لیاری جسے بلوچوں نے بسایا اور جو بلوچوں کا لیواری تھا اب پاکستان پیپلزپارٹی کے جیالوں کا گڑھ بن چکاہے کوئی اسے بھٹو کا قلعہ کہتاہے تو کوئی زرداری کی دیوار چین لیکن یہاں کے رہنے والے کس ذہنی اور جسمانی پسماندگی اور کرب کا شکار ہیں اس کااحساس زیر نظر کہانی پڑھ کر ہی بخوبی کیاجاسکتا یہ افسانہ پروفیسر صبادشتیاری نے لکھا ہے جو خود بھی لیاری میں پیدا ہوئے ہیں ۔ان کے بقول یہ ایک حقیقی کردار سے متاثر ہوکر لکھا گیا ہے ۔لیاری کے موجودہ حالات میں یہ افسانہ اور زیادہ توجہ طلب بن چکاہے اور ان کرداروں سے آپ ہی سوال پوچھتا ہے کہ کیا اتنا کچھ اپنے اوپر سہنے کے باوجود اب بھی وہ اپنے وجود کو بھلاکر دوسروں کے مفادات کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے یا پھر حالات کا ادراک کرتے ہوئے اپنے وجود کو وہاں تلاش کریں گے جہاں اس کی جڑیں پیوست ہیں ۔مترجم

تعارف :پروفیسر صبادشتیاری بلوچی ادب کااثاثہ اور اپنی ذات میں ایسے ادبی انجمن ہیں جوبلوچی زبان وادب کے لئے وقف ہیں۔ آپ نے بلوچی زبان کے فروغ کے لئے بڑے کارنامے سر انجام دےئے ہیں جن میں سے ایک سیدہاشمی ریفرنس لائبریری کاقیام آپ کی زبان دوستی کی نمایاں مثال ہے۔آپ نثری ادب لکھتے ہیں ،آپ کولکھنے کاشوق نہیں بلوچی زبان کی چاشنی سے عشق ہے اس لیے دیگرلکھاریوں کی طرح صرف نفس مضمون پرنہیں بلوچی زبان کے عاشق صادق سیدھاشمی کی طرح لفظوں کی دلکشی پربھی توجہ دیتے ہیں جس سے مضامین نکھر جاتے ہیں ۔بلوچی افسانوی ادب کے اردوتراجم کا یہ سلسلہ مترجم نے بلوچی ادب کواُن قارئین سے متعارف کرانے کے لیے شروع کیا ہے جو بلوچی نہیں پڑھ سکتے ۔ اس کے لیے افسانوی اد ب اس لیے موزوں معلوم ہوا کہ افسانوں میں زندگی کی مختلف جہت ہوتی ہیں جومضامین کی طرح بالواسطہ قاری سے ربط قائم کرنے کی بجائے براہ راست گفتگو کرتی ہیں ۔ادب زندگی کاآئینہ نہ ہوتوصرف الفاظوں کامجموعہ بن کررہ جاتاہے ۔افسانوی ادب نے زمانے کے ساتھ کروٹ لی ہے شروع میں کہانی اہم تھی بعدمیں کبھی جاندار مکالموں پر زور ہوتاتھا ،کبھی منظر نگاری افسانے کی جان سمجھی جاتی تھی اورعصر حاضر کے افسانہ نگار علامتی افسانے لکھ رہے ہیں۔ جس کے اثرات بلوچی ادب پربھی نظر آتے ہیں۔ ایسے میں صبادشتیاری کا زیر نظر افسانہ”لیاری ءِ جیالا”کا شمار اعلیٰ پائے کے افسانوں میں کیاجائے گاکیوں کہ عالمی ادب میں انہی افسانوں کوپذیرائی ملی ہے جو انسانی زندگی کے احساسات کوچھونے میں کامیاب ہوں اور یہ افسانہ یہی تاثردیتاہے ۔

رات کافی بیت چکی تھی ۔محلے میں خاموشی بول رہی تھی ۔گلیوں میں صرف کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آ رہی تھیں ۔

