوڑے عرصے میں بلوچ قوم کو متاثر گیا ہے- بلوچ نیشنل موومنٹ سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ روزنامہ توار میں کام کرتے رہے- آج کل نیویارک میں مقیم ہیں۔ سانحہ مچھ  کے تناظر میں ان سے بات کی گئی جو بنا قطع و برید کے پیش خدمت ہے۔

آپ ہزارہ برادری پر حملوں کو کس تناظر میں دیکھتے ہیں؟

ایک تکفیری طبقہ موجود ہے جو شیعہ سے نفرت کرتا ہے۔ ان کو یقینی طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن جب یہ حملہ ہوا فورا یہی کہا گیا کہ اس کے پیچھے نام نہاد مذہبی قوتیں موجود ہیں ،اس کا مطلب یہ ہے کہ علاقے میں ہونے والی سرگرمیوں کے بارے میں وہاں سب کو پتا ہے۔

یہ تکفیری طبقہ کن میں موجود ہے بلوچستان کے علاقے میں؟

ہاں، شفیق مینگل جیسے کئی لوگ موجود ہیں۔ مکوران میں بھی نیشنل پارٹی سے وابستہ ایک عزیز بزنجو نامی شخص ہے۔ ڈیتھ اسکواڈ چلاتا ہے، اس کا بیٹا مفتی شھمیر لشکر خراسان کو چلاتا ہے شھمیر کی کئی تصاویر ہیں، جس میں وہ مسلح ہے۔ اس کا بھائی میران بھی مسلح ہے لیکن وہ نشھی ہے اور ڈیتھ اسکواڈ چلاتا ہے- ان کے دوسرے بھائی کے واٹساپ پر مارخور لوگو لگا ہے۔

شھمیر کا باپ عزیز بزنجو ہے، نیشنل پارٹی سے تعلق رکھتا ہے، پیدراکی ہے۔

یعنی “مکران” جیسا علاقہ اور وہاں کا بزنجو قبیلے سے لوگ تکفیری ہوگئے ہیں؟

ہاں ایسا ہی ہے-لیکن ان کے درمیان واضح تال میل ہے نامعلوم، تکفیری ، جرائم پیشہ افراد ، منشیات فروش۔

بلوچ قوم میں یہ تکفیری کہاں سے آگئے ہیں اور وہ بھی مینگل اور مری جیسے روايتی مزاحمتی بلوچ قبائل میں؟

بلوچ سماج کہاں اب آزاد ہے-  ہمارے بچے اب گنتی بھی اردو میں کرتے ہیں۔

تو کیا اردو نے ان کو ریڈیکل تکفیری کردیا؟

جی، مطلب یہ ہے کہ ہم سے بہت کچھ چھینا گیا

کیسے ،وضاحت کریں گے؟

بلوچ عمومی طور پر یا تو اعتدال پسند دیوبندی رہے ہیں یا صوفی سنّی اور کچھ شیعہ تو یہ ریڈیکل تکفیری دیوبندی کیسے طاقتور ہوگئے؟

زبان ایک ذریعہ ہے جو آپ کو آپ کی ثقافت اور روایات کے بارے میں بتاتا ہے۔

۔

کیا جمعیت علمائے اسلام کے مدارس “تکفیریت” پھیلانے میں ملوث ہیں؟ مگر مولانا فضل الرحمان تو اس کا الزام جی ایچ کیو کو دیتے ہیں؟

سوفیصد بات ٹھیک ہے –

سپاہ صحابہ کے ابھار کو کیسے دیکھتے ہیں؟

مملکت مولا داد کی فوج ایک سیاسی جماعت ہے جس میں لابیاں اور پولیٹکل کلبس ہیں۔

“بلوچ قومی تحریک ” “ہزارہ نسل کشی ” اور تکفیریت ان کا رشتا کوئی بنتا ہے کہ نہیں؟

جماعت اسلامی اور جمیعت علمائے اسلام ان کی لابیان موجود تھیں، جماعت اسلامی فوج میں کافی اثر و رسوخ رکھتی ہے ، مگر اب صورتحال میں تبدیلی آئی ہے ، جماعت اور جمیعت کا لیڈرشپ پنجابی نہیں ، یہ بھی وجہ ہوسکتی ہے کہ وہ نیا اثاثہ تلاش کررہے ہیں۔ فضل الرحمن اور سراج الحق دونوں قومی تحریکوں سے خائف ہیں لیکن دونوں جماعتیں بلوچستان میں فوج کی سہولت کاری کا کردار ادا نہیں کرسکتیں ان کے کارکنان اور لیڈرشپ مقامی ہیں۔

صرف ہزارہ قتل نہیں ، کریمہ قتل کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے مقتدر طاقتیں بے چین ہیں ،دوسری بات یہ کہ جہاں پالیسیاں بنتی ہیں وہاں بھی یہ پیغام گیا ہے کہ آپریشن سے بلوچ تحریک کے ابھار پر کوئی اثر نہیں پڑا ۔۔۔۔۔اور اور اور شدت ۔ اس لیے یہ کہا جاتا ہے کہ تکفیریوں کو ترغیب دی گئی ہے تاکہ نیا ایشو پیدا کیا جاسکے۔

ایک بات یہ بھی نوٹ کرنی ہے کہ ان علاقوں میں جہاں ان لوگوں کو قتل کیا گیا وہاں دو ہفتے سے فوجی جارحیت ہورہی ہے۔

ایسے میں اس طرح کے ٹارگٹ تک پہنچنا اور انہیں اغواء کرکے اپنے ساتھ لے جانا ، قتل کرنا ۔۔۔۔ آسان نہیں اور اس کا کوئی دوسرا مقصد بھی نظر نہیں آتا۔

تو اس کلنگ کا مقصد؟

لیکن یہ سب کام سیدھے ہدایت کی روشنی میں نہیں ہوتے یہ نہیں کہا جاتا کہ ان کو قتل کرؤ ، ترغیب دی جاتی ہے، ذہن سازی پہلے سے کی جاتی ہے جس میں مذہب کا عنصر بھی شامل ہے اور نسل پرستی کی آمیزش سے بھی انکار نہیں کیا جاتا لیکن یہ ان لوگوں کو پڑھائی جاتی ہے جو تکفیری ہیں۔

بلوچستان میں پاکستانی فوج بلوچ قومی تحریک سے انکار کرتی ہے، بین الاقوامی سطح پر بھی وہ یہی دکھانا چاہتا ہے کہ یہاں ایسی قوتیں موجود ہیں جن کے خلاف فوج کشی ہونی چاہئے۔

تو آپ کیا یہ کہنا چاہتے ہیں تکفیری دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر بلوچوں کے خلاف فوجی آپریشن جاری رکھنے کا ایسے واقعات بہانے بنتے ہکں؟

عامر بھائی ، بہت ساری باتیں قطعی طور پر کہنا مشکل ہیں اور یہ کسی کو ہضم بھی نہیں ہوں گی کہ ایک ملک کی طاقتور فورس ایسا کیوں کرئے گی لیکن کچھ لوگوں کے بارے میں ہم ثبوت کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے پیچھے پاکستانی فوج ہے۔

جند اللہ جو مغربی بلوچستان میں کارروائی کرتی ہے ، وہ ایف سی کیمپ میں رہتے ہیں۔

جو ملا عمر مارا گیا اس کے ویڈیو موجود ہیں وہ ڈاکٹر اللہ نزر اور بْرمش واقعہ کے بعد احتجاجی مظاہروں کے خلاف بات کرتا ہے۔

شفیق مینگل کو آپ جانتے ہو،

سراج رئیسانی کا پتا ہے

مفتی شھمیر بزنجو کا میں نے بتایا اور ایک صاحب تمپ میں تھے ، جن کا قتل ہوگیا ، وہ بھی کوئی بڑے عالم تھے، عمر رسیدہ بھی تھے۔

یہ کون تھے؟

ان کا ایک بڑا سا کیمپ تھا۔

کس طرح کا کیمپ؟

‌تکفیری کیمپ

اور یہ کس جماعت سے تھے؟

ان کی جماعت کا واضح نہیں پتا۔ لیکن یہاں ملا عمر کے ساتھ مرنے والے کچھ لوگوں کے بارے میں بعد میں لشکرخراسان سے بیانات آئے تھے۔

مجھے اب یہ بھی نہیں پتا کہ ان کے کیمپ کا کیا ہوا ، لیکن بہت بااثر شخص تھے ، جنہیں قتل کردیا گیا۔