میں اسٹریٹ لائٹ کے نیچے ایک پتھر پہ بیٹھا کوئی کتاب پڑھ رہاتھا۔اچانک سنائے دینے والی قدموں کی آہٹ نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا۔مڑکر دیکھاماسی زینب تھی ۔ہاتھ کمر پہ رکھے ہوئے مشکل سے قدم اٹھا پا رہی تھی ۔مجھے دیکھ کر جیسے اُن کی آنکھیں روشن ہوئیں ۔پکارتی ہوئی کہا :”بچا *( بَ چا * اس لفظ میں ”چ ” پر شد نہیں زبرہے اس لیے لفظ بچہ کی طرح نہیں پڑھا جا تا* :پکارنے کے لیے میاں کا ہم معنی لفظ مطلب لڑکا یا چھوکرا ) ریاض !میرے ہاتھ پکڑ لے اب مجھ سے چلانہیں جائے گا………….”’

میں نے کتاب بند کی اور ماسی کا ہاتھ پکڑ کرگھر کی طرف چل پڑے ۔

ماسی کی حالت سے لگ رہاتھاکہ وہ بہت دور سے پیدل چل کر آرہی ہے ۔اُن کی سانس پھولی ہوئی تھی ۔ تھکن کے مارے ہاتھ پکڑتے ہی اپنا ساراوزن مجھ پر ڈال دی ۔

میں نے اُن سے پوچھاکہ کہاں سے آرہی ہولیکن وہ بات نہیں کرپارہی تھی ہاتھ سے اشارہ کیایہی سمجھ میں آیا کہ بہت دور سے آرہی ہے ۔میں نے انہیں گھر پہنچادیااور خود پھر اسٹریٹ لائٹ کے نیچے آکر کتاب پڑھنے لگا۔

صبح جب میں اپنی دادی کے ساتھ گھرکے دروازے کے سامنے بیٹھا تھااسی وقت ماسی زینب ٹہلتی ہوئی آرہی تھی ۔ان کی چال سے محسوس ہورہاتھاکہ گزشتہ رات کی تھکن ابھی تک نہیں گئی تھی ۔میری دادی نے بلاتی ہوئی کہا:”جنے( جِ۔نے*نون پر شد نہیں زیر ہے * : زیادہ ترتعجب اور غصیلے لہجے میں پکارنے کے لیے ”لڑکی ” ) زینب !کہاں جارہی ہو،ادھر آؤ……………”

ماسی آئی اورسنبھلتی ہوئی دادی کے پہلو میں بیٹھ گئی ۔میں نے دادی سے کل رات کے واقعہ کاذکر کررکھاتھا۔اس سے پہلے کہ دادی احوال پرسی کرتی وہ خود بڑبڑاتی ہوئی کہنے لگی :”آج میں پھر مزدوری سے محروم ہوگئی ہوں …………دل کو بہت روکتی ہوں لیکن بد بخت قابومیں نہیں رہتا………………”

”اپُو(اب کے )کیاہوا؟”دادی گویاہوئی ۔

”یہی پارٹی کے جلسہ جلوس لوگوں کوروزگار کرنے نہیں دیتے…….”ماسی زینب نے جواب دیا۔

”تو پھر انہی بے ڈھنگے جلسوں میں گئی ہے………پہلے کی پٹائی بھول گئی ہوکیا؟……….” دادی نے ناس ( تیزبووالی نسوار )سونگتی ہوئی پوچھا۔

”ناں اماں !ہمارا ایک لیڈرلندن سے آیا ہے اسے کے استقبال کو ائر پورٹ گئی تھی ۔جاتے وقت گاڑھیوں پہ بٹھاکر لے گئے لیکن آتے وقت جب ہم نے ہوش کیاتوکچھ نہیں تھا۔لمبے راستے تک پیدل چل کے آئی ہوں ………..”انہوں نے کہا۔

”او شوم (منحوس) !تجھے کیاہواہے آخر ان لیڈروں کی خاطرکیوں خودکو ہلکان کی ہوئی ہو؟اپنے اوپر رحم کر،نہیں تواپنی بوڑھی ماں کا کچھ خیال کر جس کا تیرے سوا ء کوئی نہیں ۔”میری دادی نے پیارسے سمجھاتے ہوئے کہا۔

ماسی زینب کی باتوں سے مجھے ایک خیال آیا اور مذاقاًاُن سے کہا:”ماسی جس لیڈر کے آپ استقبال کو گئی ہواس کے کرتوں سے واقف ہو؟یہ تو صبح ایک شام کو ایک پارٹی بدلنے والوں میں سے ہیں ۔جہاں ہڈی دیکھا وہیں دم ہلاتا ہوا جاتاہے اور اس کی…………….”

”بچا ! بکوا س بندکر،تجھے تو میری پار ٹی اور اس کے لیڈرایک آنکھ نہیں بھاتے ۔ہمارے سر براہوں نے ہمیں اس کے استقبال کو جانے کو کہا تھایہ کیا ہے کیا کرتا ہے اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں۔یہ نہیں ،ہماری بی بی اگر ہمیں کتے کے استقبال کوجانے کہیں توبھی ہم جائیں گے۔”

”ماسی! کتے اورانسان کے فرق کوبھی نہیں دیکھتی ؟……….. ”میں نے مذا ق کہا۔

”چل موا!”

ماسی غصّے میں آئی اور پھر میری دادی کی طرف منہ کرتی ہوئی کہا:”اماں !میں چلتی ہوں تمھارایہ نکما نواسہ توہمیں دم لینے نہیں دیتا ۔”

ماسی زینب کے متعلق میں نے سن اور دیکھ رکھا تھاکہ وہ اپنے ہم عمروں سے مختلف اور منفرد تھی ۔اپنی ماں کی اکلوتی بیٹی ۔باپ کمسنی میں چل بساتھا،ماں نے دوسری شادی کی لیکن سوتیلے باپ کو اس لڑکی میں دلچسپی نہیں تھی پھروہ خود بھی اولاد کی نعمت سے محروم رہا،اس لیے بلو( * ب پر زبر اور لام پر شد اورپیش ہے۔بَلّ ۔لُو* بی /دادی نانی جتنی عمررسیدہ عورت) بامِیگ کو طلا ق دے دیا اور اپنے گاؤں لوٹ گیا۔

ماسی زینب کی ماں نے ٹافی چنا بیج کراپنی بیٹی کی پرورش کی۔اُن کی جوانی نے بہت سو ں پربجلی گرائی لیکن پتا نہیں کیاوجہ تھی کہ انہوں نے چھڑے جوانوں کو چھوڑ کر دوبچوں کے باپ غلام سے اپنی زندگی وابستہ کی ۔اس کی بیوی کی فریاد کے باوجود انہوں نے شادی کی ۔بلو بامِیگ کو خدانے اکلوتی بیٹی دی تھی لیکن ماسی کو بڑی مدت تک مردہ بچہ بھی نہیں ہواکہ غلام امید کے سہارے ان سے بندھارہتا۔

شادی کے سالوں بعد بھی وہ بانجھ رہی تو غلام کی وہ پہلی سی محبت نہ رہی اور اس نے ماسی کے پاس آنا کم کردیااور آئستہ آئستہ اپنے رشتے کی مضبوط بندھن کمزور دھاگے کی طرح کاٹ دی۔غلام سے رشتہ جوڑنے کے بعد ماسی کا دل شادی سے ٹوٹ گیااور ساری عمر بن بیاہی بیٹھی رہی ۔

جوانی کی بدمست خواہشات کو مارنا اپنی جگہ لیکن وقت اور حالات کے تھپیڑوں کے سامنے بہت کم لوگ ثابت قدم رہ پاتے ہیں ۔وہ بھی اس سیلاب کے سامنے نہ ٹہرسکی انہوں نے ایسی عورتوں سے دوستیاں شروع کیں کہ محّلے میں کھاناپھوسی ہونے لگی ۔

بلو بامیگ نے ڈانٹ ڈپٹ مار پٹائی سے اُن کی خواہشات روکنے کی کوشش کی لیکن وہ آزاددنیاکے اُن رستوں پر گامزن تھی جہاں سے واپسی مشکل تھااس لیے بلوبامیگ کے لیے صبر کے سواء کوئی چارہ نہ رہا ۔وہ اپنی بیٹی کی کرتوتوں سے صرف من ہی من کڑھتی رہی۔