لشکر خراسان ؟

یہ بھی ایک غیر واضح تنظیم ہے، تکفیری لوگوں کا گروہ ہے جو بلوچستان کو خلافت کا خراسان صوبہ سمجھتے ہیں۔

لشکر خراسان کی ایک خاص بات یہ ہے کہ آزادی پسندوں کی کھل کر مخالفت کرتے ہیں اور ان کے خلاف پاکستانی فوج کے ساتھ ، الشمس اور البدر بنے ہوئے ہیں۔

کیا پی ڈی ایم کی اسٹبلشمنٹ مخالف مہم اور بانوک کریمہ کا قتل سے بلوچستان میں پیدا صورت حال سےاسٹبلشمنٹ پہ جو دباؤ بڑھا ، کیا حالیہ واقعہ کو اسے کم کرنے کا طریقہ کہا جاسکتا ہے؟

اس سے اثر پڑے گا ، میڈیا پر اب وہ بات نہیں ہورہی۔

لیکن ضروری نہیں صرف ایک ہدف تک ہی وہ خود کو محدود رکھیں۔

لیکن بہت ساری چیزیں پیچیدہ ہیں ، ڈیپ اسٹیٹ بہت پیچیدہ ہیں، آپ کو کسی سوال کا جواب آسانی سے نہیں ملتا۔

انہی ہزارہ کو شال میں نفاق ڈالنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

جو شیعہ جماعت یا ہزارہ جماعت ہیں وہ بڑے پاکستان پرست ہیں ۔۔۔۔۔لیکن درون خانہ وہ ایران کے ساتھ جو دلی قربت رکھتے ہیں وہ بھی کئی معاملات کو پیچیدہ بناتا ہے اور کچھ عناصر غصے میں آجاتے ہیں۔

کچھ ہزارہ ، ایک جگہ آکر خود موقع پرست بن جاتے ہیں ، تحریک کی شروع میں پشتونوں نے بلوچوں سے مکمل قطع تعلق کر رکھا تھا۔ تماشا دیکھتے رہے اور خاموشی سے اپنے لیے بلوچ حالات سے جگہ بنانے کی کوشش کرتے رہے ۔۔۔

لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے، اب ایسے لوگ ہیں جو ہشتون ہوں یا ہزارہ ہوں ، یہ ایک ایسی نسل ہے جو اس مٹی کی ہے، یہ بلوچ کو جانتے ہیں ، بلوچ بچوں کے سنگی ساتھی ہیں۔

تو میرے خیال میں اب صورتحال وہ نہیں رہی فوج انہیں ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرسکے ، اس لیے اب سب کو برابر مار پڑ رہی ہے۔

اسٹبلشمنٹ کی قیادت خود کودلدل میں کیوں پھنسارہی ہے؟ کیا ان میں کوئی بلوجستان کا پرامن حل نہین چاہتا؟

اسٹبلشمنٹ کی قیادت خود کودلدل میں کیوں پھنسارہی ہے؟ کیا ان میں کوئی بلوج

:

مجھے ایک عجیب چیز لگتی ہے، وہ صرف بلوچستان نہیں باقی جگہوں پر بھی قومی ڈھانچوں کو جبری طور پر ختم کرنا چاہتے ہیں۔

بلوچ اپنی فطرت اور جغرافیہ کی وجہ سے سخت جان ہیں ، مزاحمت کرتے ہیں ، سیاست کرتے ہیں ۔ لیکن کشمیر ، گلگت بلتستان، سندھ اور خیبرپختونخواہ کی حالت بھی اچھی نہیں ہے۔

وہاں سے بھی ہم سے لوگ جڑ رہے ہیں، وہ بھی بتا رہے ہیں ڈیموگرافی کی تبدیلی اور وسائل کو قومی اختیار سے چھیننے کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔

متنوع ثقافتوں کو ختم کرنے کی پوری کوشش ہورہی ہے ، وہ اب جان چکے ہیں کہ اسلام ایک ایسا رشتہ نہیں کہ سب کو ایک جگہ باندھ کر رکھ سکے جب تک ڈیموگرافی کی تبدیلی نہیں ہوتی اور شہروں کی آبادیاں اس حالت میں نہیں آجاتیں کہ قومی وحدتیں کمزور ہوں ، یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here