ماسی زینب اپنی نئی دنیامیں اتنی بدنام ہوئی کہ لوگوں نے ان کااصلی نام بدل کرانہیں ”ٹیڈی ماسی ”کا غیر شائستہ نام دیا۔شروع میں وہ برامنائی ۔لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ان کے ذہن نے یہ نام نہ صرف قبول کیابلکہ اپنے لیے اسے شان اوراعزاز جانا۔

ٹیڈی ماسی کاکردارجیسابھی تھالیکن مزاج اور طبیعت انسان دوست اور ہرکسی کے غم واندوہ میں شریک تھی اس لیے ہرکسی کے مدد کو تیاررہتی ،ایک طرف وہ لوگوں کے لیے الھڑتھی دوسری طرف وہ ان کے اخلاق سے متاثر تھے ۔خاندانی لوگوں کو ان کی حاجت نہیں تھی لیکن وہ اُن کے کام آنے کے لیے ہروقت مستعد رہتی۔

بلو بامیگ اپنی آنکھوں کے آپریشن کے بعد کام کاج سے رہی تو ماسی زینب کے لیے ا س کے سواء کوئی راستہ نہ تھا کہ وہ اپنی آزاد دنیا کو چھوڑ کر اپنی ماں کی غم میں شریک ہو ۔پھر وہ عمرکے بھی اس حصّے میں تھی کہ آزاد دنیامیں اب ان کی زیادہ ضرورت نہیں رہی ۔انہوں نے اپنے لیے روزگار تلاش کی ۔اپنی طبیعت کے حساب سے انہوں نے اپنے لیے انوکھے معاش کابندوبست کیایعنی وہ شادی بیاہوں میں ناچتی تھی ۔مدت تک وہ اسی کام میں لگی رہی لیکن بعد میں اپنے راتوں کی بے خوابی اور ماں کی پریشانیوں کو محسوس کرتے ہوئے یہ کام چھوڑ دی ۔

لیکن انہیں زندگی کے دن پورے کرنے کے لیے کام تو کرنی تھی ۔کافی دوڑ دھوپ کے بعد انہیں اپنی ہمسایہ جمک کی سفارش پر جھینگا صاف کرنے کی فیکٹری میں نوکری ملی ۔ان کے لیے یہ مشکل کام تھالیکن وہ اپنی بوڑھی ماں کی دوائیوں اوراپنا پیٹ پالنے کے لیے سردٹھٹرتے دنوں میں برف کے اندرکام کرنے پر مجبورتھی ۔

ان کی زندگی اپنی ماں کی خدمت میں بیت رہی تھی۔لیکن اکثرانہیں تنہائی کااحساس بے پناہ اذیت دیتی ۔وہ اس اکیلے پن کااعلاج سوچ رہی تھی ۔وہ ایسی مزدوری کررہی تھی کہ ان کی جوان سہلیاں ا ن کے نزدیک آنے سے کتراتی تھیں یہ بات ان کے لئے اور زیادہ تکلیف دہ تھی ۔یہ وہی زمانہ تھا جب بظاہر سیاسی جماعتیں جمہوریت کی بحالی کے لیے تحریک چلارہی تھیں ۔معلوم نہیں کونسی وجوہات تھیں کہ ان کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ وہ اپنی تنہائی کو سیاسی سر گرمیوں سے دور کرسکتی ہے ۔

آخر ایک دن لوگوں نے دیکھاکہ وہ سیاسی جلسہ جلوسوں میں نعرہ لگانے والوں کی پہلی قطار میں کھڑی تھی ۔انہوں نے پارٹی کے ہر جلسہ میں شامل ہونااپناانسانی فریضہ جانا۔ ایسے سیاسی کاموں بھی حصّہ لیاجن میں شامل ہوتے ہوئے دوسر ے ڈرتے تھے ۔

ایک دن خبر پھیلی کہ پولیس کی آنسو گیس لگنے سے ان کی ایک آنکھ زخمی ہوئی ہے ۔میں بھاگتے ہوئے ان کے گھر پہنچامجھے ان کی پارٹی کی سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں تھی لیکن نہ معلوم وہ کونسی چیز تھی کہ میں ان کے درد وغم میں خود کو ان سے دور نہیں رکھ سکتاتھا۔

میں خاموشی سے ان کی چارپائی کے پائنتے کے پاس بیٹھ گیا۔ان کی زخمی آنکھ پر پٹّی بندھی تھی۔اپنی ایک آنکھ سے میری طرف دیکھاجو کہ بے خوابی کے سبب سرخ تھی اور دھیمے لہجے میں کہنے لگی :”ہاں بچا ریاض! !مجھ پر طنز کرنے آئے ہوکیا ؟”

میں چپ چاپ رہاکیوں کہ یہ وقت ان کی زخموں پر مرہم رکھنے کاتھا۔میں ناراض ہونے کی بجائے بولا:”ماسی !تمہیں مجھ سے کوئی کام ہوتو تکلف نہ کرنا…….”

میں نہیں جانتا کہ میری بات سے وہ کیا سمجھی،تلخ مسکراہٹ اس کی ہونٹوں پر پھیل گئی پھر نرمی سے کہنے لگی :”مجھے تیری حاجت نہیں میرے ل میری پارٹی کی سہلیوں کی مدد کافی ہے ۔”

میں جانتاتھا ا ن کی ان باتوں میں کوئی سچائی نہیں۔یہ ا ن کی خوش فہمی تھی یاپھر اپنے سیاسی قامت کو بڑھاکر پیش کررہی تھی کیوں کہ وہ پہلے بھی بہت سے مظاہروں میں زخمی ہوچکی تھی لیکن ان کے زخموں پر مرہم رکھنے والی ان کی بوڑھی ماں کے سواء کوئی نہ تھی۔

ان کی تلخ باتوں کے باوجود مجھے ان سے لگاؤ تھا۔ان کی سیاست کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے اس اخلاص کے سبب جوانہیں سیاست سے تھا۔مجھے افسوس اس بات پر ہے کہ لاکھ جتن کے باجود میں اُنہیں یہ نہیں سمجھاپایا کہ پارٹی کے بڑے ان کے جذبات سے کھیل رہے ہیں ۔ماسی کی آنکھ ٹھیک ہوئی تو وہ نہ صرف جھینگا کی فیکٹری جانے لگی بلکہ خواتین کے کارنر میٹنگوں میں بھی حصّہ لیتی ۔انہیں اپنی زخمی آنکھ کی کوئی پرواہ نہ تھی حالانکہ کام کرتے ہوئے انہوں نے محسوس کیا کہ ان کی اس آنکھ کی بینائی دوسری سے کم ہے۔

پارٹی کے اعلیٰ ترین قائد کی برسی منانے کے لئے کاروان کی تیاری ہورہی تھی ۔ایسی میں وہ کیسے رہ جاتی؟وہ سب سے آگے تھی ۔انہوں نے اعلیٰ قائد کے مزار پر اپنے بے پناہ عقیدت کااظہار کیااور واپسی میں یہ جذبات دوچند تھے ۔

جب وہ گھر پہنچی تولوگ ان کی ماں کا آخری دیدار کررہے تھے ۔ماں ا ن کی خواہشات کامحورجن کے ساتھ اُن کی زندگی معنی رکھتی تھی ۔اس بیماری نے اُن کاتوانا جسم گھلا کرانہیں گھر پر پھینک دیا۔اب اُن کی سیاسی سر گرمیاں بھی محدود تھیں ۔سب حیران تھے ماسی کوکیاہواہے نہ پارٹی کے کارنرمیٹنگوں میں آتی ہے نہ ہی جلسہ جلوسوں میں ۔

ایک دن جمک نے خبردیتے ہوئے کہا:”جنے زینو!(یعنی نہایت ہی بے تکلفی سے ”لڑکی زینو!”)جانتی ہوپرسوں کی مجلس میں بی بی نے خاص تمھارانام لے کر پوچھاہے ۔ایک اور بات تمہیں کہتی ہوں وہ منحوس لیڈر جس کے استقبال کو تم ائرپورٹ سے پیدل لیاری آئی تھی اور خود کو تھکادیاتھا۔وہ حرامی پھر دشمنوں کے صف میں شامل ہوگیاہے ۔پرسوں ایک بڑاجلسہ ہے پھرا ن کے خلاف مظاہرہ ہوگا

تیسرے دن وہ اس انداز سے جلسہ میں شریک ہوئی کہ محلے والوں کی حیرانگی کے علاوہ جلسہ میں وہی نمایاں تھی………ماسی نے پارٹی کی تین رنگوں والی قمیص پہن رکھی تھی ۔ترنگی لاٹھی ہاتھ میں تھی ۔جس طرف گئی لوگوں نے تالیوں سے استقبال کیا۔جلسہ کے بعدجب مظاہرہ ہواتو پولیس کے حملے نے لوگوں کے ہوسان خطاکئے لیکن انہیں روکنے والا کوئی نہ تھا۔وہ پولیس کوخاطر میں نہیں لارہی تھی ۔ایک چست اور موٹے پیٹ والے سپاہی سے اُن کی دلیری برداشت نہیں ہوئی اور ان کو ایسی لاٹھی رسید کی کہ وہیں ڈھیر ہوگئی ۔

جلسہ کے بعد وہ جب گھر واپس آئی توجسم پر ضرب لگنی والی جگہ نیلی ہوچکی تھی انہوں نے زیتون کاتیل اور ہلدی گرم کرکے لگائے اورسیاہ ململ کی پٹّی بناکر زخم پررکھی۔

وہ پھر اسی ڈگر پہ چل پڑی ۔لیکن جیسے جیسے دن گزرتے گئے انہوں نے محسوس کیاکہ درد کم ہونے کی بجائے بڑھ رہاہے لیکن وہ کب اس طرح کے درد خاطر میں لائی ہے ؟وہ پہلے کی طرح جلسہ جلوس میں شامل رہی ۔

ایک دن کام سے لوٹی تو کمر کادردبرداشت سے باہرتھا۔انہوں نے جمک کوبلوایااور دونوں جراح (کمہار )کے پاس گئیں۔بہت دنوں تک مرہم پٹّی ہوتا رہالیکن زخم جیسے ناسور بنتاجارہاتھا۔آخر کار وہ ہسپتال کی چارپائی تک پہنچ گئی جہاں ان کی تیماردار صرف ان کی ہمسایہ جمک تھی ۔ا س وقت میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے شہر سے باہرتھا۔

گھر سے خط آیا جس سے معلوم ہو اکہ ماسی زینب کا زخم کینسر تھاجو آپریشن کرکے جداکردیاگیا۔اطلاع ملتے ہی مجھے اُن کی یاد آنے لگی اور میں بے چینی کے سبب لمحے کے لئے بھی نہیں ٹہر سکااور چھٹی لے کراپنے شہر آگیا۔

جب انہیں دیکھنے ہسپتال گیاتومیں انہیں ہرگزپہچان نہیں پاتا اگر ن کے ساتھ ماسی جمک نہیں بیٹھی ہوتی۔اُن کی بلوری آنکھیں پھیکی پڑچکی تھیں محض دو کڈھے رہ گئے تھے،کمزوری کے باعث اندر دھنسی ہوئی اوراُن میں زندگی کی چمک ماندہوچکی تھی ۔جسم کا گوشت غائب صرف ہڈیوں کی گھٹڑی پڑی تھی۔

میں آئستگی سے اُن کے سر ہانے بیٹھ گیا اور اُن کے ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے ۔ماسی نے میری طرف آنکھیں اٹھائیں میں نے دیکھا آنسوؤں سے بھیگی ہوئی تھیں ۔میرابدن جیسے جھلس گیا۔

اس رات میری آنکھوں سے نیند کوسوں دورتھی ۔میری فکر اور حالت ایسی تھی کہ میں کسی نتیجے پہ نہیں پہنچ سکا۔ساری رات پریشانی میں آنکھوں میں کا ٹ دی کیوں کہ میرے لیے ایک انسان ہزارانسانی برائیوں کے باوجودمحبتوں کاچراغ تھالیکن اب ٹمٹمارہاتھااور اپنی آگ میں آپ جل رہاتھا۔ فجر کے وقت بڑی مشکل سے میر ی آنکھیں لگیں کہ کوئی مجھے پکاررہی تھی ۔آنکھیں کھولیں میری بڑی بہن پرنم آنکھوں سے کہہ رہی تھی :”ماسی اپنے کام نمٹا گئی۔

مترجم : قاضی ریحان داد

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here